1
0
Wednesday 14 Sep 2011 14:09

وزیراعظم گیلانی کا دورہ ایران

وزیراعظم گیلانی کا دورہ ایران
تحریر:ثاقب اکبر
وزیراعظم گیلانی کے حالیہ دورہ ایران کو پاکستان اور ایران ہی نہیں بلکہ باقی دنیا میں بھی خاصی اہمیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ جب سے امریکہ نے پاکستان کی 800 ملین ڈالر کی امداد کو معطل کیا ہے اُس وقت سے پاکستان کی سیاسی قیادت ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے کے درپے ہے۔ صدر زرداری نے اگرچہ اقتدار سنبھالتے ہی چین کے ساتھ خصوصی روابط کی داغ بیل ڈالی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے چین کے کئی ایک دورے کیے لیکن امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناﺅ اور کھنچاﺅ کے بعد انھوں نے روس اور ایران کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تیز رفتاری سے اقدامات کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے روس کا دورہ کیا، یکے بعد دیگرے دو دورے ایران کے بھی کیے۔ انھوں نے ان حالات میں ترکی اور سعودی عرب کو بھی نظرانداز نہیں کیا، تاہم ایران کے ساتھ روابط کو تمام تر پہلوﺅں اور تمام امکانات کے ساتھ فروغ دینے کے لیے انھوں نے ہمہ جہتی اقدامات کیے۔ اپنے گذشتہ دورے میں انھوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے مابین تجارت کا حجم جو اس وقت 1.2 بلین ڈالر ہے، کو 5 بلین ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔ 
یوں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے ماہرین کی رائے میں یہ حجم اس سے بھی کہیں زیادہ کی گنجائش اور ظرفیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی نے 11 اور 12 ستمبر 2011ء کا جو دو روزہ حالیہ دورہ کیا اس موقع پر دونوں طرف کی قیادت نے باہمی تجارتی حجم کو 10 بلین ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ایرانی قیادت سے تقاضا کیا ہے کہ تجارتی ضروریات کے لیے پاکستان کو بندر عباس میں ایک نیا کونسل خانہ قائم کرنے کی اجازت دے۔ ایرانی قیادت نے اس مطالبے کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے تہران میں پاکستان کے ایک ثقافتی دفتر کے قیام کی بھی بات کی ہے۔ پاکستان میں پہلے سے مختلف شہروں میں ایران کے ثقافتی دفاتر قائم ہیں۔ 
اسلام آباد میں سفارت خانے کے علاوہ سفارتی کونسلر کا الگ سے ایک دفتر موجود ہے۔ علاوہ ازیں کراچی، حیدر آباد، ملتان، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں ایرانی ثقافتی دفاتر موجود ہیں۔ مزید برآں مرکز تحقیقات ایران و پاکستان بھی اسلام آباد میں قائم ہے۔ یہ تمام دفاتر دونوں ملکوں کے مابین ثقافتی تعلقاتی کے فروغ میں نہایت مفید کردار ادا کر رہے ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے ان مراکز کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ فارسی زبان جو برصغیر کی بھی سات سو سال تک سرکاری زبان رہی ہے کی تدریس کے لیے ایرانی ثقافتی اداروں کی اول دن سے نہایت اہم خدمات چلی آ رہی ہیں۔ امید کی جانا چاہیے کہ تہران میں پاکستان کے ثقافتی ادارے کے قیام سے دونوں ملکوں کی مشترکہ ثقافت کو فروغ دینے میں مزید مدد ملے گی۔
وزیراعظم گیلانی کا حالیہ دورہ مشترکہ ثقافت کے کئی ایک خوبصورت مظاہر کا حامل ثابت ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کے آباﺅ اجداد کا تعلق ایران کے تاریخی شہر گیلان سے ہے۔ انھیں گیلان کا دورہ بھی کروایا گیا۔ صوبہ گیلان کے صدر مقام رشت کو ملتان کے ساتھ جڑواں شہر بنانے کا اعلان بھی ہوا۔ ایرانی قیادت نے وزیراعظم گیلانی سے کہا کہ آپ سید بھی ہیں اور آپ کے بزرگوں کا تعلق ایران سے بھی ہے، اس اعتبار سے ایران آپ کا اپنا ملک ہے۔ وزیراعظم گیلانی نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ ایران میرے لیے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی مشہد مقدس بھی گئے جہاں انھوں نے حضرت امام علی رضا ع کے روضے کی زیارت کی۔ ان کی یہ سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اور ایران کے مابین اس قدر گہرے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی روابط موجود ہیں جنھیں بنیاد بنا کر ہم دونوں قوموں اور ملکوں کے مابین تعلقات کو ایک دوسرے کی تقویت اور ترقی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
حیرت ناک افسوس کا مقام ہے کہ ماضی میں دونوں ملکوں کی اس استعداد کو ملحوظ رکھ کر تعلقات کی نہج کو استوار نہیں کیا گیا۔ اب جبکہ حالات نے یا احساس زیاں نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے تو پھر دونوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور راستے کی تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے عزم صمیم کر لینا چاہیے۔
ایران کو خاص طور پر بلوچستان کے اندر امریکی نیٹ ورک کی کارروائیوں پر تشویش ہے۔ یہ تشویش اپنے لحاظ سے پاکستان کو بھی ہے کیونکہ بلوچستان میں بھارتی اور امریکی ایجنٹوں کی کارستانیوں کے خلاف پاکستان کا میڈیا ایک عرصے سے فریاد کرتا چلا آ رہا ہے۔ خود ذمہ دار حکام نے بھی اس صورتحال کی طرف کئی مرتبہ اشارہ کیا ہے۔ بلوچستان میں اگرچہ امریکہ نے بظاہر اپنا فوجی اڈا بند کر دیا ہے، تاہم بلوچستان کے اندر اُس کے سفارت کاروں کی آمد و رفت سے سب آگاہ ہیں۔ پاکستان میں امریکیوں کی بلا اجازت ملک کے مختلف شہروں میں رفت و آمد کا سختی سے نوٹس بھی لیا ہے۔ 
اخباری اطلاعات کے مطابق امریکی اہل کار بلوچستان کے قبائلی سرداروں اور مذہبی راہنماﺅں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے حال ہی میں اپنی ایک طویل ویڈیو پریس کانفرنس میں جن دستاویزات کو پیش کیا ہے وہ بھی بلوچستان میں امریکیوں کی دلچسپی کے پس منظر کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایرانیوں کی شکایت رہی ہے کہ ایرانی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث گروپ جند اللہ پاکستانی بلوچستان کی سرزمین کو استعمال کرتا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ گروہ امریکیوں کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ بھارت کے متعدد نئے کونسل خانوں کے قیام پر پاکستان پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ بلوچستان کے اندر اس وقت جاری فرقہ وارانہ کارروائیاں ہوں یا علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی، دونوں ملکوں کے مفادات اور تعلقات کی راہ میں حائل ہیں۔
تجارتی حجم کو بہتر بنانے کے لیے بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانا نہایت ضروری ہے۔ کل کو ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن کو بھی بلوچستان میں سے گزرنا ہے۔ علاوہ ازیں ریل اور زمینی راستوں کا سفر ایران آنے جانے والوں کے لیے دن بدن غیر محفوظ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس سفر کو غیر محفوظ بنانے میں یقیناً اُن قوتوں کا ہاتھ ہے جو دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بڑھتا ہوا دیکھ کر خوش نہیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ امریکہ کھلے بندوں پاک ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت کر چکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے باقاعدہ پاکستان کے دورے کے موقع پر اس مخالفت کا اظہار کیا تھا۔ ان کے علاوہ بھی دیگر امریکی حکام اس منصوبے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس پس منظر میں بلوچستان میں جاری مختلف شکلوں کی دہشت گردی کی ماہیت کو سمجھنا مشکل نہیں رہ جاتا۔ یقینی طور پر پاکستان میں امن وامان کے ذمہ دار ادارے اور ریاست کی حفاظت پر مامور حکام ان تمام حقائق کو ہم سے کہیں بہتر اور تفصیل سے جانتے ہیں۔
 دونوں ملکوں کی قیادت نے اس وقت باہمی روابط کو فروغ دینے کا جو دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے اس پر عملدرآمد کے لیے امن و امان کے ذمہ دار اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی کے اس حالیہ دورہ کے موقع پر دونوں ملکوں کے مابین دو کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی قیادت میں اور دوسری وزرائے داخلہ کی قیادت میں۔ وزرائے داخلہ کی قیادت میں قائم ہونے والی کمیٹی بنیادی طور پر سمگلنگ اور دہشت گردی کو روکنے اور امن و امان کے قیام میں ہم آہنگی کے ساتھ کردار اد اکرے گی۔
وزیراعظم کے حالیہ دورہ کے موقع پر انھوں نے ایرانی صدر اور نائب صدر اول کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی، جو انھوں نے قبول کر لی۔ ایران کے نائب صدر اول نے یہ بھی اعلان کیا کہ دونوں ملک ایک مشترکہ ایئر لائن کے قیام پر بھی رضامند ہو گئے ہیں۔ اس دورے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ای سی او ممالک کے مابین روابط کو فروغ دیا جائے گا۔ اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ ان ممالک کے باہمی وسائل کو بروئے کار لانے اور تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کے فروغ سے خطے میں غیر ملکی مداخلت کا بھی سدباب کیا جاسکے گا۔ دونوں طرف کی قیادت نے افغانستان میں امن کے قیام کو بھی خطے کے لیے نہایت ضروری قرار دیا اور اس مقصد کے لیے تینوں ملکوں کے تین طرفہ میکانزم کی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
 اس موقع پر پاکستان نے ایرانی بینک کی پاکستان میں شاخ کے قیام سے بھی اتفاق کیا۔ یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے مابین بینکنگ کی آسان سہولیات کا نہ ہونا بھی تجارتی تعلقات کے فروغ کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں میں اس موقع پر گیس پائپ لائن جسے امن پائپ لائن قرار دیا گیا ہے کو جلد ازجلد مکمل کرنے پر اتفاق کیا گیا اور ا سے دونوں ملکوں کے مابین دوستانہ روابط کا ایک نمونہ گردانا گیا۔ امید کی جانا چاہیے کہ وزیراعظم گیلانی کا حالیہ دورہ ایران دونوں ملکوں کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 98693
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
بہت اچھا
ہماری پیشکش