0
Tuesday 22 Nov 2011 13:37

ایران کے علاوہ تمام عالم اسلام پر امریکی ایجنٹ مسلط ہیں، صاحبزادہ ہارون الرشید

ایران کے علاوہ تمام عالم اسلام پر امریکی ایجنٹ مسلط ہیں، صاحبزادہ ہارون الرشید
جماعت اسلامی فاٹا کے امیر صاحبزادہ ہارون الرشید کا بنیادی تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے، آپ 1968ء کو باجوڑ ایجنسی کی تحصیل سلارزئی کے گائوں گنگ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی سکول میں حاصل کی، میٹرک کا امتحان ایجنسی ہیڈ کوراٹر خار کے ہائی سکول سے پاس کیا، ایف اے تک تعلیم ڈگری کالج خار سے حاصل کی، پھر ڈگری کالج تیمر گرہ سے بی اے کیا، اس کے بعد آپ نے ایجوکیشن میں ایم اے کی ڈگری جامعہ پنجاب لاہور سے حاصل کی، آپ زمانہ طالب علمی میں ہی جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلباء کیساتھ منسلک ہو گئے اور مختلف عہدوں پر فائز رہے، تعلیم سے فارغ ہو کر آپ نے باقاعدہ طور پر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی اور مختلف عہدے آپ کے پاس رہے، 2002ء میں آپ باجوڑ ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 2006ء میں پہلے امریکی ڈرون حملے پر اسمبلی رکنیت سے احتجاجاً استعفٰی دے دیا، ہارون الرشید صاحب جماعت اسلامی کے رہنماء ہونے کے علاوہ فاٹا کی اہم شخصیت کے طور بھی جانے جاتے ہیں، آج کل آپ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے نائب امیر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے ہارون الرشید کیساتھ قبائلی علاقوں کی موجودہ صورتحال اور سیاسی منظر نامہ پر نشست کا اہتمام کیا، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:آپ کا تعلق چونکہ قبائلی علاقہ جات سے ہے، لہٰذا ہمارے قارئین کو علاقہ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بتائیں اور آپ کے خیال میں فاٹا کے حالات خراب کرنے کی اصل ذمہ دار قوتیں کون سی ہیں۔؟
ہارون الرشید:دیکھیں فاٹا کو قیام پاکستان سے لیکر اب تک مسلسل نظرانداز کیا گیا ہے، قبائلی عوام نے انگریز دور میں بھی مشکلات برداشت کیں اور مردانہ وار مقابلہ کیا، اس وقت فاٹا عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، 2001ء میں افغانستان پر امریکی کی جانب سے حملے کے بعد اس کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں پر بھی پڑے، آج بھی بے گناہ قبائلی امریکی ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز کا نشانہ بن رہے ہیں، جنرل مشرف نے نائین الیون کے بعد جس طرح فوری طور امریکہ کے مطالبات تسلیم کئے اس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے، امریکہ کی جانب سے سب سے پہلا ڈرون حملہ 2006ء میں میرے علاقہ باجوڑ ایجنسی میں ہوا، جہاں مدرسہ کو نشانہ بنایا گیا اور 80 بچے شہید کر دیئے گئے، آپ یقین کیجئے وہ سب بے گناہ تھے، اس وقت میں قومی اسمبلی کا رکن تھا اس واقعہ پر میں نے احتجاجاً اسمبلی رکنیت سے استعفٰی دے دیا اور جماعت اسلامی کے رہنماء سراج الحق بھی صوبائی سینئر وزارت سے مستعفی ہو گئے تھے، اس واقعہ پر آغاز میں جنرل مشرف، اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپائو اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر شوکت سلطان نے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم بعد حکام نے تسلیم کر لیا، جس کے بعد امریکہ نے بھی کہا کہ یہ حملہ القاعدہ رہنماء ایمن الظواہری کی موجودگی کی اطلاع پر کیا گیا تھا لیکن وہ یہاں موجود نہیں تھا۔
 
اب تک ہونے والے سینکڑوں ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں اور ان کا دہشتگردی سے کسی قسم کا تعلق نہیں تھا، فاٹا میں تقریباً ایک پوری نسل ہی ختم کر دی گئی ہے، پاکستان کے قبائلی عوام کو گزشتہ 64سال کے دوران مسلسل نظرانداز کیا گیا ہے، قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے اعلان کیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں فوجی چیک پوسٹوں کی قطعی ضرورت نہیں، یہ قبائلی پاکستان کے بغیر تنخواہ دار سپاہی ہیں، لیکن حکمرانوں نے قائداعظم کے اس فرمان کے بالکل برعکس اقدامات کئے، پاکستان کے آئین میں قبائلی علاقوں کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ یہ علاقے براہ راست صدر مملکت کے اختیار میں ہوں گے اور یہ علاقے پولیس اور عدالتوں کی دسترس سے باہر ہوں گے، اب آپ خود اندازہ لگائیں، جن علاقوں میں پولیس اور عدالتیں موجود نہ ہوں وہاں کیا صورتحال ہو سکتی ہے۔
 
موجودہ حکمرانوں کی جانب سے فاٹا میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے نفاذ کو ہم خوش آئند قرار دیتے ہیں، اس اقدام سے اب فاٹا میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہو گی، دوسری جانب حکومت نے فاٹا کیلئے ایک نیا ایکٹ متعارف کرایا ہے، جو ایف سی آر سے بھی زیادہ خطرناک قانون ہے، اس قانون کے تحت 2008ء سے لیکر اب تک ہونے والے فوجی آپریشنز اور اس کے بعد بھی ہونے والے تمام آپریشنز کو تحفظ دیا جائے گا اور اس میں ہونے والے تمام اقدامات کو تحفظ دیا جائے گا، اب قبائل کو ایف سی آر جو انتہائی غلط قانون تھا اس کے بعد اس قانون کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، ہمارے حکمرانوں نے امریکی مفادات کی خاطر ملک کی سلامتی کو دائو پر لگا دیا ہے، یہ سب کچھ امریکی ڈکٹیشن پر کیا جا رہا ہے۔
 
سابق گورنر خیبر پختونخوا علی محمد جان اورکزئی نے فاٹا کے حالات کی بہتری کیلئے ایک قدم اٹھایا اور امن معاہدہ کے سلسلے میں باجوڑ ایجنسی میں ایک جرگہ کا اہتمام کیا گیا، اس سلسلے میں ایک ہزار سے زائد قبائلی مشران کو دعوت نامے بھی بھجوائے گئے، لیکن جرگہ کے انعقاد سے 3 گھنٹے قبل امریکہ نے پاکستان کے اسی قبائلی علاقہ پر بمباری کر دی اور یوں وہ جرگہ منسوخ کرنا پڑا اور امن عمل سبوتاژ ہو گیا، امن معاہدہ کی کوشش پر گورنر علی جان اورکزئی کو امریکہ طلب کیا گیا اور ان اس اقدام پر وضاحت طلب کی گئی، جس کے بعد انہیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا، افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے قبائلی علاقوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے، افغانستان کے تعلقات پاکستان کیساتھ کبھی بھی زیادہ اچھے نہیں رہے، اس کے مقابلہ میں افغانستان کے بھارت سے تعلقات زیادہ ہیں، اس ساری صورتحال میں پشتون بیلٹ کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
 
اسلام ٹائمز:کرم ایجنسی کے علاقہ پاراچنار کے حالات عرصہ دراز سے قابل تشویش ہیں، آپ ان حالات کا ذمہ دار کس کو ٹھہراتے ہیں۔؟
ہارون الرشید:پارا چنار اور پاکستان کے دیگر قبائلی علاقوں کی صورتحال تقریباً ایک جیسی ہی ہے اور پاراچنار کی موجودہ صورتحال بھی امریکی مداخلت اور ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، حکومت کو امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔
 
اسلام ٹائمز:پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملک کی دینی جماعتیں اقتدار میں آکر مثبت تبدیلی لا سکتی ہیں یا پھر عوام کو ایک بار پھر انہی آزمائی ہوئی سیاسی جماعتوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔؟
ہارون الرشید:پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک میں بادشاہوں، جاگیر داروں اور وڈیروں کی اجارہ داری قائم ہے، قیام پاکستان کے بعد سے یہی جاگیردار حکومت اور سیاست پر مسلط رہے ہیں، یہ ایک ہی قسم کے لوگ ہیں، وہی چند خاندان ہیں جو انگریز کے پروردہ تھے، وہی آج بھی سیاسی نظام میں بیٹھے ہوئے ہیں، سیاسی جماعتوں کے صرف نام مختلف ہیں، لیکن ان سے یہ وہی جاگیرار لوگوں کا گروہ ہے، جو کبھی کسی پارٹی میں ہوتا ہے تو کبھی کسی اور پارٹی کی شکل میں، کبھی یہ مارشل لاء کے نام پر کام کرتے ہیں تو کبھی جمہوریت کے نام پر، لیکن ایک طبقہ اس ملک و قوم پر مسلط ہے۔

مجھے بہت امید ہے کہ پوری مسلم دنیا میں بیداری اور تبدیلی کی ایک لہر اٹھی ہے اور یہ خلاف توقع ہے، جس طرح تیونس، مصر، لیبیا اور باقی ممالک میں ایک نئی لہر آئی ہے یہ ایک خوش آئند امر ہے، ان ممالک کے مقابلہ میں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ماشاءاللہ یہ مسلم ملک اور یہاں دینی جماعتوں نے بہت کام کیا ہے، جن ممالک کا ابھی میں نے ذکر کیا وہاں بھی اسلامی جماعتوں کو سپوٹ کیا گیا ہے اور ان ممالک کو فکری غذا پاکستان سے ملی ہے، مولانا مودودی کی کتابوں اور لٹریچر کے نتیجے میں وہاں ایک نسل تیار ہوئی اور اسلامی تحریکیں اٹھیں اور وہ لوگ ایک بہت بڑی تبدیلی کی طرف گئے، ترکی کی مثال سامنے ہے، مجھے مکمل یقین ہے کہ پاکستان میں جو ایک ڈیڈلاک ہے، وہ ختم ہو گا اور انشاءاللہ یہاں جمہوری اور آئینی تبدیلی آئے گی۔
 
ہمارے ملک کے آئین مکمل اسلامی شریعیت نافذ کرنے کی گنجائش موجود ہے، یہاں آئینی اصلاحات کی بہت کم ضرورت ہے، ہمارا آئین اسلامی ہے، اس میں اللہ تعالٰی کی حاکمیت اعلٰی کو تسلیم کیا گیا ہے، آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اس ملک کا قانون قرآن و سنت کے عین مطابق ہو گا، پاکستان کی پارلیمنٹ مغربی جمہوریت کی طرز پر آزاد پارلیمنٹ نہیں ہو گی کہ جسے حلال سمجھے اسے حلال کر دے جسے حرام سمجھے اسے حرام کر دے، یہاں پارلیمنٹ بھی پابند ہے کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی اور اگر کرے گی تو کالعدم ہو گی، یہاں پارلیمنٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ موجودہ قوانین کو بھی قرآن و سنت کے مطابق بنائے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ گزشتہ 64 سال سے اقتدار میں ہیں وہ اس آئین کیساتھ وفادار ہیں اور نہ ہی عوام کیساتھ مخلص، قرآن و سنت سے تو انہیں الرجی ہے، اس حوالے سے صرف عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
 
جس طرح کی بیداری آئی ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ آئندہ انتخابات میں لوگ دینی فکری لوگوں اور دینی جماعتوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کریں گے، عوام کو بھی معلوم ہے کہ ہم جب بھی پارلیمنٹ میں گئے ہیں ہمارے کسی فرد پر کرپشن یا ملک سے غداری کا الزام نہیں ہے، ہم نے ملک اور قوم کی خدمت کی ہے، قومی اور ملی مفادات کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے، اس کے علاوہ قربانیوں کا بھی ایک تاریخی سلسلہ ہے، عوام نے ماضی کے مقابلہ میں بہت کچھ سیکھا ہے، ہمیں امید ہے کہ لوگ انشاءاللہ آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو پارلیمنٹ تک پہنچائیں گے اور پھر اس ملک میں آئینی طرز پر قرآن و حدیث کی روشنی میں مثبت تبدیلی آئے گی، کرپشن اور بدامنی کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان میں نئے دور کا آغاز ہو گا۔
 
اسلام ٹائمز:جماعت اسلامی کے اہم رہنماء کی حیثیت سے آپ عالمی سطح پر ایران کے موقف کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ہارون الرشید:ایران کا عالمی سطح پر جو سٹینڈ رہا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ وہ بہت اچھا ہے، اس کا موقف ملی و قومی غیرت پر مبنی اور امت کے مفاد میں ہے، ایران نے دوسرے مسلم ممالک پر ثابت کر دیا کہ اگر چھوٹا ملک ہونے کے باوجود قومی غیرت کیلئے مضبوط موقف اپنایا جائے تو نہ صرف وہ ملک زندہ رہ سکتا ہے بلکہ ترقی بھی کر سکتا ہے، روز اول سے ایران کا امریکہ کے ساتھ مخالفانہ رویہ ہے، میں یہ کہوں گا کہ ''اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔'' اگر ایران اپنے اصولی موقف کی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے اور ترقی بھی کر سکتا ہے تو پاکستان جو 17 کروڑ عوام کا ملک ہے وہ امریکہ کے بغیر کیوں نہیں رہ سکتا؟۔
 
ایران میں بہت ترقی ہوئی ہے، وہاں امن و امان کی صورتحال ٹھیک ہے، ان کا باقاعدہ اپنا ایک سسٹم اور قانون ہے، ایران پاکستان کیلئے ایک مثال ہے، بیت المقدس کے حوالے سے ایران کی پالیسی اور امریکہ و یہودیوں کی مخالفت میں موقف پوری امت کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، بدقسمتی سے باقی عالم اسلام پر امریکی یجنٹ مسلط ہیں اور وہ مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا قتل عام کر رہے ہیں، ہم ایران کے عالمی سطح پر سٹینڈ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مسلم دنیا کے عوام کو بھی چاہیئے کہ وہ ایسا موقف رکھنے والے افراد کو ووٹ دیں اور پارلیمنٹ تک پہنچائیں جو حقیقت میں امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کر سکیں۔
 ایرانی حکمرانوں کی پالیسیوں کے باعث پوری دنیا میں ان کی عزت ہے، ہمارے ملک پر جو امریکی ایجنٹ مسلط ہیں وہ تو ہماری بے عزتی کی وجہ بن رہے ہیں، بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کا پاسپورٹ دیکھ کر ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ چور ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے حکمران نے کرپشن کو اس قدر عام کر دیا کہ لوگ پاکستانیوں پر اعتبار نہیں کرتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اس ملک کو ان امریکی غلاموں سے نجات دلائے۔
خبر کا کوڈ : 116048
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش