0
Saturday 6 Aug 2011 02:28

امریکی حکومت،دیوالیہ

امریکی حکومت،دیوالیہ
 تحریر:محمد علی نقوی
وائٹ ہاوس، حکمراں ڈیموکریٹ اور حزب اختلاف ری پبلکن کے درمیان امریکی داخلی قرضوں کے بحران پر جاری ”جنگ“ بند ہو گئی ہے۔ تینوں اداروں کے درمیان مسالمت سے امریکی حکومت کے قرض لینے کی حد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان اور سینیٹ سے منظوری کے ساتھ ہی بارک اوباما نے قرض لینے کی حد میں اضافے کے قانون پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس قانون کے تحت امریکی حکومت کی قرض لینے کی حد میں 2.44 ٹریلین ڈالر تک کا اضافہ کیا جائے گا اور آنے والے دس برسوں میں اخراجات میں کم از کم 2.1 ٹریلین ڈالر کی کمی کی جائے گی۔ امریکی حکومت کے طاقتور ترین ادارے اگر منگل تک کسی معاہدے پر نہ پہنچتے تو امریکی حکومت ”دیوالیہ“ ہو جاتی۔ امریکی محکمہ خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق حکومتی خزانے میں نقد رقم صرف 73 ارب 70 کروڑ ڈالر رہ گئی تھی۔ اگر 2 اگست تک امریکی حکومت کی قرض لینے کی حد یعنی 14.3 کھرب ڈالر کی حد میں اضافے کی منظوری نہیں دی جاتی تو امریکی حکومت دیوالیہ قرار دے کر نادہندہ ہو سکتی ہے۔ 
امریکی قرضوں کے بحران حل ہونے کے باوجود امریکی اقتصادی بحران ختم نہیں ہوا ہے۔ اس بحران پر روسی وزیراعظم پیوٹن نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ عالمی معیشت میں امریکہ کا کردار ایک ”جونک“ کا سا ہے۔ امریکی ڈالر کی بالادستی نے عالمی مالیاتی نظام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امریکی پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق امریکی حکومت 5 ٹریلین ڈالر سے زائد رقم عراق، افغانستان، پاکستان اور لیبیا کی جنگوں پر خرچ کر چکی ہے۔ یہ جنگ صیہونی ساہوکاروں کی دنیا کے وسائل پر قبضے اور انسانوں کو غلام بنانے کی جنگ ہے۔ اس طبقے نے پہلی بار امریکی حکومت کو کنگال نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل بھی مالیاتی خسارے کی وجہ سے امریکی حکومت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی، اور ایسا ہی ایک بحران جزوی طور پر 1979ء میں بھی آچکا ہے۔ اس صیہونی لابی نے پوری دنیا کو قرض کے ذریعے سودی جال میں جکڑ رکھا ہے۔ اس جال سے امریکہ بھی آزاد نہیں ہے۔
 امریکہ وہ ملک ہے جس نے آزاد منڈی کی تجارت کو فروغ دیا، جسے آج مارکیٹ اکانومی یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معیشت بھی کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ عہد کی واحد "سپرپاور" کی معیشت فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی سالانہ مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی امریکی حکومت کے مطابق سالانہ 14 کھرب ڈالر سے زائد ہے، لیکن اس عالمی طاقت کا معاشی جہاز تیزی سے ڈوبتا چلا جا رہا ہے اور امریکی معیشت موجودہ دہائی کے بدترین مندے میں مبتلا ہے، صرف 2008ء میں ہی 484ء ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا ہوا،جس کی وجوہات میں افراط زر، ہاوسنگ قرضوں کی مارکیٹ میں شدید بحران، تیل کی بلند قیمتیں اور سرمایہ کاروں کا متزلزل اعتماد ہے۔ بیشتر ماہرین کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے مزید کساد بازاری میں چلے جانے کا خدشہ موجود ہے۔ اسی طرح تیل یا ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار خود امریکہ کی طرف سے عراق و افغانستان پر حملہ ہے، 2002ء اور 2008ء میں پہلی بار امریکہ میں افراط زر یا مہنگائی کی شرح 5 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے، جس کے باعث امریکی شہریوں کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔ اس پر سارا امریکہ چیخ رہا ہے، اس میں امیر اور غریب دونوں شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق افغانستان پر امریکی حملے کے بعد 2002ء سے 2006ء تک 99 فیصد امریکیوں کی سالانہ آمدنی میں ایک فیصد اضافہ ہوا جبکہ سارا فائدہ ملک کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد حصے خاص طور پر اسلحہ ساز اداروں اور دفاعی امور سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کو ہوا ہے، جن کی سالانہ آمدن میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح 2002ء کے بعد سے امریکہ میں بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو جولائی سے فروری 2009ء میں 8.1 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ امریکی ادارے برائے محنت کے مطابق محض فروری میں 60 ہزار سے زائد امریکیوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔
عراق اور افغانستان میں جاری کارروائیوں اور وہاں تعینات امریکی افواج کے علاوہ صحت اور فلاح کے کاموں پر ہونے والے روزانہ کی بنیادوں پر اربوں ڈالر کے ماہانہ اخراجات نے امریکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ مجموعی طور پر ان جنگوں میں 30 کھرب ڈالر کے اخراجات کئے جا چکے ہیں۔ دیگر اخراجات کا تو کوئی حساب نہیں ہے۔  ان اخراجات کے باعث امریکی حکومت کے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور "عظیم امریکہ" اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے جہاں امریکی وزارت خزانہ کے مطابق جنگی اور دیگر اخراجات پورا کرنے کیلئے روزانہ دو ارب ڈالر مختلف عالمی اداروں سے بطور قرض حاصل کئے جا رہے ہیں۔ محض 2008ء کے دوران ہی 10 کھرب ڈالر سے زائد کے قرضے لئے گئے تھے۔ 
اس کے علاوہ جو چیز امریکی معیشت کو تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے وہ بدعنوانی اور اقربا پروری ہے۔ دسمبر 2008ء میں امریکی جریدے ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ جارج بش انتظامیہ نے صرف 2008ء کے دوران عراق کی تعمیر نو کیلئے مختص کئے گئے 170 ارب ڈالر سے بدعنوانی، اقرباء پروری، نااہلی اور کھلے عام چوری کے ذریعے امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی کو خرچ کیا ہے۔ عراق 2003-04 پر حملے کے وقت تیل بیس سے تیس ڈالر فی بیرل کے قریب تھا جس کی قیمتوں میں جب سے جو اضافہ ہوا وہ پھر کم نہیں ہو سکا۔ اندرونی طور پر امریکی معیشت کو چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سے بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے، جو آہستہ آہستہ امریکی برآمدی منڈیوں پر قبضہ کرتا چلا جا رہا ہے جبکہ امریکہ کی معیشت کا انحصار چین کی سرمایہ کاری پر ہے۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اشتراکی نظام کو چھوڑ کر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اس نظام کے خالق کی معیشت کو خود اپنی تخلیق کی وجہ سے زوال کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت امریکی معیشت دباو کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں طبقاتی تقسیم کا فرق واضح نظر آنے لگا ہے۔ بیروزگاری میں اضافے کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس وقت ہر پچاس میں سے ایک امریکی بچہ بے گھر ہے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس کی یہ رپورٹ امریکہ کے قومی مرکز برائے بے گھر افراد کے اعداد و شمار پر مرتب کی گئی ہے، جس میں 2005-06کے دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پندرہ لاکھ بچے بے گھر ہیں، اور اب اس مسئلے میں بیروزگاری میں اضافے اور معاشی بحران میں شدت کی وجہ سے مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اب یہ تو واضح ہے کہ جب بڑی تعداد میں بچے بے گھر ہوں گے تو مستقبل میں جرائم کی شرح میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے؟ یہ وہ معاشی منظرنامہ ہے، جس کے باعث یہ امر یقینی ہے کہ جلد ہی امریکی عوام اپنے مستقبل کے تحفظ کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ عوامی حقوق کی یہ جنگ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر کے امریکہ کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتی ہے۔ امریکی حکمران بھی اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں۔ غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2008ء کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے بیس ہزار فوجیوں پر مشتمل ایسا دستہ بنایا گیا ہے، جنھیں شہریوں کی جانب سے ممکنہ خانہ جنگی سے نمٹنے کیلئے آئندہ تین سال تک تربیت دی جائے گی۔ امریکی فوجی طاقت انسانیت کش نظامِ زر کو عالمی سطح پر مسلط رکھنے کے لیے کرائے کی فوج ہے۔ دراصل فوجی قوت کے ساتھ ساتھ اقتصادی و معاشی حالت بھی قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتی ہے۔ اگر امریکہ تقسیم ہو کر مختلف ریاستوں میں بٹ جاتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری بدترین معاشی بحران ہی ثابت ہو گا، جس سے بچنے کیلئے عوام دیگر ممالک کی نوآبادیاں بننا بڑے شوق سے پسند کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 89591
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش