0
Thursday 20 Oct 2011 09:59
ایران پر سعودی سفیر کے قتل کا الزام محض ڈرامہ ہے

امریکہ افغانستان سے انخلا کرنے سے قبل عرب دنیا کو ایران کے گلے ڈالنا چاہتا ہے، جنرل ریٹائرڈ حمید گل

امریکہ افغانستان سے انخلا کرنے سے قبل عرب دنیا کو ایران کے گلے ڈالنا چاہتا ہے، جنرل ریٹائرڈ حمید گل
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی امور پر اُن کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، جنرل حمید گل تہران میں ہونے والی حالیہ فلسطین کانفرنس میں بھی پاکستان کی جانب سے شریک ہوئے۔ اسلام ٹائمز نے ایران سے متعلق امریکی الزامات، وال اسٹریٹ سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک سمیت ملکی و بین الااقوامی صورتحال پر تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، آپ نے حال ہی میں ایران میں فلسطین کے حوالے سے منعقد کی جانے والی کانفرنس میں شرکت کی، اس کانفرنس کا مقصد کیا تھا اور اہم پیش رفت کیا ہوئی۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
اس کانفرنس میں بیاسی ممالک سے وفود آئے ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر پارلیمنٹری وفود تھے، پاکستان سے مجھ سمیت فاروق ایچ نائیک، ساجد میر اور پروفیسر ابراہیم نے شرکت کی، ایک بہت اچھا اجتماع تھا اور فلسطین کے معاملے پر بہت اچھی آراء پیش کی گئیں، اہم اور افتتاحی خطاب ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای صاحب کا تھا اور آخری روز اختتامی خطاب ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کیا۔ پوری کانفرنس میں اہم بات یہ تھی کہ کسی نے کوئی تعصب کی بات نہیں کی، صرف فلسطین کے معاملے پر بات کی گئی اور اعلامیہ بھی صرف فلسطین پر ہی مرکوز تھا، کانفرنس میں فلسطین سے خالد مشعل آئے ہوئے تھے جبکہ حزب اللہ کا وفد بھی آیا تھا، تاہم سید حسن نصراللہ بذات خود موجود نہیں تھے، کانفرنس بہت ہی اچھے ماحول میں ہوئی۔ کسی پر کوئی طنز نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی پر تنقید کی گئی، ہم توقع کر رہے تھے کہ سعودیہ عریبیہ اور بحرین کے حوالے سے بات چیت ہو گی مگر اس معاملے پر بھی کوئی بات نہیں کی گئی یعنی ان چیزوں سے بالاتر ہو کر صرف فلسطین کے ایشو پر بات کی گئی، اس کانفرنس کی دعوت ایران کے اسپیکر علی لاریجانی کی طرف سے تھی، جس کا موضوع بھی بیداری ملت رکھا گیا تھا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، امریکہ کی جانب سے ایران پر سعودی سفیر کے قتل کا الزام لگانا اور سعودی عرب کا فوری ردعمل ظاہر کرنا، آپ اس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
جنرل حمید گل:
میرے خیال میں یہ ایک ڈرامہ ہے اور مسئلہ جان بوجھ کر پیدا کیا گیا۔ سعودی عرب اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لیکر گیا ہے، اب دیکھیں اس معاملے میں اقوام متحدہ کیا کرتی ہے۔ سعودی عرب کو اقوام متحدہ میں نہیں جانا چاہیے تھا، او آئی سی کا پلیٹ فارم موجود ہے، اگر کوئی مسئلہ تھا بھی تو بات چیت اور سفارتی ذریعے سے حل کیا جانا چاہیئے تھا، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہم لوگ ہر بات میں اقوام متحدہ میں ہی کیوں جاتے ہیں، یہ دو اسلامی ممالک کا معاملہ ہے اور انہی کے درمیان رہنا چاہیے، یاد رہے کہ ہمیں کبھی بھی وہاں سے بھیک نہیں ملی، سوڈان کو تقسیم کیا گیا، کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ جوں کا توں ہے، اقوام متحدہ سے ہمیں اب تک ملا کیا ہے۔؟

 محمود عباس فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا ہے اور دو ریاستوں کے فارمولے کو قبول کر لیا ہے، رہبر سید علی خامنہ ای نے تقریر میں جو بات کی اور بعد میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں ایک پوائنٹ میری جانب سے بھی تھا، کیوں کہ مجھے اس کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تھا، میں نے اپنے نکتہ نظر سے بات کی اور وہ بات اس اعلامیہ کا حصہ بنی، یہ میرا گمان ہے، ممکن ہے کہ دیگر احباب کی بھی اس نکتہ سے متعلق ایک ہی رائے ہو، وہ نکتہ یہ تھا کہ دو ریاستوں کی بات کرنے سے پہلے وہاں ریفرنڈم کروایا جائے کہ کیا آپ لوگ تقسم چاہتے ہو، فلسطین کا ایک حصہ اسرائیل میں ہے اور دوسرا حصہ جو نام نہاد ہے وہ بھی انہی کے قبضے میں ہے، لہٰذا آپ پہلے تو ریفرنڈم کروائیں کہ کیا آپ فلسطین کی تقسیم چاہتے ہیں یا نہیں، یہ سیدھی انسانی حقوق کی بات ہے، وہ قوتیں جو ہمیں ہیومن رائٹس کا درس دیتی ہیں وہ خود ان فلسطینیوں کی رائے کو اہمیت دیں، وہ جو چاہیں اس کے مطابق فلسطین کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ ایک جمہوری بات ہے اور پوری کانفرنس کا محور و مرکز یہی بات تھی۔

دوسرا یہ کہ اوباما انتظامیہ نے الیکشن جیتنا ہے اور انہیں افغانستان سے جانا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اُن سے اس ایشو پر بات نہ کی جائے، اوباما انتظامیہ کیلئے فلسطین اور افغانستان کے مسائل پر نزع کے یہی دو پوائنٹس ہیں، دونوں کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ امریکہ افغانستان سے جلدی انخلا چاہتا ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہاری ہوئی اور بے سود جنگ ہے، لیکن اسرائیل اس کی گردن پر بیٹھا ہے، کیونکہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ جب امریکہ نکلے گا تو اس کا براہ راست اثر فلسطین اور مڈل ایسٹ پر پڑے گا اور دوسرا افغانستان کی صلاحیت کو بھی جوں کا توں چھوڑ کر جا رہا ہے تو اس سے اسرائیل کے حوالے سے خطرات میں اضافہ ہو جائے گا۔

سارا مسئلہ یہ ہے کہ جو نئے معاملات چل رہے ہیں امریکی اس سے کیسے جان چھڑائیں گے۔ چنانچہ وہ یہ ذمہ داری کہ ہم فلسطین سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، خاص طور پر ایران پر ہم حملہ کر نہیں سکتے چونکہ سکت نہیں رہی اور ایران مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہے، لہٰذا عرب دنیا کو بھڑکا کر ایران کے گلے ڈال دیا جائے۔ اس کا نتیجہ ہمارے لیے بڑا پریشان کن ہو گا کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہم ایران کے دوست بھی ہیں اور بھائی بھی، اور اسی طرح سعودی عرب بھی ہمارا دوست اور عزیز ملک ہے، ان کا آپس میں محاذ آرائی کا سلسلہ چل نکلتا ہے تو پاکستان جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، وہ پھر مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، اس صورتحال میں پاکستان ایک بہترین کردار ادا کر سکتا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں پُل کا کردار ادا کرے، کیا کہیں گے آپ۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
پاکستان کو یہ کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن یہاں کون سی قیادت ایسی ہے جو یہ کردار ادا کرے گی، کیا آصف علی زرداری صاحب کریں گے؟ جو اپنے معاملات ٹھیک نہیں کر سکتے۔ وہ تو کراچی میں قتل و غارت میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ زرداری صاحب ملوث ہیں اور جو امریکہ کو خط لکھ رہے ہیں کہ اگر آپ کہیں تو فوجی قیادت بدل دیں گے۔ ہماری بدقسمتی ہے، یہ کام ایک سمجھدار اور وہ شخصیت کر سکتی ہے جس پر اپنی قوم کو اعتبار ہو، جس قیادت پر اپنی قوم اعتبار نہ کرے، ان سے ہم امید رکھیں کہ ان پر ایران اور سعودی عرب اعتبار کر لے گا، اور وہ مصالحت کرائے گا، ممکن نظر نہیں آتا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، وال اسٹریٹ سے شروع ہونے والا احتجاج اب دنیا کے بیاسی ممالک تک پھیل گیا ہے جو مزید پھیلے گا اور وہ احتجاج صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ہے، کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دنیا کے بنائے گئے نظام فلاپ ہو چکے ہیں۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
ان کے پاس ایسا نظام نہیں ہے۔ وہ نظام تو پاکستان میں ہے، جہاں تک متبادل نظام کا تعلق ہے تو پوری دنیا کے پاس متبادل نظام ہی کوئی نہیں ہے۔ ہمارے پاس نظام موجود ہے، مگر تحریک اور قیادت نہیں ہے، میرے پاس ایک غیر ملکی تشریف لایا تو میں نے اُن سے یہی کہا کہ ہمیں نہیں تو قرآن میں جو نظام وضع کیا گیا ہے اس کو ہی آزما کر دیکھ لو، باقی ساری چیزیں چھوڑو، صرف اکنامک سسٹم ہی لے لو، اسلام کا اکنامک نظام ہی اتنا اچھا ہے کہ آپ نے زکواة دینی ہے، آپ اس کو کوئی اور نام دے دو، اسلامی نظام سودی نظام سے بیزاری کا نام ہے۔ وال اسٹریٹ کی جدوجہد بھی سودی نظام کے خلاف ہے۔ معیشت کسی بھی معاشرے اور قوم کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ نے دنیا کو درست کرنا ہے تو معاشی نظام کے ذریعے درست کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مارچ 1948ء میں اسلامی اکنامک سیل یعنی اسٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ یہ ہیں کہ ’’میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تم اس میں کامیاب ہو جاؤ، اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو دنیا کی قیادت کرو گے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت کو اتنی اہمیت ہے کہ جو ایک نئی معیشت کا نظام دے گا، وہ کامیاب ہو گا لیکن آج ہم تیار ہی نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، کل جماعتی کانفرنس ہوئی، پہلے بھی دو مرتبہ پارلیمنٹ کے اجلاس ہوئے لیکن ڈرون حملے نہیں رُکے، جب بھی امریکی یہاں آتے ہیں اور ہماری عسکری اور سیاسی قیادت سے ملتے ہیں اس کے ساتھ ہی ڈرون حملے شروع ہو جاتے ہیں، اس کی اصل وجہ کیا ہے۔؟
جنرل ریٹارئرڈ حمید گل:
اس ملک میں اگر عمران خان بھی اقتدار پر آ جائے تو یہ ڈرون حملے نہیں رک سکتے، کیوں کہ عمران خان بھی فقط سیٹوں کے چکر میں ہے، پاکستان سیٹوں یا پارلیمنٹ میں پہنچنے اور اکثریت حاصل کر لینے سے نہیں بچ سکتا، اگر پارلیمنٹ میں اکثریت لینا ہی مقصود ہے تو اس کے ساتھ بھی وہی حشر ہو گا جو اس پارلیمنٹ کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ دو مرتبہ قرارداد منظور ہوئی لیکن اس کے باوجود ڈرون حملے نہیں رک سکے، ہمارا المیہ کچھ اور ہے، یہاں تھانہ کلچر، یہاں کا عدالتی نظام سب غیر اسلامی ہے، جب انصاف کا قتل ہو گا، لوگوں کو انصاف مہیا نہیں ہو گا، جب فاسق لوگ اقتدار پر پہنچ جائیں گے، جب کردار کے حامل افراد کو کسی کھاتے میں نہیں جانا جائے گا تو ہم ان قوموں کے کیسے مقابل ہونگے۔ یہاں سے امریکی مداخلت تب ہی ختم ہو سکتی ہے جب یہاں ایک بڑی تبدیلی رونما ہو، فی الحال ایسا کوئی معجزہ نظر نہیں آتا، جس سے پاکستان کے ایک خودمختار اور پروقار ریاست ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، بلوچستان میں پے در پے واقعات ہو رہے ہیں، صوبہ کے دارالحکومت میں کارروائیاں ہوتی ہیں اور لوگ باآسانی غیب ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے، دوسرا یہ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں ہمارا انٹیلی جنس نیٹ ورک انہتائی ناقص ہے،آپ کیا کہیں گے۔؟
جنرل ریٹا ئرڈ حمید گل:
امریکہ کی سرپرستی میں بلوچستان میں یہ ساری تخریب کاریاں ہو رہی ہیں، امریکہ یہاں پر بہت زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب ہوں گے تو ایران کو بھی تکلیف ہو گی، بلوچستان اندرونی و بیرونی سازش گاہ کی آماجگاہ بن گیا ہے، لیکن انشاءاللہ ہم اس سے جلد عہدہ برآ ہو جائیں گے، لیکن ایک چیز جو ہمارے لیے ہے وہ امریکہ کی شکست ہے اور ہمیں افغان قوم کو سلام کرنا چاہیے کہ آپ کی مہربانی ہے۔ شاہ محمود غوری سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک ہر موقع پر آپ نے قربانیاں دیکر ہمیں بچایا اور آج پھر ہمیں امریکہ سے نجات دلا رہے ہو۔

اسلام ٹائمز: امریکہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان پر بہت دباؤ ڈال رہا ہے، کیا یہ نیٹ ورک اب بھی پاکستان میں کام کر رہا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
حقانی نیٹ ورک بہت زبردست نیٹ ورک ہے اور بڑے عظیم مجاہد ہیں اور انہیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع کے لیے لڑیں، کیا برطانیہ پر حملہ ہو جائے تو برطانیہ جدوجہد نہیں کرے گا۔ کسی بھی ملک کی سلامتی کو پامال کیا جائے اور اُن کے حقوق سلب کر لیے جائیں اور وہ اگر اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے اُٹھیں تو انہیں دہشتگردی کا نام دے دیا جاتا ہے، کیا یہ ظلم نہیں۔؟

اسلام ٹائمز: ذوالفقار مرزا کے انکشافات، سپریم کورٹ کا فیصلہ، آپ کیا کہیں گے۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
سپریم کورٹ کے فیصلے نے انتہائی مایوس کیا ہے، اس کی بحالی کیلئے بہت جدوجہد کی حتٰی کہ مجھے بھی جیل جانا پڑا، ان لوگوں نے جو فیصلے کیے تھے اُن پر عمل نہیں کیا، میں نے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر چیف جسٹس صاحب ان تمام معاملات کا ازخود نوٹس نہیں لیتے تو پھر ہم سمجھیں گے کہ ہم نے یہ اڑھائی سالہ تحریک محض انہیں کرسی دلانے کیلے چلائی تھی۔ آج ذوالفقار مرزا نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ یہ لوگ جرائم پیشہ ہیں اور ملک کے ساتھ غداری کر رہے ہیں، اس میں تمام اتحادی جماعتیں ملوث ہیں جو امریکہ کے کہنے پر ملک کو توڑنا چاہتی ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں جتنے بھی مسائل ہیں وہ امریکہ کی وجہ سے ہیں، امریکہ خود کہتا ہے کہ ہم پاکستان کے اندر جنگ لڑ رہے ہیں، کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس ملک میں کون امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے، میں کہتا ہوں کہ ریمنڈ ڈیوس کو سزا مل جاتی تو آج ڈرون حملے بھی بند ہو جاتے اور ابیٹ آباد کا واقعہ بھی نہ ہوتا۔ ابیٹ آباد کا واقعہ ڈرامہ تھا کہ اسامہ وہاں موجود نہیں تھا، میرے خیال میں وہاں صرف اس کے بیوی بچے رہتے ہوں گے باقی یہ کہنا ہے کہ اسامہ وہاں تھا جھوٹ ہے، مجھے اس پر یقین نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر آپ اسے ڈرامہ سمجھتے ہیں تو پھر اسامہ کی بیویوں کا یہ بیان کہ اسامہ تھا اور مارا گیا، تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
اس بات کی سمجھ نہیں آتی، کوئی ایک جھوٹ بولا گیا ہے، ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے اوباما نے تقریر کرتے ہوئے دنیا کو بتایا تھا کہ اس کو استثنٰی حاصل ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے کہ اس کو استثنٰی تھا؟؟ ابیٹ آباد آپریشن کے حوالے سے جب یہ بتایا جاتا ہے کہ اسامہ نے مزاحمت نہیں کی اور اوباما سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن اس کو بیویوں اور بچوں کے سامنے مارا گیا، کیا کوئی اخلاقیات بھی ہیں کہ ایک بوڑھا شخص جس نے مزاحمت نہیں کی اس پر آپ گولیاں چلا رہے ہو، پھر لاش سمندر برد کر دی گئی، اس کی کوئی فوٹیج یا تصویر ابھی تک جاری نہیں کی گئی، یہ لوگ اتنے جھوٹے ہیں کہ ان پر اعتبار کرنا آسان نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ نائن الیون کا بھی تم نے جھوٹ بولا تھا اور یہ بھی تم نے جھوٹ بولا ہے اور اس سے پہلے بھی تم نے جھوٹ بولا تھا۔ تم ظالم ہو، سفاک ہو اور تم لوگوں کو قتل کرتے ہو، ان کے وسائل کو لوٹتے ہو، ان کو ڈراتے ہو، دھمکاتے ہو، ان کا کلچر تبدیل کرنا چاہتے ہو۔
صحافی : نادر عباس بلوچ
خبر کا کوڈ : 107401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش