0
Wednesday 17 Aug 2011 23:55

کیا ہماری سیاست اور جمہوریت یہی ہے؟

کیا ہماری سیاست اور جمہوریت یہی ہے؟
تحریر: جاوید قاضی
کراچی کے حالات، ٹارگٹ کلنگ، سیاسی پارٹیوں کی آپس کی کشمکش، اسلحے کی بھرپور نمائش، طاقت کا بھرپور استعمال، ڈرگ مافیا، بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان، کراچی جسے روشنیوں کا شہر کیا جاتا ہے اور پاکستانی معیشت کا دل وہ شہر جو پورے ملک سے آنے والے ہر شہری کو بانہیں پھیلا کر خوش آمدید کہتا ہے۔ یہاں کے حالات پچھلے ساڑھے تین سال سے بد سے بدتر ہوگئے ہیں کیا یہ عوام کا قصور ہے؟ کیا جمہوریت کا قصور ہے؟ جس کے لیے وکلاء برادری سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی تھی یا پھر ان حکمرانوں کا قصور ہے کیونکہ جب کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے تو ان زبان سے صرف جمہوریت کا ورد ہی سننے کو ملتا ہے اور پھر یہ اسی عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح آگے لگا کر اپنے مقصد کی جمہوریت یعنی لوٹ کھسوٹ کی جمہوریت کو پا لیتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے، سیاسی پارٹیاں اور پارٹیوں کے نامور اور مقبول کارکن اچھی وزارتوں بلکہ کھاتی پیتی وزارتوں کے پیچھے بھاگ دوڑ شروع کردیتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ جو پارٹیاں ہوتی ہیں ان میں سے کچھ کو تو صحیح وزارتیں نہ ملنے پر علیحدگی اور کچھ وزارتیں کھونے پر حکومت سے علیحدگی، ان تمام سیاسی پارٹیوں کو جو حکومت میں بیٹھی ہوتی ہے اپنے اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی مفادات جن میں گڈگورننس، دہشت گردی، کراچی کے حالات، ڈرون حملے، عوام کی ضروریات زندگی، بجلی، گیس، پیٹرول، چینی، دالیں، آٹا ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
میں اصل بات کرنا چاہتا ہوں کراچی کے حالات پر کیونکہ کراچی میں دو بڑی پارٹیاں حکومت میں موجود ہیں اب ایم کیو ایم نے تین بار حکومت سے علیحدگی اختیار کی، دو بار گورنر کے بغیر اور ایک بار گورنر سمیت، اور ہو سکتا ہے جب یہ آرٹیکل پڑھ رہے ہوں ایم کیو ایم واپس حکومت میں آچکی ہو، ایم کیو ایم کے کچھ رہنماؤں سے کراچی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اور یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ حالات بہتر کریں گو کہ چھوٹی پارٹیاں جیسے کہ اے این پی کا کردار ہے تو ایم کیو ایم کی طرف سے صرف ایک ہی جواب آتا ہے کہ وزارت داخلہ ہمارے پاس نہیں ہے اور یہ ذمہ داری حکومت کے وزراء پر آتی ہے، لیکن جب ایم کیو ایم اپنے مینڈیٹ کی بات کرتی ہے تو یہ کہنے میں بالکل جھجکتی نہیں ہے کہ ہماری پارٹی کا پچاسی فیصد کراچی میں مینڈیٹ ہے، پھر جب گورنر نے اپنا استعفیٰ دیا تو حالات مزید خراب ہوئے، ایم کیو ایم نے کہا کہ ہم کسی صورت حکومت میں نہیں رہ سکتے لیکن اس کے بعد یہ الفاظ پیپلز پارٹی کی طرف سے گونجنے لگے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ایم کیو ایم کو واپس لایا جائے اور گورنر کو واپس لایا جائے اور گورنر کی واپسی ہوئی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی طرف سے بیانات آنا شروع ہوگئے کہ اب گورنر واپس آرہے ہیں اب حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔
حالات ویسے کے ویسے ہی رہے پھر پی پی پی نے کمشنری نظام نافذ کردیا جس کے حق میں ایم کیو ایم نہیں تھی اور کافی عرصے سے بلدیاتی نظام کے حق میں تھی اور پی پی پی نے مزید حالات خراب دیکھتے ہوئے انہی الفاظ کا سہارا لے کر (ملک کے وسیع ترمفاد میں) یو ٹرن لے لیا اور جہاں ایم کیو ایم کا مینڈیٹ زیادہ تھا اور ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے سامنے رکھتے ہوئے بلدیاتی نظام کی واپسی کا اعلان کردیا جب پی پی پی سے یو ٹرن کے بارے پوچھا گیا تو جواباً کہا گیا کہ سیاست میں کوئی بھی فیصلہ حرف آخر نہیں ہوتا۔ اگر یہ ہی سیاست ہے تو میاں نواز شریف صاحب کو صدر آصف علی زرداری پر غصہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن بارہا یہ کہنے کے باوجود کہ ایم کیو ایم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہوسکتا میاں صاحب کی سیاست میں بھی کوئی فیصلہ حرف آخر نہیں ہوتا ہے کیونکہ موقع دیکھتے ہی ایم کیو ایم سے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں، کراچی کے حالات و واقعات کی نشاندہی اگر کی جائے تو اس کی ذمہ داری کراچی کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے اور ان دونوں میں ہی طاقت کی سیاست کا رجحان پایا جاتاہے، اگر سیاسی پارٹیاں ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر کام کریں تو وزارتیں لیے بغیر ملکی مفاد کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔
اب عوام کو سوچنا پڑے گا کہ آنے والے الیکشن میں اپنا ووٹ کیسے استعمال کرنا ہے پارٹیوں کے ڈر سے ووٹ دینا ہے یا اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینا ہے یا پھر ان سیاست دانوں کو ووٹ دینا ہے جو صرف ووٹ لینے آتے ہیں لیکن ووٹرز کی خواہشات کے مطابق سیاست نہیں کرتے۔ یہاں میں جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمان کی بات کرتا چلوں پچھلے دنوں جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈروں حملوں پر حکومت سے علیحدگی نہیں اختیار کی جاتی لیکن وزارتوں کے معاملات پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی جاتی ہے تو محترم نے جواباً کہا کہ خالصتاً صحافیانہ ذہنیت کا سوال ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور ہم نے آپ سے یعنی میڈیا سے رہنمائی لے کر سیاست نہیں کرنی تو مولانا صاحب اگر ڈرون حملے ریمنڈ ڈیوس اور ایبٹ آباد جیسے واقعات کا تعلق ملکی سیاست سے نہیں تو کس سے ہے؟
جمہوریت جمہوریت کا ورد ہر لیڈر کرتا ہے لیکن ہمارے لیڈروں کو موروثی سیاست کو ختم کرنا ہوگا، برطانیہ کی جمہوریت کی مثال دینے والے تمام لیڈر برطانیہ کے پرائم منسٹر ڈیوڈ کیمرون اور ڈپٹی پرائم منسٹر نک کلیگ سے سبق سیکھیں جنہوں نے چھٹیاں کم کرکے برطانیہ میں ہونے والی حالیہ بدنظمی کے واپس پہنچ کر حالات پر قابو پایا، عدالتوں نے دن اور رات بھی کام کیا پولیس کی حراست میں لٹے ہوئے 1600 سے زائد افراد کے مقدمات سنے اور 600 سے زائد کو مزید جرم عائد کرکے سزائیں سنائیں نہ کہ ہمارے لیڈروں کی طرح بجائے ملک میں واپس آنے کے ملک سے باہر کی راہ لیتے ہیں۔
یہ ہوتی ہے سیاست اور جمہوریت۔۔۔
خبر کا کوڈ : 92574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش