QR CodeQR Code

خطے میں تیسری جنگ کا ہونا امریکیوں کا خواب تو ہوسکتا ہے مگر حقیقت نہیں، عبداللہ گل

9 Jan 2012 01:20

اسلام ٹائمز:آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے فرزند عبداللہ گل کہتے ہیں کہ تہران میں ہم امام خمینی رضوان اللہ کے گھر گئے، وہاں امام رہ کا گھر دیکھ کر میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے کہ اتنے بڑے آدمی نے کرائے کے دو کمروں پر مشتمل گھر میں زندگی گزاری، جن قوموں کہ لیڈر بوریہ نشین ہوتے ہیں وہ قومیں بہت امیر ہوا کرتی ہیں۔


لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے فرزند عبداللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبداللہ گل اس وقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اس کے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جس کا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبداللہ گل کے مطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں جس کا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ گل سے عالم اسلام اور ملکی و بین الااقومی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز:ملک مختلف بحرانوں سے دوچار ہے، جن میں سرفہرست دہشتگردی، بدامنی اور معاشی بدحالی ہے، اس کی اصل وجوہات کیا سمجھتے ہیں اور ان کا راہ حل کیا تجویز کریں گے۔؟

عبداللہ گل: پاکستان کے موجودہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں، ہر شخص ان حالات سے پریشان دکھائی دیتا ہے، ماضی کے اندر ہم نے دیکھا کہ 1986ء کے اندر جب روس نے افغانستان سے نکلنے کا ارادہ کیا تو پاکستان میں دہشتگردی عروج پر پہنچ گئی، صرف 1986ء کے اندر دنیا کی 68 فیصد دہشتگردی پاکستان میں ہوئی اور 3750 زندگیاں لقمہ اجل بنیں۔ بوری بازار کا واقعہ، لنڈا بازار سمیت کشمیر بازار کے واقعے میں سینکڑوں افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے، ہر ایک دھماکہ میں تقریباً 300 تک افراد جاں بحق ہوئے۔ تو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ حالات پہلے بھی بھیانک رہے ہیں، لیکن آج کا موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اُس وقت کو دیکھا جائے تو روس ایک کھولا دشمن تھا اور اس کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، اس وقت پاکستان ایٹمی طاقت بھی نہیں تھا، لیکن اس وقت ہماری لیڈر شپ موجود تھی کہ جن کے فیصلوں سے ہم نے وہ بڑی جنگ جیتی، ایک طرف روس کے ساتھ برسرپیکار تھے تو دوسری جانب سرحدوں پر انڈیا بیٹھا ہوا تھا اور اس وقت انڈیا ایٹمی پاور بن چکا تھا، اس وقت ضیاء الحق نے فیصلہ کیا کہ افغان بھائیوں کی مدد کی جائے۔ اور وہ جنگ ہم نے جیتی اور اس کے نتیجے میں روس کی پندرہ ریاستیں بنیں، جن میں چھ مسلمان ریاستیں ہیں۔ خطے میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، ایران کے اندر ایک عظیم الشان انقلاب نے جنم لے لیا اور نیپال میں تامل ٹائیگرز اور انڈیا میں کشمیری موومنٹ پورے زور پر تھی۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان سرخرو ہوا، اس وقت اگر ڈالر کی قیمت کو دیکھیں تو فی ڈالر 8 روپے کا تھا اور پھر جب جونیجو صاحب کی حکومت آئی تو ڈالر کی قیمت 13 ہو گئی اور اب تو ڈالر کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے اس وقت بھی حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنا کہ آج ہیں۔

ملک میں اس وقت رشوت ستانی، بدحکومتی، گیس کی نایابی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، امن وامان کی ناگفتہ بے صورتحال، امریکی بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، ایبٹ آباد کا واقعہ، مہران بیس حملہ، بلوچستان میں علحیدگی کی تحریک، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ یعنی پورا ملک اس وقت بے یقینی کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ایسی صورتحال کہ جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ ان حالات میں کون اس ملک میں انوسٹمنٹ کرے گا، لوگ بھاگ رہے ہیں، حکمران اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں، عوام بے حال ہو چکے ہیں، غربت میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہ وہ صورتحال ہے جسے دیکھ کر ایک محب وطن انسان پریشان ہو جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر مشرف ایک جمہوری حکومت کا تختہ نہ الٹتا تو آج ملک ترقی کی رہ پر گامزن ہو چکا ہے۔؟

عبداللہ گل: جی ہاں، پاکستان کے اچھے دن آنے لگے تھے لیکن پھر ایک طائع آزما نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا، اور پھر ایسی پالسی اختیار کی کہ جس نے آج پاکستان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک وقت تھا کہ پاکستان افغانستان کی مدد کرتا تھا اور وہ پاکستان کو بڑا بھائی جانتا تھا لیکن اب وہی افغانستان پاکستان کو اپنا دشمن جانتا ہے، اس کی وجہ مشرف کی غلط پالیسی ہے۔ مشرف کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ایک اسلام دشمن افغانستان پر قابض ہو گیا، اس کے بعد اس نے عراق کو اپنا تختہ مشق بنایا اور اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں، وہ ملک جو یہاں سے سترہ ہزار کلومیٹر دور تھا آج وہ ہماری بغل میں بیٹھا ہے، اس کا ذمہ دار مشرف ہی ہے۔

موجودہ پالیسی مشرف نے خوف کی بنیاد پر مرتب کی تھی۔ جبکہ پالیسی کبھی خوف کی بنیاد پر مرتب نہیں ہوا کرتی، آرمی چیف ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا، آج اس پالیسی کے نتیجے میں یہ ہوا کہ فوج پر حملے شروع ہوئے اور خودکش حملوں کا دور شروع ہوا۔ اس کے بعد لوگوں کو انصاف نہیں ملا اور جب انصاف میسر نہیں ہوا تو خودکش حملے بڑھتے گئے، بلخصوص فوج، ISI اور ان اداروں پر حملے زیادہ ہوئے، اس جنگ کے اندر 40،000 پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئی۔ یہ بہت بڑا نقصان تھا۔ بدبختی کی بات یہ ہے مشرف چلا گیا مگر پالیسی وہی چل رہی ہیں، شاہ محمود قریشی صاحب نے آ کر انہیں پالیسیوں کو توثیق دی اور آگے بڑھایا، ان تمام پالیسیوں کی وجہ سے ڈرون حملے شروع ہوئے، ریمنڈ ڈیوس، بلیک واٹر اور دیگر اس طرح کے کئی گروپس پاکستان میں کام کر رہے ہیں کیونکہ این آر او کے ذریعے ان تمام چیزوں کی اجازات دی گئی۔ 

مشرف نہ صرف پاکستان کا قومی مجرم ہے بلکہ افغان قوم کا بھی مجرم ہے۔ مشرف نے جو پاک آرمی کے ساتھ کیا وہ تاریخ علیحدہ سے لکھی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے خون تک دیا، یہ سب جھوٹ ہے، تاریخ گواہ ہے کہ مشرف نے نہ تو کسی جنگ میں حصہ لیا اور نہ ہی خون دیا۔ مشرف نے اپنے ہی ادارے آرمی کے ساتھ بھی ظلم کیا۔ مشرف کا وہ تاریک ترین دور تھا۔ جس میں فوجیوں کی وردی اتر گئی۔ فوجی اپنے دفاتر میں جا کر وردیاں پہنا کرتے تھے، فوجیوں نے کالی گاڑیاں چھوڑ کر دوسرے رنگ کی گاڑیاں لیکر نکلنے لگے، جھنڈے اتر گئے۔ المیہ یہ ہوا کہ جس وردی پر فوجی فخر کرتے تھے مشرف نے وہ وردی ہی اتروا دی۔ میں یہ اپیل کروں گا کہ مشرف کو دوبارہ وردی پہنا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جائے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان کی 64 سالہ تاریخ میں کسی فوجی طالع آزما کو سزا نہیں ملی، اُسے ہمیشہ تحفظ فراہم کیا گیا۔ کیا ملک میں آئین اور قانون صرف سولین کے لئے ہے، اس کی وجہ کیا سمجھتے ہیں۔؟

عبداللہ گل: ایسی بھی بات نہیں، بحریہ ٹاؤن کے واقعہ میں ایڈمرل منصور کو باقاعدہ سزا ہوئی۔ اس کے علاوہ اس واقعہ میں ملوث دیگر افراد کو بھی سزائیں دی گئی، اسی طرح عباسی صاحب کو بھی اٹک والے معاملے پر سزا سنائی گئی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ این آر او کو سامنے آنا چاہئے کہ اس کی آڑ میں کون کون سے معاہدے ہوئے اور اس سے کس کس کو فائدہ ہوا، اسے عوام کے سامنے لانا چاہیے۔
سب جانتے ہیں کہ این آر او میں کئی کیسز کو ختم کیا گیا، جس کا سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا، اسی طرح دیگر جماعتوں نے بھی فائدہ اٹھایا، یہی وجہ ہے کہ مشرف کو Save Exit دیا گیا اور باقاعدہ گارڈ آف آنر دے کر روانہ کیا گیا۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ یہ ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین لمحہ تھا۔ ایک سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے جس کی قائد کو قتل کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے اندرونی اور بیرونی طاقتوں کے سامنے اسٹینڈ لے لیا تھا، وہ معاہدہ جو انہوں نے دبئی میں کیا تھا اس سے وہ منحرف ہو گئی تھیں، اس پر متحرمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کیونکہ مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگا کر معاہدہ توڑ دیا ہے اس لئے اب وہ اس معاہدے کی پابند نہیں رہیں۔ یہی وجہ بنی کہ امریکہ نے انہیں دھمکی دی کہ اس کے نتائج اچھے ثابت نہیں ہونگے۔ اس پر بے نظیر نے جواب دیا کہ جو کرنا ہے کر لیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا عوام کو پتا لگنا چاہیے کہ اس گیم سے کس کو کتنا فائدہ ہوا اور کس نے کیا کیا۔

اسلام ٹائمز:عمران خان تبدیلی کی بات کرتے ہیں جبکہ انہوں نے وہی مشرف والی ٹیم اپنے ساتھ ملا لی ہے، واقعی کوئی انقلاب آنے کو ہے۔؟

عبداللہ گل: آج قوم پھر ایک نئی راہ پر چل پڑی ہے، قوم تبدیلی چاہتی ہے، لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی لائی جا سکتی ہے، اس وقت پاکستان کا جو معاشی نظام ہے وہ مغرب زدہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ  اس معاشی نظام کے ہوتے ہوئے انقلاب یا تبدیلی کی باتیں خام خیالی سے زیادہ نہیں ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس کا نظام بنائیں گے اور اس سے معاشی نظام کو ٹھیک کریں گے۔ دنیا کا سب سے بڑا معاشی چیمپئن امریکہ ہے جس کی ساری عوام ٹیکس ادا کرتی ہے، ٹیکس جمع کرنے کا بہترین نظام اُن کے پاس ہے، اس کے علاوہ دنیا کے 33فیصد وسائل بھی امریکہ ہضم کر رہا ہے اس کے باوجود اس نظام نے انہیں کیا دیا۔؟ امریکی معاشی نظام تباہ ہو چکا ہے، وال اسٹریٹ مہم کیا ہے۔؟ اب آپ بتائیے پاکستان میں سسٹم کیسے تبدیل ہو گا۔ اس نظام سے کوئی خیر کی امید نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز:آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان تبدیلی نہیں لا پائیں گے۔؟

عبداللہ گل: بحیثیت نوجوان لیڈر میں کیونکہ نوجوانوں کی تمام تنظیموں کا سربراہ ہوں، مجھے ان نئے آنے والے چہروں سے کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ عمران خان کو جدھر سے سپورٹ ملی تھی وہ نوجوان تھے، جنہوں نے مینار پاکستان جلسے میں شرکت کر کے ثابت کیا کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں، بذات خود عمران ایک اچھی شخصیت کا مالک ہے، کینسر اسپتال اور تعلیمی اداروں کا قیام اُن کا اچھا اقدام ہے۔ 15 برسوں تک عمران کو کامیابی نہیں ملی، اب انہیں شہرت ملنا شروع ہوئی اور نوجوانوں نے ساتھ دیا تو اب انہوں نے ان کو بھی ساتھ ملا لیا جو شریک سفر نہ تھے۔

مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی عمران خان کے جلسے میں وہ لوگ سٹیج پر بیٹھے تھے جو کہ چند دن پہلے تک کسی اور پارٹی کے کارکن تھے۔ پی ٹی آئی کے منشور میں یہ بات واضح ہے کہ جو لوٹے اور غیر قابل اعتماد شخصیات ہیں ان سے کٹھ جوڑ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اب خورشید قصوری، شاہ محمود قریشی، اویس لغاری اور ڈاکٹر وسیم، جہانگیر ترین صف اول میں موجود ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر اثاثے ظاہر نہ کیے گئے وہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں گے، وہ تحریک کیوں شروع نہیں کی گئی۔ عمران خان کے بارے اتنا کہوں گا کہ اُن سے تھوڑی بہت امیدیں وابسطہ تھیں جو اب ختم ہو گئی ہیں۔ عمران خان نے اسلامی عالمی ریاست اور اسلامی معاشی نظام کی بات کی، لیکن شائد انہیں پتہ نہیں ہے کہ یہ سب ہمارے آئین میں موجود ہے، جو چیز نہیں ہے وہ ہے اس پر عمل درآمد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کو مسائل سے نکالنے کیلئے واحد حل شریعت کا نفاذ ہے، فرد واحد کی یا صوفی محمد کی شریعت نہیں بلکہ شریعت محمدی کا نفاذ ہے۔ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی امر اللہ نہیں چلتا بلکہ امر ملک چلتا ہے یعنی بادشاہ کا حکم چلتا ہے۔ لیکن ہم شریعت محمدی چاہتے ہیں نہ کہ شریعت فرد واحد۔

3 اگست کو قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں لارڈ ماونٹ بیٹن کے سامنے کہا تھا کہ ہمارے لیے ریاست مدینہ کا رول ماڈل موجود ہے۔ اکبر ہمارے لیے رول ماڈل نہیں ہو سکتا۔ ہم ریاست مدینہ کے سنہرے اصول اپنے ملک پاکستان میں لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے ایک رومال کے برابر پاکستان دے دو، لیکن اس کو اسلام کی تجربہ گاہ بناؤں گا۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ تیسری عالمی جنگ کی تیاری کر رہا ہے، دوسرا یہ کہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے۔؟

عبداللہ گل: جہاں تک امریکہ کی تیسری عالمی جنگ کی بات ہے تو یہ سب کچھ ہارے ہوئے جنرلوں کا خواب ہے۔ ویت نام جنگ میں ان کو شکست ہوئی اور انشاءاللہ اس خطے میں بھی ان کو شکست ہو گی۔ 23 لاکھ ٹن اسلحہ ویت نام جنگ میں گرا چکے تھے، اس وقت کے ان کے جنرلز کہتے تھے کہ وسائل دیں یہ جنگ جیت کر دکھائیں گے، لیکن انہیں شکست ہوئی، آج بھی امریکی جنرلز یہی کہہ رہے ہیں، ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں سے دو ہزار چودہ میں جائیں گے، لیکن انہوں نے مذاکرات دو ہزارہ گیارہ سے شروع کر دیئے ہیں، کبھی ترکی اور کبھی قطر میں مذاکرات کا دور چل رہا ہے، اب امریکہ تیسری عالمی جنگ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، کئی جگہوں پر امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی۔

اس وقت اسرائیل اور انڈیا کو سب سے زیادہ تکلیف ہے کہ اگر افغانستان میں جنگ ختم ہوتی ہے اور وہاں جہاد ختم ہوتا ہے تو یہ جہادی تو وہاں کا رخ کر لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین آرمی چیف دیپک کپور اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بے ڈھنگے بیانات دیتا ہے کہ ہم چین اور پاکستان کو 36 گھنٹے میں ختم کر سکتے ہیں جبکہ یہ بات دیوانے کے ایک خواب سے زیادہ نہیں۔ اصل میں انڈیا کی عوام اب انڈین حکمرانوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور وہ اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اب بات آتی ہے اسرائیل کی تو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک ناجائز ریاست ہے جس کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح نے بھی یہی لفظ ناجائز ریاست استعمال کیا تھا۔ اسرائیلی یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر امریکہ خطے سے چلا گیا تو اُن کا کیا بنے گا۔

بیت المقدس ہمارا قبلہ اول ہے اور اس کے لیے ہزار دلائل ہیں جو دے سکتا ہوں اور اس پر حق صرف فلسطیوں کا ہے اور ان کو چابیاں حوالے کی جائیں، اس طرح فلسطین کے لیے کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ گذشتہ برس یکم اکتوبر کو تہران گیا اور اسلامی بیداری کے حوالے کانفرنس میں شرکت کی، ہمیں امام خمینی رضوان اللہ کے گھر لے لیکر گئے، وہاں امام رہ کا گھر دیکھ کر میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے کہ اتنے بڑے آدمی نے کرائے کے دو کمروں کے گھر میں زندگی گزاری۔ جن قوموں کہ لیڈر بوریہ نشین ہوتے ہیں وہ قومیں بہت امیر ہوا کرتی ہیں اور جن قوموں کے لیڈر محلوں میں رہتے ہیں وہ قومیں غریب ہوتی ہیں۔
 اس کانفرنس میں ایک رائے دی تھی کہ بیت المقدس سے اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کیلئے عالم اسلام کے نوجوانوں کے اندر یہ جو نیا ابھار اور بیداری پیدا ہوئی ہے اس کا رخ فلسطین کی طرف موڑنا چاہیے۔ تمام عالم اسلام اور وہ لوگ جو اسرائیل کو ناجائز سمجھتے ہیں اور اسرائیل جو آئے روز انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑاتا ہے اور لوگوں کو قتل کرتا ہے، اس کے خلاف نوجوان اسلام پر مشتمل کاروان جانا چاہیے جو فلسطین کی طرف جائے، میں نے اس کے آغاز کیلئے اپنا نام پیش کیا۔ اسی سلسلے میں تہران میں اٹھارہ جنوری کو کانفرنس ہو رہی ہے اس میں مجھے دعوت دی گئی ہے، جس میں شرکت کیلئے انشاء اللہ جا رہا ہوں۔

اسلام ٹائمز:ہمارے کئی مسائل ہیں جو کہ سعودی عرب کے ذریعے ڈیل ہوتے تھے اور ہوتے ہیں، کیوں۔؟
عبداللہ گل: سعودی عرب کا ایک کردار ہے جو کہ اب زیادہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ غلط بات ہے کہ پاکستان کے معاملات سعودی عرب کے ذریعے حل ہوں۔ پاکستان کے معاملات پاکستان ہی میں حل ہونے چاہئے۔ لیکن سعودی عرب کے چونکہ پاکستان پر بہت زیادہ احسانات ہیں، ان کا کردار بھی پاکستان کے لیے بہت اچھا رہا ہے، لیکن اب سعودی عرب کا کردار زیادہ مغرب کی حمایت میں نظر آتا ہے۔ بالخصوص امریکہ کی طرف سعودی حکومت کا جھکاؤ زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں سعودی عرب کے حوالے سے بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اور اب معاملات بہت کھلتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ میرے خیال میں سعودی عرب کو پاکستان کے ساتھ بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اور یہی کردار پاکستان کا افغانستان کے ساتھ ہونا چاہئے۔

اسلام ٹائمز:اب لگتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیلی ہو رہی ہے کیا کہیں گے۔؟

عبداللہ گل: پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کی ہمیں روس سے رابطہ رکھنا چا ہئے۔ ماسکو پھر بھی ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمارے قریب بھی ہے۔ پاکستان کو اب اپنی نئی پالیسی بنانی چاہئے۔ نہ صرف اپنی پالیسی بنانی چاہئے بلکہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ بھی اٹھانا چاہئے۔ کیونکہ یہ ایک بہت بڑا موقع مل رہا ہے، پاکستان کو شاید اللہ تعالٰی اگلے سال یہ چانس نہ دے۔ یہ واضح کروں کہ امریکہ کو پاکستان سے محفوظ راستہ چاہیے۔ پاکستان کو ایک سول نیوکلئیر سیٹٹس لینا چاہئے۔ پاکستان کو نیوکلئیر کلب میں شمولیت اختیار کرنی چاہئے۔ پاکستان کو اپنے قرضوں کی معافی کی بھی بات کرنی چاہئے۔

سوال۔ کیا پاکستان کے قرضے معاف ہو سکتے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے۔؟

عبداللہ گل: دنیا کے 16 ممالک بشمول برازیل کے قرضے ختم ہو چکے ہیں، نہ تو یہ قرضے پاکستانی قوم پر خرچ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ پاکستانی قوم سے پوچھ کر لئے گئے۔ یہ غلیظ قرضے دینے کی پاکستانی قوم میں سقط نہیں ہے۔ انہیں ہم نہیں دے سکتے۔


خبر کا کوڈ: 128718

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/128718/خطے-میں-تیسری-جنگ-کا-ہونا-امریکیوں-خواب-ہوسکتا-ہے-مگر-حقیقت-نہیں-عبداللہ-گل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org