0
Friday 18 Sep 2009 09:50
امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر سید حسن زیدی:

امام خمینی رہ نے یوم القدس کے اعلان سے جس تحریک کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کی صورت میں نزدیک ہے

امام خمینی رہ نے یوم القدس کے اعلان سے جس تحریک کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کی صورت میں  نزدیک ہے
سید حسن زیدی آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ایم بی اے کے سٹوڈنٹ ہیں۔ حال ہی میں ان سے اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مختلف امور کے بارے میں گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مختصر تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کے بنیادی اہداف پر تھوڑی سی روشنی ڈالئے۔
سید حسن زیدی: امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی ایک ملک گیر طلباء تنظیم ہے جس کا نصب العین نوجوانوں کو تعلیمات قرآن اور محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آشنا کروانا ہے تاکہ وہ ایک اچھا انسان بن کر دین مبین اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی ترقی اور اسکی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں موثر اور اہم کردار ادا کر سکیں۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن در واقع ایک علم و عمل کا کاروان ہے جو طلباء کی تعلیمی سرگرمیوں اور فعالیت کے حوالے سے خدمات انجام دیتا ہے اور ساتھ ساتھ ان میں اخلاقی تربیت کے عنوان سے بھی مختلف پروگرامز ترتیب دیتا ہے۔ آئی ایس او پاکستان ملک میں سالہای سال سے ایک نرسری کا کردار ادا کر رہی ہے جو مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف سوچ کے حامل نوجوانوں کی شکل میں آنے والے خام مال کو کئی تنظیمی اور تربیتی مراحل سے گزارنے کے بعد اس کو معاشرے کے ایک قیمتی اثاثے میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ نوجوان معاشرے میں ایک فعال رکن کی حیثیت سے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے اہداف میں مختلف تعلیمی ورکشاپس کا قیام، قرآنی دروس کا انعقاد، طلاب کی رہنمائی، سکاوٹنگ کے حوالے سے مختلف پروگرامز کا انعقاد، دینی مجالس میں نظم و ضبط ایجاد کرنا اور انکا تحفظ کرنا شامل ہیں۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا تنظیمی ڈھانچہ ایک مرکز اور کئی ڈویژنز پر مشتمل ہے۔ ان ڈویژنز میں کئی یونٹس شامل ہیں۔ آئی ایس او میں رکنیت کی بنیادی شرط طالبعلم ہونا ہے۔ جہاں بھی کم از کم دس طالبعلم موجود ہوں وہاں ایک یونٹ بنایا جا سکتا ہے۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن مختلف شعبوں پر مشتمل ہے جن میں شعبہ تعلیم و تربیت، شعبہ طالبات، شعبہ نشر و اشاعت، شعبہ سکاوٹنگ، شعبہ محبین وغیرہ شامل ہیں۔
اسلام ٹائمز: پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ آپ کی نظر میں اس دہشت گردی اور فرقہ واریت کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟
سید حسن زیدی: اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں ماضی پر ایک نگاہ ڈالنی پڑی گی۔ پاکستان میں مذہبی فرقہ واریت کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب تشیع پاکستان میں ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی۔ اہل تشیع نے تعلیمات محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں ہر میدان میں ایک سیسٹم اور سوچ کو متعارف کروایا جو سب کی طرف سے مورد استقبال قرار پایا۔ پاکستان کے اندر اور باہر موجود اسلام دشمن عناصر کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہیں اپنا اقتدار خطرے میں دکھائی دیا۔ لہذا انہوں نے پاکستان میں مذہب کے نام پر فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ہوا دینا شروع کر دی۔ اس وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت یہ مسئلہ انتہائی پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میں اہل تشیع اور اہل سنت برادران کے درمیان بہت اچھے تعلقات استوار ہیں اور آپس میں آنا جانا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی محافل میں شرکت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ لیکن دشمن کے کچھ آلہ کار اور شر پسند عناصر مسلمانوں کی صفوں میں موجود ہیں جو انکی وحدت اور اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں مقاصد کے حصول کیلئے
وہ مذہبی مقامات جیسے مساجد اور امام بارگاہوں پر دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ایک نیا مسئلہ اغوا کا ہے۔ مختلف شہروں سے موثر شخصیات کو طالبان کی طرف سے اغوا کیا جاتا ہے اور بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس دہشت گردی اور فرقہ واریت میں دو بنیادی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی۔ بیرونی عناصر کی سرپرستی واضح طور پر امریکہ کر رہا ہے۔ امریکہ پاکستان میں یہ کام اپنے ایجنٹس کے ذریعے انجام دے رہا ہے چاہے وہ ایجنٹس طالبان کی صورت میں ہوں یا کسی اور نام نہاد ٹولے کی صورت میں جو خود کو اسلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب رسول کے طرفدار کہتے ہیں۔ دوسری طرف حکمران ٹولے کے بعض عناصر بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن و امان قائم ہو اور پاکستانی عوام مضبوط اور متحد ہوں۔ لہذا یہ عناصر اندرونی طور پر مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اور ایسے مذہبی رہنماوں کی حمایت کرتے ہیں جو اس راستا میں انکے کام آ سکیں۔ یہ مذہبی رہنما نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی بلکہ حکومتی ایجنٹس ہیں۔ لیکن الحمد للہ ان تمام سازشوں کے باوجود ہم نے وحدت کا دامن تھاما ہوا ہے اور اتحاد و وحدت کو ہی مذہبی فرقہ واریت کا حل سمجھتے ہیں۔ ہم دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر وحدت اسلامی کے حوالے سے سرگرم عمل ہیں اور پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے برقرار ہونے میں آئی ایس او کا اہم کردار ہے۔ ہم امیدوار ہیں کہ وحدت اسلامی کے ذریعے اسلام دشمن عناصر کے تمام عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ نے پاکستان میں عالمی استعمار کی سازشوں کا ذکر کیا۔ ہم دوسرے اسلامی ممالک جیسے عراق اور افغانستان میں بھی عالمی استعمار امریکہ اور برطانیہ کی اسلام دشمن کاروائیوں کے شاہد ہیں۔ یہ بتائیے کہ ان تمام سازشوں کے ذریعے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟
سید حسن زیدی: میری نظر میں عالمی استعمار امریکہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ملک، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ترقی کرے، خودکفیل ہو، وہاں پر امن ہو، وہاں کے لوگ امن و سکون سے زندگی گزاریں۔ امریکہ قطعاً یہ نہیں چاہتا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے تمام ممالک اس کے بنائے ہوئے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ اسی وجہ سے امریکہ ہمیشہ سے دوسرے ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے درپے ہے۔ بالکل یہی صورتحال پاکستان میں بھی موجود ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، زمینی ذخائر کے اعتبار سے ایک اہم ملک ہے، نیوکلئر ٹیکنولوجی کے حوالے سے ایک اہم ملک ہے، آب و ہوا اور زراعت کے اعتبار سے بھی دنیا میں منفرد ہے جہاں زراعت کے بھرپور مواقع موجود ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس قدر خدا کی نعمتیں موجود ہونے کے باوجود کیوں ترقی نہیں کرتا؟۔ اس ترقی نہ کرنے کی بنیادی وجہ وہی امریکہ کا اثر و رسوخ اور نفوذ ہے چاہے وہ حکمرانوں کی سطح پر سیاست کی صورت میں ہو یا ملک میں بدامنی کا باعث بننے والے کچھ لوگوں کو سپورٹ کرنے کی صورت میں ہو۔ عالمی استکبار امریکہ کی طرف سے پاکستان میں مداخلت کی کئی وجوہات ہیں، پہلی اہم وجہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ہے، پاکستان کے اردگرد چین، ایران، بھارت اور افغانستان جیسے اہم ممالک واقع ہیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کے چین اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں۔ افغانستان اور بھارت میں تو وہ خود موجود ہے اور انہیں ممالک کے ذریعے امریکہ پاکستان میں دہشت گردی اور ناامنی پھیلانے میں مصروف ہے۔ امریکہ کی کوشش
یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہ ہوں تاکہ وہ ترقی نہ کر سکے۔ دوسری اہم وجہ پاکستان کی نیوکلئر ٹیکنولوجی ہے۔ جس ملک کے پاس بھی نیوکلئر ایسٹس ہوں وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں اور کوئی دوسرا اس کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ پاکستانی قوم انتہائی باوفا، خوددار اور متحد ہے جس کو استعمار چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے عاجز ہے لہذا وہ اس قوم کو اندرونی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ کسی بھی قوم کی مضبوطی میں جہاں سیاسی میدان اہم ہوتا ہے وہاں اس کے قومی اثاثے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان عوام کی فلاح و بہبود اور انکی ترقی کے بجائے ایکدوسرے کے ساتھ اقتدار اور کرسی کی جنگ میں مصروف رہے ہیں۔ اس صورتحال کی بھی ایک بنیادی وجہ عالمی استعمار امریکہ اور برطانیہ کی پاکستان کے اندرونی مسائل میں مداخلت ہے اور امریکی ایجنٹس کا ملکی سیاست میں سرگرم عمل ہونا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا جوہری نظام ایک قیمتی قومی اثاثہ ہے جس پر امریکہ کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں کچھ مسلم ممالک نے ایک بلاک بنانے کی کوشش کی جس کا امریکہ نے مقابلہ کیا اور اس کوشش میں شامل سرکردہ افراد کو ختم کیا۔ اسی کوشش کے نتیجے میں پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن کر ابھرا جس کو امریکہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ ملک میں مذہبی انتشار اور منافرت پھیلانے سے بھی امریکہ کا مقصد پاکستانی قوم کو کمزور کرنا ہے۔ دوسرے ممالک میں امریکی مداخلت اور اسکی سازشوں کی ایک واضح مثال تہران میں امریکی سفارت خانے کی ہے۔ ایران میں اسلام انقلاب کی کامیابی کے بعد انکشاف ہوا کہ تہران میں موجود امریکی سفارتخانہ وہاں پر پیچیدہ جاسوسی اور سیاسی سرگرمیوں میں مشغول ہے، لہذا کچھ انقلابی جوانوں نے اس کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ امریکی سفارتخانہ در اصل ایک جاسوس خانہ تھا جو جدید ترین جاسوسی آلات سے مجہز تھا اور پورے مڈل ایسٹ میں جاسوسی کا کام اسکے ذمہ تھا۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی توسیع کا منصوبہ سامنے آتا ہے۔ پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی توسیع کا بنیادی مقصد علاقے میں ایک امریکی جاسوسی اڈہ بنانا ہے۔ ایران میں امریکی جاسوسی اڈے کو ختم ہوئے 30 سال گزر چکے ہیں۔ اب امریکہ وہی اڈہ زیادہ جدید اور نئے آلات سے مجہز کر کے اسلام آباد میں بنانا چاہتا ہے۔ لہذا عالمی استعمار کی ان تمام سازشوں کا مقصد اسلامی ممالک اور پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کے بعد ایک بڑا مسئلہ مغربی اور بھارتی میڈیا کی طرف سے ثقافتی یلغار ہے، اس پر تھوڑی روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ بتائیے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے اور آئی ایس او کے پاس اس حوالے سے کیا منصوبے موجود ہیں؟
سید حسن زیدی: ثقافتی یلغار کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ اور غورطلب مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر ممالک مخصوصاً اسلامی ممالک اس کا شکار ہیں۔ بعض مسلم ممالک میں مغربی ثقافتی یلغار کی صورتحال پاکستان سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ ثقافتی یلغار اسلام دشمن قوتوں کا ہتھکنڈہ ہے جس کا مقصد اسلامی اقدار کو کمزور کرنا اور نوجوانوں کو اخلاقی اور معنوی اقدار سے دور کرنا ہے۔ لہذا وہ ایسی ثقافت کو رائج کرنے کیلئے کوشاں ہیں جو مسلمان نوجوان کو اپنی اقدار کو فراموش کرنے اور مغربی اقدار کو
اپنانے کی ترغیب دلاتی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ یہ کام کبھی خواتین کے حقوق اور انکی آزادی کے نام پر، کبھی نوجوانوں کے آپس میں روابط کے نام پر، کبھی نصاب سے جہاد کی آیات حذف کرنے کے نام پراور کبھی جوڈیشنل نظام کی تبدیلی کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے میں مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمران بھی قصوروار ہے۔ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی کلچر کی ترویج کریں جس کیلئے پاکستان کو بنایا گیا ہے۔ ویسے تو ہر شعبے میں ہی ثقافتی یلغار موجود ہے لیکن تعلیمی اداروں میں یہ مسئلہ زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہم اگر یونیورسٹیوں میں جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی مغربی ملک کے تعلیمی ادارے میں آ گئے ہیں۔ مخلوط تعلیمی نظام ہے، اگرچہ اسلامی قوانین جیسے حجاب کی پابندی کرتے ہوئے مخلوط تعلیمی نظام ایک حد تک ممکن ہے لیکن موجودہ صورتحال معاشرے کو دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ محرم اور نامحرم کی تمیز ختم ہونے سے سوچا جا سکتا ہے کہ ملک کس طرف چل نکلا ہے۔ تعلیمی ادارہ جات ملک کا مستقبل ہیں، ملک کے معمار ہیں۔ اس حوالے سے آئی ایس او پاکستان کی کوشش یہ ہے کہ ملک میں اسلامی ثقافت کی ترویج کی جائے، اسلامی تعلیمات کو نوجوان بہن بھائیوں تک پہنچایا جائے۔ مختلف تعلیمی اداروں میں یونٹ لیول پر ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ قرآنی دروس کے ذریعے، دعاوں کے پروگرامز کے ذریعے، اسلامی تعلیمات کا احیاء کیا جائے۔ ہم تعلیمی اداروں میں مختلف مواقع پر سیمینارز کے انعقاد کا بندوبست کرتے ہیں جیسے یوم حسین علیہ السلام، یوم مصطفی، یوم زھرا سلام اللہ علیھا وغیرہ جو اسلامی کلچر کے پروموٹ ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوے مختلف اوقات میں ثقافتی لٹریچر شائع کرتے ہیں مثلا رمضان کے موقع پر یا محرم کے موقع پر جس کے ذریعے طلباء کو آگاہی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دینی پروگرامز پر مشتمل سی ڈیز بنانا بھی ہماری سرگرمیوں میں شامل ہے۔ بچوں میں مختلف انعامی مقابلے بھی برگزار کئے جاتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر استکبار جہانی کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں ایران کے اسلامی انقلاب کا کیا کردار ہے؟
سید حسن زیدی: میری نظر میں استکبار جہانی کے خلاف مزاحمت شروع ہی انقلاب اسلامی ایران کے بعد ہوئی ہے۔ اگر ہم انقلاب اسلامی ایران سے پہلے کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اگر کسی قسم کی کوئی مزاحمت موجود بھی تھی تو وہ انتہائی پراکندہ اور کمزور تھی۔ آج اگر پوری دنیا میں عوام اپنے حقوق کے دفاع کیلئے بیدار ہیں تو یہ انقلاب اسلامی ایران کا نتیجہ ہے۔ ہم فلسطین، لبنان، عراق حتی غیر مسلم ممالک جیسے وینزوئلا میں دیکھتے ہیں کہ عالمی استعمار کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے، یہ سب انقلاب اسلامی ایران کی برکت سے ہے۔ اگرچہ استعماری قوتیں اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ دنیا میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور سازشیں کرنے میں مصروف ہیں لیکن انہیں ہر میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، چاہے وہ میدان جنگ کا ہو یا وحدت کا ہو یا ثقافت کا ہو۔ دوسری طرف اسلام پوری دنیا میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، مسلمانوں میں وحدت کی فضا بڑھ رہی ہے، نوجوانوں کی دین کی جانب رغبت میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں میں عالمی استعمار کے مقابلے میں مزاحمت کا جذبہ بڑھ رہا ہے، یہ سب کچھ انقلاب اسلامی ایران کا ثمر ہے، امام خمینی رہ کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ جس طرح خدا نے انسان کی رہنمائی کیلئے انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام کو بھیجا اسی طرح اس نے امام خمینی رہ کو آج کے انسانی
معاشرے کیلئے بھیجا، اگرچہ وہ رسول یا امام نہیں لیکن ان پر خداوند متعال کا خاص لطف تھا، اور آج جس طرح سے انقلاب اسلامی ایران ترقی کے مختلف مراحل طے کر رہا ہے وہ انتہائی امید بخش ہے اور انشاءاللہ یہ انقلاب امام زمانہ عج کے عالمی انقلاب سے منسلک ہو جائے گا۔
اسلام ٹائمز: رمضان کا آخری جمعہ جس کو امام خمینی رہ نے یوم القدس کے طور پر اعلان کیا تھا نزدیک ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور صیہونی و امریکی سازشوں کو بے نقاب کرنے میں یوم القدس کا کیا کردار ہے؟
سید حسن زیدی: جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں دنیا میں جتنی بھی اسلامی تعلیمات کا عام ہونا ہے یا اسلام کا مضبوط ہونا ہے یا اسلامی ایشوز کا زندہ ہونا ہے سب انقلاب اسلامی ایران کی بدولت ہے اور امام خمیمی رہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے فلسطین کے مسئلے کو ایک عالمی ایشو میں تبدیل کر دیا اور اس کیلئے آواز بلند کی۔ امام خمینی رہ نے یوم القدس کے اعلان سے جس تحریک کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام بہت نزدیک ہے اور ہم انشاءاللہ بہت جلد فلسطین کی آزادی کی صورت میں اپنی منزل کو پہنچنے والے ہیں۔ یوم القدس صرف اہل تشیع کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا میں برادران اہل سنت بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ امام خمینی رہ نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر اعلان کر کے مسئلہ فلسطین کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچا دیا ہے اور یہ بہت بڑی بصیرت والا کام ہے۔ آئی ایس او پاکستان بھی شروع سے ہی یوم القدس کے حوالے سے بھرپور انداز میں سرگرمی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس دن کے حوالے سے کانفرنسز، مظاہرے اور مختلف پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ہم ایک عرصے سے بھارت اور اسرائیل کے درمیان مختلف حوالوں سے تعاون اور ہمکاری میں اضافے کے شاہد ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں جو دہشت گردی، فرقہ واریت اور ثقافتی یلغار جیسے اہم مسائل موجود ہیں ان کے پیچھے امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی مثلث کارفرما ہو سکتی ہے؟
سید حسن زیدی: میری نظر میں اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ فطری ہے، کیونکہ جس طرح سے مومنین اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر خوشی کا احساس کرتے ہیں اسی طرح خبیث افراد بھی اپنے جیسے افراد کے ساتھ ہی بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان میں موجود مسائل میں بنیادی کردار انہیں ممالک کے گٹھ جوڑ کا ہے۔ بھارت اگر اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرتا ہے تو اس کا مقصد پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک نہیں ہو سکتا، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اب تک بھارت کے ساتھ ہماری تین جنگیں ہو چکی ہیں لہذا حکمرانوں کا اس حوالے سے بنیادی فرض بنتا ہے کہ وہ سوچیں کہ جب امریکہ اور اسرائیل بھارت کی پشت پناہی کرنے میں مصروف ہیں تو ہم امریکہ اور اسرائیل کی نسبت اپنا موقف واضح کیوں نہیں کرتے؟، ہم امریکہ کی حمایت کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟۔ پاکستان حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں اور دیگر مسلم اور غیر مسلم دوست ممالک جو مختلف حوالوں سے ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنائیں۔ نہ یہ کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید بڑھائے جائیں، امریکی سفارتخانے میں مزید توسیع کی جائے، اگر ہم گذشتہ 6 ماہ کا 56 برس سے مقایسہ کریں تو دیکھیں گے کہ گذشتہ 56 برس میں امریکی حکام کے پاکستان میں اتنے دورہ جات نہیں ہوئے جتنے ان 6 ماہ میں انجام پائے ہیں۔ ہر کچھ دن بعد اتنا لمبا سفر کر کے کوئی نہ کوئی امریکی پاکستان پہنچا ہوتا ہے، کبھی آرمی کا،
کبھی نیوی کا، کبھی انٹلیجنس کا، کبھی وزارت خارجہ کا۔ یہ کس چیز کی علامت ہے؟۔ یہ ہمارے اپنے حکمرانوں کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ جب تک ہمارے حکمران سنجیدہ ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کریں گے اور پاکستان کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے نہیں سوچیں گے اس وقت تک ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ بھارت اور افغانستان اس وقت دو ایسے ممالک ہیں جہاں سے امریکہ پاکستان میں انتشار پھیلا رہا ہے اور مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
اسلام ٹائمز: آئی ایس او پاکستان ایک نوجوان طلباء تنظیم ہے، پاکستان کے نوجوانوں کیلئے آپ کے پاس کیا پروگرامز موجود ہیں، اور پاکستان کی ترقی اور استحکام میں آئی ایس او کا کیا کردار رہا ہے؟
سید حسن زیدی: ہمارا ہدف پاکستانی معاشرے کو ایسے تربیت یافتہ افراد مہیا کرنا ہے جو ملک کی ترقی، اسلام کی ترویج اور اسلامی اقدار کے احیاء میں بنیادی کردار ادا کر سکیں۔ لہذا اس مقصد کے حصول کیلئے ہم مختلف تنظیمی تربیتی پروگرامز ترتیب دیتے ہیں جو افراد سازی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس طریقے سے ہم اسلام اور پاکستان کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گذشتہ 39 سالوں میں ہم نے سینکڑوں انجینئرز، ڈاکٹرز اور مختلف فیلڈز کے سپشلسٹس اپنے معاشرے کو پیش کئے ہیں۔ بلکہ پاکستان سے باہر بھی اسلامک کلچر کے حوالے سے سرگرم افراد میں آئی ایس او کا سابقہ رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ ایسے افراد انتہائی ذمہ دار، دیانتدار اور فعال ہوتے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مواقع پر افراد کی طرف سے کام چوری اور وقت کا ضیاع جیسے مسائل دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہم اپنے ملک اور معاشرے کو پاکیزہ، دیانتدار اور متحرک افراد فراہم کر رہے ہیں۔ کیونکہ اسلام ہم سے چاہتا ہے کہ ہم پاکیزہ ڈاکٹر ہوں نہ صرف ایک ڈاکٹر، ایک پاکیزہ انجنئر ہوں نہ صرف ایک انجنئر۔ آئی ایس او کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے پاس شہداء موجود ہیں۔ آئی ایس او کے بانی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہیں، اور جتنے شہداء آئی ایس او نے اس ملت کیلئے دیئے ہیں باقی تنظیموں میں نہیں ملتے۔ یہ ان شہداء کے خون کا اثر ہے کہ آج آئی ایس او معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ آئی ایس او کا ایک ماہنامہ العارف کے نام سے بھی ہے جو شہید قائد علامہ سید عارف حسینی سے منسوب ہے۔
اسلام ٹائمز: آخر میں مسلمان نوجوانوں کے نام اگر آپ کا کوئی پیغام ہو تو بیان فرمایئے۔
سید حسن زیدی: مسلمان نوجوانوں کے نام میرے تین بڑے پیغام ہیں۔ پہلا یہ کہ اپنی زندگی کے اس مرحلے یعنی نوجوانی کی اہمیت کا احساس کریں، یہ انتہائی قیمتی وقت ہے، ایک نوجوان اگر اپنا مستقبل تعمیر کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی جوانی کے ایام سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیئے اور یہ جان لے کہ جوانی کی فرصت صرف ایک بار انسان کے ہاتھ آتی ہے لہذا اس فرصت سے تعلیمی، اخلاقی اور ثقافتی میدان میں بھرپور استفادہ کرے۔ دوسرا پیغام یہ کہ نوجوان کی عبادت کو انبیاء علیھم السلام کی عبادت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اگر ایک نوجوان صرف اتنا کر لے کہ واجبات کو ترک نہ کرے اور محرمات کو انجام نہ دے تو معاشرہ جنت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ آخری پیغام یہ ہے کہ اگر مسلمان نوجوان اسلام کی عزت اور استحکام چاہتے ہیں تو وہ خود کو نظام امامت اورنظام ولی فقیہ سے منسلک کر لیں۔ اس وقت دنیا میں جو افراد بھی اس نظام سے منسلک ہیں وہ ترقی کر رہے ہیں لہذا ہم اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو نظام ولی فقیہ سے مربوط رہیں اور انکی اطاعت میں رہیں۔ یہی نوجوانوں کی کامیابی کا راز ہے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
خبر کا کوڈ : 11838
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش