0
Friday 26 Aug 2011 01:28

جمعۃ الوداع ۔۔۔۔۔ عالمی یوم القدس

جمعۃ الوداع ۔۔۔۔۔ عالمی یوم القدس
تحریر: صابر کربلائی (ترجمان فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان)
قدس کا مسئلہ کوئی شخصی مسئلہ نہیں ہے، قدس کسی ایک ملک سے مخصوص نہیں ہے، قدس کا مسئلہ ان مسائل میں سے نہیں ہے جو کسی خاص زمانے سے مخصوص ہو بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر زمانے کے باضمیر اور درد دل رکھنے والوں سے متعلق ہے۔ روز قدس ملّتِ فلسطین کی حمایت اور اس ملّت کیلئے خصوصی دعا کا دن ہے اور اس کی بہبود کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرنے اور سال بھر اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کے لئے عہد کرنے کا دن ہے۔ ایشیا کے مغرب اور مشرق وسطیٰ کے جنوب کی جانب فلسطین کا مرکز قدیم تاریخی شہر قدس کا محل وقوع ہے جسے بیت المقدس یا قدس شریف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسکی قدامت ۴۵ صدیوں سے زیادہ بیان ہو ئی ہے۔ یہ مقدس شہر اُن شہروں میں سے ایک ہے جو تمام انسانوں کے نزدیک مقدس ہیں۔ اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی زمین کے کسان آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں متبرک ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول، مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کائنات ( ص) ہجرت کے بعد بھی سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ معراج کے سفر میں بھی یہی شہر آنحضرت (ص ) کی پہلی منزل تھا۔ اِسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسیٰ ع کی جائے ولادت ہے۔ روایات میں اس مقدس مقام کے تقدس اور منزلت کے تذکرے درج ہیں۔
روایات میں ملتا ہے کہ ارشاد ہوا کہ سرزمین فلسطین مقدس زمین ہے اور اسے اللہ نے تقدس بخشا ہے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام یہاں پیدا ہوئے اور یہیں جناب اسحاق علیہ السلام اور جناب یوسف علیہ السلام کا گھر تھا، بیت المقدس جناب داؤد و سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں سے تعمیر ہوا۔ یوم القدس ایک عالمی دن ہے، ایسا دن نہیں ہے جو فقط قدس کے ساتھ مخصوص ہو بلکہ مستکبرین کے ساتھ مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے عالمی استعمار امریکا اور اس کے علاوہ دوسروں کے ظلم و ستم میں دبی ہوئی قوموں کے بڑی طاقتوں سے مقابلے کا دن ہے، یوم القدس کا فرمان عالم اسلام کے عظیم اور روحانی پیشوا حضرت امام خمینی رح نے ۱۳۹۹ہجری میں ماہ رمضان المبارک میں دیا تھا جس کا مقصد ایک ایسا دن منانا تھا کہ جس دن مسلمانان عالم بلکہ عالم انسانیت فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے متحد ہو جائے۔
یوم القدس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے سامنے اسرائیل کے گھناؤنے اور بدنما چہرے کو بے نقاب کیا جائے اور دنیائے اسلام کا رشتہ فلسطین کی مظلوم قوم سے جوڑ کر ہر سال اس رشتے کو مزید مستحکم کیا جائے۔ روز قدس ملّتِ فلسطین کی حمایت اور اس ملّت کیلئے خصوصی دعا کا دن ہے اور اس کی بہبود کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرنے اور سال بھر اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کے لئے عہد کرنے کا دن ہے، یہ دن مسلمانوں کو اپنی غیرت میں آنے کا دن ہے۔ مسلمانو! جاگو، اس سرزمین کو جو تمہارا قبلہ اوّل ہے، جہاں فضیلتوں کی ندیاں بہتی ہے، اسے ان ناپاک ہاتھوں سے چھین لو جو معصوم بچوں اور عورتوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ حضرت امام خمینی رح نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یومِ قدس قرار دیا تھا اور سارے مسلمانوں کو متّحد ہو کر اِس کی آزادی کی طرف دعوت دی تھی۔ البتہ اُن کی زندگی میں مسلمان اُنکی اِس آواز پر نہ چو نکے لیکن آج حزب اللہ کی استقامت اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کا پھر مطالبہ کر رہی ہے۔
امام خمینی رح نے فر مایا تھا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان مل کر اسرائیل کی طرف ایک ایک بالٹی پانی پھینک دیں تو وہ اسکے سیلاب میں بہہ جائے گا۔ یوم القدس منانے کا اعلان در حقیقت امام خمینی رح کی سیاسی بصیرت، اتحاد بین المسلمین کے تقاضوں کو عملی جامہ پہنانے کی دیرینہ آرزو، قرآنی معاشرے کی جانب عملی قدم، ماہ رمضان المبارک کی روحانیت میں معاشرے کے ستم زدہ افراد سے یکجہتی و اظہار ہمدردی، دشمن شناسی، عالمی سامراج کے مذموم مقاصد سے اعلان برأت، مسلم امہ کے درد اور مسئلہ فلسطین کے نہ صرف اسلامی احیاء بلکہ انسانی احیاء کی عکاسی کرتا ہے۔ یوم القدس ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعفین (جبراً کمزور کر دئیے گئے) مستکبرین (عالمی استعمار امریکا اور اسرائیل) سے مقابلے کے لئے تیار ہو جائیں اور ظالموں کی ناک خاک سے رگڑ دیں یہ ایسا دن ہے جس دن منافقوں اور فرض شناسوں کے درمان فرق ظاہر ہو جاتا ہے، فرض شناس لوگ اس دن کو یوم القدس جانتے ہیں اور جس چیز پر ان کو عمل کرنا چاہئیے عمل کرتے ہیں، لیکن منافقین اور وہ لوگ جن کی پس پردہ بڑی طاقتوں کے ساتھ آشنائی اور اسرائیل کے ساتھ دوستی ہے وہ اس دن لا تعلق رہتے ہیں یا قوموں کو مظاہرے نہیں کرنے دیتے۔
امام خمینی رح نے فرمایا! یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہونا چاہئیے مظلوم کر دی جانے والی قومیں ظالموں اور جابروں کے مقابلے میں اپنے وجود کا اعلان کریں اور ظالم، جابر، فرعونی قوتوں اور عالمی استعمار امریکا کی ناک خاک پر رگڑ دیں، اور دنیا کو بتا دیا جائے کہ یوم القدس، یوم اسلام ہے، یوم القدس ایسا روز ہے جس دن اسلام کو زندہ کرنا چاہئیے اور ہمیں اسلام کے احیاء کرنا چاہئیے، اسلامی ممالک میں اسلام کے قوانین نافذ ہونے چاہئیں، یوم القدس ایسا روز ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کو آگاہ کر دیا جائے کہ اسلام تمہارے خبیث آلہ کاروں کی وجہ سے تمہارے تسلط میں نہیں رہے گا، یوم القدس اسلام کی حیات کا دن ہے۔ دنیا بھر میں امام خمینی رح کے فرمان اور فتویٰ کی روشنی میں ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منایا جاتا ہے لہذٰا دنیا بھر کی طرح پاکستان کے غیور اور بہادر عوام بھی ظالموں کے مقابلے میں آتے ہوئے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس مناتے ہیں اور اس سلسلہ میں ملک بھر کے تمام شہروں میں آزادئ بیت المقدس (قبلہ اول) کے لئے احتجاجی ریلیاں اور مظاہروں کا انعقاد کیا جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قدس کا مسئلہ صرف کسی ایک قوم، مسلک، رنگ یا نسل سے نہیں بلکہ مسئلہ قدس ایک انسانی بقاء اور عالم انسانیت کا مسئلہ ے جس کے لئے دنیا بھر کے درد مند جمعۃالوداع کو عالمی یوم القدس مناتے ہیں اور فلسطین کے مظلومین کے ساتھ اپنی دلی ہمدردی اور یکجہتی کا والہانہ اعلان کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ آج کے دن ظالموں، جابروں، مستکبروں (امریکا، برطانیہ اور اسرائیل) کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے بلکہ مظلوم کی حمایت کرتے رہیں گے۔
دنیا میں اگر ہم غور کریں تو دو ہی طبقات کی تقسیم نظر آتی ہے مظلوم اور ظالم، لہذٰا ہمارے درمیان مذہبی، مسلکی، قومی، لسانی اور دیگر تفریق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے لہذٰا ظالموں سے نفرت مظلوموں کا شیوہ ہے اور مظلوموں سے ہمدردی درد مند انسانوں کی زینت ہے، سلام ہو اسلام ناب محمدی کے ان عظیم فرزندوں پر کہ جنہوں نے اسلام کی سر بلندی کی خاطر قربانیاں پیش کیں اور جدوجہد کر رہے ہیں، سلام ہو ان عظیم فرزندان اسلام پر کہ جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں اور فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، سلام ہو ان عظیم شہدائے اسلام و قدس پر کہ جنہوں نے اسلام کی سر بلندی کے لئے شجر اسلام کی اپنے سرخ اور پاکیزہ لہو سے آبیاری کی جس کے سبب آج فرزندان اسلام زندگی کی روشنی حاصل کر رہے ہیں، سلام ہو ہمارا ملت پاکستان پر کہ جس نے سر زمین پاکستان پر فلسطین کے مظلوموں کی یاد کو زندہ رکھا ہوا ہے، سلام ہو اس عظیم ملت پر کہ جو خود اسرائیل و امریکی سازشوں کی زد میں ہے لیکن عالم انسانیت کے سلگتے ہوئے مسئلہ کی خاطر سڑکوں پر آتے ہیں سلام ہو پاکستان کے عظیم فرزندان پر کہ جنہوں نے مظلوموں کی حمایت کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں جہد مسلسل کر رہے ہیں، سلام ہو دنیا بھر کے ان تمام مجاہدین پر کہ جو ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس مناتے ہوئے عالمی استکبار و استعمار امریکا اور صہیونیزم کے خلاف نبرد آزما ہو جاتے ہیں اور غاصبوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں۔
جی ہاں! امام خمینی کی صدائے القدس پر لبیک کہنے والے آج صرف یوم القدس ریلیاں اور مظاہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ شمع آزادی کے یہ پروانے دن بہ دن قبلہ اول بیت المقدس کو غاصب صہیونی پنجہ سے آزاد کروانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں اور عنقریب عاشقان بیت المقدس کا بڑا اجتماع آنے والے برس میں ماہ مارچ میں قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اور بازیابی کے لئے پیش قدمی کریں گے۔ یعنی دنیا بھر بشمول جنوبی ایشاء، جنوبی افریقا، یورپ، شمالی افریقا، برطانیہ، امریکا سمیت آسٹریلیا سے تحریک آزادئ القدس کے لئے جدجہد کرنے والے فرزندان القدس سن 2012ء میں مارچ کے مہینہ میں القدس کی آزادی کے لئے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو انسانی ہاتھوں کی زنجیر میں جکڑ لیں گے اور قبلہ اول بیت المقدس کی جانب پیش قدمی کریں گے، یقیناً یہ اسی جدوجہد کا ثمر ہو گا جو آج سے چند برس قبل فلسطینیوں کی حمایت میں شروع کی گئی تھی یا اگر یہ کہا جائے کہ فلسطین و قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی تحریک اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے جس کی واضح مثال یہ دی جا سکتی ہے عرب ممالک اور شمال افریقی ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر کا مرکز صرف اور صرف آزادئ فلسطین ہی ٹھرا ہے جس کے سبب خطے میں بڑی تبدیلیاں جو کہ الہیٰ نشانیاں ہیں رونما ہو رہی ہیں اور اس بات کا پیش خیمہ بن رہی ہیں کہ انشاءاللہ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے کہ جب فلسطین کے مظلومین غاصب صہیونیوں کے شکنجہ سے آزاد ہوں گے اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نابود ہوگی۔ انشاءاللہ۔
غزہ کے محصورین نے گزشتہ چار برس سے زائد عرصہ میں صہیونی مظالم کو برداشت کرکے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے کہ جہاں لوگوں کے پاس نہ کھانے کو اشیاء ہیں نہ ادویات ہیں ایسے ماحول میں غزہ کے بہادر اور شجاع عوام غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے سامنے سینہ سپر ہیں اور ذلت قبول نہیں کی بلکہ عزت کی موت کو ترجیح دی، جبکہ دوسری جانب حزب اللہ لبنان نے آج سے پانچ برس قبل سن 2006ء میں لبنان پر صہیونی حملہ کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے 33 روزہ مزاحمت سے اسرائیل کو بدترین ذلت و رسوائی کے ساتھ شکست سے دوچار کیا جس کے بعد اسرائیلی طاقت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، پھر اسی طرح غزہ پر صہیونی حملے کے جواب میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے دسمبر 2007ء میں بھرپور مزاحمت کی اور 22 روزہ جنگ میں اسرائیل کو تاریخ ساز بدترین شکست سے دوچار کیا، تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ غاصب صہیونی ریاست روز بروز کمزور ہو رہی ہے اور تحریک آزادی القدس ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں صہیونی غاصب ریاست اسرائیل کی نابودی نزدیک ترین ہے، پس وقت آ گیا ہے کہ دنیا بھر کے انسان خواہ وہ کسی بھی مکتب، مسلک، مذہب، رنگ و نسل، زبان، قومیت اور کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایک نکتہ فلسطین پر جمع ہو جائیں اور عالمی استعماری قوتوں کے خلاف اپنے وجود کا اعلان کریں اور عالم انسانیت کے لئے خطرے (اسرائیل) کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، یاد رکھیئے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل ایک ایسا فتنہ ہے کہ جس نے نہ صرف فلسطینیوں پر دہشت گردی کا سلسلہ روا رکھا ہوا ہے بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہوا ہے، اسرائیل عالم انسان اور کائنات کے لئے بدترین خطرہ ہے لہذٰا اسے نابود ہونا چاہئیے، جمعۃ الوداع یوم القدس کے روز ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم ظالموں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے اور دنیا بھر کے مظلوموں کا ساتھ دیتے رہیں گے، خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
خبر کا کوڈ : 94567
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش