0
Tuesday 22 Nov 2011 14:37

یہودی لابی امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ چاہتی ہے، ایسا ہوا تو امریکہ کو بھاری قیمت چکانا ہو گی، خورشید قصوری

یہودی لابی امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ چاہتی ہے، ایسا ہوا تو امریکہ کو بھاری قیمت چکانا ہو گی، خورشید قصوری
خورشید محمود قصوری پاکستان کے سابق وزیر خارجہ ہیں، جنہوں نے تحریک استقلال سے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تو ایوان اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ صاف گو سیاستدان میاں محمود علی قصور ی کے صاحبزادے ہیں اور اپنے والد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے لاہور میں رہائش پذیر ہونے کے باوجود قصور سے قومی اسمبلی کے حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ ق کے وزرائے اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور شوکت عزیز کے ساتھ وزیر خارجہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں۔ سابق وزیر خارجہ نے ملک کو بڑے بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کی اور ہر طرح کی لابیوں کا عالمی سطح پر مقابلہ کیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو برآمد کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نیٹ ورک کے مبینہ الزام کا مقابلہ کیا اور عالمی برادری کو باور کروایا کہ پاکستان ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے۔ 

 اسلام ٹائمز:ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور ایران کے درمیان پھر محاذ آرائی بڑھ رہی ہے اور حملے کی باتیں کی جا رہی ہیں؟ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔؟
خورشید قصوری:ایران پر حملہ خطرناک بات ہو گی، اس کا منفی اثر پڑے گا، خطہ غیر مستحکم ہو گا۔ میں جب وزیر خارجہ تھا تو ہم نے کوشش کی تھی کہ ایران اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کو کم کیا جائے۔ اس حوالے سے میرے ایرانی ایٹمی پروگرام کے سربراہ علی لاریجانی سے رابطے تھے۔ اب شاید وہ ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر ہیں اور صدارتی الیکشن میں بھی انہوں نے حصہ لیا تھا۔ وہ میرے دفتر تشریف لائے، ہم نے چار گھنٹے تک ملاقات کی۔ میں نے امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس سے بات کی کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ آپ مذاکرات اور سفارتکاری سے حالات نارمل کریں، مگر امریکہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز جنگ کی صورت میں زیادہ نقصان کس کا ہو گا۔؟
خورشید قصوری:میرے خیال میں امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہو گا۔ ہمارے بارڈر پر افغانستان میں 32 سال سے سوویت یونین کی 1979ء میں آمد کی وجہ سے جنگ جاری ہے، بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اب تیسرے بارڈر پر بھی جنگ شروع ہو گئی تو حالات بہت خراب ہوں گے۔ جب بھی امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کا سنتا ہوں تو گھبراتا ہوں، ہم پہلے سے ہی دہشتگردی اور بدامنی کا شکار ہے۔

اسلام ٹائمز امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کون چاہتا ہے۔؟
خورشید قصوری: امریکہ میں اس وقت 9.2 فیصد شرح سے بیروزگاری ہے، جس کی وجہ سے امریکی صدر باراک اوباما پر اصلاحات کے لئے دباو بڑھ رہا ہے کہ عوام کو روزگار فراہم کیا جائے۔ اس وجہ سے امریکی صدر کی مقبولیت پچاس فیصد کم ہو گئی ہے۔ باراک اوباما کی مقبولیت میں اضافے کے لئے یہودی لابی چاہتی ہے کہ ایران سے چھیڑ چھاڑ کر دی جائے۔ تو وہ آئندہ انتخابات جیت سکیں گے اور آپ کو معلوم ہو گا کہ اسرائیلی لابی کا امریکی میڈیا، بینکنگ اور امریکی کانگریس پر کنٹرول ہے۔ جو اپنے مفا ات کے حق میں پالیسیاں بنوانے کے لئے اثر و رسوخ اور دباو استعمال کرتی ہے۔ امریکی کانگریس کے اراکین کو یہودی لابی باقاعدہ threat کرتی ہے کہ ان کے مفادات کے تحفظ کی پالیسیوں کی حمایت نہ کرنے کی صورت میں انہیں آئندہ انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز:پاکستان کو ان دونوں ممالک کے درمیان حالات بہتر کرنے میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔؟
خورشید قصوری:پاکستان کی اب بین الاقوامی سطح پر پہلے والی پوزیشن نہیں رہی کہ ایران اور امریکہ کے درمیان حالات کو معمول پر لا سکے، ہم دہشتگردی کی وجہ سے اپنے اندرونی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، ہمارے دور میں پاکستان پہلی نو اہم ریاستوں میں شامل تھا۔ اب تو معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے، پاکستان کیا رول ادار کر سکتا ہے۔؟

اسلام ٹائمز:ایرا ن کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔؟
خورشید قصوری:ایران کی اسلامی حکومت کو چاہیے کہ شدت پسندی پر مشتمل بیانات سے گریز کرے، جذبات بھڑکانے والے بیانات نہ دیں، جس سے امریکہ میں موجود شدت پسندوں کی خواہش پوری ہو کہ ایران کے ساتھ امریکہ کی جنگ ہو۔ افغانستان جہاں سے امریکہ اپنی فوجیں نکال رہا ہے اور مشرق وسطٰی میں امریکی مفادات کو ایران نقصان پہنچا سکتا ہے، جس کی امریکہ کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

اسلام ٹائمز:کیا diplomatic norms میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک سے اپنی ہی فوج کے خلاف مدد طلب کرے۔؟
خورشید قصوری:ڈپلومیٹک نارمز کا اس سے کوئی تعلق نہیں، میمو خفیہ طور پر لکھا گیا اور فوج سے چھپا کر لکھا گیا، دوسرے ملک سے مدد مانگنے کے حوالے سے اسی وقت کوئی بات ہوتی ہے جب دونوں same page پر ہوں اور ایک دوسرے کے بارے میں پتہ ہو۔ اب مبینہ میمو کے بارے ایوان صدر اور پاکستانی سفارتخانہ دونوں انکاری ہیں تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیں۔ تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ اعجاز منصور پاکستانی شہری نہیں، امریکی ہے۔ اس تک پاکستان کی دسترس نہیں ہو گی لیکن اسے شامل تفتیش تو کیا جاسکتا ہے۔
میمورنڈم پر لکھے گئے نکات بہت خطرناک ہیں، خدا کرے یہ جھوٹ ہو۔ مگر اگر لکھا گیا ہے تو بڑی تشویش ناک بات ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام insecure ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی کو اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں تحفظات ہیں تو وزارت دفاع اور دفتر خارجہ سے بات کرے، بیرون ملک تو نہیں بتایا جاتا۔ جب آپ ایٹمی ریاست ہوتے ہیں تو آپ کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ دشمن ممالک آپ کے خلاف منفی پراپیگنڈا بھی کرتے ہیں کہ بم چرایا جا سکتا ہے یا دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جائے گا۔ میں کمانڈ اتھارٹی کے نیچے کمیٹی کا وائس چیئرمین رہا ہوں، مجھے پتہ ہے کہ پاکستانی ایٹمی پروگرام محفوظ ہے۔

اسلام ٹائمز:اس صورتحال سے کیا حکومت اور فوج کے درمیان محاذ آرائی بڑھے گی۔؟
خورشید قصوری:مبینہ میمورنڈم کے نکات چونکا دینے والے ہیں، اس سے فوج اور حکومت کے درمیان خلیج کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ جب فوج میں یہ احساس پیدا ہو کہ ان کی اپنی حکومت ہی ان کے خلاف ہے تو خلیج تو پیدا ہو گی۔ لیکن ایسی کوئی صورت حال نہیں۔ میں نہیں کہتا پاکستان کا میڈیا اس پر unanimous ہے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی تو ججوں کی بحالی کے وقت ایسا کر لیتی، مگر فوج کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 115866
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش