1
0
Monday 7 Sep 2009 14:32
جامع امامیہ مسجد سمن آباد لاہور کے خطیب اور امام جمعہ جحۃ الاسلام والمسلمین سید احمد اقبال رضوی:

اگر ہم فلسطینیوں کی سپورٹ کئے بغیر اور ان کا درد رکھے بغیر نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں

اگر ہم فلسطینیوں کی سپورٹ کئے بغیر اور ان کا درد رکھے بغیر نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں
حجۃ الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی حوزہ علمیہ قم سے فارغ التحصیل ہیں اور لاہور میں جامع امامیہ مسجد سمن آباد کے خطیب اور امام جمعہ ہیں۔ روز قدس کی مناسبت سے اسلام ٹائمز نے ان سے ایک مفصل گفتگو کی ہے، جو قارئین کے استفادے کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں ایک اہم ایشو مسئلہ فلسطین ہے، اس پر تھوڑی سی روشنی ڈالئے۔
سید احمد اقبال رضوی: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم باسم اللہ الرحمان الرحیم و بہ نستعین و ھو خیر ناصر و معین۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیئے کہ روز قدس کو زندہ رکھیں۔ یقینا جیسا کہ عالم اسلام اس بات کو جانتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اسلامی مسائل میں سر فہرست مسئلہ ہے جس کو اہمیت دینی چاہیئے۔ ایک زمانہ تھا جب اسرائیل کا منحوس وجود فلسطین کی سرزمین پر آیا ہے اور فلسطین اس مشکل کا شکار ہوا ہے۔ شروع میں تحریکیں اٹھیں لیکن سازشوں کے تحت آہستہ آہستہ انہیں ٹھنڈا کر دیا گیا اور مسلمانوں کو آپس میں توڑا گیا جس کے نتیجے میں فلسطین کا مسئلہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا لیکن 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی رہ نے اس اہم ایشو کو دوبارہ زندہ کیا۔ 

انقلاب اسلامی ایرا ن کی کامیابی سے پہلے بھی جب امام خمینی رہ نجف میں تھے یا فرانس میں تھے یا ترکی میں جلاوطن ہوئے، جہاں جہاں بھی امام خمینی رہ گئے انہوں نے اس مسئلے کو سرفہرست رکھا اور جہاں امریکہ کے خلاف امام خمینی رہ مسلسل بیانات دیتے رہے وہاں اسرائیل کو بھی اپنی اسلامی اور انقلابی تحریک کا سطح اول کا دشمن قرار دیا اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ فلسطین امام خمینی رہ کی نگاہ میں بنیادی ترین اور سب سے فرنٹ محاذ تھا جس کو مسلمانوں کو فیس کرنا چاہیئے اور لڑنا چاہیئے اور ہر گز اسرائیل کو قبول نہیں کرنا چاہیئے۔ اسی عنوان سے امام خمینی رہ نے روز قدس کا اعلان کیا، ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے میں سارے مسلمان مل کر فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اور صہیونیزم کے اس پلان کو جو انہوں نے فلسطین میں اجرا کیا ہے اسرائیل کے نام سے اسکو قبول نہ کرنے کا اعلان کریں اور اسکے خلاف جہاد کا اعلان کریں اور تمام مسلمان کم از کم پورے سال میں ایک دفعہ یہ اعلان ضرور ہونا چاہیئے۔ 

بہرحال یہ امام خمینی رہ کا کارنامہ ہے کہ روز قدس کو پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ جہاں تک صیہونیزم کا تعلق ہے تو ایک بہت بڑا شبہ مسلمانوں کے ذہنوں میں ہے کہ فلسطین کوئی یہودی مذہب کو ماننے والے لوگ ہیں جنہوں نے اسرائیل کو جنم دیا ہے، نہیں بلکہ قطعا ایسا نہیں ہے، ابھی بھی وہ یہودی موجود ہیں جو صہیونیوں کے خلاف اور خود اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، یورپ میں بھی موجود ہیں اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی ان کی باقاعدہ ٹیمیں بنی ہوئی ہیں اور تحریک ہے کہ جو اسرائیل کے بھی خلاف ہے اور صہپونیوں کے بھی خلاف ہے، اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ صہیونیزم ایک تنظِم ہے کہ جو نہ صرف اسلام کے خلاف بلکہ وہ انسانیت کے خلاف اپنے مفادات کے حق میں انہوں نے اہدافات مقرر کئے ہوئے ہیں اور اس پلان کے تحت وہ لوگ آگے بڑھ رہے ہیں اور انکا بنیادی ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا پر صہیونیوں کا قبضہ ہونا چاہیئے۔ اور جہاں جہاں انکے مفادات ہیں، وہ اسکا تحفظ بھی کرتے ہیں اور ان مفادات کے حصول کیلئے اگر آگے بڑھ سکتے ہیں تو آگے بھی بڑھتے ہیں۔
 
اسرائیل کا وجود خود صہیونیوں کا پلان تھا اور برطانیہ اور فرانس اس سازش میں شریک رہے ہیں، صہیونیوں نے انکے ساتھ مل کر پلان کیا۔ صہیونیوں کے ایک بڑے لیڈر "ہرٹسل" نے یہ بات بھی کی کہ یوگنڈا کو صیہونیوں کیلئے مرکز قرار دیا جائے اور وہاں اپنی حکومت کو قائم کیا جائے۔ ہرٹسل کے مرنے کے بعد صیہونیوں کی جو کانفرنس ہوئی اس میں اس بات کو رد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ فلسطین کو ہی اپنی حکومت کا مرکز بنانا چاہیئے اور وہاں پر تمام یورپی اور حتی افریقی ممالک اور جہاں جہاں بھی یہودی بستے ہیں جنکے پاس اپنا ملک نہیں ہے کے یہودیوں کو جمع کرنا چاہیئے اور فلسطین کو اپنا ملک قرار دیا جانا چاہیئے۔ لہذا یہ سازش، جس کو قبول کیا
گیا اور یہ پلان کیا گیا کہ کس طرح سے فلسطین سے فلسطینیوں کو نکالا جائے، اور وہاں پر یہودیوں کی آبادکاری کی جائے اور انکی آبادی بڑھائی جائے۔
 
لہذا 1908ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں صیہونی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں رسمی طور پر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ فلسطین کو یہودی حکومت کے طور پر سامنے لایا جائے۔ لہذا اسکے بعد ھاورڈ سموئیل نے اپنی برطانوی اراکین کابینہ کو خط لکھا اور اس میں اس نے یہ مطالبہ کیا کہ یورپ میں بسنے والے 40 لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بھیجا جائے تاکہ وہاں پر صیہونی حکومت قائم کی جا سکے، اور برطانوی وزیرخارجہ بل فور نے اس کو قبول کیا اور وعدہ کیا کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ اس وعدے کی پاسداری انہوں نے کی۔ جب برطانیہ فلسطین کو توڑنے میں مصروف تھا تو اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ کام کیا کہ یہودیوں کو یورپ سے مہاجرت کے ذریعے یہاں پر لانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں اسرائیل وجود میں آیا۔
 
اسلام ٹائمز: صیہونیزم اور صیہونیستوں کے بنیادی اہداف کیا ہیں؟
سید احمد اقبال رضوی: جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں انکے بنیادی اہداف میں سے ایک ہدف یہ ہے کہ انہوں نے پوری دنیا پر قبضے کا خواب دیکھا ہے۔ صہیونیست چاہتے ہیں کہ دنیا انکے اختیار میں ہو، دنیا کا اقتصاد انکے اختیار میں ہو، دنیا کی ثقافت انکے اختیار میں ہو، یہی وجہ ہے کہ انکی پارلیمنٹ کے باہر "نیل سے فرات تک" لکھا ہوا ہے اور انکے پرچم کے اندر دو نہروں کی علامت موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پورے کے پورے عالم اسلام کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پورا عالم اسلام انکے کنٹرول میں ہو۔ یہ خاص طور پر عالم اسلام کو قبضے میں لینا چاہتے ہیں۔ ویسے آپ جانتے ہیں کہ یورپ پر بھی انکا قبضہ ہے، امریکہ پر بھی انکا قبضہ ہے، اور بہت سے ممالک میں ان کا اثر و نفوذ ہے جسکے ذریعے سے یہ چاہتے ہیں کہ دنیا پر اپنے تسلط کو مضبوط کریں۔ لہذا ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو یہ نہ صرف عالم اسلام کے دشمن ہیں بلکہ یہ پوری دنیا کے انسانوں کے دشمن ہیں۔
 
صیہونیست اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہر قسم کی جنایت کرتے ہیں، جیسا کہ فلسطین میں دیریاسین کا واقعہ ہے، اور لبنان میں صبرا اور شتیلا کا واقعہ ہے، اور اسکے علاوہ آپ نے دیکھا کہ 2007ء میں لبنان کے اوپر جو حملہ کیا گیا اس میں بیروت کو مسمار کر دیا گیا، جنوبی لبنان کو مسمار کر دیا۔ اسی طرح جب حماس کے خلاف انہوں نے کاروائی کی اور غزہ اور دیگر جگہوں پر جو بمباری کی اور اس میں جو بڑی بڑی جنایتیں انجام دیں وہ تاریخ کے بڑے بڑے جنایتکاروں نے بھی انجام نہیں دیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی طاقتیں پوری دنیا پر اپنے تسلط کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ دنیا کے تمام سورسز انکے اختیار میں ہوں اور کوئی ملک ایسا نہ ہو جو انکے تسلط سے باہر ہو۔ یہ انکا ایک بھیانک خواب جو انشاءاللہ ہر گز شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ امام خمینی رہ نے جو تحریک شروع کی ہے اسکی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور پوری دنیا میں اس وقت صہیونیزم کے خلاف بھرپور نفرت پائی جاتی ہے اور لوگ قیام کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور بہت سی جگہوں پر قیام کیا بھی گیا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل جب سے وجود میں آیا ہے برطانیہ اور امریکہ ہر حوالے سے، چاہے وہ فوجی ہو یا سیاسی، اسرائیل کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ اسرائیل کی اس قدر حمایت کرنے سے برطانیہ اور امریکہ کے کیا اہداف ہیں۔؟
سید احمد اقبال رضوی: یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اسرائیل کے وجود میں آنے میں خصوصی طور پر برطانیہ، فرانس اور اسکے بعد امریکہ نے باقاعدہ حصہ لیا ہے اور اسرائیل کو تاسیس کیا ہے، اس کو ناجائز طور پر وجود بخشنے کی کوشش کی ہے اور اسرائیل کا ناجائز وجود انہیں مملک کی بدولت ہے۔ یہ تمام یورپی ممالک ایک طرح سے خود یہودیوں سے تنگ آئے ہوئے تھے لہذا چاہتے تھے کہ یہودی انکی جان چھوڑیں اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر اپنی حکومت اور اپنا ملک بنا کر رہیں اور جو مشکلات انہوں نے ان ممالک کیلئے ایجاد کی ہوئی تھین ان سے انکی جان چھوٹ جائے۔ دوسرا ان یہودیوں کو سپورٹ کر کے یہ ممالک چاہتے تھے کہ عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کو وجود
بخشا جائے تاکہ عالم اسلام ان کے کنٹرول میں رہے۔
 
مشرق وسطی عالم اسلام کا قلب ہے، فلسطین عالم اسلام کا قلب ہے، تاریخی لحاظ سے یہ سرزمین عربوں کی تھی، تاریخی لحاظ سے یہ سرزمین موحدوں کی تھی، تاریخی لحاظ سے یہ سرزمین مسلمانوں کی ہے۔ وہاں پر جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں انکے مرکز میں فلسطین ہے۔ ایک طرف شام ہے، ایک طرف لبنان ہے، مصر ہے، اردن ہے، اور پھر بارڈر کے دوسری طرف سعودی عرب ہے۔ ان سارے ممالک کے قلب میں اسرائیل کا وجود پیدا کرنے اور اس کو سپورٹ کرنے کا بنیادی مقصد ان تمام اسلامی ممالک کو کنٹرول کرنا اور ان کیلئے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ابھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اردن، مصر، لبنان اور خود فلسطین جیسے ممالک میں امریکی مفادات محفوظ ہیں، یورپی مفادات وہاں پر محفوظ ہیں۔
 
اس وقت اسرائیل کا مسئلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ اگر اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑتا ہے تو خود یورپ اور امریکہ کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ انہوں نے ایک طرح سے اپنے مفادات کو اسرائیل کے مفادات سے نتھی کر دیا ہے اور اگر صیہونی مفادات خطرے میں پڑتے ہیں تو یورپی اور امریکی مفادات بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ لہذا وہ اسرائیل کی سپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسرا مسئلہ جو ہے وہ یہ ہے کہ آپ خود امریکی پارلیمنٹ کو دیکھ لیجئے، امریکی اقتصاد کو دیکھ لیجئے، امریکی میڈیا کو دیکھ لیجئے، یورپی میڈیا کو دیکھ لیجئے، اس وقت یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے اداروں کے سربراہان یا ان میں اثر و نفوذ رکھنے والے افراد سب کے سب صیہونی ہیں۔ لہذا فرانس، امریکہ، یورپ اگر وہ نہ بھی چاہیں تب بھی انہیں مجبوراً اسرائیل کی سپورٹ کرنا پڑے گی۔ صیہونی جو بھی چاہتے ہیں یورپ اور امریکہ سے منوا لیتے ہیں، یورپ اور امریکہ صیہونیوں کی ہر بات ماننے پر مجبور ہے کیونکہ انکا اور انکے اداروں کا مکمل کنٹرول صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہے۔
 
اسلام ٹائمز: ایک عرصے سے اسرائیل اور بھارت کے درمیان مختلف فوجی اور سیکورٹی حوالوں سے تعاون دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آیا ہم کہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اسرائیل اور بھارت سمجھتے ہیں کہ انکے کچھ مشترکہ مفادات یا انکو لاحق کچھ مشترکہ خطرات موجود ہیں؟ اور کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ عالم اسلام مخصوصاً پاکستان میں جاری سازشوں کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی شیطانی مثلث سرگرم عمل ہے؟
سید احمد اقبال رضوی: یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک نظریاتی ملک بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو نظریات کے نام پر سامنے آیا، صیہونی اور یہودی نظریات کی بنیاد پر، دوسری طرف پاکستان ایک ایسا اسلامی ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ یہاں کی اقدار اور مذہبی عادات و رسوم دیگر اسلامی ممالک کے درمیان ایک نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ یہاں کی مذہبی اقدار، لوگوں کے درمیان پائے جانے والے مذہبی جذبات، ہمارا لباس، ہمارا رہن سہن، ہمارا پورا کلچر مذہبی ہے۔ اس کے علاوہ خود پاکستان نے جو ترقی کی اس میں ایک اہم مسئلہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ امریکہ کیلئے بھی تھریٹ ہے اور یورپ اور اسرائیل کیلئے بھی تھریٹ ہے۔ 

لہذا یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ جہاں جہاں بھی ایٹمی طاقت موجود ہے اس کو یورپ، امریکہ اور صیہونی طاقتیں کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسی جگہوں میں سے ایک پاکستان ہے۔ پاکستان میں مذہبی جذبات بھی پائے جاتے ہیں، اسرائیل کے خلاف نفرت بھی پائی جاتی ہے، امریکہ کے خلاف بھی نفرت پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف بھارت سے ہماری تاریخی لحاظ سے دشمنی چلی آ رہی ہے، کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اور بھارت کی آپس میں صلح ہو، دوسری بات یہ کہ وہ پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہیں، پاکستانی قوم کو آپس میں لڑانے کی سازشوں میں، یہاں پر دہشت گردی کے مسئلے کو عام کرنے کی سازشوں میں، اور اس بہانے سے پاکستان میں گھسنا چاہتے ہیں۔ 

کشمیر کے مسئلے کے عنوان سے پاکستان میں گھسنا چاہتے ہیں۔ کشمیر کی بنیاد پر ہی اسرائیل ہندوستان
میں داخل ہوا، اس سے تعلقات بڑھائے، اور وہ تجربات جو اسرائیل کی فوج اور انٹلی جنس نے فلسطینیوں کے خلاف حاصل کئے تھے اس کو بہانہ بنایا اور بھارت کو کہا کہ ہمارے پاس بہت سے تجربات موجود ہیں کہ کشمیر جیسی تحریکوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ لہذا اس بنیاد پر وہ ہندوستان میں داخل ہوئے اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھارتی فوج اور انٹلی جنس کو سروسز فراہم کرنا شروع ہو گئے جو قابل مذمت ہے۔ یہ ایک مشترکہ مفاد ہے جس میں اسرائیل، امریکہ اور یورپی ممالک بھارت کے ساتھ شریک ہیں۔ لہذا اس بنیاد پر ہمارا قانونی اور شرعی حق ہے کہ ہم پاکستان میں امریکی اور صیہونی اثر و نفوذ کو پیدا نہ ہونے دیں اور اگر پیدا ہو جائے تو اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں کہ یہی پاکستان کی نجات کا باعث ہے۔
 
اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر استکبار جہانی اور صیہونیزم کے خلاف مزاحمت اور مقاومت میں ایران کے اسلامی انقلاب کا کیا کردار ہے۔؟
سید احمد اقبال رضوی: میں سجھتا ہوں کہ جو تحریک فلسطین کے مسئلے میں ٹھنڈی پڑ گئی تھی وہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئی۔ 1979ء میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے پوری دنیا کے مستضعف اور ظلم میں پسنے والے عوام کو اور خود عالم اسلام کو حوصلہ دیا کہ اگر اقوام اپنے بل بوتے پر اور اپنے پاوں پر کھڑے ہو کر عالمی استکبار کا مقابلہ کرنا چاہیں اور اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں تو خداوند عالم انہیں کامیابی عطا کرے گا۔ لہذا فلسطینیوں نے بھی انقلاب اسلامی ایران کا مطالعہ کیا، اس سے متاثر ہوئے اور اس وقت فلسطین میں جو انتفاضہ تحریک دیکھنے میں آ رہی ہے یہ خالصتاً انقلاب اسلامی ایران کی بدولت ہے۔ 

فلسطینی قوم جس کا تمام اسلامی ممالک ساتھ چھوڑ بیٹھے تھے، تن تنہا حماس، جہاد اسلامی اور فلسطینی عوام سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرتے تھے، انہوں نے دیکھا کہ کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہے لیکن انہوں نے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابیوں کو دیکھا اور امریکہ کی طرف سے صدام کے ذریعے مسلط کی گئی 8 سالہ جنگ میں ایران کی کامیابیوں کو دیکھا، انکی مزاحمت اور ریزسٹنس دیکھی، اور پھر انقلاب اسلامی ایران کی مسلسل ترقی کے مراحل کو طے کرنا دیکھا۔ 

اسی اسلامی انقلاب کی بدولت لبنان میں حزب اللہ کا قیام وجود میں آتا ہے اور وہ پے در پے اسرائیل کو لبنان کے محاذ پر شکست دیتی ہے۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنتی ہے کہ خود فلسطینی عوام میں ایک جذبہ پیدا ہو کہ جب ایرانی یہ کام کر سکتے ہیں اور جب لبنانی یہ کام کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی میدان میں نکلنا چاہیئے، اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنی اسلامی تحریک کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ اور خداوند عالم کامیابی انہیں لوگوں کو عطا کرتا ہے جو مقاومت کرتے ہیں، جس طرح سے ایران میں ایرانی عوام اور لبنان میں حزب اللہ نے کی۔
 
لہذا ایران کے اسلامی انقلاب نے فلسطین کے اوپر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، امام خمینی رہ کی تحریک نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اور حقیقتاً انقلاب اسلامی ایران نے بہت بڑی خدمت بیت المقدس کی، فلسطینی عوام کی اور قضیہ قدس کی کی ہے۔ آج اگر قضیہ قدس زندہ ہے، آج اگر فلسطینی عوام سیاسی حوالے سے زندہ ہیں اور اپنے وطن اور اپنے فلسطین کی بات کرتی ہے، صیہونیوں کے خلاف بغاوت اور مقابلے کی بات کرتی ہے تو اس کے پیچھے اسلامی جمہوریہ ایران کی بہت بڑی اخلاقی حمایت ہے۔ اسی اخلاقی حمایت کی وجہ سے فلسطینی عوام اپنی تحریک کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ 

ہم سب جانتے ہیں کہ حماس کی حکومت کو ساری دنیا نے رد کر دیا سوائے ایران کے۔ وہ جمہوری طریقے سے اوپر آئے، الیکشن ہوئے، الیکشن میں انہوں نے بھاری اکثریت حاصل کی، اور بڑے پیمانے پر ووٹ لینے کے باوجود جب انکی حکومت بنتی ہے تو ساری دنیا انکی مخالفت کرتی ہے، صرف اس لئے کہ انکی حکومت انٹی صہیونیزم ہے، انٹی اسرائیل ہے، انٹی امریکہ ہے۔ لیکن ایران نے اس وقت بھی ان کو سپورٹ کیا اور آج بھی انہیں سپورٹ کر رہی ہے۔ ایران اس بات کو سمجھتا ہے اور پوری دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ حماس، جہاد اسلامی اور خود فلسطینی عوام اسرائیل کو نہیں چاہتے اور قبول نہیں کرتے اور نتیجتاً عالم اسلام ان
کا حامی اور اسرائیل کو عالم اسلام بھی قبول نہیں کرتا۔ بہرحال ایران کا اسلامی انقلاب فلسطینیوں کا بہت بڑا سپورٹر ہے۔
 
اسلام ٹائمز: امام خمینی رہ نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے، جمعۃ الوداع، کو یوم قدس کے طور پر اعلان کیا ہے۔ یوم القدس کا مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور مسلمانوں میں بیت المقدس کی نسبت جذبات کو ابھارنے میں کیا کردار اور اہمیت ہے؟
سید احمد اقبال رضوی: جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اعراب کی شکست کے بعد مسئلہ فلسطین ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اسرائیلی فوج کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہو چکا تھا کہ "جیش الذی لا یقہر" [وہ فوج جس پر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی]، اسرائیل کی ایسی فوج ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ لہذا سب اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے، کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ہو چکا تھا، بعد میں مزید کانفرنسز ہو چکی تھیں جن میں اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کی جا چکا تھا، اعراب سر تسلیم خم ہو چکے تھے کہ ہم اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا، اب اس سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ لہذا یاسر عرفات، جس نے اسلحہ کبھی زمین پر نہیں رکھا تھا، اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہو گیا اور پھر مذاکرات کی سازش شروع ہو گئی۔
 
آہستہ آہستہ مسلمان قضیہ فلسطین کو بھولتے چلے گئے اور سب کہنے لگے کہ مسئلہ فلسطین کو اب ختم ہونا چاہیئے تاکہ جنگ ختم ہو جائے۔ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیئے۔ حتی پاکستان جیسے ملک میں جو مذہبی اعتبار سے انتہا پسند سمجھا جاتا تھا، حکام ایسی باتیں کرنے لگے اور آہستہ آہستہ ایسا کلچر رائج کیا جانے لگا کہ عوام بھی آہستہ آہستہ یہ کہنے لگے کہ اسرائیل کو قبول کر لینا چاہیئے، فلسطینی اسرائیل کے خلاف دہشت گردی میں مصروف ہیں، بمب دھماکے ہو رہے ہیں، فلان ہو رہا ہے۔ آہستہ آہستہ مسلمان اس بات کو قبول کرنے لگے کہ اسرائیل نامی کوئی حکومت موجود ہے، کوئی ملک موجود ہے، جسے ہمیں قبول کر لینا چاہیئے، اور اب فلسطین کا مسئلہ حل ہو جانا چاہیئے۔ 

اس وقت میں امام خمینی رہ نے اس تبلیغ کو زندہ کیا، فلسطین کا نعرہ بلند کیا، صہیونیوں کے خلاف آواز بلند کی، اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی۔ امام خمینی رہ نے یہ اعلان کیا کہ اگر تمام مسلمان مل کر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل کے اوپر ڈالیں تو اسرائیل بہ جائے گا، اسرائیل نابود ہو جائے گا، اور اسرائیل ایک سرطانی ٹیومر ہے، اسکو کاٹ کر پھینک دینا چاہیئے۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کیا، اعلان برائت کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف بیداری ایک لہر پیدا ہو گئی۔ لہذا امام خمینی رہ کی طرف سے روز قدس کا اعلان کرنا باعث بنا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس آہستہ آہستہ ایران سے شروع ہو کر آج افریقہ، یورپ، امریکہ، ایشیا سمیت تمام دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ 

اس دن عالم اسلام صیہونیوں اور امریکیوں کے خلاف اعلان برائت کرتا ہے اور فلسطین کی حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آج پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں کانفرنسز منعقد ہو رہی ہیں، مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ یہ سب امام خمینی رہ کے اسلامی انقلاب کی بدولت ہے، اس جہاد کی بدولت ہے جو انہوں نے اسرائیل کے خلاف شروع کیا۔ امام خمینی رہ نے سیاسی اور عملی لحاظ سے فلسطینیوں کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں آج مسئلہ فلسطین زندہ ہے ورنہ اعراب اس مسئلے کو ختم کر چکے تھے اور یہ طے کر چکے تھے کہ اب اسرائیل سے مقابلہ نہیں ہو سکتا اور اسے تسلیم کر لینا چاہیئے۔
 
ابھی بھی خارجہ پالیسی میں ایران کا عرب ممالک سے بنیادی اختلاف یہی ہے کہ ایران کسی صورت میں بھی اسرائیل کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ جبکہ بہت سے عرب ممالک جن میں مصر اور اردن بھی شامل ہیں اسرائیلیوں کے ساتھ ہاتھ بھی ملا رہے ہیں، انکے ساتھ کھانا بھی کھا رہے ہیں، انکے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں، اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور تمام اسلامی ممالک پر بھی امپوز کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کریں۔ بہرحال
آج اگر فلسطین کا مسئلہ زندہ ہے، فلسطینی تحریک اگر زندہ ہے، فلسطینی انتفاضہ اگرزندہ ہے تو وہ انقلاب اسلامی ایران کی بدولت ہے، انکی اخلاقی اور سیاسی حمایت کی بدولت ہے۔ اس بات کا اعتراف خود فلسطینی مسئولین بھی کرتے ہیں۔ 

آپ حماس کے مسئولین کو دیکھئِے یا جہاد اسلامی کے مسئولین کو دیکھئے، جو عوام کے نمائندے ہیں جنہوں نے جہاد کا علم بلند کیا ہوا ہے، آپ انکے بیانات دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ انہیں فلسطین کے مسئلے میں تن تنہا پوری دنیا میں اگر کوئی سپورٹر نظر آتا ہے تو وہ ایران ہے اور دوسرے مرحلے پر شام ہے۔ شام نے بھی ایران کی وجہ سے آج اسرائیل کے خلاف قیام کیا ہوا ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب پوری دنیا کیلئے نعمت ہے اور مخصوصاً فلسطینی انتفاضہ کیلئے بہت بڑی نعمت الہی خداوند عالم نے عالم اسلام کو عطا کی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین اور یوم القدس کے حوالے سے مسلمانوں کے کیا وظائف بنتے ہیں؟
سید احمد اقبال رضوی: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: "من اصبح و لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم" [جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اسے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں کوئی فکر نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں]۔ لہذا امام خمینی رہ نے صیہونیزم اور اسرائیل کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے وہ یقیناً رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسی قول کا نتیجہ ہے اور انکے امر کی تعمیل کیلئے امام خمینی رہ اٹھے ہیں اور اسکی تعمیل تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر ہم فلسطینیوں کی سپورٹ کئے بغیر، فلسطینیوں کا درد رکھے بغیر، نمازیں پڑھتے ہیں تو ان نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں، اگر ہم روزے رکھتے ہیں تو ہمارے روزوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ 

اگر مسلمانوں کے حالات سے آگاہی نہ ہو، انکے دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو یہ فردی عبادات ہمارے کسی کام نہیں آئیں گی جب تک ہم اجتماعی عبادات کو انجام نہیں دیتے۔ اجتماعی عبادات میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے، فلسطینی ملت کا مسئلہ ہے۔ خود فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جو تمام عالم اسلام کے مفادات کا مرکز ہے۔ اگر ہم نے فلسطین کی حفاظت کی تو عالم اسلام کے مفادات کی حفاظت کی اور اگر ہم نے فلسطین کے مسئلے سے چشم پوشی کی تو ہم نے عالم اسلام کے مفادات سے چشم پوشی کی۔
 
لہذا فلسطینی عوام کی مدد اور انکی کمک، ان کیلئے آواز بلند کرنا، ان کیلئے نعرہ بلند کرنا، انکے حق میں نعرہ بلند کرنا، اسرائیل کے خلاف نعرہ بلند کرنا، امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگانا بہت بڑی عبادت ہے۔ اگر ہم یہ کر سکے تو یقیناً عالم اسلام اجتماعی لحاظ سے بہت ترقی کرے گا اور استحکام حاصل کرے گا۔ اور اگر ہم اپنے اس وظیفے کو انجام دینے میں ناکام رہے تو اس کے نتیجے میں تمام عالم اسلام کمزور ہو گا، اسلام ممالک کمزور ہوں گے، اور جیسا کہ عرض کر چکا ہوں اسرائیل کا ہدف صرف فلسطین نہیں تھا بلکہ آپ نے دیکھا مصر کے علاقے پر بھی اس نے قبضہ کیا، اردن کے علاقے پر بھی قبضہ کیا، لبنان کے پورے علاقے پر انہوں نے قبضہ کیا، لبنان کے اوپر قبضہ کر لیا تھا، حزب اللہ کی برکت سے اسرائیل پیچھے ہٹا ہے اور ابھی شیبا فارمز تک محدود ہو گیا ہے۔
 
لہذا اگر ہم اس صیہونی سرطانی ٹیومر کا مقابلہ نہیں کریں گے اور اس کو اکھاڑ کر نہیں پھینکیں گے تو آہستہ آہستہ تمام اسلامی ممالک کمزور ہو جائیں گے۔ لہذا ہم سب کا شرعی اور قانونی فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطین کا دفاع کریں، فلسطین کے حق میں ان کی حمایت کریں، ان کیلئے نعرے لگائیں اور اسرائیل کے خلاف قیام کریں اور عملی جدوجہد کریں۔ یوم القدس کے حوالے سے بھی امام خمینی رہ نے جو اعلان کیا ہے تو انہوں نے ہمارے لئے بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ ہم بھرپور طریقے سے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کر سکیں۔ یہ ایک واجب شرعی اور شرعی ذمہ داری ہے، جس طرح سے نماز ہم پر واجب ہے، روزہ ہم پر فرض ہے، حج ہم پر فرض ہے، اسی طرح سے فلسطینی عوام اور قوم اور بیت المقدس کا دفاع کرنا اور انکی حمایت کا اظہار کرنا ہم پر واجب ہے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
خبر کا کوڈ : 11244
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

France
Shoot, who would have tohuhgt that it was that easy?
ہماری پیشکش