3
0
Friday 14 Aug 2015 23:39

سیاحوں کی جنت دیوسائی

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

  • اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

    اسکردو، جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی کے دلفریب مناظر

اسلام ٹائمز۔ دیوسائی اسکردو سطح سمندر سے 13500 فٹ اونچائی پر واقع ہے اور 3000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک دیوسائی برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔ دیوسائی دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ہے، نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن ہے اور اسے سیاحوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں، اس نوع کے ریچھ دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500 فٹ بلند ہے، اس کی بلند ترین چوٹی شتونگ ہے، جو 16000 فٹ بلند ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے۔ دیوسائی کی تصویری رپورٹ اسلام ٹائمز کے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے، تاکہ اس جنت نظیر خطے کے حسن و رعنائی سے لطف اندوز ہوسکیں۔
خبر کا کوڈ : 479888
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سبحان اللہ
Pakistan
in tasaveer ko report se mila k parhe to maza is se siwa milta he...کوہ قاف پہ حسین و جمیل پریوں کے اترنے کی، گانے کی اور گنگانے کی کہانیوں سے کون آشنا نہیں، لیکن ان کہانیوں اور افسانوں کے لکھنے والوں نے کبھی دیوسائی (اسکردو میں موجود ایک عظیم اور حسین ترین سطح مرتفع) کا نظارہ کیا ہوتا تو ضرور پریوں کے اترنے کی گواہی بھی دے دیتے اور اسے پریوں کی آماجگاہ قرار دیتے۔ اگر جنت نظیر وادی کشمیر کے بارے میں رائے قائم کرنے والے حکیم الامت، ’’اگر فردوس بر روئے زمین است، ہمیں است و ہمیں است ہمیں است ‘‘ شعر کے خالق دیوسائی میں گنگاتی خاموشی، مہکتے پھول، چہکتی کلیاں، مچلتی یخ بستہ ہوائیں، ہیرے کی مانند چمکتے پانی، اٹھکیلیاں کرتے دنیا بھر میں معدوم بھورے رنگ کے ریچھ، دریا کے سینے پر کھیلتی، تیرتی اور دریائی بہاو کے مخالف سمت پانی کو چیرتی نکلتی مچھلیاں، اڑتی رنگ برنگ کی تتلیاں، ترارے بھرتی ہرنیں، کوکو کرتی کوئل، منڈلاتے عقاب اور شاہین، سیٹیاں بجاتی گلہریاں، یاقوت کی مانند نیلے نیلے آسمان، گھنگھور گھٹائیں، پل میں رنگ بدلتے آسمان، چھم چھم کے اور جم جم کے برستی بارش، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھٹکتے مسافروں کی مانند چمکتے جگنو، یہ قدرت سے ابھارا ہوا نقش و نگار، تاحد نگاہ لہلہاتے سبزہ زار، فطرت سے مشاطہ شدہ کیاریاں اور پھول، قدرت کا سینچا ہوا روش اور سطح سمندر سے سولہ ہزار فٹ کی اونچائی پر چمکتی جھیل اور اس جھیل کے اوپر موجیں کرتی موجیں، منڈلاتے اور آسمان پر مخمور پھیلتے رخ بدلتے بادلوں کو دیکھتے تو ضرور کہتے کہ فردوس کہیں نہیں یہیں ہے اور صرف یہیں ہے۔

بغیر کسی مبالغے کے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی ایک بار یہاں پر آئے تو دل و جان یہاں چھوڑ کے ہی جاسکتا ہے۔ دنیا کی چھت کہنے والی سرزمین پر انسان کو یقین نہیں آتا کہ یہ حقیقت ہے یا کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ اتنی بلندی پر قدرت کی خلاقیت اور رزاقیت پر یقین کامل اس وقت ہوتا ہے جب انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سرزمین کم و بیش آٹھ ماہ برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور ہر طرف سفید ہی سفید نظر آتا ہے اور تقریباً تیس فٹ برف پڑتی ہے لیکن اس سخت ترین سردی میں بھی اس سطح مرتفع پر موجود جھیل و دریاوں کی مچھلیاں زندہ، بلوں میں موجود لاکھوں کی تعداد میں گلہریاں اور دنیا کے نایاب بھورے ریچھ بھی رزق حیات سے بہرہ ور رہتے ہیں۔ سطح سمندر سے سولہ ہزار کی بلندی پر موجود ہونے سے زمین اور چاند کا فاصلہ سمٹ کر رہ جاتا ہے اور چاندنی رات کو مسحور کن عالم ہوتا ہے، جھیل کنارے یا بہتے صاف و شفاف پانی کے کنارے ناقابل یقین حد تک بڑا مہتاب عالم تاب اور اسکی غیر معمولی چاندنی کے سبب سورج کا گمان ہوتا ہے۔ رات کے آخری پہر جب پرندہ ھائے شب بھی خاموشی اختیار کرے اور ہو کا عالم ہو تو اس وقت خاموشی گنگناتی ہے اور خوب گنگناتی ہوئی محسوس ہوتا ہے۔ دیوسائی کے میدان میں موجود رنگ برنگے پھولوں کی ترتیب، کیاریوں کی ترتیب اور ہر قطار میں موجود الگ الگ پھول سے گمان ہوتا ہے کہ نادیدہ مخلوقات اور منتخب و مقرب مخلوقات لاکھوں کی تعداد میں قدرت کے اس چمن کی تزئین و آرائیش کے لئے مامور ہیں اور وہ اپنے فرائض میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کے قائل نہیں۔ آئینہ تجرید اور تصورات و خیالات کی دنیا سے نکل کر بھی دیکھا جائے تو ہر چشم بینا کے لئے یہ مناظر مسحور کن ہے، اسے دیکھ کے بلاشبہ سبحان اللہ، ماشاءاللہ، لاحول ولا قوہ بے ساختہ طور پر لب اظہار کی زینت بن جاتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہاں پر خوبصورتی اور حسن و رعنائی کو درک کیا جاسکتا ہے۔

راقم نے اس مقام پر بہت سے اللہ والوں کو کم سن بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے روتے بھی دیکھا، شاید یہ مقام پاک و منزہ اور انسانی چیرہ دستیوں سے مبرا اور پرودگار کے احسن الخالقین ہونے کے بینّ دلیل فراہم کرنے کے سبب انسان قرب الہی اختیار کرتا ہوا اور راز و نیاز کے عقدے کھلنے لگتے ہیں، یا یوں کہوں کہ یہاں پر شاید فکر انسانی کو اس بلندی پر بلندی عطا ہوتی ہو یا نعمت خداوندی کا احساس ہوتا ہو۔ کچھ بھی ہو، انسان کے اندر کی دنیا میں بھونچال سا ضرور آہی جاتا ہے۔ کوئی حتمی طور پر نہیں بتا سکتا کہ یہ جگہ جنت کے ہونے کی دلیل ہے، کسی معصوم ہستی کی دعاوں کا نتیجہ ہے یا دنیا کی ثبات (سائنسی نکتہ نگاہ سے گرین ہاوس ایفکٹس کو کم کرنے اور ایکو لوجیکل نظام کو قائم رکھنے یعنی دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانے کے ایسے مقامات کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں) کے لئے لازمی و واجبی۔ کچھ بھی ہو اہل نظر نے اسے دنیا کی جنت بھی قرار دیا ہے اور دنیا کی چھت بھی، بحر گل کا نام بھی دیا ہے اور ارض بہار بھی (دیوسائی دنیا کی چھت کی معروف ہے، جبکہ ایک انگریزی مصنف نے اپنے سفر نامے میں اسے Ocean of Flowers قرار دیا ہے جبکہ مقامی بلتی زبان میں اسے غبیر سا یعنی ارض بہار کہا جاتا ہے) جبکہ دیوسائی کے جنوب میں موجود ضلع استور کی شینا زبان میں دیوسائی یعنی دیو اور پریوں کے رہنے کی جگہ قرار دیکر زیب داستان میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

اس نعمت خداوندی کی سطح سے نیچے موجود ذخائر و معادن تک ید انسانی کا پہنچنا تو درکنار، اس کی سطح پر موجود سینکڑوں نادر و نایاب جڑی بوٹیوں کی ماہیت و اثرات اور انواع پر لقمانی نگاہ تاحال نہیں پڑسکی ہے اور نہ ہی مسیحا صفت اطباء ان کی دولت معرفت سے مستفیض ہوسکے ہیں۔ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ سینکڑوں اقسام کے پھول اور جڑی بوٹیاں کیا صرف ماحول میں حسن و رعنائی بکھیرنے کے لئے ہیں یا ان کے فوائد بھی ہیں اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں۔ متعدد جڑی بوٹیوں کی معرفت کے بعد مقامی لوگ ان سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ناپید بھورے رنگ کا ریچھ صرف اس مقام پر کیوں ہے، یہ بھی شاید کوئی نہ بتا سکے۔ اس میدان میں موجود تمام تر رعنائیوں کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرنا بھی چند ساعت کا کام نہیں بلکہ تین ہزار مربع کلومیٹر پر محیط اس جنت نظیر میدان میں گھومنے اور تمام تر مناظر کو محفوظ کرنے کے لئے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ بہت زیادہ بلندی پر ہونے اور وسیع میدان ہونے کی وجہ سے دیوسائی کو دفاعی اہمیت بھی حاصل ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے انڈیا، چائینہ، افغانستان اور تاجکستان کی پاکستان کی شمال مغربی، اور شمالی فضائی سرحدوں کی آسانی سے نگرانی ہوسکتی ہے۔ اس سرزمین کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ مختصر یہ کہ دیوسائی کو گلگت بلتستان کے ماتھے کا جھومر کہا جاسکتا ہے۔
Pakistan
no doubt ...awsam place of pakistan .
ہماری پیشکش