0
Tuesday 28 Jun 2022 13:25

پاراچنار میں امن و امان کی موجودہ صورتحال پر علامہ سید معین الحسینی کا خصوصی انٹرویو

پاراچنار میں امن و امان کی موجودہ صورتحال پر علامہ سید معین الحسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید معین الحسینی کا تعلق پاراچنار کے نواحی گاؤں قبادشاہ خیل سے ہے، گورنمنٹ ہائی سکول قبادشاہ خیل سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دینی علوم کے حصول کیلئے قم چلے گئے۔ قم میں المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے دینی علوم میں ایم فل کیا۔ اپنے علاقے میں دینی تبلیغ کے علاوہ سماجی خدمات بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سال تحریک حسینی کے نئے سیشن کے انتخابات کے نتیجے میں تنظیم کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ کرم کی موجودہ سیاسی اور کشیدہ صورتحال کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے۔ جسے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! لگتا ہے کہ کرم ایک بار پھر فسادات کی لپیٹ میں جا رہا ہے، آپکا اس حوالے سے کیا خیال ہے۔؟
مولانا سید معین الحسینی:
 فسادات کی بات کوئی قطعی تو نہیں ہے، تاہم بعض سازشی عناصر ایسے حالات پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تاہم ہم نے نہایت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایسے حالات پیدا ہوں اور کرم کا امن و امان متاثر ہو۔

اسلام ٹائمز: ویسے حالات ملک مومن خان کے قتل کے معاملے پر بگڑ گئے۔ اس میں طوری بنگش قبائل کی انوالمنٹ بتائی جا رہی ہے، حقیقت کیا ہے۔؟
مولانا سید معین الحسینی:
دیکھیں، ہمارے ذمہ دار اداروں اور ذمہ دار افراد نے اس قتل کی مذمت کی، حکومت سے مطالبہ کیا کہ اصل قاتلوں کو گرفتار کرکے معاملے کی تہہ تک پہنچیں۔ یہی نہیں بلکہ ہم نے غمزدہ خاندان کے ساتھ پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت بھی کی، جبکہ مرحوم مومن خان ایک امن پسند اور سلجھے ہوئے شخص تھے۔ امن کمیٹی کے ممبر تھے اور امن کے حوالے سے ان کے بیانات قابل ستائش تھے تو ایسے شخص کے خلاف طوری قبائل کیسے برا ارادہ کرسکتے ہیں۔ اسے تو چھوڑیں، بعض ایسے افراد جو شیعوں کے حوالے سے کھلم کھلا گالی گلوچ کرتے ہیں اور نہایت برے ارادے رکھتے ہیں۔، طوری بنگش قبائل سیاسی مقابلے کے علاوہ ان کے بارے میں بھی ایسا فیصلہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر طوری بنگش اس میں ملوث نہیں ہیں تو پھر آپکے خیال میں قاتل کون ہوسکتا ہے۔؟
مولانا سید معین الحسینی:
قاتل وہی ہوسکتے ہیں، جو مومن خان کے مشن کے مخالف ہیں۔ جو امن کے مخالف ہیں۔ جو ہر وقت آگ کو بھڑکانے پر تلے ہوئے ہیں اور جن لوگوں کو مومن خان کی بڑھتے ہوئے سیاسی قد و کاٹھ سے خطرہ لاحق تھا۔ اگرچہ بعض لوگ اس حوالے سے کسی اور کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جنہیں سنی شیعہ سب جانتے ہیں، لیکن بولنے کی جرات نہیں کرسکتے۔

اسلام ٹائمز: فریقین کیجانب سے راستے کی بندش پر کیا اظہار خیال کرینگے۔؟َ
مولانا سید معین الحسینی:
دیکھیں، طوری بنگش قبیلے نے کبھی راستہ بند کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ ہاں جہاں بعض قبائل کا آپس میں ڈائریکٹ ٹکراؤ ہے، وہ ایک دوسرے کے راستوں پر خود ہی جانے پر آمادہ نہیں، یہ قبائلی کلچر ہے۔ دشمن اپنے دشمن کے راستے سے گزرنے سے حتی الوسع گریز کرتا ہے۔ جس کا سنی شیعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ شیعہ اپنے شیعہ دشمن اور سنی اپنے سنی دشمن قبیلے یا فرد کے راستے کو استعمال کرنے سے حتی الوسع گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ گیدو اور علیزئی کی آپس میں دشمنی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے راستے پر اور پہاڑ جانے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ تاہم کرم کے کسی سنی قبیلے یا فرد کے لئے کرم کے کسی بھی مقام پر راستہ استعمال کرنے پر کوئی بندش نہیں۔

اسلام ٹائمز: اسوقت راستے بند ہیں، پھر اسکی وجہ کیا ہے۔؟
مولانا سید معین الحسینی:
کوئی راستہ بند نہیں۔ حکومت نے خود ہی ٹینشن پیدا کی ہے۔ علاقے کو حساس بنا رکھا ہے، جبکہ اس حوالے سے بھی حکومت ایک جیسا سلوک نہیں کر رہی، طوری بنگش کے علاقوں میں چوبیس گھنٹے روڈ پر پہرہ لگا رکھا ہے۔ دیگر قبائل کسی بھی وقت آجا سکتے ہیں، جبکہ لوئر کرم میں صرف مخصوص وقت میں سرکاری کانوائے کے ساتھ طوری قبائل آجا سکتے ہیں، جو کہ ہرگز قرین انصاف نہیں۔
خبر کا کوڈ : 1001583
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش