0
Friday 20 Jan 2012 17:52

امریکہ اور اتحادی ہاری ہوئی قوت ہیں، ان میں ایران پر حملے کی ہمت نہیں، مرزا اسلم بیگ

امریکہ اور اتحادی ہاری ہوئی قوت ہیں، ان میں ایران پر حملے کی ہمت نہیں، مرزا اسلم بیگ
2 اگست 1931ء کو پیدا ہونے والے جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف رہے ہیں۔ انہوں نے افواج پاکستان کی کمانڈ اس وقت سنبھالی جب فوجی آمر صدر جنرل ضیاءالحق 17اگست 1988ء کو بہاولپور میں طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جنرل اسلم بیگ کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے فوج کو سیاست سے نکالنے کے لئے عام انتخابات کروائے۔ عنان حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کر کے فوج کو پیشہ وارانہ امور تک محدود کر دیا۔ گویا فوج نے اقتدار اسی پیپلز پارٹی کے حوالے کیا جس سے چھینا تھا اور اس کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی مقدمے میں پھانسی دے دی تھی۔ جنرل اسلم بیگ نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست بھی شروع کی اور عوامی قیادت پارٹی کے نام سے اپنی جماعت بنائی۔ مختلف حکومت مخالف اتحادوں میں بھی رہے۔ وہ دفاعی اور بین الاقوامی امور کے تجزیے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ 


اسلام ٹائمز: افغانستان طالبان سے مذاکرات کیا واضح کرتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: دیکھئے کہ امریکہ نے جب یہ فیصلہ کیا کہ اسے افغانستان سے نکلنا ہے تو پچھلے دو اڑھائی سال سے تدبیریں بناتا رہا ہے۔ اس دوران اس نے کبھی طالبان کو خریدنے اور کبھی توڑنے کا پلان بنایا، کبھی Kabul Plan تو کبھی Dubai plan بنایا، مگر سب ناکام ہوئے۔ یہ جو قدرت کا قانون ہے کہ دو طاقتوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے تو ایک ہارتا ہے اور دوسرا جیتتا ہے۔ اور جو جیتنے والا ہے وہ شرائط عائد کرتا ہے۔ he lays down the conditions of peace کہ امن کے راستے کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں شکست کے باوجود اپنی مرضی کی حکومت بنا کے یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن طالبان نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔ تو ابھی جو بات چیت ہو رہی ہے وہ دراصل پچھلے دو اڑھائی سال کی ناکامیاں ہیں، جس کے سبب امریکہ اب اس بات پر راضی ہو گیا ہے، اور اس نتیجہ پر پہنچ گیا ہے کہ طالبان سے بات چیت کئے بغیر معاملہ ٹھیک نہیں ہو گا۔
 
ابھی بات چیت کا پہلا مرحلہ چل رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹھیک ہے کہ کوئی contract یا روابط کا سلسلہ قائم کرنے کے لئے قطر میں آفس بنے گا اور یہ طالبان کا پہلا مطالبہ تھا کہ آفس بنے اور ان کے کچھ قیدی بھی چھوڑے جائیں گے اور امریکہ نے یہ مطالبات مان لئے ہیں، اور اب اس کے بعد سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت بنانے اور انتقال اقتدار کے لئے strategy کیا ہو گی؟ کیا طریقہ ہو گا؟ اس پر بات کرنے کے لئے طالبان کی شرط وہی ہے کہ پہلے تم بتاو کہ افغانستان سے کب نکلو گے؟ اس مطالبے سے میں سمجھتا ہوں کہ طالبان دستبردار نہیں ہوں گے، اور امریکہ کو طالبان کا یہ مطالبہ ماننا پڑے گا۔ طالبان بات کریں گے، طالبان اس وقت دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ جس طرح انہیں 1989۔90 میں دھوکے میں ڈالا گیا تھا، جب مجاہدین کی آپس میں جنگ کرائی گئی۔ اب طالبان کو بھی اپنی اس غلطی کا احساس ہو گیا ہے کہ انہوں نے شمالی اتحاد کی اقلیتوں کے ساتھ پہلے بات نہیں کی تھی، وہ اب بات کریں گے کہ افغانستان میں کونسا آئین ہو گا، کیسی حکومت بنے گی، یہ وہ واحد راستہ ہے جو اب امریکہ کو بھی سمجھ میں آ گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ مذاکرات خطے میں امن کے لئے ہوں گے یا اپنے پنجے مزید مضبوط کرنے کی ایک نئی امریکی چال ہے۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نہیں، افغانستان میں شکست کے بعد تو امریکہ کے پنجے تو اب کمزور ہو گئے ہیں بلکہ ٹوٹ گئے ہیں۔ اب صرف ایک ہی راستہ ہے کہ عزت کے ساتھ یہاں سے نکل جائے۔ طالبان کو موقع دے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ بیٹھ کر افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں، یہ ہے اصل معاملہ۔ امریکہ اپنے مفادات اور اپنا اثر و رسوخ یہاں پر اسی حد تک رکھے گا جس حد تک مستقبل کی افغان حکومت انہیں اجازت دے گی۔ اگر امریکہ یہاں پر reconstruction کرتا ہے، تعمیر نو کرتا ہے، یہاں پر فلاحی پروگراموں کو شروع کرتا ہے تو افغانستان کو امریکہ سمیت ہر ملک کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ لیکن اب طالبان دھوکے میں نہیں آئیں گے، جس طرح ماضی میں دھوکہ کھایا تھا۔ ہر مقام پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان کو دھوکہ دیا ہے۔ اب وہ بڑا سوچ سمجھ کے ہر قدم اٹھا رہے ہیں۔ ڈائیلاگ ہو رہا ہے، اس کا پہلا فیز شروع ہو گیا ہے۔ جو افغانستان کے مستقبل کے لئے بڑا اہم ہے۔
 
اسلام ٹائمز: یہ مذاکرات کس کی فتح ہے، امریکہ یا طالبان کی۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: طالبان کے ہاتھوں سے امریکہ تو ہار گیا ہے۔ طالبان کے ہاتھ مضبوط ہیں، امریکہ اب ہار کر ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں دیکھنا ہے کہ کہاں تک کس کے مفادات کا تحفظ ہو گا، کیسے افغانستان میں امن قائم ہو گا۔
 
اسلام ٹائمز:رپورٹس ہیں کہ قیدی طالبان رہنماوں کو بدنام زمانہ گوانتا نامو بے جیل سے رہا بھی کیا جا رہا ہے۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: یہی بات ہے جو میں نے پہلے کہا ہے کہ طالبان کی پہلی شرط یہ تھی کہ وہ قطر میں اپنا آفس بنائیں گے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کے پاس جو طالبان قیدی ہیں ان کو رہا کیا جائے۔ اس پر عمل ہو گیا ہے اور اب تھوڑے تھوڑے کر کے ان قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ پہلی شرط تو امریکہ نے مان لی ہے۔ اور اب دوسری شرط بھی امریکہ کو ماننا پڑے گی اور یہ بتانا ہو گا کہ وہ کب افغانستان سے نکل جائیں گے اور افغانستان کو افغانستان کے لوگوں پر چھوڑ دیں کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔
 
اسلام ٹائمز: طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔؟ کیا اب جنگجو طالبان سیاست میں حصہ لیں گے۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: جی صرف سیاست نہیں، جب وہ اپنے ملک کے حکمران ہوں گے تو سارے اختیارات ان کے پاس ہوں گے، تو سیاست بھی ہو گی، جنگی حکمت عملی بھی ہو گی، وہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود کے بڑے بڑے منصوبے بھی بنائیں گے، ترقی ہو گی۔ تمام ذمے داریاں ادا ہوں گی جیسے ذمہ دار حکومت کی ہوتی ہیں۔ وہ طالبان کی خالی حکومت نہیں ہو گی۔ اس میں اقلیتیں بھی شامل ہوں گی، ناردرن الائنس بھی شامل ہو گا۔ جو پچھلے دس گیارہ سال سے امریکیوں سے مل کر افغانستان پر حکومت کرتا رہا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: طالبان کا سیاسی دفتر قطر ہی میں کیوں،؟ افغانستان یا کسی قریبی ملک میں کیوں نہیں، پاکستان میں کیوں نہیں۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: جی پاکستان تو ایک فریق ہے، کیونکہ اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ ترکی بھی ایک فریق ہے کہ وہ بھی جنگ میں شامل ہے۔ سعودی عرب میں کسی وجہ سے آفس بنانا طالبان نے پسند نہیں کیا، سعودی عرب امریکہ اور اس کی پالیسیوں کا زیادہ حامی ہے۔ قطر جو پہلے سے ہی پوری طرح امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ امریکہ کا مشرق وسطٰی کا ہیڈ کوارٹر وہیں ہے۔ تو وہاں امریکہ کا طالبان سے بات کرنا آسان ہو گا۔
 
اسلام ٹائمز: کیا طالبان کے علاوہ باقی مجاہد گروپوں سے بھی امریکی مذاکرات ہو رہے ہیں۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نہیں اور کسی کو اختیار نہیں ہے۔ حکمت یار بہت محدود ہے۔ طالبان نے جدوجہد کی ہے، انہیں کو اختیار ہے، لیکن طالبان حکمت یار اور شمالی اتحاد والوں سمیت سب کو ساتھ لے چلنا چاہتے ہیں، وہ سب کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو طے کرنا چاہتے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز:کیا طالبان سے امریکہ کے مذاکرات آئی ایس آئی کروا رہی ہے۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نہیں! آئی ایس آئی سے کیا مطلب؟ آئی ایس آئی نے تو افغانستان کے معاملات سے خود کو بہت دور کر لیا تھا۔ ہم نے تو دشمنوں سے مل کے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ ہمارے طالبان سے وہ تعلقات نہیں ہیں جو ماضی میں تھے۔ یہ تو ملا عمر اور طالبان کی فراخدلی ہے کہ انہوں نے آج تک ہمارے خلاف کوئی حملہ نہیں کیا۔ جیسے کہ ہمارے پاکستانی طالبان آج ہم پر حملے کر رہے ہیں، افغان طالبان نے تو ہم پر آج تک پتھر بھی نہیں پھینکا۔
 
اسلام ٹائمز: تو کیا پاکستانی طالبان کی قیادت بھی ملا عمر ہی نہیں کر رہے۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نہیں پاکستانی طالبان تو ہمارے قبائلی ہیں، جن کو مشرف نے چھیڑا ہے۔ یہ تو آرام سے ہمارے ساتھ تھے۔ ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتے تھے۔ امریکیوں نے مشرف کو بیوقوف بنایا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کا ماسٹر مائنڈ وزیرستان میں بیٹھا ہوا ہے۔ پھر امریکہ نے دھوکے سے چڑھائی کر دی، قبائلیوں کو مارا۔ پھر 2005ء سے لے کر اب تک قبائلی ہمیں اور ہم ان کو مار رہے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: کیا یہ امریکی مذاکرات پاکستان میں موجود طالبان سے بھی ہو رہے ہیں۔ یا صرف Afghanista-based طالبان سے ہی کئے جا رہے ہیں۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نہیں، پاکستانی طالبان سے جب بھی ہمارے مذاکرات شروع ہوئے تو امریکہ نے اس کو خراب کر دیا۔ طالبان کے پہلے لیڈر مولوی نیک محمد تھے، جن سے پاکستان کی بات چیت شروع ہوئی تھی۔ بہت کچھ طے ہو گیا تھا کہ دوسرے دن انہیں ڈرون حملے میں مار دیا گیا۔ پاکستانی طالبان سے پھر مذاکرات نہیں ہو سکے۔ آج بھی امریکہ کی کوشش یہی ہے کہ پاکستان کو اپنے لوگوں کے ساتھ الجھائے رکھے۔ یہ ہم پر عنایت ہے امریکی دوستی کی اور افغانستان میں اس کی مدد کرنے کی۔
 
اسلام ٹائمز: امریکہ کے طالبان سے مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نتیجہ یہی نکلے گا کہ انشاءاللہ افغانستان میں امن قائم ہو گا، امریکہ نکل جائے گا، وہ سارے منصوبے جو افغانستان کیلئے بنائے گئے تھے وہ شروع کریں گے۔ طالبان کو اپنے پیر جمانا ہوں گے، فوجی اڈے قائم کرنا ہوں گے۔ اب امریکہ وہ کھیل نہیں کھیل سکے گا، جو ماضی میں کھیلا جاتا رہا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: امریکہ طالبان مذاکرات کامیاب ہو گئے تو حامد کرزئی حکومت اور شمالی اتحاد کا مستقبل کیا ہو گا۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ طالبان ان کو نظرانداز نہیں کریں گے، بلکہ ان سب سے بات کر کے حکومت بنائیں گے، ان کو حصہ دیں گے، نیا آئین بنائیں گے۔ کرزئی اقلیت نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق تو پختونوں سے ہے، جو طالبان ہیں اور اکثریت میں ہیں۔ اہم حصہ جو ہے وہ شمالی اتحاد ہے، جس نے امریکہ کے ساتھ مل کر گیارہ سال تک افغانستان میں حکومت کی۔ طالبان کو ان کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اس کا تو انہوں نے برملا اعلان کیا ہے کہ سب مل کر بیٹھیں گے۔ پختون بھی بیٹھیں گے۔ سارے طالبان مل کر بیٹھیں گے۔ اقلتییں بیٹھیں گی۔ کرزئی بھی شامل ہوں گے۔ سب مل کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں گے کہ مستقبل کی حکومت کیسی ہو گی۔ آئین کیا ہو گا۔ کس کو کتنی اور کیا نمائندگی ملے گی۔ واضح رہے کہ طالبان اب سب کو ساتھ لے چلنا چاہتے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز:آپ اقلیت کا لفظ کن کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔؟ کونسی اقلیتیں ہیں افغانستان میں۔؟ جنرل مرزا اسلم بیگ: اقلیت ناردرن الائنس ہے، جس میں سات یا آٹھ چھوٹے بڑے گروپ شامل ہیں۔ اقلیتوں کے مختلف حصے ہیں، ان میں تاجک ہیں، ازبک ہیں، ہزارہ ہیں۔ یہ سب امریکہ کے ٹینکوں پر چڑھ کر آئے تھے۔ طالبان کی یہ فراخدلی ہے کہ وہ ان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں آو تم ہمارے بھائی ہو، مل بیٹھ کر طے کریں گے کہ آئندہ حکومت میں تمہار ی نمائندگی کیا ہو گی۔ ان کو الگ نہیں کر رہے، ان کی دشمنی اب مول نہیں لیں گے، جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ بلکہ اب انہیں ساتھ رکھیں گے۔
 
اسلام ٹائمز: افغانستان میں طالبان حکومت بن گئی تو اس کے ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان اور ایران سے کیسے تعلقات ہوں گے۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: جہاں تک ہمارے تعلقات ہیں، پاکستان تو طالبان کا دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ دشمن کے طور پر تو ہم نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ مگر طالبان اور ان کی قیادت اب بھی ہماری احسان مند ہے کہ سوویت یونین کے خلاف پاکستان نے ان کا ساتھ دیا۔ انہیں ہمیں اپنے دوست کے طور پر سمجھنا ہو گا۔ اسی طرح ایران کا مسئلہ ہے۔ ایران نے موجودہ طالبان کی امریکہ کے خلاف جہاد میں بڑی مدد کی ہے۔ اب ان کے تعلقات ایران کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ جو ماضی میں نہیں تھے۔ پاکستان کے تعلقات بھی اب آہستہ آہستہ کافی بہتر ہو چکے ہیں، طالبان کو اب معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان اور ایران کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے تو خود افغانستان کو نقصان ہو گا۔ افغانستان جانے والے راستے ایران سے گذرتے ہیں، پاکستان سے گذرتے ہیں۔ ان کی اقتصادیات ہمارے ملک سے تجارت سے منسلک ہے، تو بہت سی compulsions ہیں جن کے تحت طالبان کو ایران اور پاکستان سے تعلقات اچھے رکھنا ہوں گے، اور اسی طرح سے طالبان حکومت کا مستقبل اچھا ہو سکتا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: ڈرون حملے دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ دعوے کے باوجود افواج پاکستان نے کوئی عملی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: یہ سوال میں بھی پوچھ رہا ہوں کہ ماجرا کیا ہے۔؟ کیا افواج پاکستان کو حکومت پاکستان نے جوابی کارروائی کی اجازت دے دی ہے؟ اگر دے دی ہے تو حملے پر ردعمل کیوں نہیں ہوا۔ اور اب تو عوام کا بھی مطالبہ ہے کہ بتایا جائے کہ دراصل معاملہ کیا ہے، اور اب یہ بات واضح ہونی چاہیے۔ عوام میں پچھلے دنوں شدید ردعمل ہوا ہے، حملہ پاکستان پر ایک بار نہیں دو بار ہو چکا ہے اور ہم تماشا دیکھ رہے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: تو لگتا کیا ہے کہ ہم ڈر گئے ہیں یا پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے یہ ڈرون حملے ہوئے ہیں۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نہیں! لگتا ہے کہ امریکہ کو حکومت نے خود ڈرون حملے کی اجازت اور سہولت دی ہے اور آپ نے دیکھا کہ کہا جا رہا ہے کہ 12 جنوری کو ہونیوالے ڈرون حملے میں حکیم محسود کو مار دیا گیا ہے، اور شاید پاکستان اس حملے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اسی لئے اس نے اجازت دی ہو۔ طالبان کہتے ہیں کہ حکیم اللہ نہیں مارا گیا، بلکہ وہ زندہ ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ حکومت سے ہی ہمیں مطالبہ کرنا ہے کہ بتائے کہ حقیقت کیا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں کیا لگتا ہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کر سکے گا۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: نہیں! امریکہ میں حملے کی ہمت نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا 2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا، چھوٹی تنظیم ہونے کے باوجود حزب اللہ نے اسرائیل کی ایسی پٹائی کی کہ اسرائیل ہار گیا، اس نے شکست مان لی، سیز فائر ہو گیا۔ اس کے مقابلے میں ایران تو بہت بڑی طاقت ہے، امریکہ ایران پر دباو ڈال رہا ہے کہ ایران شاید ڈر کے، خوف سے بیٹھ جائے، لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ایک تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں ہمت نہیں ہے کہ ایران پر حملہ کریں، کیونکہ یہ ہاری ہوئی قوت ہے۔ عراق میں ہار گئے، لبنان میں ہار گئے، افغانستان میں ہار گئے۔ انکی اکانومی ڈوب رہی ہے۔ چودہ ٹریلین ڈالرز سے زیادہ امریکہ پر قرضہ ہے، ملک کے اندر ان کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں، روزگار کی کمی ہے، تو ایسے حالات میں ایک نیا پنگا لے کر نئی جنگ کا آغاز کرنا بہت بڑی حماقت ہو گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی حکومت اور فوج کے تعلقات درست ہونے کے کس حد تک امکانات ہیں۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: اس میں تو دونوں کی غلطی ہے کہ وزیراعظم نے فوج کے خلاف میڈیا پر بیان دیا ہے، پھر فوج نے میڈیا پر وزیراعظم کے خلاف بیان دیا۔ ایسے متنازع معاملات کمرے کے اندر بیٹھ کر آپس میں حل کرنے چاہیں۔ میڈیا میں بات آ جائے تو پھر بڑی بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اب میر اخیال ہے کہ دونوں کو غلطی کا احساس ہوا ہے اور دونوں نے معاملات اندر بیٹھ کر طے کر لئے ہیں۔ ان باتوں پر جو بیانات آتے رہے ہیں، ان کے سبب حکومت اور فوج میں جو دوری پیدا ہوئی، وہ میرا اندازہ ہے کہ اب نہیں ہے۔
 
اسلام ٹائمز: وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس ملا ہے اور وہ 19جنوری کو عدالت میں  پیش ہو رہے ہیں، کیا حکومت کے خلاف گھیرا تنگ نہیں ہو رہا۔؟
جنرل مرزا اسلم بیگ: یہ تو دراصل حکومت، صدر اور وزیراعظم کے خلاف چارج شیٹ ہے، دو سال تک عدلیہ کے فیصلوں پر حکومت نے عملدرآمد نہیں کیا۔ عملدرآمد کے لئے عدلیہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ کرنا ہے۔ ابھی پہلا چارج شیٹ تھا کہ وزیراعظم نے جان بوجھ کر عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا۔ صدر کو ترجیح دی اور آئین کو پیچھے رکھا، جو ایک جرم ہے۔ اب عدلیہ نے وزیراعظم کے بارے میں کہا ہے کہ وہ سرکاری عہدہ رکھنے کے اہل بھی نہیں ہیں، فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے یقیناً عدالت کی توہین ہوئی ہے۔ وزیراعظم عدالت میں جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں کہ پارلیمنٹ ختم ہو جائے گی۔ نااہلی کی صورت میں پارلیمنٹ نیا وزیراعظم لا سکتی ہے۔ دوسری طرف میمو گیٹ پر زرداری نے بیان جمع نہ کروا کر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ صدر کی حیثیت سے جو حلف اٹھایا تھا اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ عہدے کے تقدس کا خیال نہیں رکھا۔ آئین کی پاسداری نہیں کی۔
خبر کا کوڈ : 131412
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش