0
Saturday 20 Aug 2011 00:28

فلسطین کے بارے میں رھبر انقلاب اسلامی کے ارشادات سے اقتباس

فلسطین کے بارے میں رھبر انقلاب اسلامی کے ارشادات سے اقتباس
 تحریر:محمد علی نقوی
آپ فرماتے ہیں فلسطین کے سلسلے میں تمام حکومتوں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ خواہ وہ مسلمان حکومتیں ہوں یا غیر مسلم حکومتیں۔ جو حکومت بھی انسانیت کی پاسبانی کی دعویدار ہے اس پر ذمہ داری ہے۔ تاہم مسلمانوں کی ذمہ داریاں ‎زیادہ سنگین ہیں۔ اسلامی حکومتوں کا فریضہ ہے اور انہیں اپنا یہ فریضہ پورا کرنا چاہئے۔ جو حکومت بھی فلسطین کے سلسلے میں اپنے فریضے پر عمل نہیں کرے گی نقصان اٹھائے گی کیونکہ قومیں بیدار ہو چکی ہیں اور حکومتوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر رہی ہیں۔ حکومتیں اس سلسلے میں مطالبات کو تسلیم کرنے اور کام کرنے پر مجبور ہیں۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کہتے ہیں بہت سی عرب حکومتوں نے غزہ کے مسئلے میں اور اس سے قبل دیگر مسائل میں انتہائی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب بھی مسئلہ فلسطین کی بات ہوئی انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ عربوں کا مسئلہ ہے! لیکن جب عمل کرنے کا موقع آیا تو مسئلہ فلسطین ان کے ایجنڈے سے یکسر غائب ہی ہو گیا۔ انہوں نے فلسطین اور فلسطینیوں کی مدد کرنے کے بجائے، اپنے عرب بھائیوں کا ہاتھ تھامنے کے بجائے کنارہ کشی کر لی۔ اگر اسلام پر ان کا عقیدہ نہیں ہے تو عرب قومیت کا ہی کچھ پاس و لحاظ کرتیں! انہوں نے بڑی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاریخ میں ان کا یہ عمل یاد رکھا جائے گا۔ سزا و جزا صرف آخرت سے مختص نہیں ہے۔ اسی دنیا میں بھی سزا و جزا ملتی ہے۔ اسی طرح نصرت الہی بھی صرف آخرت سے مختص نہیں ہے۔
حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں ہم بتیس سال سے فلسطینی عوام کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان بتیس برسوں میں کس قوم اور کس حکومت نے اس انداز سے فلسطینی عوام کی مدد و حمایت کی ہے؟ کیا فلسطینی عوام شیعہ ہیں؟ غزہ کے مسئلے میں ہمارے عوام نے کتنی محنت کی؟ ہمارے نوجوان ایئر پورٹ تک پہنچ گئے کہ غزہ جائیں! نکل پڑے تھے کہ غزہ جائیں اور اسرائیل کے خلاف جنگ کریں! انہیں لگ رہا تھا کہ راستہ کھلا ہوا ہے۔ لیکن راستہ بند تھا۔ جانا ممکن نہیں تھا۔ ہم نے انہیں روکا اور کہا کہ نہ جائیے! کہ کہیں بیچ راستے میں انہیں سرگرداں نہ ہونا پڑے کیونکہ ان کے لئے راستہ بند تھا۔ ہمارے عوام نے غزہ کے سلسلے میں، فلسطین کے سلسلے میں، مصر کے حوالے سے، تیونس کی نسبت اور ہر مسئلے میں اپنے جذبات کا برملا اظہار کیا۔ ان ممالک کے لوگ شیعہ تو نہیں ہیں۔ لہذا یہ مسئلہ شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم غزہ، فلسطین، تیونس، لیبیا، مصر، بحرین اور یمن کے مسئائل میں کسی امتیاز اور تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ جہاں بھی قوموں پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ اسلامی نعرے کے ساتھ آزادی کے حصول کی سمت میں شروع ہونے والی ہر تحریک کے ہم حامی ہیں۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ایک اور مقام پر کہتے ہیں آج فلسطینی قوم اور غزہ میں محصور کر دیئے جانے والوں کی امداد، افغانستان، پاکستان، عراق، اور کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی، امریکہ اور صیہونی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف مجاہدت اور استقامت، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کی پاسبانی اور اس اتحاد کو چوٹ پہنچانے والی بکی ہوئي زبانوں اور کثیف و آلودہ ہاتھوں سے پیکار اور تمام اسلامی حلقوں میں مسلمان نوجوانوں کے درمیان احساس ذمہ داری اور دینداری و بیداری کی ترویج و فروغ، بہت بڑے فرائض ہیں جو قوم کے ذمہ دار افراد کے دوش پر ہیں۔
آپ فرماتے ہیں فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے۔ غزہ میں جرائم اب بھی جاری ہیں۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جرائم جوں کے توں اب بھی جاری ہیں۔ صیہونی حکومت نہایت ہی بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطین کے مظلوم عوام پر اپنے ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں واشنگٹن میں امن کے اجلاس ہو رہے ہیں۔ امن کس کے ساتھ؟ چاہتے ہیں فلسطین کے مسائل پر، ملت فلسطین کے دشمنوں کے جرائم پر پردہ ڈال دیں۔ یہ مذاکرات کہ جس کا نام انہوں نے " امن مذاکرات" قرار دیا ہے ! ایک غاصب نے آکر ایک ملت کے گھر اور کاشانے کو غصب کر لیا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کی، اس ملت کا سر کچلنے کے لئے ہر قسم کے ممکنہ وسائل و امکانات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی بالکل ہی بے فکری اور لاپروائی کے ساتھ۔ مغربی دنیا، امریکہ اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ 
حملہ آور ظالم و جابر سر کچلنے والے کی حوصلہ افزائی اور ترغیب بھی کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امن کے لئے اجلاس بھی منعقد کر رہے ہیں۔ کون سی مصالحت؟ کیسا امن ؟! کس کے اور کس کے درمیان؟ اس طرف بے شرم و بے غیرت ظالم و ستمگر صیہونی بھی نہایت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطینیوں کے مقابلے میں کھڑے کہہ رہے ہیں ٹھہرو! یہودیوں کی آبادکاری کو قبول کرلو ( زبان نہ کھولو) ان کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ قدس شریف کو مسلمانوں کے قبلۂ اول کو، فلسطین عزيز کو یہود علاقہ بنانے کی غرض سے اپنے ظلم و ستم اور سازشوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں، یہ ہمارا ایک اصلی مسئلہ ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ایک اور مقام پر کہتے ہیں، صیہونی حکومت نے اپنی شقی القلبی کی حد کر دی ہے۔ دنیا کے گوشہ و کنار سے جس قدر بھی (فلسطینیوں کی) حمایت کی صدا بلند ہوئی، اس حکومت نے بے توجہی برتی اور بلا وقفہ جرائم انجام دیئے۔ ان حالات میں ایران کی مسلمان قوم نے ہرسال سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ یوم قدس برپا کیا۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف مغرب خصوصا" امریکہ کی موذیانہ کوششوں نے ہماری ملت کے جذبے اور زیادہ جوان کر دیئے، جبکہ عالمی استکبار اور عالمی تسلط پسندوں کے نزدیک فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو وہ کسی بھی قیمت پر طاق نسیاں کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں، ملت ایران نے اس مسئلے کو مرکزي مسئلہ بنا دیا۔
حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں، ہم صیہونی حکومت کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے، ہمارا ماننا ہے کہ یہ حکومت ایک جعلی حکومت ہے، جبری مسلط کردہ حکومت ہے، مشرق وسطٰی کی جغرافیائی حدود کے اندر ایک بدنما دھبہ ہے اور یہ دھبہ بلا شبہ مٹ جانے والا ہے۔ اس کی نابودی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ بہرحال ہم اس کی ماہیت اور اس کے وجود کے مخالف ہیں،
فلسطین ایک تاریخی ملک ہے۔ طول تاریخ میں فلسطین نام کا ایک ملک رہا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی ستمگر طاقتوں کی حمایت سے آئے اور وحشیانہ ترین انداز میں انہوں نے عوام کو اس ملک سے نکال باہر کیا، انہیں قتل کیا، جلا وطن کیا، ان پر شکنجہ کسا، ان کی توہین کی، الغرض اس قوم کو نکال باہر کیا۔ نتیجے میں آج کئی ملین بے گھر فلسطینی مقبوضہ فلسطین کے ہمسایہ ممالک میں اور دیگر ملکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جن کی اکثریت پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہی ہے۔ اس طرح انہوں نے آ کر ایک ملک کو دنیا کے جغرافیا سے ختم کر دیا، ایک قوم کو پوری طرح نابود کر دیا اور اس کی جگہ پر ایک جعلی اور مصنوعی جغرافیائی یونٹ مسلط کر دی اور پھر اس کا نام اسرائیل رکھ دیا۔
 اب بتائیے کہ عقل و منطق کا تقاضا کیا ہے؟ ہم مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں جو بات کہتے ہیں وہ محض نعرے بازی نہیں ہے۔ یہ سو فیصدی منطقی بات ہے۔ چند طاقتور ممالک جن میں پہلے سر فہرست برطانیہ تھا اور اب امریکا ہو گيا ہے ان کے حاشیہ بردار کچھ مغربی ممالک اب آ کر کہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست اور فلسطینی قوم کو مٹا دیا جانا چاہئے، تاکہ اس کی جگہ پر اسرائیل نام کا جعلی ملک اور ملت اسرائيل کے نام سے ایک جعلی قوم کو معرض وجود میں لایا جائے، یہ تو ایک بات ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری بات امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ نہیں، یہ جعلی اور مسلط کردہ جغرافیائي یونٹ ختم کر دی جانی چاہئے اور اس کی جگہ پر اصلی قوم، اصلی ملک اور اصلی جغرافیائی یونٹ کو بحال کیا جانا چاہئے۔ ان دونوں باتوں میں منطقی بات کون سی ہے؟ وہ بات منطقی ہے جس کے مطابق طاقت کے ذریعے اور سرکوبی کر کے ایک سیاسی نظام کو ایک تاریخی اور جغرافیائی حقیقت کو جس کا کئی ہزار سالہ ماضی ہے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، یا پھر یہ بات منطقی ہے کہ یہ اصلی جغرافیائی حقیقت باقی رہے اور جعلی و مسلط کردہ یونٹ کو مٹا دیا جائے؟
حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں صہیونیزم، فاشزم کی نئی شکل ہے جس کی انسانی حقوق اور آزادی کی طرفداری کی دعویدار حکومتوں اور سب سے زیادہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے حمایت اور مدد کی جا رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی حکومتوں کو جنھوں نے ان وحشیوں کی جو اپنی فطرت میں قاتل ہيں، سیاسی، تشہیراتی، فوجی اور اقتصادی مدد کی ہے اور ہمیشہ اس کے جرائم میں اس کی پشتپناہی کی ہے، سنجيدگی کے ساتھ جواب دینا ہو گا۔
 دنیا کے بیدار ضمیروں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ آج مشرق وسطٰی کے حساس علاقے میں انسانیت، کتنی خطرناک صورت حال (اور وحشی حکومت) سے دوچار ہے؟ آج غصب شدہ ملک فلسطین اور اس کے مظلوم اور غمزدہ لوگوں پر کیسی سفاک پاگل اور وحشی حکومت مسلط ہے؟ غزہ میں پندرہ لاکھ خواتین، مردوں اور بچوں کا محاصرہ اور غذائی اشیاء، دواؤں اور ضروری اشیاء کی ناکہ بندی کا کیا مطلب ہے؟ غزہ اور غرب اردن میں نوجوانوں کا روزانہ کا قتل عام، قید اور ایذا رسانیاں کس طرح قابل فہم ہو سکتی ہيں؟ فلسطین اب صرف عرب یا اسلامی مسئلہ نہيں رہا۔ بلکہ موجودہ دنیا کا اہم ترین انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کہتے ہیں، عرب حکومتیں سخت آزمائش اور امتحان سے روبرو ہيں۔ بیدار عرب اقوام ان سے ٹھوس اور فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کر رہی ہيں۔ اسلامی کانفرنس تنظیم اور عرب لیگ کو غزہ کے محاصرے کے خاتمے، غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کے گھروں پر حملے مکمل طور پر بند کئے جانے اور نتنیاہو نیز ایہود باراک جیسے مجرموں پر مقدمہ چلانے سے کم پر راضي نہيں ہونا چاہئے۔ مجاہد فلسطینی قوم، غزہ کے عوام اور عوامی حکومت کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا خبیث دشمن آج پہلے سے کہيں زیادہ کمزور و بے بس ہو چکا ہے۔ مجرمانہ اقدام غاصب صہیونی حکومت کی طاقت کا نہیں بلکہ اس کی کمزوری اور عاجزی کا ثبوت ہے۔ سنت الہی یہ ہے کہ ستمگر اپنے شرمناک دور کے اواخر میں خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی فنا اور زوال کو نزدیک کریں۔ گذشتہ برسوں کے دوران لبنان پر حملہ اور اس کے بعد غزہ پر حملہ انہی جنونی اور پاگل پن کے اقدامات میں سے ہے، جنھوں نے صہیونی دہشت گردوں کو ان کے حتمی زوال کی کھائي کے اور زیادہ نزدیک کر دیا ہے۔ بحیرہ روم میں بین الاقوامی امدادی قافلے پرحملہ بھی انہیں احمقانہ اقدامات میں سے ہے۔
خبر کا کوڈ : 93050
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش