0
Friday 1 Jul 2022 03:55

جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے رہنماء صہیب الدین کاکاخیل کا خصوصی انٹرویو

جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے رہنماء صہیب الدین کاکاخیل کا خصوصی انٹرویو
سید صہیب الدین کاکاخیل کا بنیادی تعلق زیارت کاکا صاحب ضلع نوشہرہ سے ہے، انہوں نے اسلامیہ کالج سے انٹر اور پشاور یونیورسٹی سے گریجویشن کی، اس دوران وہ اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ ہوگئے اور یونیورسٹی کیمپس پشاور، صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے ناظم اعلیٰ رہے۔ 2018ء میں اسلامی جمیعت طلبہ سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور ضلع نوشہرہ کے امیر منتخب ہوئے۔ اسکے بعد جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری کے طور پر تنظیمی ذمہ داری ادا کی۔ اسوقت جماعت اسلامی یوتھ خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے سید صہیب الدین کاکا خیل کیساتھ اہم موضوعات پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں جماعت اسلامی کے رہنماء سمیت چار نوجوانوں کو قتل کیا گیا، آپکی جماعت اس واقعہ کو دہشتگردوں کی کارروائی سمجھتی ہے یا پھر کچھ اور۔؟
صہیب الدین کاکاخیل:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ گذشتہ ہفتے شمالی وزیرستان میں چار نوجوان شہید کئے گئے تھے، ان میں سے ایک نوجوان اسد اللہ داوڑ کا تعلق جماعت اسلامی کیساتھ تھا، وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہ چکے تھے اور اس وقت وہ الخدمت فاونڈیشن شمالی وزیرستان کے صدر تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان سنیل داوڑ کا تعلق نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (محسن داوڑ کی پارٹی) سے تھا، جبکہ ایک نوجوان کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی کیساتھ تھا۔ ان چاروں کی جو قدر مشترک تھی، وہ یہ کہ یہ یوتھ آف شمالی وزیرستان کے ممبرز تھے۔ اس تنظیم کی بنیاد 2015ء میں اسد اللہ داوڑ اور اس کے ساتھیوں نے رکھی تھی، جو ایک سماجی و سیاسی تنظیم ہے، شمالی وزیرستان کے پڑھے لکھے نوجوان اس تنظیم میں شامل ہیں۔ شمالی وزیرستان میں 2015ء کے فوجی آپریشن کے بعد وہاں آئی ڈی پیز کو جن مشکلات کا سامنا تھا، اس حوالے سے یہ آواز اٹھاتے تھے۔ جب آئی ڈی پیز کی شمالی وزیرستان میں دوبارہ آبادکاری کا سلسلہ شروع ہوا تو خاص طور پر وہاں جو نوجوانوں کو مسائل درپیش تھے، ان کے حل کیلئے یہ نوجوان آواز اٹھاتے تھے۔

اس وقت بھی یوتھ آف وزیرستان باقاعدگی کے ساتھ منظم انداز میں ٹارگٹ کلنگ اور نوجوانوں کو درپیش دیگر مسائل پر بھرپور طریقہ سے آواز اٹھا رہی تھی۔ اسد اللہ داوڑ اس تنظیم کا بانی صدر تھا اور اس کے باقی احباب اس کی کابینہ کے ممبرز تھے۔ جہاں تک ان نوجوانوں کی شہادت کا تعلق ہے تو اس واقعہ کی تمام لوگوں نے مذمت کی ہے، یہ دہشتگردانہ، بزدلانہ اور سفاکانہ اقدام ہے۔ یہ چاروں نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل تھے۔ اسد اللہ داوڑ پیشے کے لحاظ سے انجینئیر تھے، سنیل نے ایم ایس سی فزکس کیا ہوا تھا، اسی طرح ان کے باقی ساتھی عماد داوڑ اور وقار داوڑ نے پولیٹیکل سائنس اور بیالوجی میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔ وہ چاہتے تو وزیرستان سے باہر اپنی دنیا آباد کرکے زندگی گزار سکتے تھے، تاہم انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ اپنے علاقہ میں آکر امن و آبادکاری اور نوجوانوں کو تعلیم سے روشناس کرانے کے حوالے سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ فوج اور حکومتیں یہ دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتیں کہ ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے، تمام علاقے کلیئر کر دیئے ہیں۔ یہ لوگ شمالی وزیرستان میں امن قائم کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔

اس وقت بھی ایک ڈویژن سے زائد فوج شمالی وزیرستان میں تعینات ہے، آپ اگر شمالی وزیرستان جائیں تو ہر ایک، دو کلومیٹر کے بعد آپ کو فوجی چیک پوسٹیں نظر آئیں گی۔ چیک پوسٹوں پر تلاشی ہوتی ہے، انٹری ہوتی ہے، ناکے لگے ہوئے ہیں، ایسے میں انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ دہشتگرد کہاں سے آتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کرکے پھر کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تو ممکن نہیں کہ سڑکوں پر ناکے لگے ہوئے ہیں اور گشت ہو رہے ہیں، فوج، ایف سی اور پولیس موجود ہے تو یہ دہشتگرد کہاں سے آتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی اہم سوال ہے اور یہی سوال ان چاروں نوجوانوں کی شہادت کا باعث بھی بنا، کیونکہ یہ نوجوان ٹارگٹ کلنگ کیخلاف مسلسل آواز اٹھا رہے تھے۔ شمالی وزیرستان میں بالخصوص میر علی میں ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر ہے، یوتھ آف وزیرستان اس حوالے سے ایک موثر اور مضبوط آواز اٹھاتی تھی اور یہی سوال کرتی تھی کہ یہ ٹارگٹ کلنگ آخر کون کر رہا ہے اور جن لوگوں کو مارا جا رہا ہے تو آخر ان کا قصور کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی کی قیادت ملک میں امن و امان کی بات کرتی ہے، حکومت کیجانب سے ٹی ٹی پی کیساتھ جاری مذاکرات پر آپکی جماعت کا کیا موقف ہے۔؟
صہیب الدین کاکاخیل:
جہاں تک ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کا تعلق ہے تو ہم اس کی حمایت کرتے ہیں کہ اگر ڈائیلاگ کے ذریعے معاملات کا حل نکل سکتا ہے تو گفت و شنید ہونی چاہیئے، بیٹھ کر بات کی جائے اور مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ افغانستان میں بھی ہم نے دیکھا کہ بیس سال تک امریکہ موجود رہا اور بالآخر اسے شکست ہوئی، مذاکرات کے نتیجے میں اس نے ایک پسپائی کا راستہ اختیار کیا اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ یہ جو تحریک طالبان پاکستان کیساتھ ریاست پاکستان کے مذاکرات جاری ہیں، اصولی طور پر تو یہ مینڈیٹ پاکستان کی پارلیمان اور جمہوری حکومت کا ہے کہ وہ پارلیمان میں آکر اس بات کی وضاحت کرے اور قوم کے سامنے رکھے کہ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کس بنیاد پر ہو رہے ہیں؟ کیا شرائط ہیں؟ اور اس حوالے سے اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک پارلیمان کو اس حوالے سے لاعلم رکھا گیا ہے۔ جس طرح سے آپ نے یہ سوال اٹھایا ہے، اسی طرح دیگر میڈیا چینلز سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کیساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اگر تو یہ مذاکرات ریاستی ادارے کر رہے ہیں تو فوراً پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے اور پارلیمان کے ذریعے ہی معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا کے انضمام کے موقع پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر تھیں، اب تحریک طالبان پاکستان کا یہ مطالبہ ہے کہ اس اقدام کو واپس لیا جائے، اس حوالے سے جماعت اسلامی کی موجودہ پوزیشن کیا ہے۔؟
صہیب الدین کاکاخیل: 
فاٹا کا انضمام تو مکمل آئینی طریقہ کار سے ہوا ہے اور فاٹا آئینی و قانونی طور پر اس وقت خیبر پختونخوا کا حصہ ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا اس معاملہ پر مکمل اتفاق تھا کہ فاٹا کے اندر رائج نظام ختم ہونا چاہیئے اور باقی ملک میں جو قانون اور نظام رائج ہے، فاٹا کے اندر بھی وہی لاگو ہونا چاہیئے۔ اس کیلئے تو جماعت اسلامی نے بھرپور جدوجہد کی تھی اور کئی دہائیوں پر مشتمل تحریکیں چلائی تھیں، بالآخر فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہوا۔ اب اگر تحریک طالبان کی جانب سے اس قسم کا کوئی مطالبہ سامنے آتا ہے تو یہ سراسر غیر آئینی و غیر دستوری مطالبہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فاٹا کے عوام کا بہت بڑا مطالبہ تھا کہ اس علاقہ کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے مطالبات ان کی طرف سے آتے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہیں۔ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ قبائلی عوام نے کرنا ہے اور انہوں نے ایک مرتبہ اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کر لیا تھا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسی نظام کو ہی برقرار رہنا چاہیئے اور اسی نظام میں رہتے ہوئے قبائلی اضلاع کی ترقی ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے، آیا پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کیخلاف ہیں یا پھر موجودہ حکومت کیساتھ ہیں۔؟
صہیب الدین کاکاخیل:
 جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو اصل اپوزیشن کا کردار ہی جماعت اسلامی نے ادا کیا تھا، ہم نے ان کی تمام عوام دشمن پالیسیوں پر تنقید بھی کی اور پارلیمان کے اندر و باہر بھرپور آواز اٹھائی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت جو مہنگائی، غربت و بے روزگاری ہے، لوڈشیڈنگ ہے، پاکستان اس وقت عملاً آئی ایم ایف کے چنگل میں ہے تو یہ تمام تر ذمہ داری تین بڑی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ جب تحریک انصاف کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا رہی تھی تو واحد جماعت اسلامی تھی، جو دونوں کی مخالفت کر رہی تھی۔ ہمارا یہ موقف تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اچھی ہے یا بری، لیکن ان کو اپنے پانچ سال مکمل کرنے چاہئیں۔ اس وقت تحریک انصاف عوامی مقبولیت کھو چکی تھی۔ ہم اس وقت یہ بھی کہتے تھے کہ پی ڈی ایم کے پاس پاکستان کو بحران سے نکالنے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ہماری بات سچ ثابت ہوئی ہے کہ پی ڈی ایم کو آئے تین ماہ ہوچکے ہیں، لیکن حالات بدتری کی طرف ہی جا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1002078
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش