0
Monday 31 Oct 2011 01:20

خودکش حملوں سے اسلام بدنام ہو رہا ہے، اسلام کی آفاقیت، محبت اور وسعت نظری سے لوگوں کو آگاہ کرنیکی ضرورت ہے، علامہ افتخار نقوی

خودکش حملوں سے اسلام بدنام ہو رہا ہے، اسلام کی آفاقیت، محبت اور وسعت نظری سے لوگوں کو آگاہ کرنیکی ضرورت ہے، علامہ افتخار نقوی
علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اپنے دور میں ہونیوالی مکتب تشیع کی تمام سرگرمیوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل رہے۔ ایک مدت تک تحریک جعفریہ پنجاب کے صدر رہے اسکے بعد آپکو تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر چن لیا گیا۔ ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی رہ کے انچارج ہیں۔ آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں اور اس کونسل میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ صاحب سے انکی ابتدائی زندگی سے لے کر موجودہ مقام تک پہنچنے اور دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ چونکہ اسلام ٹائمز کا علامہ سید افتخار حسین نقوی سے یہ پہلا انٹرویو تھا اسلئے روٹین سے تھوڑا لمبا ہو گیا ہے۔ لہذا قارئین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے اس دو قسطوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔
 
اِسلام ٹائمز:آپ نے حال ہی میں اسلامی جمہوری ایران میں منعقد ہونیوالی اِسلامی بیداری کانفرنس میں شرکت کی ہے، کیا اِس کانفرنس میں عالمِ اِسلام کو عالمی طاغوتی طاقتوں سے خلاصی دِلانے کیلئے کوئی ٹھوس لائحۂ عمل زیرِ غور لایا گیا؟ اور کیا اس میں پیش کردہ تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گا۔؟
علامہ اِفتخار نقوی:بیداری اسلامی کانفرنس کے انعقاد کی وضاحت سے پہلے اس کے پس منظر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اِس وقت آیت اللہ العظمٰی آقائے سیّد علی خامنہ ای حفظہ اللہ چونکہ اس مقام پر بیٹھے ہیں جو آئمہِ اہلبیت ع کا مقام ہے اور ان کے پاس نیابت ہے اِمام زمان ع کی، اِس بنا پر اُمت کی رہبریت اور قیادت کا حق اُنہیں ہے، کیونکہ علم اُن کے پاس ہے، عدالت اُن کے پاس ہے، سیادت اُن کے پاس ہے، شعور اور آگاہی اُن کے پاس ہے اور دُشمن کی سازشوں سے بھی آگاہ ہیں اور اُمت کے مفاد میں کیا ہونا چاہیے، اس سے بھی واقف ہیں۔ تو اِس وقت یکے بعد دیگرے، عرصۂ دراز سے عرب دُنیا میں جو ظالم حکمران مسلّط تھے، تیونس میں جوانوں کو نمازِ باجماعت میں جانے کے لیے کارڈ کی ضرورت ہوتی تھی، جہاں پر خطبے کی آزادی بھی نہیں تھی، اور بھی اِسلامی احکام پر عمل نہیں ہوتا تھا اور وہاں کسی جماعت نے تحریک نہیں چلائی، جوان نمازِ جمعہ کے اِجتماع سے نکلے ہیں۔ اُنہوں نے قربانی دی ہے اور آگے بڑھے ہیں۔

 اِسی طرح مصر میں ہُوا ہے۔ عرصۂ دراز سے مصر میں تحریک چل رہی ہے۔ لیکن یہ تحریک نمازِ جمعہ کے اجتماع سے اللہ اکبر کی صدا سے اُٹھی ہے۔ اِسی طرح بحرین اور پورے خطۂ عرب میں ایک لہر ظلم کی طاقت کے خلاف اُٹھی ہے۔ یمن میں اتنی قربانیاں دینے کے باوجود وہ تحریک رُک نہیں رہی، تو ظاہر ہے ایسی تحریک کا رُخ موڑنے کے لیے کیونکہ تحریک برپا کرنے والے اسلام چاہتے ہیں، عدالت کا نفاذ چاہتے ہیں، تو دشمن کیلیے یہ امر باعثِ تشویش ہے، وہ ایسے ہر امکان کو ناکام بنانے کے لیے تاک میں بیٹھا ہے، جس سے اسے مِلّتِ مسلمہ کے سنبھلنے کے آثار دِکھائی دیتے ہیں۔

 آٹھویں صدی عیسوی سے جب سے کہ مسلمانوں کا زوال شروع ہوتا ہے اور عظمتِ رفتہ کی بحالی کی تحریکیں چلتی رہیں، ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں، استعمار مسلط ہوتا گیا، امت مسلمہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا، اسلامی مملکت کا تیا پانچہ ہو گیا اور پھر زوال و زبوں حالی کے صدیوں پر محیط اِس عمل کا بالآخر خاتمہ ہُوا۔ اللہ کے خصوصی کرم سے امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی علیہ کو، اپنے اِس عبدِ صالح کو اللہ نے بھیجا، جنہوں نے انقلابِ اِسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور الحمدُللہ اس وقت انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے امین ہاتھ میں پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے، تو چونکہ آغا خامنہ ای آئمہ اہل بیت ع کے مقام پر بیٹھے ہیں، حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آئمہ ع کی نیابت ان کے پاس ہے، وہ اُمت کے مسائل سے آگاہ ہیں، لہٰذا ان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ نئے خطرات سے اُمت کو آگاہ کریں، ان کو جہت بھی دیں، سمت بھی دیں۔ انہوں نے بروَقت قدم اٹھایا، لہٰذا یہ سارا بیداری کانفرنس کا انتظام ان کے دفتر کی طرف سے تھا، ڈاکٹر ولایتی اس کی دعوت دینے والے تھے۔
 
رہبر نے اِس موقع پر ایک پیغمبرانہ خطاب کیا، کیونکہ وہ خطاب قرآن و حدیث سے اخذ شدہ تھا، اور آج کے دَور کے تقاضوں پہ اُن آیات اور روایات کو ان کے مصادیق کو فٹ کیا، یہ پتہ چل رہا تھا کہ کوئی ایسی شخصیت بول رہی ہے جس کو بیک سے کسی غیبی طاقت کی سپورٹ حاصل ہے۔ انہوں نے تمام خطرات کی نشان دہی کی ہے اور ان کا توڑ بھی بتایا ہے۔ آئمہ اہل بیت ع نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اُمت کے لئے جو بہتر تھا وہ بتایا، اُمت کے لئے جو نقصان دہ تھا اس سے روکا۔ چاہے انہیں حاکم مانا گیا یا نہ مانا گیا۔ اگر اُمت آئمہ اہل بیت ع کو حاکم تسلیم کر لیتی تو اُمت بہت ساری مشکلات سے بچ جاتی۔
 
اب بھی صورتِحال یہی ہے، رہبر نے آئمہ اہل بیت ع کا کردار ادا کیا ہے۔ جس طرح امام علی زین العابدین ع، یزید جیسے ظالم، فاسق، فاجر کے دَور میں بیٹھ کر افواج کے لئے دعا کرتے ہیں۔ وہ دعا دراصل ایک درس ہے، ایک پیغام ہے، جس میں دشمنوں سے مقابلے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ قیامت تک کے لئے اس میں ایک فوج کے لئے اصول و ضوابط موجود ہیں، لیکن دُعائیہ انداز میں ہیں۔ اس کے بعد کے اَدوار میں بھی جبکہ ایک کے بعد دوسرا ظالم حکمران آتا رہا، ہم دیکھتے ہیں کہ امام زین العابدین ع کس طرح بروَقت سب کو آگاہی دیتے ہیں۔ کبھی دعا کے انداز میں کبھی رسالت الحقوق کے انداز میں، کبھی خط لکھ کر، کبھی اپنے شاگردوں کو خطرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دَور میں آئمہ نے بر وَقت آگاہ کیا۔

 تو یہ اُمت کا کام ہے کہ قیادت کس کو دیتی ہے۔ اُمت نے قیادت کسی اور کو دی۔ قیادت ان کے پاس نہیں تھی مگر پھر بھی رہنمائی دے رہے تھے۔ یہی کام اِس دَور میں آغا سید علی خامنہ ای نے کیا ہے۔ انہوں نے امت کی فلاح اور بہبود کے لئے جو بہتر ہے وہ بتا دیا ہے۔ اس وقت ایران کے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ پوری دُنیا کے 80 ممالک سے ایک ہزار کے قریب مفکرین، عالم بالرائے، سابق صدور، وزراء، رائٹر، تجزیہ نگار جمع تھے، وہ سب کے سب ایک عشق اور ولاء کی حد تک جا رہے تھے اور امام کے چہرے سے نکلنے والی شعاعیں ہر ایک پر اپنا اثر چھوڑ رہیں تھیں۔
 
اس موقع پر ایک منظر کو میں نہیں بھول سکتا۔ مہمانوں کی دوسری صف میں پانچویں یا چھٹی کرسی پر مولانا سمیع الحق بیٹھے تھے۔ تو آغا  سید علی خامنہ ای نے جب خطاب ختم کیا ہے تو مولانا سمیع الحق، جنہیں جسمانی ضعف کے باعث سہارے کی ضرورت بھی پڑتی ہے، وہ تیزی سے اُٹھے اور محافظوں کے روکنے کی پروا نہ کرتے ہُوئے سٹیج سے نیچے اُترے، سیّد علی خامنہ ای تک بے اختیاری و وارفتگی کے عالم میں پہنچے اور آپ کے ہاتھ کا، داڑھی کا بوسہ لیا۔ یہ وہ اثر تھا جس نے پورے ماحول کو اپنے اثر میں لے رکھا تھا۔ ان کے وجود سے نورانی شعاعیں نکلتی ہیں، جو قبول کرنے والے ہوتے ہیں وہ قبول کرتے ہیں جو نہیں کرتے، و ہ تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مولا علی ع کے ہاتھ بھی چوم رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کی شعاعیں ان کی دل کو پاک نہیں کرتیں۔ 
تو عارف کی ایک نظر جو ہوتی ہے وہ سیاہ دل کو نورانی بنا دیتی ہے۔ آغا خامنہ ای کا اثر پورا اِحاطہ کئے ہوئے تھا۔ لوگ اس طرح دوڑ دوڑ کر جا رہے تھے کہ فقط آپ کی عباء کا ایک بوسہ لے لیں۔ خدا نے مجھے بھی توفیق دی الحمداللہ آغا صاحب مجھ سے محبت کرتے ہیں، میں ملا بوسہ لیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا حال ہے، بڑا پیار دیا، مجھے پہ اللہ کا بڑا کرم ہے۔
 
اسلامی بیداری کے لئے خطرات موجود ہیں، ان خطرات کے بارے میں کون بتاتا؟ وہی بتا سکتا ہے جو آئمہ اہل بیت ع کی نیابت میں ان کی کرسی پر بیٹھا ہے، وہ صرف اور صرف آغا سید علی خامنہ ای ہیں اور کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے بروَقت ان خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ یہ اُمت کی ذمہ داری ہے کہ ان خطرات کا توڑ کرے۔ یہ توڑ اِمام نے بتا دیا ہے۔ اس کانفرنس کے آخر میں جو اختتامیہ آیا ہے، اس میں اُمت کے مسائل کے حل کے لئے متفقہ طور پر سیکرٹریٹ تہران کو مقرر کیا گیا ہے اور اس کا سیکرٹری ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کو منتخب کیا گیا ہے اور یہ اقبال رہ کے اس شعر کی تعبیر ہے کہ
تہران ہوگر عالمِ مشرق کا جنیوا۔۔۔کیا عجب کہ اِسلام کی تقدیر بدل جائے
 
یہ جو شروعات ہُوئی ہیں، انشاءاللہ اس سے پورے عالم کی تقدیر بدلنے والی ہے، خود امریکہ کے اندر جو تحریک شروع ہو چکی ہے، وہ اسی بیداری کا حصہ ہے، کیونکہ اس وقت اصل میں مظلوم بیدار ہوا ہے۔ یہ آغا سید علی خامنہ ای نے فرما دیا ہے۔ جو کچھ امام راحل امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی علیہ نے کہا وہ پورا ہوا۔ انہوں نے کہا گوربا چوف چلا جائے گا وہ چلا گیا، انہوں نے کہا مارکسزم کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز آ رہی ہے، کوئی نہیں سن رہا تھا لیکن امام راحل اس نورانی سسٹم کے تحت سن رہے تھے، اس دُوربین اور روشن نگاہوں اور بصیرت سے جو اللہ نے ان کو عطا کی۔ پھر انہوں نے کہا کہ صدام نہیں رہے گا، اسی طرح کویت والوں کو انہوں نے کہا کہ تم پر صدام چڑھ دوڑے گا، چڑھ دوڑا۔ اسرائیل کے لئے کہا کہ تم ختم ہو گے، تو اس کا خاتمہ قریب ہے۔ انشااللہ یہ تحریک چلی ہے تو یہ رُکے گی نہیں، اس کا end ظہورِ منجی بشریت ہے کہ جب ان کی آمد سے پورے عالم میں عدل الٰہی کو سورج طلوع ہو گا اور ہر طرف نورانیت اور انصاف کا دَور دَورہ ہو گا۔
 
اِسلام ٹائمز:بیداری کانفرنس کے سلسلے میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عالمِ اِسلام اور پوری دُنیا سے جو زُعما وہاں گئے تھے، اس موقع پر انہوں نے جو عہد اور اقرار کیے، وہ ان پر عمل پیرا بھی ہوں گے واپس اپنے ملکوں میں جا کر۔؟
علامہ اِفتخار نقوی: اِس کانفرنس میں دو قسم کے لوگ شریک تھے۔ اس وقت مختلف جگہوں پر جو تحریکیں ظالم حکمرانوں کے خلاف اُٹھی ہیں، وہ ان ممالک سے آئے تھے۔ ظاہر ہے، ان کا تو خود مسئلہ ہے۔ ان کو سپورٹ مِلی ہے۔ بڑے بڑے دانشوروں اور مفکرین نے بیٹھ کر اُن کو خطرات کی طرف متوجہ کیا ہے، ان کے کام کا انداز اَور ہے۔ کچھ ممالک وہ ہیں جہاں پر ایسی کوئی تحریک نہیں چل رہی، ان کا معاملہ اور طرح کا ہے۔ جیسے پاکستان ہے۔ پاکستان میں تو ایسی کوئی تحریک نہیں چل رہی۔ پاکستان سے جو زعماء گئے تھے ان میں قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق، مولانا عرفان الحق (مولانا سمیع الحق کے بھتیجے اور داماد)، اعجاز الحق، نور الحق قادری، عبدالغفور حیدری وغیرہ شامل ہیں۔
 عبدالغفور حیدری کا مقالہ ایکسپریس میں چھپا بھی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہے کہ مولانا سمیع الحق نے عربی میں خطاب کیا اور اس میں حضرت خامنہ ای کے لیے لفظ ’’اِمام‘‘ استعمال کیا، یہ اسی ہمہ گیر اثر کا نتیجہ ہے۔ ان کے علاوہ اپنے جو تھے راجہ ناصر، امین شہیدی، شفقت شیرازی، سینیٹر عباس کمیلی، آغا مرتضےٰ پویا موجود تھے۔ تو ایسے ممالک میں کوئی باقاعدہ تحریک نہیں، اسلام کے لیے صرف کام کرنے ک ضرورت ہے۔ ہر ذمہ دار شخص اپنی اپنی سطح پر کام کر رہا ہے۔ وہ اس کانفرنس سے اثر لے کر آیا ہے۔
 
اسلام ٹائمز:اسلامی بیداری کے حوالے سے ہمیں پاکستان میں کیا کرنا چاہیے۔؟
علامہ افتخار نقوی:پاکستان میں ہمارا دستور اسلامی دستور ہے، لیکن اس اسلامی دستور کے مطابق قانون سازی نہیں ہوئی۔ کافر قوتوں کو اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام کے خلاف تحریک چلانے میں مدد دی ہے۔ دین ستیزی یعنی دین کے ساتھ جنگ کی کیفیت پاکستان میں پیدا ہو چکی ہے۔ کچھ اپنے آپ کو سچے مسلمان کہتے ہیں اور دوسرے کو وہ کہتے ہیں، یہ کافر ہیں ان کو مارو، قتل کرو۔ یہ جو خودکش حملے روز کر رہے ہیں اس سے اسلام بدنام ہو رہا ہے، جس سے ہماری طاقت کمزور ہو رہی ہے۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ لوگوں کو اسلام کی آفاقیت اور دین محبت اور اسلام میں جو وسعت نظری ہے اس سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔
۔ 
حقیقی اسلام میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ لوگوں کو مائل کرتا ہے نہ کہ بھگاتا ہے۔ اسلام میں کفر کی فیکٹری نہیں ہے کہ ہر بندے کو اپنے سواء کافر کہتے جاؤ۔ تو پاکستان میں اس امر کی ضرورت ہے کہ پورا سال بیداری کے حوالے سے وسیع پیمانے پر پروگرام منعقد کئے جائیں۔ مختلف مسالک سے سکالرز آئیں، جدت پسند لوگ آئیں، گفتگو کریں اور اسلام کی آفاقیت اور محبت کو اجاگر کریں۔ ابھی پاکستان میں ہمیں شدت پسندی کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شدت پسندی کے درمیان ایک واضح خط کھینچ دیا جائے۔ یہ لوگ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔

اگر تو وہ شعوراً ایسا کر رہے ہیں تو وہ کافروں کے دوست اور ساتھی ہیں، ان کا اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے، اور اگر لاشعوری میں کر رہے ہیں تو ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے اور انہیں اس حالت سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ ایسی تحریکیں سابقہ ادوار میں بھی رہی ہیں، امیر المومنین علی علیہ السلام کے دَور سے خوارج کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو نماز بھی پڑھتے تھے ان کے ماتھے محرابوں سے بھی مزین تھے، وہ تہجد گزار بھی تھے، روزے بھی رکھتے تھے، لیکن شدت پسند تھے۔ اسلام کی آفاقیت سے ناواقف تھے۔ موجودہ شدت پسندی اسی کا تسلسل ہے۔

 اس لئے اس طرح کی کانفرنسز ہوں، جن کے ذریعے دین سے دُوری کی ہر کوشش کا توڑ کیا جا سکے۔ اگلا مرحلہ ہے وہ ہے، جس میں صالحین کی حکومت آئے۔ ہمارے دستور میں نمائندگانِ پارلیمان کی جو شرائط ہیں ان میں سے کسی ایک پر بھی حالیہ پارلیمنٹ پورا نہیں اُترتی۔ تو ہمارا معاشرہ جب صالح ہو گا تو حکمران صالح آئیں گے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے۔ اس معاشرے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف جہالت ہے اور پھر غربت ہے اور ان دونوں کے درمیان رشوت، بد عہدی اور کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ انسانی قدریں ختم ہو گئی ہیں۔ سیاست خیانت، بدعہدی اور دھوکہ بازی بن گئی ہے، جبکہ سیاست ایک مقدس لفظ تھا۔ اسکا مقصد و منتہا لوگوں کی مشکلات و مصائب کو حل کرنا تھا، وہ نہیں رہا۔ اب یہ اسلامی بیداری کے تحت ایک تحریک جو پورے عالم میں اُٹھی ہے، اس کے محرکین بہت وسیع پیمانے پر سوچ رہے ہیں۔ ہمارے اندر وہ وسعت آنی چاہئے اور اوپر سے لے کر نیچے تک سب کو اس کے لئے کام کرنا چاہئے۔ 

اسلام ٹائمز:مجمع جہانی اہلبیت کے پس منظر، اہداف اور کامیابیوں کے بارے میں فرمائیں۔؟
علامہ افتخار نقوی: ظاہر ہے ایران قدیم زمانے سے ایک شیعہ مملکت ہے، البتہ اس پر شاہی نظام اور ظالم لوگ حکمران رہے اور علماء و مجتہدین نے شاہی ستم کے خلاف ہر دَور میں تحریکیں چلائیں، مختلف ادوار میں کامیابیاں بھی حاصل ہوتی رہیں۔ مثلاً عباس صفوی کے زمانے میں سسٹم میں علماء بہت زیادہ دخیل تھے اور بعد میں کاچاریہ خاندان کے دور میں بھی اور رضا خان جو رضا شاہ کا باپ تھا، اس کے دَور میں مشروطہ کی تحریک چلی، جس کے مطابق شاہ کو قیود و ضوابط کے تحت رہنا پڑا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی قوانین ہوں گے اور علماء کی ایک کونسل ان قوانین کو دیکھے گی۔ آخری تحریک امام راحل رہ کی تحریک سابقہ تمام تحریکوں سے بڑی تحریک تھی۔ چونکہ اس میں سابقہ ادوار کی تحریکوں کا مطالعہ تھا اور کمزوریاں اس میں مدنظر تھیں تو اس تحریک کو امام خمینی رہ نے بڑے طریقے سے آگے چلایا۔
 
ان کے پشت پر غیب کی مدد بھی تھی، تو اسی سے موجودہ انقلاب کا ثمر ملا۔ جب ایران میں اسلامی حکومت علماء کی قیادت میں مستحکم ہوگئی اور ولایت فقیہ کی شکل میں حاکمیت مسلم ہو گئی تو اس وقت یہ سوچا گیا۔ چونکہ علمی حوالے سے قم اور نجف دُنیائے شیعت کا مرکز تھے، جب ایران میں اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو سارا رجوع قم کی طرف ہوا۔ اب اس کو ایک نظم دینے کے لئے اس انقلاب کی شکل میں، ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور دوسرے مسالک میں بھی تحرک پیدا ہو۔ احیائے اسلام کی تحریکیں ایک نئے انداز سے شروع ہوئیں۔ اس میں ضرورت محسوس کی گئی کہ جہاں جہاں مکتب اہل بیت ع سے وابستہ افراد ہیں ان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے، جہاں بیٹھ کر وہ اپنے مسائل ڈسکس کر سکیں، اپنی مشکلات پیش کر سکیں۔
 
چونکہ ان کی مالیات کا نظام مرجعیت سے وابستہ ہے، خمس کا نصف حصہ ان کو اپنے مرجعِ تقلیدکو بھیجنا ہوتا ہے اور اپنے سارے فقہی مسائل اور احکام ان سے دریافت کرنے ہوتے ہیں، اس کے پیش نظر ورلڈ اہل بیت ع اسمبلی یا مجمع جہانی اہل بیت ع قائم کی گئی اور اس میں دنیا بھر کے علماء، مفکرین، اقتصاد کے ماہرین، سیاستدان، ان سب کو اس کا رکن بنایا گیا۔ اس کا ہیڈ کواٹر تہران میں بنایا گیا کیونکہ اس میں مرکزیت ایران کو حاصل تھی۔ اس میں مین ہدف تھا کہ اہلبیت ع کے مکتب سے وابستہ، جنہوں نے اسلام اہل البیت ع کی تربیت سے حاصل کیا ہے وہ آپس میں مربوط ہوں، تاکہ وہ ہر جگہ اِسلام کی نمائندگی کر سکیں۔ اِسلام کا پیغام ایک آفاقی پیغام ہے۔ اِس میں تنگ نظری، تعصب اور گروہ بندی نہیں ہے۔ ہمارے آئین میں اہل البیت ع نے جو درس دیا اس میں یہ شرط نہیں رکھی کہ ان سے وہ آ کر پڑھے جو ان کو امام مانتا ہے، وہ نہ پڑھے جو اِمام نہیں مانتا، جبکہ دوسروں کے ہاں یہ شرائط رہیں۔

 انہوں نے صرف مسلمانوں کے لیے کام نہیں کیا، انہوں نے ساری اِنسانیت کے لیے رہنمائی انجام دی ہے۔ ان کا منصب تھا کہ انسان کو علم دیں، بھٹکے ہوؤں کو انسانیت سکھائیں اور وہ سکھا گئے ہیں۔ لیکن بیشتر لوگ ان کی خدمات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ ان کی ذمہ داری ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اہلبیت ع کے پیرو ہیں۔ اس کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی، تاکہ ان کو یہ چیز سمجھائی جائے، تاکہ وہ بھی گروہی تعصبات کا شکار نہ ہو جائیں، وہ بھی لوگوں کو خود سے دُور نہ بھگائیں، کیونکہ شیعہ لوگ اپنی لاعلمی سے ایسے ماحول سے متأثر ہو کر ایسے متعصبانہ رویّے اپنا لیتے ہیں جو ان کے ساتھ دوسرے اپنا رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے آئمہِ اہلبیت ع نے ایسا نہیں کیا۔ آئمہ اہلبیت ع نے خود نقصان اُٹھایا۔ جو اُن کو آکر گالی دیتے تھے وہ اُن کو کھانا کھلاتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 107450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش