نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے، اس کی اونچائی 8125 میٹر ہے اور اسے دنیا کا
نانگا پربت کے دامن میں کوہ پیماوں کے خیمے، رات میں دلفریب نظارہ پیش کرتے ہوئے
نانگا پربت کا مسحور کن منظر
نانگا پربت کی تصویری جھلکیاں
بتورا سر جسے
رگاشہ بروم دنیا کی گیارہویں سب سے اونچی چوٹی ہے، اسے کے فائیو اور چھپی چوٹی کے ساتھ بلتی زبان میں
رگاشہ بروم دنیا کی گیارہویں سب سے اونچی چوٹی ہے، اسے کے فائیو اور چھپی چوٹی کے ساتھ بلتی زبان میں
نانگا پربت یا قاتل پہاڑ کی دلفریب تصویر
بلترو کی تصویرِ جھلکیاں
بلترو کی تصویری جھلکیاں
اسلام ٹائمز۔ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں کی تعداد صرف چودہ ہے، لیکن قدرت کی طرف سے یہ عظیم عطیہ ہے کہ ان میں سے پانچ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حقوق سے محروم خطہ گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔ گلگت بلتستان کی سرزمین پر پہاڑوں کی شہزادی "کے ٹو" جو دنیا کی دوسری بلند چوٹی ہے، استادہ اپنی عظمت پر مفتخر ہے۔ اسی سرزمین بے آئین مگر جنت نظیر خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108 ہے۔ گلگت بلتستان میں موجود آٹھ ہزار میٹر سے بلند فلک بوس پہاڑوں میں کے ٹو، نانگا پربت، رگشہ بروم ون، رگشہ بروم ٹو اور براڈ پیک شامل ہیں۔ یہ فلک بوس پہاڑ جہاں ایک طرف دنیا بھر کے سیاحوں اور کوہ پیماوں کو اپنی جاذبیت اور رعنائی کے ذریعے کھیچ لاتے ہیں، وہاں ان میں موجود بیش بہا معدنیات بھی دنیا بھر کے سرمایہ داروں اور محققین کے لئے بھی دلچسپی کا باعث ہیں۔ انہی پہاڑوں کے سینے میں جہاں 60 اقسام سے زائد لعل و جواہرات اور جیمز پوشیدہ ہیں، وہاں تانبا، لیڈ، سنگ مرمر، چونے کا پتھر، سونا اور یورنیم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے موجود ہیں۔ لیکن ان پہاڑوں کے اوپر موجود گلگت بلتستان کے عوام بنیادی سہولیات زندگی سے بھی محروم اور پست ترین سطح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہی بلند و بانگ پہاڑوں کو ڈھکنے اور دلہن کی مانند سجا دینے والی برف کی چادر جو مختلف مقامات پر گلیشیرز کی صورت میں موجود ہے، دنیا میں قطبین کے بعد سب سے بڑے پانی کے مجنمد ذخائر ہیں۔ روز پگھلتی یہ برف پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے ندی اور دریا کا روپ دھار لیتی ہے اور دریائے سندھ کی آغوش میں پہنچ کر پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں کو تو سیراب کرتی ہے لیکن اسی دریائے سندھ کے ارد گرد موجود موجود لاکھوں ایکٹر زمین پانی کی قلت کی وجہ سے بنجر ہے اور عوام بوند بوند کو ترستے نظر آتے ہیں۔ پہاڑوں کی اونچائی سے گرنے والے پانی کی تیز دھاروں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں بجلی پیدا کرنے کے انگنت مواقع موجود ہیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق صرف گلگت بلتستان سے 80 ہزار سے ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، جو نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے بلکہ بیرون ملک بھی برآمد کی جاسکتی ہے۔ گلگت بلتستان جنت نظیر مگر یہاں کے عوام مجبور، بے بس، محروم اور سونے و جواہرات کی کانوں پر بھوکے اور ننگے رہنے والوں کی سرزمین کا نام ہے۔ اگر حکومت ذرا سی توجہ دے تو ان فلک بوس پہاڑوں میں موجود وسائل کے ذریعے صرف خطے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی تقدیر بدلنا مشکل کام نہیں ہے۔ اپنے محترم قارئین کے لئے گلگت بلتستان میں موجود پہاڑوں کی تصویری جھلکیاں دکھاتے ہیں، یقیناََ اس سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوگا بلکہ آنکھوں کو طراوت اور دلوں کو فرحت ملے گی۔
بڑی اچھی کوشش ہے۔ ہمیشہ مذھبی تہواروں، جلسوں وغیرہ کی تصویریں دیکھ انسان بور ہوجاتا ہے۔ گزارش ہے کہ یہ کوشش جاری رکھی جائے، مختلف علاقوں کے حسن پر مبنی تصاویر سے اسلام ٹائمز کے پیج کو مزین اور خوبصورت بنائیں۔