1
0
Sunday 7 Aug 2011 02:28

سرمایہ داری کا ڈوبتا سفینہ

سرمایہ داری کا ڈوبتا سفینہ
تحریر:ثاقب اکبر
سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے تو سرمایہ داری کے سرداروں نے بغلیں بجانا شروع کیں اور اسے اپنی بہت بڑی فتح قرار دیا۔ سوویت یونین کا زوال دراصل اشتراکیت کا زوال تھا، جسے سرمایہ داری نظام کا اپنی فتح سمجھنا قرین قیاس تھا۔ یہاں تک کہ امریکہ کی قیادت میں سرمایہ داری کے علمبرداروں نے کہنا شروع کیا کہ اب ہمارے مقابلے میں کوئی اور طاقت نہیں آئے گی بلکہ تاریخ کے خاتمے کا نظریہ پیش کیا گیا ”The End of History“ کے مصنف کا خیال تھا کہ تاریخ معرکہ آرائی کے سہارے آگے بڑھتی ہے، لیکن مغربی سرمایہ داری نظام کے مقابلے میں اب چونکہ کوئی طاقت باقی نہیں رہی، لہٰذا تاریخ کا سفر ختم ہو چکا ہے۔ اب ہمیشہ کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بادشاہت ہے۔ اسی زعم میں امریکہ نے کہنا شروع کیا۔ ”انا ولا غیری“۔ باقی انسانیت سے مخاطب ہوکر وہ گویا کہہ رہا تھا ”انا ربکم الاعلیٰ“ نیوورلڈ آر ڈر اس کے اسی زعم کا ترجمان تھا۔ ”آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن“ جیسی دھمکیاں اسی بلا شرکت غیرے عالمی اقتدار کے خناس کی آواز تھی۔ ہر طرف گونج تھی کہ کوئی ہمارے سامنے سر نہ اٹھائے، کوئی آواز بلند نہ کرے، لیکن سوویت یونین کے زوال کو زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ مغربی سرمایہ داری اور خاص طور پر امریکی نظام کے زوال کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ اپنی ربوبیت کے زعم میں مبتلا فرعون جدید بھول گیا کہ جس نے فرعونِ مصر کو غرقاب کر دیا تھا اس نے خشکی کے مقابلے میں تین گنا سمندر پیدا کر رکھے ہیں۔
گذشتہ صدی کی اسّی کی دہائی میں ہی امریکہ میں معاشی خسارے کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں، جس کی وجہ سے ڈالر کی حیثیت بہت گر گئی۔ امریکہ مقروض ہونا شروع ہوا۔ 1990ء میں اس کا ریاستی قرض 4.3 کھرب ڈالر تھا جو 2007ء میں 8.9 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا۔ یہ قرض امریکی GNP کے 64% کے برابر ہے۔ امریکہ کا ہی یہ حال نہ تھا اہم ترین یورپی ممالک بھی معاشی بحران کا شکار ہونا شروع ہو گئے۔ یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے دیگر یورپی ممالک اس کی مدد کو پہنچے، برطانوی معیشت کو تباہ حالی سے نکالنے کے لیے وزیراعظم گورڈن براﺅن کو خصوصی بیل آﺅٹ پیکج منظور کروانا پڑا۔ صدر باراک اوباما کو بھی 2009ء میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا بیل آﺅٹ پیکج منظور کروا کر ڈوبتے مالیاتی اداروں کو سہارا دینا پڑا۔ 
یہ سب مقروض معیشتوں کو قرض کے ذریعے سے بچانے کی کوششیں تھیں۔ یہ اس حالت میں ہو رہا تھا جب امریکہ دنیا میں ریکارڈ اسلحہ بیچ رہا تھا۔ اسلحہ کی فروخت میں اس نے اپنے ہی ریکارڈ توڑ دیئے۔ اسلحہ بنانے والوں اور تیل کے عالمی بیوپاریوں کی امریکہ میں حکومت کی وجہ سے دنیا میں خوف و وحشت کا پیدا کیا جانا ضروری سمجھا گیا، تاکہ ان کا کاروبار زیادہ سے زیادہ ترقی کرے۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا میں جتنی آگ اور خون کی بارش زیادہ ہو گی ان کا کاروبار اتنا ہی ترقی کرے گا، ایسا ہی ہوا۔ عین جس وقت یہ سرمایہ دار بے پناہ دولت کما رہے تھے امریکہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں اتر رہا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دولت کہاں جا رہی تھی جو امریکہ کی ریاستی قوت کے بل بوتے پر جمع کی جا رہی تھی۔ سرمایہ داری نظام کو سمجھنے والے یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سرمایہ دار بہت بے رحم ہوتا ہے۔ اگر کوئی رکاوٹ اسے درپیش نہ ہو تو اس کی ایمپائر بڑھتی رہتی ہے اور بندہ مزدور کے اوقات تلخ سے تلخ تر ہوتے رہتے ہیں۔ مغربی سرمایہ دار کو اشتراکی تصورات کے خوف نے عام لوگوں اور کارکنوں کو جو سہولیات دینے کے لیے آمادہ کیا تھا اب اسے وہ درپیش نہیں تھا، لہٰذا وہ غریب اور پسماندہ عوام کے انقلاب کے خوف سے آزاد ہو چکا تھا، جس کے اثرات آج تیزی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
جولائی کے آخر میں امریکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا اور اسے اس خطرے کو ٹالنے کے نئے قرضوں کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے امریکی صدر کو کانگریس میں ریپبلکن اراکین کی حمایت کی ضرورت تھی۔ 25 جولائی کو انھوں نے قوم کے نام اپنی براہ راست نشری تقریر میں کہا کہ اگر ملکی قرضے کی حد سے متعلق تعطل برقرار رہا تو اس پر ادا کیے جانے والے سود میں بھی اضافہ ہو گا، جس سے ملازمتوں اور ملکی معیشت کو سخت نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ جس وقت وہ یہ خطاب کر رہے تھے اس وقت امریکی قرضے ایک سو تینتالیس کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔
 آخر کار امریکہ میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن راہنما حکومت کی قرض لینے کی حد میں اضافے کے معاہدے پر متفق ہو گئے۔ اگر دو اگست تک امریکی حکومت کی قرض لینے کی 14.3 ٹریلین ڈالر کی حد میں اضافے کی منظوری نہ دی جاتی تو امریکی وزارت خزانہ کے پاس ادائیگیوں کے لیے رقم ختم ہو جاتی۔ معاہدے کے بعد امریکی صدر نے کہا کہ”میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں ایوانوں میں دونوں جماعتوں کے رہنما ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں جو خسارے کو کم کرے گا اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچائے گا۔ اگر ملک دیوالیہ ہو جاتا تو اس کا ہمارے ملک کی معیشت پر بہت برا اثر پڑتا۔“ نئے قانون کے مطابق امریکی حکومت کی قرض لینے کی حد میں 24 کھرب ڈالر تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ لگتا ہے سرمایہ داری نظام نے قرض پر قرض لے کر جینے کا یہ فارمولا غالب سے سیکھا ہے جو کہہ گئے ہیں:
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس قرض کے اتارنے کا واحد راستہ عوام کو دی گئی سہولیات میں کمی پر منتج ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں بے روزگاری الاﺅنس کم ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں صحت کی سہولیات میں کٹوتی کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ ڈویلپمنٹ کے اخراجات میں کمی کر دی جائے گی۔ سوشل سیکورٹی پروگراموں اور پنشنوں میں کمی واقع ہو گی۔ عوام پر لگائی جانے والے ٹیکسوں میں اضافہ ہو گا۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی امریکہ کی بھاری فوجی مشینری کے اخراجات میں کمی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ امریکہ امداد کے نام پر دوسرے ملکوں کو جو کچھ دے رہا ہے وہ آئندہ اس پیمانے پر جاری نہیں رکھا جا سکے گا۔ عالمی امریکی سلطنت کا اقتدار دن بدن ڈھیلا اور کمزور پڑتا چلا جائے گا۔
امریکی فیڈریشن کے کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں پہلے ہی زور پکڑ رہی ہیں۔ رائے شماری کے جائزوں کے مطابق 1990ء کے عشرے میں صرف 5% امریکی علیحدگی کے حامی تھے، لیکن اب ان کا تناسب بڑھ کر 22% تک پہنچ چکا ہے۔ ایک امریکی مصنف جیرڈ ڈائمنڈ نے اپنی کتاب The Collapse میں امریکہ میں علیحدگی پسند رجحانات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ میں سیاسی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے اور امریکہ آئندہ پانچ سے دس سالوں میں سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا۔
ہمارے خیال میں ابھی سرمایہ داری نظام کے شاطر کھلاڑیوں کے طاغوتی ذہن میں کئی چالیں محفوظ ہیں جن کی مدد سے وہ کچھ عرصہ اور اس نظام کی زندگی کو طول دے سکتے ہیں لیکن پھر بھی اس ٹائی ٹینک (Titanic) کو غرقابی کے خوفناک مستقبل کا سامنا ہے، جس کا اثر باقی دنیا پر اس سے کہیں زیادہ ہو گا جتنا سوویت یونین کے بکھرنے سے ہوا۔ اللہ کرے ظلمت شب کے طویل سفر کے بعد ایک روشن صبح مشرق اور مغرب کے مستضعفین کے انتظار میں ہو۔ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ انسانیت کا مستقبل تابناک ہے۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 89746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
buht acha likha hai sakib sb nay
ہماری پیشکش