0
Monday 24 Oct 2011 21:43

امریکہ پاکستان کے خلاف دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ہندوستان کو پسندیدہ قوم قرار دینے کا حکومتی فیصلہ درست نہیں، جنرل عبدالقیوم

امریکہ پاکستان کے خلاف دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ہندوستان کو پسندیدہ قوم قرار دینے کا حکومتی فیصلہ درست نہیں، جنرل عبدالقیوم
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں اور اس وقت نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے دورہ پاکستان اور مستقبل میں اس کے اثرات اور پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ صورتحال پر ایک اہم اور مفصل انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز:امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان سے دو ٹوک اور واضح انداز میں مطالبہ کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کرنا ہے یا اس میں رکاوٹ بننا ہے۔ اس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم:امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ آپ نے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنی ہے یا اس کاروائی میں رکاوٹ بننا ہے، نہایت غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ ہمارا جواب یہ ہونا چاہیے کہ افغانستان کے اندر آزادی کی جنگ لڑنے والے جنگجوؤں کے خلاف پاکستان اعلان جنگ نہیں کر سکتا۔ چونکہ یہ معاملہ امریکیوں اور افغانیوں کے درمیان ہے۔ حکومت پاکستان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان پر حملے کے لیے اپنی بندرگاہیں، ہوائی اڈے، زمینی اور ہوائی راستوں کے استعمال کی اجازت دے کر پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف کام کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں 35000 لوگ شہید ہوئے اور پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ امریکہ نے اس کا صلہ پاکستان پر ڈرون حملے کرکے اور افواج پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کر کے دیا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ سے کہے کہ پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے۔ پاکستان اس سلسلے مدد کرنے کو تیار ہے چونکہ اس عمل سے نہ کوئی پاکستانی افغانستان میں داخل ہو سکے گا اور نہ افغانستان کے اندر سے چترال کے علاقے میں پاکستان چوکیوں پر حملے ہوں گے۔
اسلام ٹائمز:ہیلری کا جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی اور پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کے ہمراہ اسلام آباد آنا، پاکستان کو کیا پیغام دینا مقصود تھا؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم:امریکی حکومت کی صدر اوبامہ کے علاوہ ساری اہم شخصیات کے اکٹھا پاکستان آنے کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ شمالی وزیرستان میں کچھ کارروائی شروع کرے۔ دوسرا امریکی حکام امریکی عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں اتحادی افواج اور مکمل فتح کے درمیان صرف ایک چیز حائل ہے اور وہ حقانی نیٹ ورک ہے۔ جس کی جڑیں پاکستان میں ہیں، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے، حقانی قبیلے کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان لوگوں نے پاکستان میں پناہ اس وقت لی جب افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت تھی۔ جب یہ پاکستان آئے تو امریکی CIA اور مشرق وسطیٰ کے امیر ممالک نے ان کو نہ صرف مالی امداد دی بلکہ ان کو اسلحہ اور گولہ بارود سے بھی لیس کیا۔ اس وقت یہ قبیلے افغانستان میں ہیں جو امریکیوں کے خلاف نبر آزما ہیں۔ اسی لیے سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی نسبت افغانستان میں زیادہ آزاد ہیں چونکہ افغانستان کا صرف بیس فیصد حصہ بیرونی فوجیوں کے کنٹرول میں ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ حقانیوں اور دوسرے گروہوں کا خود مقابلہ کرے چونکہ پاکستان پر غلط الزامات لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
اسلام ٹائمز:ہیلری کے مختلف انٹرویوز کا لب لباب یہ کہ پاک فوج اور آئی ایس آئی کے حقانی نیٹ ورک سے رابطوں کا ثبوت امریکہ کے پاس موجود ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایڈمرل ملن کے موقف کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور ہماری باتوں پر یقین نہیں کر رہے؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم:اگر امریکہ کے پاس آئی ایس آئی کے افغان جنگ میں اتحادیوں کے خلاف ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں تو اُن کو سامنے لایا جائے۔ ہیلری کا یہ کہنا کہ ایڈمرل مولن نے جو کچھ کہا وہ غلط نہیں۔ پاکستان قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دوسری اقوام کی عزت کرکے ہی وہ اپنے لئے عزت کما سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:ہیلری کا یہ کہنا کے پاکستان کے اندر خاص طور پر شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے ٹھکانے موجود ہیں اُن کے خلاف کاروائی ہفتوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ہونی چاہیے اس بیان کو کیسے دیکھتے ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم:یہ بیان پاکستان کو دھمکی دینے کے مترادف ہے۔ امریکہ پاکستان کو ٹائم فریم نہ دے بلکہ خود افغانستان کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کرے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان کے اندر کسی دہشتگرد کے ٹھکانے کو ختم کرنا پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے جو طریقہ موزوں ہوگا وہ استعمال کیا جائے گا اور یہ کارروائی بھی امریکہ کے کہنے پر نہیں بلکہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت کے فیصلے کے بعد ہو گی۔
اسلام ٹائمز:عین اس وقت جب ہیلری پاکستان کا دورہ کرکے واپس جا رہی تھیں۔ امریکی سینٹ کی آرمڈ کمیٹی کے چیئرمین کارل لیون نے بیان دیا کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور یہ کہ امریکہ پاکستان کے اندر کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے کیا کہیں گے؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم:امریکی آرمڈ فورسز کمیٹی کے چیئرمین کارل لیون کا دھمکی آمیز بیان افسوس ناک ہے۔ امریکی حکومت اور اس کے پارلیمنٹ کے ارکان سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں ہیں اس لیے جو اُن کے دل میں آئے وہ کہہ دیتے ہیں۔ یہ نہ سوچتے ہوئے کہ اُن کے یہ بیانات ایران، شمالی کوریا یا کیوبا کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ہیں جو اُن کا صف اول کا اتحادی اور نان نیٹو دوست ہے اور جس کے ساتھ وہ سٹرٹیجک مذاکرات کا ڈرامہ بھی رچاتے رہتے ہیں۔ امریکہ دراصل پاکستان کے خلاف ایک دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے امریکی وزیر خارجہ کو ایک متفقہ اور کل جماعتی کانفرنس کی قراردادوں کے عین مطابق پیغام دیا ہے؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقوم: میرے خیال میں پاکستانی حکومت اور افواجِ پاکستان کی قیادت نے اس دفعہ امریکی کارندوں کے آگے پاکستان کے مؤقف کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ بڑی طاقتوں کے آگے لیٹ جانے سے مسائل حل ہونے کے بجائے اور گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے امریکہ پر یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ہم دہشتگردی کے مکمل خلاف ہیں لیکن ہم ساری افغان عوام کو اپنا دشمن نہیں بنانا چاہتے خصوصاً ایسے حالات میں جہاں ہندوستان نے شمالی اتحاد کے ساتھ اپنا یارانہ پکا کیا ہوا ہے اور وہ پشتونوں کے خلاف افغانستان میں مضبوط محاذ بنا رہا ہے۔
اسلام ٹائمز:پاک امریکہ تعلقات کو اس وقت کس نہج پر دیکھتے ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم: پاک امریکہ تعلقات اس وقت بہت ہی نازک دور سے گذر رہے ہیں۔ 63سالوں کی پاکستانی تاریخ میں امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ وفاداری کا ثبوت نہیں دیا۔ 27 اکتوبر 1947ء کا ہندوستان کا کشمیر پر حملہ ہو، 1965ء اور 1971ء کی جنگیں ہوں یا پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ ہو۔ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ مایوس کیا۔
اسلام ٹائمز: انڈیا کو تجارتی لحاظ پسندیدہ ملک قرار دینا پاکستان کے مفاد میں ہے؟
لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم: ہندوستان کو پسندیدہ قوم قرار دینے والا حکومت کا فیصلہ درست نہیں اور بہت قبل از وقت ہے۔ ہم ہندوستان سے دشمنی نہیں بلکہ دوستی چاہتے ہیں لیکن ایسی دوستی جو دیرپا ہو۔ اگر ہندوستان بھی پاکستان کے ساتھ دیر پاتعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو پہلا قدم پاکستان کی منڈیوں پر ہندو بیوپاریوں کا قبضہ نہیں بلکہ سیاچن اور کشمیر سے ہندوستان افواج کے انخلاء سے متعلق ہونا چاہیے۔ اس کے بعد بھارت کو ہمارے دریاؤں پر 62 غیر قانونی بندوں کو توڑنا ہو گا۔ ا س کے بعد سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل ہونا چاہیے۔ جب ہندوستانی افواج کشمیر سے نکل جائیں اور پاکستان اور ہندوستان میں کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت پر مذاکرات ہو ر ہے ہوں تو اُس وقت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کا راستہ کھولا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہندوستان کو پسندیدہ ملک کا درجہ دے کر اُن سے درآمدات اور برآمدات شروع کرنے کے لیے ہماری صنعیتں بھی تیار نہیں چونکہ لمبے عرصے تک بجلی اور گیس کی نایابی کی وجہ سے پاکستان کے صنعت کے سیکٹر نے بہت نقصانات اُٹھائے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 108907
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش