0
Sunday 18 Oct 2009 16:51

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری حجۃ الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس کا انٹرویو

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری حجۃ الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس کا انٹرویو
حجۃ الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس صاحب "مجلس وحدت مسلمین" کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ چند ماہ تک جامعہ اہلبیت ع اسلام آباد میں زیر تعلیم رہے اور پھر قم تشریف لے گئے اور تقریباً اٹھارہ انیس سال تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔ 1984ء کو شھید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی رہ کے بطور قائد ملت جعفریہ انتخاب کے بعد ایک عرصہ تک تحریک جعفریہ شعبہ قم کے مسئول رہے۔ 2000ء کے آخر میں اسلام آباد واپس تشریف لائے اور جامعۃ الحجت کے نام سے دینی مدرسہ بنایا، یہاں پر حوزوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اکیڈمیک تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ 50 کے قریب مختلف لیول کے سٹوڈنٹس مشغول تعلیم ہیں، اس کے علاوہ خواتین کا شعبہ بھی کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں نظری اور فکری ھم آھنگ دوستوں کے ساتھ مل کر قومی اور اجتماعی کاموں میں مصروف رہے، پھر 12/11 اپریل 2008ء کو "مجلس وحدت مسلمین" پنجاب کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے، پھر جب "مجلس وحدت مسلمین" کو توسیع دی گئی تو اس کے مرکزی سیکرٹری جنرل بنا دیئے گئے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مفصل انٹرویو لیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا یے۔
اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کی تشکیل کا پس منظر بیان کریں اور فرمائیں کہ اسکی تشکیل کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟۔
ج: بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ نستعین و ھو خیر ناصر و معین۔ رب اشرح لی صدری و یسر لی امری و احلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی۔ پاکستان سے انقلاب اسلامی ایران کے بعد جانے والے طلاب گذشتہ ایک دہائی یا اس سے کچھ پہلے سے واپس آنا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان میں بسنے والے مومنین اور شیعیان اہلبیت مختلف مشکلات اور مسائل کا شکار تھے۔ کچھ کام ایسے تھے جو نہیں ہو رہے تھے اور جنہیں ہونا چاہیئے تھا اور ان کیلئے قدم نہیں اٹھائے جا رہے تھے لہذا پاکستان میں وہ لوگ جو ولائی اور آرمانی تھے اور جن کی اس بارے میں آرزویں تھیں انہوں نے مختلف کاموں کو انجام دینا شروع کیا۔ مثلا پاکستان میں شہداء کی فیملیز کی کفالت کے حوالے سے کوئی سیسٹم موجود نہیں تھا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ انہی آرمانی لوگوں نے جو شہید عارف حسینی رہ کے پیرو تھے شہید فاونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ ان میں سے کسی نے اس کی تاسیس میں کردار ادا کیا اور کسی نے اسکو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس کام کیلئے رابطہ کیا گیا تاکہ انکی مدد سے شہید فاونڈیشن اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے انجام دے سکے۔ یہ الحمدللہ ایک کامیاب قدم تھا جو شہید عارف حسینی رہ سے محبت کرنے والے امام خمینی رہ اور رھبر معظم انقلاب کے پیروکاروں کی طرف سے اٹھایا گیا تھا۔ اسی طرح جیلوں میں قید اسراء کی رہائی کیلئے بھی کوئی کوشش نہیں کی جا رھی تھی یا بہت کم کوشش کی جاتی تھی۔ لہذا ان افراد نے ایک کمیٹی بنائی تاکہ اسراء کے کیسز کو لڑا جا سکے اور انہیں آزاد کروایا جا سکے۔ اس میں بھی ہمارے نظری و فکری علماء دوست شامل تھے اور انہوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ جس کیلئے جتنا ممکن تھا وہ اتنی کوشش کرتا رہا۔ اس طرح سے الحمدللہ کافی افراد کو جیلوں سے رہائی دلوائی گئی۔ بعض کو سزائے موت ہو چکی تھی جنکی سزا ختم کروائی گئی۔ اسی طرح پاکستان میں ایسے علمی مراکز کا فقدان تھا جو فکر امام خمینی رہ کو لوگوں میں رائج کر سکیں اور اسکے امین اور وارث بن سکیں۔ اگر ایسے مراکز تھے بھی تو انکی تعداد بہت کم تھی۔ یہ ضرورت محسوس کی جاتی تھی کہ ایسے علمی اور دینی مراکز کا وجود میں آنا لازمی ہے جو اس فکر کے حامل ہوں اور اس کو طلباء کے ذریعے عوام اور لوگوں تک منتقل کریں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دوستوں نے مختلف علاقوں میں ایسے علمی مراکز بنائے جو اس سوچ کے حامل بھی تھے اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق بھی تھے۔ یعنی آج کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے تھے۔ ان علمی مراکز کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا، اسلام آباد میں، رجوعہ میں، کراچی میں اور دوسرے علاقوں میں دوستوں نے ایسے علمی مراکز قائم کئے جو آج کامیاب مدارس کی صورت میں موجود ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں تبلیغات کا سلسلہ جو شہید عارف حسینی رہ کے زمانے میں موجود تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ لہذا انہی دوستوں نے مل کر صوبہ سرحد، پنجاب، کراچی اور دوسرے علاقوں سے جمع ہو کر ایک تبلیغی مرکز بنایا تاکہ لوگوں تک معارف اہلبیت ع اور ہدایت اہلبیت ع پہنچ سکے۔ اس کیلئے باقاعدہ میٹنگز ہوتی رہیں اور ایک دستور بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک مرکز قائم کیا گیا جو پہلے کراچی میں تھا اور اب لاہور میں شفٹ ہو چکا ہے۔ اس کو دو دوست برادر ابوذر مہدوی اور سید احمد اقبال رضوی چلا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ دیکھا گیا کہ دہشت گردی کی کاروائیوں کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا، کوئی احتجاج نہیں کیا جاتا اور موثر قسم کی آواز بلند نہیں کی جاتی۔ 2004ء میں جب بلوچستان کے شھر کوئٹہ میں مسجد کے اندر بڑی تعداد میں افراد کو شہید اور زخمی کیا گیا تو اسکے خلاف آواز انہی لوگوں نے اٹھائی۔ یہ لوگ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں گئے، شہداء کے سوم اور چہلم کی مجالس میں شرکت کی، بعد میں بھی گئے تاکہ لوگوں کے حوصلے بلند کئے جائیں اور انکی مدد کی جائے۔ اس وقت مختلف ناموں سے مختلف علاقوں میں یہ کام ہونا شروع ہو گیا۔ اسلام آباد میں ایک نام سے، کراچی میں ایک نام سے لیکن یہ کام کرنے والے افراد آپس میں مربوط تھے۔ تمام علاقوں میں انہوں نے پریس کانفرنسز کا انعقاد کیا، احتجاجی جلسے برگزار کئے، متاثرہ افراد کو تسلی دی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ 2005ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ جوں جوں ایسے واقعات رونما ہوتے گئے، یہ افراد اجتماعی حوالے سے ذیادہ فعال ہوتے گئے۔ مثلا 2004ء میں اسلام آباد اور اسکے اطراف میں تمام جمعے کی نمازیں تعطیل ہوئی تھیں اور ایک بڑی نماز جمعہ برگزار ہوئی تھی اور اسلام آباد میں کئی سالوں کے بعد ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ 2006ء میں جب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ ہوئی تو حزب اللہ کی مظلومیت کو آشکار کرنے، انکی حمایت کا اعلان کرنے اور ان کیلئے امداد جمع کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر اجتماعات ترتیب دیئے گئے۔ 35 دن میں 5 بڑے اجتماع برگزار ہوئے جس میں خواتین، بوڑھوں، بچوں اور جوانوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اس کے بعد 2007ء میں پاراچنار کے حالات بہت خراب ہونا شروع ہو گئے۔ وہاں کے لوگ کیونکہ ہماری فعالیت دیکھ چکے تھے لہذا انہوں نے ہم سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے افراد سے بھی رابطہ کرتے تھے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے تھے۔ وہ پاکستان سے باہر کے افراد سے بھی رابطہ کرتے تھے۔ لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ آپ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں بتائیں کہ کیا صورتحال ہے۔ ہم 2007ء میں علامہ جواد ہادی اور پاراچنار کے لوگوں سے ملنے پشاور گئے تاکہ انکے حالات کو نزدیک سے دیکھا اور سنا جائے۔ ہم علماء کے ایک وفد کی صورت میں وہاں چلے گئے اور صورتحال کا جائزہ لیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ شدید دباو کا شکار ہیں، حکومت اور میڈیا نے انکی صورتحال کو چھپایا ہوا ہے، کسی قسم کی خبر نہیں دیتے، حکومت ہماری کوئی بات نہیں سنتی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پیچھے کوئی ہے ہی نہیں اور ہم تنہا ہیں، لہذا اس حوالے سے آپ ہماری مدد کریں اور ہمارا ساتھ دیں، سنسر کو توڑیں، عوام میں بیداری پیدا کریں، عوام تک ہماری آواز پہنچائیں، حکومت پر دباو بڑھائیں اور ہمیں ریلیف دلوائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کام ایک یا دو افراد کا نہیں ہے بلکہ ایک لمبا اور طولانی کام ہے جو سب کو مل کر کرنا ہو گا۔ تحریک طالبان پاکستان بہت خطرناک ہے جو پاکستان کو مستقبل میں غیرمستحکم کرے گی۔ یہ ایک خطرناک گروہ ہے جس کے پیچھے عالمی قوتیں موجود ہیں۔ لہذا یہ سوچنا صحیح نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے کیلئے ایک سیسٹم بنانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آپ ہماری سپورٹ بھی کر سکتے ہیں اور لمبی مدت تک اس کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس سیسٹم کے ذریعے ہماری مدد بھی کی جا سکتی ہے اور اس خطرے کو ایک فرصت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم پاراچنار میں شکست کھا گئے تو صوبہ سرحد میں تشیع کیلئے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور یہ مزید آگے بڑھیں گے۔ ہم واپس آئے اور لاہور میں فوری طور پر ایک میٹنگ کی۔ تمام علماء کو جمع کیا، جنکی تعداد 40 کے قریب تھی۔ پاراچنار کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ انہیں دوائیں بھجوائی جائیں، سنسر توڑنے کیلئے سی ڈیز بنوائی گئیں، پمفلٹس بنوائے گئے، رابطہ مہم شروع کی گئی، ٹیلی فون کے ذریعے، ایس ایم ایس کے ذریعے، فزیکلی دورے کرنے شروع کئے، تا کہ اس سنسر کو توڑا جائے اور لوگوں تک آواز پہنچائی جائے۔ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو حکومت کے ایوانوں تک آواز پہنچی، مختلف علاقوں میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، لوگوں میں بیداری بڑھنا شروع ہو گئی، پاراچنار کے لوگوں کو بھی تسلی ملنا شروع ہو گئی۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ اب جب حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہوتے ہیں تو اس پر ان چیزوں کا اثر دیکھنے میں آتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہم نے سوچا کہ یہ 40 یا 50 دوستوں کا کام نہیں ہے اور دوسرے علماء کو بھی شامل کرنا چاہیئے لہذا ہم نے پورے پنجاب سے تمام علماء کو پھر دعوت دی اور تقریبا 140 کے قریب دوستوں نے دو دن 11 اور 12 اپریل 2008ء کو جامعۃ الحجت اسلام آباد میں اجتماع کیا۔ اس اجتماع میں دوستوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ علماء کا ایک سیٹ اپ ہونا چاہیئے جس کا نام "مجلس وحدت مسلمین" رکھا جائے۔ اگر ہم یہ کام پورے ملک کی سطح پر کرتے تو کافی وقت درکار تھا لہذا ہم نے سوچا کہ چونکہ پنجاب میں ہم دوست آپس میں رابطے میں ہیں اس لئے پنجاب کی سطح پر ہی کام شروع کیا جائے۔ اسی اجتماع میں ایک شورای عالی اور ایک شورای مرکزی کا انتخاب کیا گیا۔ شورای مرکزی 37 منتخب علماء پر مشتمل تھی اور شورای عالی 12 افراد پر مشتمل تھی۔ شورای عالی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر مجھے منتخب کیا گیا۔ 6 افراد پر مشتمل منتخب کابینہ بھی بنائی گئی۔ کابینہ بننے کے بعد
ہم نے آئی ایس او اور آئی او کے دوستوں سے ان کاموں کے حوالے سے رابطہ کیا، اور ایک 15 رکنی رابطہ کمیٹی بنائی، 5 علماء مجلس وحدت مسلمین سے، 5 آئی ایس او کے دوست، موجودہ اور سابقین اور 5 آئی او کے دوست، یہ مل کر پلاننگ کریں گے اور پاراچنار اور مختلف حوالوں سے یہ فیصلہ کریں گے اور پھر اس فیصلہ کا اجراء کیا جائے گا۔ پھر پتا چلا کہ ڈی آئی خان کے حالات بہت خراب ہیں۔
پروگرام بنایا اور وہاں چلے گئے، کیونکہ جب ہم نے دیکھا کہ اگر ڈی آئی خان فعال نہ ہو تو حالات بدتر ہو جائیں گے۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ لوگ خوفزدہ ہیں، فرار کر رہے ہیں، مایوس ہیں، ناامید ہیں، ہمت ہارچکے ہیں۔ پہلا پروگرام جو 20 جون 2008ء کا تھا اس کے لئے ھم 90 فیصد لوگ باہر سے لے کر گئے تھے، وہاں سے 10 فیصد لوگوں نے شرکت کے تھی۔ جب لوگ ہمت ہارے ہوئے ہوں، حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، ناامید ہو چکے ہوں تو ان کو کھڑا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ الحمدللہ! 20 جون کے پروگرام کے بعد ہمت بھی بڑھی، حوصلہ بھی ہوا، اور پھرانہوں نے مقاومت بھی کی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر پاراچنار میں دوائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں مارگلہ ہوٹل کے اندر سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور دوسرے لوگوں کا اجتماع کیا، اور ان کو باقاعدہ بریفنگ دی پارا چنار کے بارے میں، موثر قسم کے 66 لوگوں کو بلایا ان میں سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور بڑے مخیر اور موثر لوگ بھی تھے۔ ہم نے ان کو بلایا، پارا چنار کے بارے میں مکمل بریفنگ دی، کہ در اصل کیا صورت حال ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، خطرات کیا ہیں، اور اس حوالے سے ان سے مشاورت بھی کی اور وہیں پر فنڈز کمیٹی بھی بنائی گئی، فوج کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے 3 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی، میڈیا میں مسئلے کو اٹھانے کے لئے ایک الگ کمیٹی بنائی گئی، ایک وکلاء کی کمیٹی بنائی گئی کہ اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو دیکھ لیں، یعنی جو اس قضیہ کے مختلف پہلو بنتے ہیں، اس پہلو سے ہم اقدامات کریں۔ آہستہ آہستہ ملک میں اسی تناظر میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، رابطہ مہم شروع ہو گئی، اور سنسر ٹوٹنا شروع ہو گیا، اخباروں میں، میڈیا میں آنا شروع ہو گیا، دہلی میں مظاہرے ہوئے، لندن، امریکہ میں مظاہرے ہوئے، پاکستان کے دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، باہر کے ملکوں میں لوگ جمع ہو کے جاتے اور پاکستان کی سفراء کو یاد داشتیں دیتے کہ پاکستان میں یہ ظلم ہو رہا ہے، اسکو روکا جائے، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے پاس دو تین مرتبہ لوگ گئے، مختف ملکوں کے اندر اسی طرح سے، تو ایک بیداری شروع ہو گئی، جب بیداری شروع ہو گئی تو لوگوں کو ریلیف اور مدد پہنچنا بھی شروع ہو گئِی، اور حکومت پر بھی دبائو بڑھنا شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں بھرپور کوشش کر کے پاراچنار کے حوالے سے آواز بلند کی جائے، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کو ایوانوں تک پہنچایا جاِئے،
پچھلے سال 12، 13 جولائی کو ہم نے طے کیا کہ 2 اگست 2008ء کو ہم پروگرام کریں گے، اتنے شارٹ نوٹس پر 1980ء کے بعد شاید پہلا اجتماع تھا جس میں ہزاروں لوگ آئے اور ریلی بھی نکالی گئی، حکومت کی طرف سے دباو تھا، ناامنی بہت زیادہ تھی، احتمال تھا کہ کچھ ہو جائے، حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ یہاں کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، 4 سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکتے، ٹیلیویژن پر باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، حکومت نے بہت ہتھکنڈے استعمال کئے، لیکن دوستوں کی استقامت کی وجہ سے بھرپور پروگرام ہوا، خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، بچے بھے تھے، بڑے بھے تھے، اس پروگرام میں اکثر دوست اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تھے، یہ ایک عجیب موقع تھا، یعنی دوستوں کے اندر یہ احساس تھا کہ اگر لوگوں کو خطرہ ہے تو وہ بھی اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ جائیں، یہ لوگوں کی طرف سے صداقت تھی اپنے مقصد اور ہدف کی جانب، بالکل اسی طرح جیسے حضرت رسول خدا ص مباہلہ میں اپنےگھر والوں کے ساتھ گئے تھے کیونکہ ان کو اپنے مقصد پر یقین تھا۔ خیر بہت بڑا اجتماع ہوا، اس نے لوگوں کو بڑا حوصلہ دیا اور ان کی بڑی ہمت بندھائِی، 2 سے لے کر 31 اگست تک پھر مسلسل مظاہرے شروع ہو گئے، سارے ملک میں، ہم نے تقسیم کیا ہوا تھا، کہیں شبیر بخاری صاحب جا رہے تھے، کہیں عبدالخالق اسدی کو بھیج رہے ہیں، کہیں امین شہیدی جا رہے ہیں، کہیں میں جا رہا ہوں، کہیں دوسرے دوست جا رہے ہیں، ہم تقسیم ہو گئے تھے تا کہ 31 اگست تک مظاہرے رہیں، اور ہم نے 3 اگست کو اعلان کیا تھا کہ پارا چنار کے جو راستے بند ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی لئے ہم یکم ستمبر کو ملک کے تمام شاہراہوں کو 3 گھنٹوں کے لئے بند کریں گے، تاکہ لوگوں کو بھی پتہ چلے اور حکومت پر بھی پریشر پڑے کہ سڑکیں بند ہونے سے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور لوگ اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔ پچھلے سال تقریبا 28 مقامات پر گلگت سے لے کر کراچی تک اور خیبر سے لے کر بلوچستان تک اہم شاہراہیں بند کی گئیں، جو کہ 4 بجے سے لے کر شام 7 بجے تک بند رہیں، اور بڑا منظم احتجاج تھا، پورے ملک میں نہ 4 بجے سے پہلے یا بعد میں سڑکیں بند ہوئیں، نہ 7 بجے سے پہلے یا بعد میں کھولی گئیں، اسلام آباد سارا بند تھا، کراچی لاڑکانہ سکھر کوئٹہ، سرگودھا اور جو موٹروے کی طرف راستے آتے ہیں، سارے بند تھے، اسی طرح سیالکوٹ ، لیہ ،بھکر اور لاہور بھی بند تھا، جوں جوں بیداری کے لئے کام ہو رہا تھا، ان اقدامات کے ذریعے لوگ آرگنائز ہو رہے تھے، آپس میں اعتماد بڑھ رہا تھا۔ فیصلہ ہم اسلام آباد میں کرتے تھے لیکن تعاون پورا پاکستان کرتا تھا، کوئٹہ، سرحد، سندھ اور شمالی علاقہ جات کے لوگ۔ اس کے بعد یہ ڈیمانڈ ہونا شروع ہو گئی کہ آپ جو فیصلے کرتے ہیں ان میں ہمیں بھی شریک کریں، ہم آپ کے ساتھ تعاون تو کرتے ہی ہیں لہذا ہمیں ان فیصلوں میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ دوسرے علاقوں کے علماء اور غیر علماء بھی اس میں آنے چاہیئیں۔ کیونکہ وہ نظری اور فکری لوگ جو شہید کے ساتھ رہے تھے یا شہید کے ساتھ محبت کرتے تھے اور رہبر کے پیروکار تھے انہیں ایک پلیٹ فارم نظر آنا شروع ہو گیا، ایک سسٹم بنتا نظر آ گیا جس کو اگر اچھی طرح بنائیں تو ہم اس پرچم کو جو شہید کے ہاتھ سے گرا تھا مل کر تھام سکتے ہیں، ہم اپنے مظلوموں اور محروموں کو ظلم سے نجات دلا سکتے ہیں، انکے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں اور بالاخر پاکستان کیلئے کام کر سکتے ہیں اور اپنے وطن کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ لہذا پھر دوستوں کی میٹنگز شروع ہو گئیں، رابطہ مہم شروع ہو گئی، پورے ملک میں رابطے ہوئے اور پچھلے سال 2 اور 3 مئی 2008ء کو رجوعہ سادات جامعہ بعثت چنیوٹ میں اجتماع ہوا جس میں 160 کے قریب علماء اور اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرعلماء نے بھی شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم اس سسٹم کو وسعت دیں گے۔ اس اجتماع میں دو اھم اعلان کئے گئے، ایک تو مجلس وحدت مسلمین کو وسعت دینے کا اور دوسرا یہ کہ 2 اگست کو اسلام آباد میں گذشتہ سال کی طرح ایک مرکزی اجتماع کیا جائے گا۔ جس میں دفاع وطن کے حوالے سے پروگرام کروایا جائے گا۔ پھر 3 مئی سے لے کر جون کے آخر تک مجلس وحدت مسلمین کا تشکیلاتی کام شروع ہو گیا۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں 5 جولائی تک ہم نے تشکیلاتی کام انجام دیا، 25 اضلاع میں تنظیم سازی کا کام مکمل کر لیا تھا۔ بلوچستان میں بھی 5 جولائی کو تنظیمی اجتماع ہوا تھا، وہاں پر بھی اکثر اضلاع میں پنجاب کی طرح ہم نے ابتدائی تشکیلاتی سیٹ اپ بنا لیا تھا۔ پنجاب میں بھی صوبائی سیکرٹری جنرل بن گیا تھا اور بلوچستان میں بھی بن چکا تھا۔ پھر اس کام کو ہم نے روک دیا، صوبہ سندھ کے دورے بھی ہم نے کئے، کراچی کی دورے کئے دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور صوبہ سرحد کے جو علاقے پنجاب سے ملتے ہیں مثلا ہری پور اور دوسرے، وہاں بھی تنظیم سازی کر دی گئی۔ باقی علاقوں کے بارے میں طے تھا کہ 2 اگست کے بعد ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ 2 اگست کے پروگرام کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ 2 اگست کو اسلام آباد میں مرکزی اجتماع ہوا، دفاع وطن کے نام سے، ہم چاہتے تھے کہ اس انداز سے نئے فیز میں داخل ہوں کہ ہم فقط اپنے لئے نہیں سوچتے ہیں بلکہ اپنے وطن کے لِئے بھی سوچتے ہیں، ان مشکل ترین حالات میں جب ہر طرف سے ملک کو توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کو ناامن کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہیں، ہمارے اجداد نے اس وطن کو بنایا تھا، ہم اٹھیں اور وطن کے دفاع کے لئے شہید کی برسی کا نام رکھ دیں "دفاع وطن کنونشن" اور الحمدللہ اسلام آباد میں ایک نیا فیز تھا جس میں ہم داخل ہوئے، دفاع وطن کنوینشن کے حوالے سے اسلام آباد میں تقریبا ایک لاکھ افراد اکٹھے ہوئے، جو "پاکستان بنایا تھا، پاکستان بچائیں گے" کے نعرے لگا رہے تھے، اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم تھے اور اپنی ھویت کو بھی نہیں چھپاتے تھے، ہم رہبر کے پیرو ہیں، ایک ہاتھ میں پاکستان کا پرچم تھا اور لبوں پر "خامنہ ای رہبر" کے نعرے تھے، الحمدللہ اس طرح انہوں نے اپنی ھویت کا اظہار بھی کیا کہ ہم کس رستے کے راہی ہیں اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم لے کر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ پاکستان ہمارا ہے اور ہم اس کو ہر مشکل سے بچانے کی لئے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ہر قربانی دینے کی لئے تیار ہیں اور ان خطرناک ترین حالات میں جب اسلام آباد کی انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ خودکش حملے ہو سکتے ہیں آپ نہیں کریں، ہم آئے، ہماری عورتیں آئیں، ہمارے بچے آئے، ہمارے بڑے آئے، بوڑھے آئے اور ملک کے کونے کونے سے آئے، الحمدللہ۔۔ بالکل یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید حسینی رہ کی شہادت کے بعد یہ ایک اہم موڑ تھا۔، شہید کے افکار، راستوں، سوچ کے حوالے سے اور شیعیان پاکستان کا ایک بدلتا ہوا کردار اور رول جو شہید چاہتے تھے کہ ہم ادا کریں اس کے حوالے سے الحمدللہ یہ ایک اہم موڑ تھا اور پھر جب پروگرام ختم ہو گیا تو تنظیم سازی کا دوسرا مرحلہ شروع
ہو گیا، جو 12، 13 دسمبر تک جاری رہے گا اور تب تک انشاء اللہ ہم پاکستان کے تمام علاقوں میں تنظیم سازی مکمل کر لیں گے جس پر کام شروع ہے اور اس کے بعد 12، 13 دسمبر کو تنظیمی اجتماع کریں گے انشاء اللہ، اور اس میں نئے مرکزی سیکرٹری جنرل کا ہم انتخاب کریں گے، اور اس دوران ہم نے اعلان کیا ہے کہ عوام کی مدد سے عوام کے کام کریں گے، ہم نے پاکستان میں تقریبا 10 اہم ریجن منتخب کئے ہیں، جن میں ہم ہر ریجن میں 10 ہزار افراد کو ممبر بنائیں گے، کل ایک لاکھ ممبر پہلے مرحلے میں بنا رہے ہیں، ہر ایک ممبر کم از کم 100 روپے ماھانہ ادا کرے گا، اس طرح عوام کے دیئے ہوئے سرمائے کے ساتھ ہم انتظام بھی چلائیں گے، اور عوام کے ضروریات بھی پوری کریں گے، اور کام بھی کرنے کی کوشش کریں گے، اور اسی طرح مختلف حوالوں سے امام بارگاہوں اور مساجد کے لئے سیکیورٹی سسٹم بنا رہے ہیں جو پاکستان کے قوانین کے مطابق ہو اور جس کی اپنی ایک قانونی حیثیت ہو اور الحمدللہ اس حوالے سے ایک پورا شعبہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ہم پلاننگ کر رہے ہیں اور جلد ہی اعلان کر کے اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا۔
اسلام ٹائمز:مجلس وحدت مسلمین کی تشکیل کے اغراض و مقاصد و اھداف کیا ھیں؟۔
تحفظ تشیع ، پاکستان کو محفوظ کرنے، اس کا امن لوٹانے اوراس کی سالمیت کے حوالے سے اپنا رول پلے کرنا ہے اور پاکستان میں ایک لانگ ٹرم پروگرام ہے۔ پاکستان میں عوام متدین ہیں، دین سے محبت رکھتے ہیں اور یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ ان پر ایک ایسی حکومت قائم ہو جو اسلام اور قرآن کے مطابق ہو، لھذا پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ وہاں دین کی پابندی کی جائے اور لوگ اسلام کے پرچم تلے زندگی گزاریں، اس کے علاوہ وحدت بین المسلمین کے ہم تمام کے تمام طبقات میں وحدت کے لئے کام کریں جو امام خمینی رہ اور شہید قائد حسینی رہ کی آرزو تھی، لھذا اس حوالے سے ہم ان کے پاس گئے اور مختلف پروگراموں میں جہاں قائد شہید کی تصویر تھی، وہیں ساتھ شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی اور ساتھ ھی شہید حسن جان کی تصویر بھی تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کے سب، ان لوگوں نے مارے ہیں کہ جو وطن اور ملک دشمن ہیں، اور ان مرنے والوں کا جرم یہ تھا کہ یہ وطن دوست تھے، یہ پاکستان سے محبت کرنے والے تھے، ان کا وجود پاکستان کے لئے بہت مفید تھا، لھذا وحدت بین المسلمین، وحدت بین المومنین کے حوالے سے کام کرنا، شیعوں میں شعور کو بلند کرنا، کہ وہ اٹھیں اور اپنے حقیقی مقام کی طرف آگے بڑھیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی اقلیتیں جو کہ پاکستانی ہیں کے لئے کام کرنا اور پاکستانیت کو رواج دینا کہ پاکستانی ہونا ہمارے لئے بیحد اہم ہے، جیسے جمہوری اسلامی ایران کے اندر 3 چیزوں کو ملایا گیا ہے اور اسی وجہ سے دشمن کی کافی سازشیں ناکام ھوئی ہیں، وھاں وطنیت ہے، اسلام ہے اور جمہوریت ہے۔ اگر دشمن آتا ہے تو وہ یا وطنیت کے نام سے، اسلام کے نام سے اور یا جمہوریت کے نام سے آتا ہے، وھاں کا سسٹم کمبینیشن ہے وطنیت کا، اسلام کا اور جمہوریت کا، لھذا اسی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایک ایسا سسٹم بنائیں جس میں وطنیت اہم ہو اور پاکستان سے محبت کو رواج دینے میں ہمارا باقاعدہ نقش اور کردار ہو۔ اور اسی طرح سے امن و امان جو پاکستان سے لوٹ لیا گیا ہے، اس امن کو لوٹانے کے لئے رول پلے کریں، اور اسی طرح سے سالمیت ہے، یکجہتی ہے اور مختلف اقوام جیسے پاکستانی شیعہ بلوچ بھی ہے، سندھی بھی ہے، مہاجر، پنجابی اور پٹھان بھی ہے، ہمارے پاس بڑی کیپیسٹی اور پوٹینشل ہے کہ ہم ان اقوام کی یونٹی کے لئے کام کریں، اور اس میں ایک رول پلے کر سکیں۔
اسلام ٹآئمز: پاکستان میں وحدت مسلمین کے لئے آپ کے پاس کیا فارمولا ہے؟ کس طرح پاکستان میں رھنے والے مختلف فرقوں کے لوگ باھم متحد ہو سکتے ہیں؟۔
ہمارے درمیان بہت زیادہ مشترکات ہیں، خدا، توحید، نبوت، قرآن، قبلہ کے حوالے سے اور پھر جہان اسلام کو جو خطرات درپیش ہیں اس حوالے سے، ایشوز کے حوالے سے ہمارے درمیان بہت زیادہ مشترکات ہیں، پاکستان کے اندر مسلمانوں کو جو مشکلات درپیش ہیں، جو مختلف یلغاریں ہے، تہاجم فرہنگی ہے، لوگ کہتے ہیں ہم سے دینی ھویت چھینی جا رہی ہے، ان حوالوں سے اتنے زیادہ ایشوز ہیں، یوم القدس، فلسطین کے حوالے سے، مسلمانوں کے جو بین الاقوامی ایشوز ہیں، ہم بہت زیادہ ایشوز پر اکٹھے ہو سکتے ہیں اور اکٹھے سٹینڈ لے سکتے ہیں اور استکبار کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنا سکتے ہیں۔ ایسے نہیں ہے کہ شیعہ شیعہ نہ رہے، سنی سنی نہ رہے، بریلوی بریلوی نہ رہے بلکہ اپنی اپنی دینی ھویت پر قائم رہتے ہوئے نیشنل اور انٹرنیشنل ایشوز پر اکٹھے ہوں۔ مثلا پاکستان میں امن کا مسئلہ ہے، پاکستانیوں کو بھی اکٹھے ہونا چاہئے، مسلمانوں کو بھی، فلسطین کا مسئلہ ہے، کشمیر کا مسئلہ ہے، امریکہ کا مسئلہ ہے، پاکستان اس وقت خطرناک حد تک امریکی شکنجے میں جکڑا جا رہا ہے، پاکستان کو امریکی شکنجے سے نکالنے کے لئے ہمیں اکٹھے کھڑے ہونا چاہئے، غیرملکی قوتیں جو پاکستان میں مداخلت کر رہی ہیں ان کے خلاف ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں، بہت زیادہ ایشوز ہیں، لا متناہی۔
اسلام ٹائمز:مجلس وحدت مسلمین کے تنظیمی ڈھانچے پر روشنی ڈالِیں؟۔
سب سے نیچے یونٹ، پھر ضلع، صوبہ اور اس کے اوپر مرکز ہے۔ ہر یونٹ کا مسئول ضلعی شورای کا رکن ہو گا، اگر ایک ضلع میں 20 یونٹس ہیں تو ضلعی شورا کے ارکان 20 ہوں گے، یہ اراکین اپنا سیکرٹری جنرل انتخاب کریں گے، جو ضلعی سیکرٹری جنرل ہو گا وہ اپنی کابینہ بنائے گا جس کی ضلعی شورا سے منظوری لے گا، پھر ہر ضلع سے 2 آدمی، ضلعی سیکرٹری جنرل اور ایک اور آدمی جس کو ضلعی شوری منتخب کرے گی، یہ صوبائی شوری کے رکن بن جائیں گے، صوبائی شوری اپنا صوبائی سیکرٹری جنرل بنائے گی، پھر 6 مناطق: چاروں صوبوں، شمالی علاقہ جات اور کشمیر کے سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل سے مل کر مرکزی شوری بنے گی، مرکزی شوری 2 کام کرے گی، ایک تو مرکزی سیکرٹری جنرل کا انتخاب کرے گی اور اس کے اوپر ایک شوری عالی ہے جو 27 افراد پر مشتمل ہو گی، اس کا انتخاب بھی مرکزی شوری کرے گی، اور اسی طرح اس کے اوپر مجلس نظارت ہے اور اس کا انتخاب بھی شوری عالی کرے گی۔ مجلس نظارت جس میں بزرگ علماء ہوں گے اس کے نیچے شوری عالی ہے جو اعلی اختیاراتی ادارہ ہے پاور کے اعتبار سے۔ اس کے اراکین کی تعداد 27 ہو گی جن میں سے 21 منتخب ہوں گے اور 6 عہدیدار ہوں گے۔ ہر صوبے کا سیکرٹری جنرل بلحاظ عہدہ اس کا ممبر ہو گا اور باقی 21 افراد کا انتخاب مرکزی شوریٰ کرے گی۔ شوریٰ عالی سیکرٹری جنرل کا نام بھیجیں گے۔ سکروٹنی کرنے کے بعد، ایک ٹیم ان میں سے الیکشن کمیشن کا رول بھی پلے کرے گی جو 2 یا 3 افراد کے نام بھیجیں گے مرکزی شوری کو جو ان تینوں یا دونوں میں سے کسی کو بھی ووٹنگ کے ذریعے اپنا سیکرٹری جنرل منتخب کر لے گی۔
مرکزی شوری 6 مناطق کے صوبائی جنرل سیکرٹریز پر مشتمل ہو گی، اور صوبائی شوری ہر علاقے کے ضلع کے دو دو افراد اس میں شامل ہوں گے، ہر ضلع کی شوری ہر یونٹ کے مسئولین پر مشتمل ہو گی۔ یونٹ،ضلع،صوبہ اورمرکز میں سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل مسئول ھوں گئے۔
اسلام ٹائمز:کیا یہ تنظیمی ڈھانچہ باقی تنظیموں کی طرح صدر، سربراہ یا امیر والے سسٹم سے مختلف ھے؟۔
جی ھاں مختلف ھے، اس میں فرق ہے دوسری اسمبلیوں سے، ایک سسٹم فرد بیسڈ ہوتا ہے جس میں ایک فرد کو محور قرار دے کر اس کے گرد تشکیلاتی ڈھانچہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں ایسے نہیں ہے، یہاں جو نظام بن رہا ہے یہ آرگنائزیشن بیسڈ مشاوراتی نظام ہے۔ اس سسٹم میں فرد واحد کا تصور نہیں پایا جاتا۔
اسلام ٹائمز:کیا "مجلس وحدت مسلمین" کے تنظیمی ڈھانچہ کے اندر باقی فرقوں کے افراد کے لئے بھی عملی فٰعالیت کی گنجایش ھے؟۔
بلحاظ مجلس وحدت مسلمین، ہم خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، پاکستانی ہیں اور ہمارا وحدت سے جو پیغام جاتا ہے یہ ہے کہ ہم پاکستان کے اندر اتحاد اور وحدت چاہتے ہیں اور اسی طرح ہم نے مخصوص ناموں سے بھی اجتناب کیا ہے تاکہ ہماری شناخت بعنوان مسلمین پاکستان ہونا چاہئے، اور ہم اس کو کبھی بھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں، لھذا دوسروں کے ساتھ وحدت یعنی اپنے اسٹرکچر میں رہتے ہوئے مشترکہ ایشوز کے اوپر اور پاکستان کے حوالے سے اور بین الاقوامی ایشوز پر، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ہم اکٹھے ہوں، ہمارا ایک موقف ہو، ایک اسٹینڈ ہو اور ہم مل کر کام کریں، اسلام ٹائمز:بطور"مجلس وحدت مسلمین" نام گذاری کی وجہ کیا ھے؟۔
پاکستان میں موجود مختلف فرقہ جات کے ساتھ آسانی سے ارتباط قائم کیا جا سکے اور مل کے کام بھی کر سکیں۔
اسلام ٹائمز:شیعیان پاکستان کے اھم مسائل کیا ھیں؟۔
شیعیان پاکستان کے مسائل مختلف نوعیت کی ہیں، بعض ایسے ہیں جو باقی پاکستانیوں کے ساتھ مشترک ہیں، جیسے تعلیم کے مسائل ہیں، ہیلتھ کے مسائل ہیں، جو باقی پاکستانیوں کے درد اور مشکلات ہیں وہی ان کے ہیں، بیروزگاری ہے، اقتصادی مشکلات ہیں، اور ناامنی ہے، سب کے لئے، صرف شیعوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ان کے لئے باقیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہے۔ پاکستان کے اندر مختلف قسم کی فکری، سیاسی اور اجتماعی محرومیتیں ہیں، جو ہمارے حقوق ہیں وہ ہمیں نہیں دیئے جا رہے، مثلا ہمارے ہزاروں لوگ قتل کئے جا چکے ہیں، ان کے کسی قاتل کو سزا نہیں دی گئی، کتنے ہی لوگ بیگناہ مارے جاتے ہیں حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی، ہمارے لوگ مشکلات کا شکار ہیں، جانی مالی اور امنیتی حوالے سے، حکومت کی طرف سے جس معاملے پر توجہ دی جانی چاہئے نہیں دی جاتی، اور شیعوں کے اندر داخلی مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، عقائد کے مسائل ہیں، تقسیم بندیاں ہیں، مختلف حوالوں سے، یہ بھی ہمارے ایشوز ہیں، مشکلات ہیں، انشاء اللہ العزیز ہم ان تمام حوالوں سے جتنے ہمارے پاس وسائل آتے جاتے ہیں، فرصتیں حاصل ہوتی جاتی ہیں، ہم کوشش کریں گے کہ آگے بڑھ کر کام کریں، چاہے ان کے رفاہی مسائل ہوں، تعلیمی ہوں، سیاسی اور امنیت کے حوالے سے ہوں، شیعوں کی داخلی پرابلمز ہیں ، اختلافات ہیں، ان حوالوں سے انشاء اللہ ھم اپنا کردار ادا کریں گے، رول پلے کریں گے، گذشتہ دو سالوں میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ان کا آپس میں داخلی ٹکراو
نہ ہو، ہم نے جتنے بھی قدم اٹھائے ہیں 2004ء سے، بلکہ اس سے پہلے بھی جب سے کام شروع کیا ہے تو کوشش کی ہے کہ صرف ان کاموں کو ہاتھ لگایا جائے جہاں اختلاف ممکن نہ ہو، شہید فائونڈیشن کو دیکھیں، اسراء کو دیکھیں، اور زخمیوں کا علاج معالجہ ہم کرواتے رہے ہیں، سیکڑوں زخمیوں کا علاج کروایا ہے، چونکہ اس میں کوئی تعرض نہیں ہو سکتا، اسراء کے حوالے سے کوشش کی ہے کہ کہیں تعرض نہ ہو۔ جب اجتماعی حوالوں سے آگے بڑھے تو کوئی بھی ایسا پروگرام نہیں ہے جس میں دوسرے لوگوں کو دعوت نہ دی ہو۔ کوئی ایک، چھوٹے سے چھوٹے سے لے کر بڑے سے بڑے پروگرام تک، سب کو دعوت دی ہے، چاہے وہ جس طبقے کے بھی شیعہ تھے، ماتمی، ملنگ، عزادار، نمازی، تحریکی، دوسری تحریک والے، ذاکرین، خطباء و شعراء وغیرہ، ہم نے کسی کو نظرانداز نہیں کیا، ہم نے سب کو دعوت دی ہے اور کوشش کی ہے کہ ہماری طرف سے کھلے دل کے ساتھ ان تک پہنچا جائے اور اندر کے جو اختلافات ہیں ان کو جتنا بھی کم سے کم کیا جا سکے ہم کریں، تب ہی ہم مل کر دشمن کے حربوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اور کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز:کیا "مجلس وحدت مسلمین" کی عملی فعالیت انتشار بین المومنین کا باعث نہیں بنے گی؟۔ 
میرے خیال میں ہمارا جو پہلا تجربہ ہے، کوئی بھی ایسا قدم نہیں بتلایا جا سکتا جس کے باعث انتشار پیدا ہوا ہو، مفید ہی قدم اٹھائیں گے، جیسا کہ میں نے بتایا مختلف کاموں کے لئے تمام لوگوں کو دعوت دی ہے، خود وفد کی شکل میں علماء کے پاس علماء کو بھیجا ہے، دعوت نامے بھیجے ہیں اور کوشش کی ہے کہ کہیں بھی ایسی صورتحال پیش نہ آئے، ایک بات تو یہ ہے، پس دو سال کے اندر تو کسی بھی پروگرام کے حوالے سے آپس میں کوئی ایسی چپکلش پیدا نہیں ہوئی،حتی کہ انہوں نے جو اسلام آباد میں 5 جولائی 2009ء کو پروگرام کیا تھا اس میں ہمارے دوستوں نے بھرپور شرکت کی ہے۔ قومی حوالے سے اگر کوئی بھی ہمیں بلاتا ہے، ہم اکٹھے ہو جائیں گے۔ جن ایشوز پہ ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں ہمیں وہاں اکٹھا ہونا چاہئے، اگر ترجیحات میں فرق آئے، آپ کے ترجیح ایک مسئلے میں اور ہے تو ہم کہیں گے کہ آپ کھل کر کام کریں ہم معارض نہیں ہیں۔ ویسے بھی گذشتہ 15/20 سالوں میں بہت سے نئے لوگ وجود میں آ چکے ہیں، بچے جوان ہو چکے ہیں، بہت سے نئے طبقے وجود میں آ چکے ہیں، اور بڑی تعداد میں، اگر آپ عوام میں دیکھیں اکثریت آپ کو جوانوں کی ملے گی ،ایک بڑی وسیع تعداد میں بچے بڑے ہو چکے ہیں، جو نوجوان لڑکے تھے جوان تر ہو چکے ہیں، ایک بات تو یہ ہے، دوسری بات یہ کہ جیسا میں نے عرض کیا ہے کہ اگرچہ ہماری یونٹ سازی کا کام ہی کیوں نہ ہوں، جھاں پہ مسئلہ پیش آئے، ھماری واضح پالیسی ھے کہ وھاں پر یونٹ تشکیل نہ دیا جائے، مثال آپ کو دیتا ہوں، یوم القدس کے ہمارے پروگرام ہوتے ہیں، جہاں کہیں بھی مسئلہ پیش آئے ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ہم کہتے ہیں بسم اللہ آپ آگے کھڑے ہو جائیں، ابھی اسلام آباد میں یوم القدس کا مسئلہ تھا، کئی مرتبہ کوشش کی، میٹنگز کیں دوست نہیں آئے، ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ جب ہم کہتے ہیں یوم القدس، تو یہ وحدت کا مظہر ہونا چاہئے، شیعہ سنی یونٹی کا سمبل ہونا چاہئے، حتی کہ سارے مسلمانوں کو اس میں آنا چاہئے، کیونکہ ہم نے مظلوموں کے لئے کھڑا ہونا ہے۔ تو ہم نے اس مسئلے میں کبھی اختلاف نہیں کرنا ہم نے کہا کہ ہم ان کے پیچھے چلیں گے، وہ ہمارے آگے تھے، ہم 2/3 ہزار دوست پیچھے سے آ رہے تھے، اور ہم نے ان کو کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ ہمیں تقریر کرنے دیں یہاں پر، نہیں۔۔ خطاب بھی انہوں نے کیا، ہم سب لوگ موجود تھے وہاں پر، اور اس کے بعد انہوں نے خطاب کیا اور ختم ہو گیا اور سب کچھ ٹھیک رہا، ہماری اپروچ یہی ہے کہ کبھی بھی نہ الجھا جائے، دیکھیں لبنان میں بھی حزب اللہ اور امل ہے، اگر تقسیم کار ہو جائے، ھم آھنگی پیدا کرنے کے کوشش کے جائے تو میرا خیال ہے کہ ان چیزوں سے بچا جا سکتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مجلس وحدت مسلمین میں لفظ بعنوان قیادت ہے ہی نہیں، اگر حکمت اور دانائی اور تدبیر کے ساتھ اس کو آگے بڑھایا جائے اور ہمارے بزرگان بھی اس پر توجہ دیں تو یہ ان کے لئے موجب تقویت ہو گی، ان کے وہ ارمان اور کام جن کو وہ عملی نہیں کر سکے یہ کریں گے، ان کے مدارس، مساجد اور شخصیات کی حفاظت یہ کریں گے۔ اس سے خود علماء کا احترام بڑھے گا۔ اگر ایک دوسرے کے ساتھ نہ الجھیں، یعنی جوان کام کرنے والے ہیں اور کام کر سکتے ہیں اور ثابت بھی کیا ہے انہوں نے کہ کام کر رہے ہیں، تو میرے خیال میں، ہم نے کوئی 7/6 مرتبہ، 9 میٹنگز میں ہم بیٹھے ہیں، ان بزرگان کے ساتھ بیٹھے ہیں، وہاں جب میٹنگز میں باتیں ہوئی ہیں، ہم نے انہیں کہا کہ آپ فیصلہ کریں، پاکستان کے ایشوز پر جب گفتگو ہو رہی تھی، ھم نے کہا کہ آپ فیصلہ کریں، حکم دیں، ہم اس پر عمل کریں گے، ہماری اپنی آپ کی رائے کے مقابلے میں رائے بھی نہیں ہے، چند جماعتیں یا گروپ ہونا مہم نہیں ہے، مہم یہ ہے کہ آپس میں ٹکرایا نہ جائے، اگر ہمارے لئے راستے واضح ہوں اور وحدت کو ہم اصل قرار دیں اور اتفاق و اتحاد سے آگے بڑھنا چاہیں تو میرے خیال میں جب بین الاقوامی طور پر اس طرف بڑھ رہے ہوں تو انشاء اللہ العزیز ہم یہ مسئلے پیدا نہیں ہونے دیں گے، جہاں جزوی چھوٹے چھوٹے مسائل پیدا بھی ہوں گے، ان کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اگر اوپر سے بھی یہی سوچ اور فکر ہو تو۔
اسلام ٹائمز:اتحاد بین المومنین پاکستان میں بھت بڑا مسئلہ ھے آیا اس کے حل کے لئے بھی آپ نے کوئی کمیٹی بنائی ھے؟۔
آپ کی اس بات کا جواب یہ ہے کہ پچھلے سال 2008ء میں تقریبا دسمبر میں ایک میٹینگ ہوئی تھی پاکستان بھر سے بزرگ علماء تھے، ہم بھی مجلس وحدت کی طرف سے اس میں شامل تھے، انہوں نے مجھے دعوت دی اور میں اس میٹنگ میں گیا تھا، وہاں پر بزرگان کی ایک 7 رکنی کمیٹی بنی، طے پایا کہ یہ بزرگان ،بزرگوں کا رول پلے کریں گے، اور جوان علماء اپنا رول پلے کریں گے، یہ  بزرگ  سرپرستی کریں گے، بڑے آدمی کا رول پلے کریں گے اور باقی ان کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلیں گے، ہم اس میں شریک تھے، ہم نے ان کی حمایت کی، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا، ان 9 میٹنگز میں ہم بیٹھے، قومی ایشوز پر گفتگو ھوئی، ہم نے اس میں یہی کہا کہ آپ کا فیصلہ ہمارا بھی فیصلہ ہے، ہماری رائے اس کے مقابلے میں نہیں، آپ حکم دیں ہم اس پر عمل کریں گے، اس کے بعد ایک ورکنگ کمیٹی بن گئی، جس میں آئی ایس او، مجلس وحدت مسلمین، تحریک جعفریہ، عسکریہ، وفاق اور دیگر 17 تنظیمیں ہیں، ان پر مشتمل ایک ورکنگ کمیٹی بن گئی، وقتا فوقتا وہاں دعوت ہوتی ہے، مل کر بیٹھتے ہیں، قومی ایشوز ڈسکس ہوتے ہیں، اس کے بعد ہم جو بھی پروگرام کرتے ہیں، اس کی اطلاع ان سب کو دیتے ہیں کہ ہم یہ پروگرام کر رہے ہیں، ہم نے 2 اگست کے پروگرام کا 3 مئی کو اعلان کیا تھا، اندازہ لگا لیں آپ، کتنے ماہ پہلے، تقریبا 3 ماہ پہلے، اور اس کے بعد پھر ہم نے ان کو دعوتیں بھی دیں، بہت پہلے دعوتیں دیں، 3 مئی کے بعد مئی میں ہی میں لاہور گیا، وہاں قاضی نیاز صاحب ہیں، ان کو بتایا کہ ہم یہ پروگرام کرنے جا رہے ہیں، ہم نے کافی مرتبہ ان کیساتھ ملنے کی الگ سے کوشش کی ہے، وہ مصروف تھے اور ہماری ملاقات ان سے نہیں ہو سکی، 7 مرتبہ تقریبا ہم نے کوشش کی اور اتفاق یہ ہوا کہ سات کے سات مرتبہ وہ وہاں موجود نہیں تھے اور سفر پر تھے، ٹیلیفون پر ہماری ان سے باتیں ہوئی ہیں، کہ ہم ملنا چاہتے ہیں اور مل بیٹھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم ملیں گے۔ پھر ان کے نیچے جو کام کرنے والے لوگ ہیں، ان سے بھی ہماری 3 مرتبہ ملاقاتیں ہوئی ہیں، ہم چاہتے تھے کہ ہم ملیں، ھم آھنگی کریں، جہاں تک ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں، ہمیں اکٹھے رہنا چاہئے، مختلف ایشوز پر، پارا چنار کے مسئلے پر ہم سب ایک ہوں، حتی حامد موسوی بھی وہاں ہوں، ساری جماعتیں جو پاکستان کی ہیں، جتنے بھی طبقات پاکستان کے شیعوں کے ہیں، اور سب کے ایک آواز ہو، ڈی آئی خان کے مسئلے پر ایک آواز ہو، کوئٹہ کے مسئلے پر ہماری ایک آواز ہو، شیعوں کی مظلومی کے حوالے سے ہماری ایک آواز ہو، ہم سب اکٹھے ہوں، ہماری تو اپروچ یہ ہے، ہم ان کو دعوت بھی دیتے ہیں، الحمد للہ اور کوشش بھی کر رہے ہیں کہ جلد ان کے ساتھ ایک اچھی ملاقات ہو جائے، اور اس میں جن ایشوز پر آپس میں تعاون ہو سکتا ہے، جیسے بزرگوں کے میٹنگز میں بھی ہم بیٹھتے ہیں، وہاں پر بھی جن ایشوز پر آپس میں توافق ہوتا ہے، ہم اکٹھے ہیں اور ہم توافق کرتے ہیں، جب بھی ہم اکٹھے ہوتے ہیں، انشاء اللہ، ان مسائل پر بھی ہم اکٹھے ہوں گے۔
اسلام ٹائمز:پاکستان کے اندر بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت اوراس خطہ میں امریکی اھداف کے بارے میں آپ کی رائے کیا ھے؟۔
پاکستان میں مختلف قسم کی پولرائزیشن کو وجود میں لایا گیا، قومی، سیاسی، سماجی اور علاقے کی بنیاد پر تقسیمیں، سندھی، مہاجر، بلوچ، پنجابی اور پٹھان کے مسئلے کو اٹھایا گیا، مذہب کے بنیاد پر فرقہ واریت کو پیدا کیا گیا، شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، اس طرح کے مسائل کھڑے کئے گئے، سیاسی ایشوز کھڑے کئے گئَے، تاکہ پاکستان ایک طاقتور لیڈرشپ سے محروم ہو جائے، ایسی لیڈرشپ نہ ہو جو ملک کو اکٹھا رکھ سکے، ان حالات میں جو بھی سیاسی جماعتیں حکومت کریں گی وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ایک کمزور جماعت بن جاتی ہیں، اور تھرڈ ورلڈ کے اندر مغرب کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ ایک مضبوط لیڈرشپ ہو، برداشت نہیں کرتا، وہ آگے سے ہٹا دیتا ہے، امپیریلزم جھانی کے اھداف میں سب سے بڑی رکاوت حقیقی جمہوریت ہے، چونکہ ان کے جو اہداف و مقاصد ہیں جمہوریت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں، آپ خود دیکھیں، کہ جو امریکی حکومت کر رہے ہے، کیا امریکی عوام اس کی حمایت کرتے ہیں؟ مخالف ہیں اس کے، حقیقی جمہوریت یہ ہوتی ہے کہ عوام اس کی حمایت کریں، اس کے بعد برطانیہ کے لوگ اس کے مخالف ہیں جو وہ کر رہا ہے، اب اس پورے خطے میں دیکھیں جو حکمران انہوں نے رکھے ہوئے ہیں، انہیں عوامی حمایت حاصل ہی نہیں، لہذا عالمی استکبار کے جو اہداف ہیں وہ جمہوریت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں، وہ کوئی پاپولر لیڈرشپ اس خطے کے اندر وجود میں نہیں آنے دیتے کہ جو ان کے مفادات کو للکارے یا ان کے سامنے سد راہ بن سکے۔
پاکستان بھی تھرڈ ورلڈ میں
سے ایک ملک ہے، یہاں پر بھی پاپولر لیڈرشپ وجود میں نہیں آنے دیتے، اگر کوئی آ گئی تو اس کو مار دیا، راستے سے ہٹا دیا، اب پاکستان سیاسی طور پر ایک کمزور ملک ہے، اگر پاکستان کے سیاستدانوں کے درمیان وحدت ہوتی تو کافی حد تک وہ امریکی پریشر سے نکل سکتے تھے، اس کے بعد داخلی طور پر جو امن و امان اور معاشی مسائل ھیں، ان کا مقابلہ کر سکتے تھے، اقتصادی طور پر پاکستان بہت پیچھے چلا گیا ہے، یہاں پر بحران دیکھیں آپ، انرجی کا بحران، اس طرح کے کتنے بحران ہیں؟ مہنگائی بڑھ گئی ہے، لوگوں کے آمدنی کم ہو گئی ہے، مالی مشکلات، انرجی کی مشکلات، ناامنی کی مشکلات، سیاسی طور پر بحران، ہمارا ملک مختلف بحرانوں کا شکار ہے، امریکہ یہ چاہتا ہے کہ یہ نیم مردہ نیم زندہ حالت میں رہے اور اس کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے یہ بیس کیمپ کے طور پر ان کے کام آتا رہے۔ دوسرا جو عالمی استکبار، اور جو عالمی کمیونزم ہے وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت کے طور پر باقی رہے، ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ پاکستان کو کرائسز میں رکھا جائے۔ ایک تو ان کے اپنے اہداف کے مطابق چلے اور اگر ہو سکے تو پاکستان کو اس کی ایٹمی طاقت سے بھی محروم کر دیا جائے۔ پاکستان چاروں طرف سے فتنوں کا شکار ہے اس وقت، پاکستان میں طالبان کا مسئلہ، طالبان بھی مختلف قسم کے ہیں، کچھ وہ ہیں جن کو انڈیا سپورٹ کر رہا ہے، افغانستان سپورٹ کر رہا، امریکہ سپورٹ کر رہا ہے جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کی عملی موجودگی بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے، اور اثر و نفوذ بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے پاکستان میں، امداد کے حوالے سے، آئی ایم ایف کے شکنجے میں بھی چلا گیا ہے، مالی بحران کے وجہ سے، اور اب کیری لوگر بل جو منظور کیا گیا ہے اس میں بھی پاکستان کے لئے توہین آمیز شرائط رکھی گئی ہیں کہ ان شرائط کے مطابق اس کو خرچ کریں گے، تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکا کا نفوذ اور اسکی موجودگی بہت بڑھ گئی ہے، امریکہ کے مفادات ہیں اس پورے خطے میں، اور اس کی موجودگی اور اثر و نفوذ اس کے اہداف کے لئے سازگار ہے، امریکہ پاکستان کے اندر بہت بڑا سفارتخانہ تعمیر کر رہا ہے ، امریکی پاکستان کے اندر مختلف جگہوں پہ زمینیں خرید رہے ہیں، بلیک واٹر مختلف ناموں کیساتھ پاکستان میں آئے ہوئے ہیں اور ان کے یہاں دہشتگرد گروپس کے ساتھ بہت زیادہ لنکس قائم ہو چکے ہیں اور امکان ہے کہ آئندہ پاکستان کے اندر امریکہ مخالف لوگوں کے حوالے سے بڑا کشت و کشتار ہو گا، اور یہی بلیک واٹر اور پاکستان کے اندر جو انتہاء پسند طبقات اور گروپ ہیں جو مختلف قسم کی افراطی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، ان کو استعمال کریں گے، جیسے انہوں نے عراق میں ظلم کئے ہیں ایسے ہی انہوں نے پاکستان میں بھی ظلم کرنے ہیں، اور معروف ہے کہ بلیک واٹر نے ہی رفیق الحریری کو مارا تھا اور بلیک واٹر نے ہی بینظیر بھٹو کو قتل کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر آئندہ خطرناک قسم کے فتنے جنم لے رہے ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کی لئے جہاں آپ کو اتحاد کی ضرورت ہے بیداری کے ضرورت ہے، ایک سول موومنٹ کی ضرورت ہے، جوانوں کو نوجوانوں کو، سب کو باہر آنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے اس وطن کو امریکی شکنجے سے نکالیں۔
اسلام ٹائمز:ابھی تک مجلس وحدت مسلمین نے امریکی نفوذ کے خلاف کیا کچھ کیا ہے اور آئندہ کیا کرنے کا پروگرام ہے؟۔
جیسے کہ میں نے بتایا کہ اسلام آباد میں 2 اگست کا پروگرام تھا یا جو باقی پروگرام تھے ان میں باقاعدہ امریکی موجودگی کے خلاف آواز اٹھائی اور مطالبہ کیا گیا کہ امریکہ کا یہاں سے نکالا جائے ، امریکی نفوذ ختم کیا جائے، امریکہ کے ڈرون حملے بند کئے جائیں کیونکہ یہ حملے ہماری سالمیت کے خلاف ہیں، ہمیں اپنے مسائل کو خود حل کرنا چاہئے، خود اس کو کنٹرول کرنا چاہئے، پاکستان کے اندر ایک بہت بڑی تعداد ہے طالبان کی جن کو امریکہ سپورٹ کرتا ہے، اس حوالے سے ہم نے اسٹینڈ لئے ہیں، پریس کانفرنسز کی ہیں، البتہ امریکیوں کو پاکستان سے نکالنے کے لئے پاکستان دوست لوگوں کی مشترکہ جدوجہد اور کاوش کی ضرورت ہے۔ جو وطن دوست لوگ ہیں، چاہے وہ قوم پرست ہیں، چاہے وہ سیکولر ہیں، چاہے مذہبی ہیں، ان سب کی مشترکہ جدوجہد کے ذریعے لوگوں میں بیداری پیدا کی جائے، ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی امریکہ کو نکالا جا سکتا ہے، جیسے ایران کے عوام نے نکالا تھا، جیسے وینزویلا میں، جیسے کیوبا میں، جیسے نکاراگوا میں، اور مختلف ملکوں کے اندر انہوں نے کوشش کی ہے اور امریکی اثرونفوذ کا انہوں نے راستہ روکا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی وطن دوست جتنی بھی قوتیں ہیں، چاہے وہ اسلامی قوتیں ہیں یا غیر اسلامی قوتیں ہیں، سب کو اکٹھا ہونا ہو گا اور مل کر آگے بڑھنا ہو گا اور امید ہے کہ انشاءاللہ جوں جوں ہمارا اسٹرکچر ڈیولپ ہوتا چلا جائے گا طاقتور ہوتا چلا جائے گا ہمارا اس حوالے سے رول بڑھتا چلا جائے گا اور دکھائی دے گا، انشاءاللہ۔۔
اسلام ٹائمز: طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟۔
پاکستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کی تمام سرگرمیاں سٹیٹ مخالف، پاکستان مخالف اور عوام مخالف رہی ہیں، یہ خوارج کی طرح کے لوگ ہیں جو انتہائی منجمد اور متہجر قسم کے لوگ ہیں انہوں نے شیعوں کو مارا، سنیوں کو مارا، دیوبندیوں کو مارا، انہوں نے فوج کو مارا، پولیس کو مارا، غریب کو مارا، کسی کو نہیں چھوڑا انہوں نے، یہ خوارج صفت لوگ ہیں اور جو بھی ان کے مقابلے میں آئے فرق نہیں ہے، انہوں نے مولانا حسن جان کو مارا جو دیوبندی عالم تھا، انہوں نے مولانا سرفراز نعیمی کو مارا جو بریلوی عالم تھا، اور اس کے علاوہ شیعوں کے خلاف بھی ان کے ویوز ہمارے سامنے موجود ہیں، لھذا یہ ایک متہجر قسم کا گروہ ہے، تحریک طالبان پاکستان، یہ ایک ناسور ہے پاکستان کے اندر۔ جس کے پیچھے انڈیا ہے، افغانستان ہے، امریکہ ہے، اس کے پیچھے عالمی استکبار اور اسرائیل ہے۔ ان کے خلاف بھرپور آپریشن ہونا چاہئے اور عوام کو بھی ان کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہئے، جیسے ایبٹ آباد اور مالاکنڈ ڈویژن کے اندر ھوا، اورالحمد للہ وہ آپریشن کامیاب رہا ہے اوراس آپریشن میں بہت سنجیدگی تھی، اور لوگوں نے اس کے نتائج اور اثرات بھی دیکھے ہیں، جو آج تک محسوس ہو رہے ہیں اور اس علاقے میں امن و امان کے حوالے سے بھی کافی بہتری آئی ہے۔ امید ہے کہ وزیرستان کے علاقوں میں جہاں تحریک طالبان پاکستان موجود ہے انشاءاللہ اس کے خلاف بھرپور کارروائی ہو گی اور پاکستانی فورسز سنجیدگی کے ساتھ وارد ہوں گی اور ایسے امکانات ہیں آئندہ، ھمارا مطالبہ ھے کہ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان یا جہاں جہاں بھی تحریک طالبان پاکستان موجود ہے وہاں اس کے خلاف آپریسن ہونا چاہئے، اور سنجیدگی کے ساتھ ہونا چاہئے اور ابھی تک جو پچھلا آپریشن ہوا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں سنجیدگی تھی، اور اس کے نتائج بھی اچھے نکلے ہیں، اور اگلا جو قدم ہو گا امید ہے کہ وہ بھی اسی سنجیدگی کے ساتھ ہو گا اور ھم امیدوار ھیں کہ یہ آپریشن سردیاں آنے سے پہلے شروع اور کامیاب تمام ھو گا۔کیونکہ وہ علاقے سرد ھیں اور سخت سردی میں وھاں آپریشن مشکلات کا شکار ھو سکتا ھے۔
اسلام ٹائمز:آپ کی نظر میں جہان اسلام کے اہم مسائل کون سے ہیں اور "مجلس وحدت مسلمین" کا ان کے بارے میں موقف کیا ھے؟۔
جہان اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ فلسطین اور اس پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہے، یہ جہان اسلام کا اہم مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کی لئے ہمیں آگے بڑھنا چاہئے، دوسرا جہان اسلام کا اہم مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے، جس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ھونا چاھیے، جہان اسلام کے اھم مسائل میں سے ایک مسئلہ عراق اور افغانستان پر امریکہ کا ناجائز قبضہ ھے اس قبضے کو بھی چھڑانے کے لئے کوشش ہونی چاہئِے، چوتھا عالم اسلام کا اہم مسئلہ اسلامی ممالک اور اقوام کے درمیان تفرقہ اور وحدت کا نہ ہونا ہے جو ہونی چاہئے تھی، اس عالمی استکبار کے مقابلے میں، اور بین الاقوامی سطح پر بھی استکبار اور امریکہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات بھی ڈیویلپ نہ ہوں، پھر مسلمانوں کے اپنے اندر بھی مسائل کھڑے ہوں، جن کی کوشش کی جا رہی ہے، جیسے 2006ء کی حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ کے بعد تیزی سے کام ہوا ہے شیعہ سنی جھگڑے، مسلمان ممالک کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا، اور اپنے صیہونی اور استکباری اہداف کو حاصل کرنا، مسلم ممالک اور مسلم اقوام کے درمیان اتفاق و اتحاد اہم مسئلہ ہے، جس کے لئے کوشش ہونی چاہئے، او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی، اور جو دوسرے مختلف پلیٹفارمز ہیں ان سے بھی کوشش ہونی چاہئے، اور مسلمانوں کے اندر جو فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسکا سد باب بھی ایک اہم مسئلہ ہے، اس حوالے سے بھی کوشش ہونی چاہئے اور اسے حل کرنے کے لئے جدوجہد ہونی چاہئے۔
اسلام ٹائمز:کیا مجلس وحدت مسلمین عملی سیاست میں بھی حصہ لے گی؟ اپنے پلیٹ فارم سے یا دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر؟۔
اگر عملی سیاست سے آپ کی مراد الیکشن میں حصہ لینا ہے تو میرے خیال میں ہمارے ادارے میں ابھی تک یہ مسائل ڈسکس نہیں ہوئے ہیں، لیکن ہماری سیاسی اپروچ ہے، سیاست کے حوالے سے مختلف کام کئے جا سکتے ہیں، مثلا لوگوں کے اندر سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لئے کام ہو سکتا ہے، سکولوں میں، کالجوں میں، یونیورسٹیز میں، مختلف طبقات کے درمیان ہمارے لوگ جائیں، جو تبلیغ کے لئے جاتے ہیں، سیاسی بیداری پیدا کریں اور بتائیں کہ ووٹ کی اہمیت اور طاقت کیا ہے؟ سیاسی نمائندے کی شرائط کیا ہونی چاہئیں، کس کو ووٹ دینا چاہئے، ہم ووٹ کے ذریعے سے کیا کیا کر سکتے ہیں؟ کیا کیا تبدیلیاں لا سکتے ہیں، لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے۔ لوگوں کو برادری سسٹم اور دوسری ایسی چیزوں میں سے نکالا جائے، سیاسی بیداری پیدا کرنا بھی عملی سیاست ہے، اور ھم یہ کام کر سکتے ہیں اور انشاءاللہ کریں گے، اسی طرح سے جو سیاسی طبقات ملک کے اندر موجود ہیں، ان کے لئے بھی کام ہونا چاہئے، مثلا میں نے دیکھا ہے کہ اکثر سیاسی نمائندے معاشرے پڑھے لکھے
لوگ نہیں ہوتے ہیں، ان کے اتنے زیادہ مطالعات بھی نہیں ہوتے، اور اسی لئے ان کا تجزیہ بھی اتنا قوی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کے اندر ایسا کوئی سسٹم ہے جو ان کو اس طرح سے ٹرین کرے، تربیت کرے، کورسز کرائے، ان کو آگے لے کر جائے، اگر ہم یہ کام کر سکیں، ایک ایسا پروگرام ترتیب دے سکیں کہ جس کے ذریعے ہم وطنیت، سیاسی بیداری، سیاسی شعور اور اجتماعی افکار کے حوالے سے جو اس وقت فکری خلاء ہے اور لوگوں کے اس بارے میں مطالعات نہیں ہیں، اور ایسے سیاسی طبقات جو آگے چل کر مختلف اھم مناصب پر فائز ھوتے ہیں کی تربیت کے لئے بھی ہم کوشش کر سکتے ہیں، سسٹم بنا سکتے ہیں اور جدوجہد بھی کر سکتے ہیں۔ آخر یہ بھی ایک سیاسی کام ہے۔
اسلام ٹائمز:پاکستان کی سیاست نظریات کی بجائے پارٹیز کی سیاست ھے آپ جس کی بھی سیاسی تربیت کر کے اسے منتخب کروائیں، کیا وہ آخر میں اپنی ہی سیاسی پارٹی کی نمائندگی نہیں کرے گا؟۔
میں نے اس کے نفی نہیں کی، بلکہ کہا ہے کہ ہم اس لحاظ سے ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، ہمارے اداروں میں یہ مسائل ڈسکس نہیں ہوئے ہیں، میں اس سے ہٹ کے بات کر رہا تھا کہ عملی سیاست صرف انتخابی سیاست نہیں ہوتی، بہت سے دوسرے حوالوں سے بھی اجتماعی سیاسی جدوجہد کے جا سکتی ہے، کام کئے جا سکتے ہیں اور ایسے کام ہیں، اور وہ ہونے بھی چاہئیں اور ان کے ضرورت بھی ہے، میرے خیال میں ہم اس طرح سے اگر کام کریں تو مختلف سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی ہم وحدت اور اتحاد کا کام کر سکتے ہیں، اگرایک سیاسی نمائندے کی فکری تربیت کر دیں تو پھر وہ فقط پارٹی کے اہداف و مقاصد کے لئے کام نہیں کرے گا بلکہ وہ اس طرح ہو جائے گا کہ ملکی مفاد کو ترجیح دے گا۔ اور اس حوالے سے بھی ہم کام کر سکتے ہیں،امریکی خطرات کے حوالے سے، صیہونزم کے حوالے سے، مختلف حوالوں سے ہم ان کے اندر کام کر سکتے ہیں، تاکہ ان کو پتہ چلے کہ انٹرنیشنلی جہان اسلام اور اس کے ایشوز کے حوالے سے اور انٹرنیشنلی مسلم یونٹی کے حوالے سے بھی ان کے اندر یہ فکر ڈیویلپ کی جا سکتی ہیں، یہ پارلیمنٹ کے اندر، اسمبلی کے اندر، پارٹی کے اندرباقاعدہ جھان اسلام کے ایشوز پر اسٹینڈ لیں، اور طریقہ سے بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے، یہ بھی ایک سیاسی کام ہے اور کیا جا سکتا ہے، اور یہ ایک خلا ہے جس کو پر کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
اسلام ٹائمز: حال ہی میں گلگت بلتستان کے لئے حکومت پاکستان نے جو داخلی خود مختاری کا پیکج دیا ھے اس کے بارے میں مجلس وحدت مسلمین کا موقف کیا ھے؟۔
میرے خیال میں گلگت بلتستان کے لوگ تاریخی اعتبار سے مظلوم رہے ہیں، انہوں نے اپنی جدوجہد اور کوششوں کے ذریعے ڈوگرا راج سے نجات پائی، اس علاقے کو آزاد کروایا اور پھر اس کو پاکستان کے ساتھ ملحق کیا اور یہ علاقہ 60 سال سے زیادہ عرصے سے آئینی حکومت سے محروم رہا ہے، ان کو نظر انداز کیا گیا، اور ابھی بھی جو اقدامات کئے گئے ہیں یہ ناکافی ھیں، ان کو کاملا آئینی حقوق ملنا چاہئیں تھے، ان کو باقاعدہ پاکستانی قرار دینا چاہئے تھا، یہ علاقہ کوئی متنازعہ علاقہ نہیں تھا، یہ علاقہ ان لوگوں نے ڈوگرا راج سے خود باقاعدہ جنگ کر کے آزاد کروایا تھا اور پھر اسے پاکستان سے ملحق کر دیا اور پھر بیٹھ گئے، کسی نے ان کو نہیں پوچھا، ان کو حقوق نہیں دیئے، یہ پہلا قدم ہے اور آگے بڑھانا چاہئے اس کو اور ان کو کامل حقوق جو آئین میں ہر پاکستانی شہری کے لئے ہیں ان کو ملنے چاہئیں باقی جو متنازعہ علاقے ہیں وہ تو مقبوضہ کشمیر اور اس کے دوسرے علاقے ہیں، ہاں ٹھیک ہے، وہاں استصواب رائے ہونا چاہئے، وھاں بھی مسلمانوں کے اکثریت ہے اوراس اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے۔
اسلام ٹائمز:مکمل آئینی حقوق سے آپ کی مراد کیا ھے؟ آیا گلگت بلتستان کو پاکستان کے پانچویں صوبے کا درجہ دینا اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں نما ئندگی دینا ھے؟۔
جی ہاں بالکل! یہ ان کا حق ہے، انہوں نے پاکستان کے لئے قربانی دی، انہوں نے جب علاقے کو آزاد کروایا تو پاکستان کے ساتھ ملے، یہ بھارت کے ساتھ بھی مل سکتے تھے، یا چائنہ اور افغانستان کے ساتھ بھی، یہ ان کی پاکستان سے محبت تھی کہ انہوں نے خود کو پاکستان سے ملحق کیا، انہوں نے انڈیا، چائنہ اور افغانستان کو رد کیا اور پاکستان سے ملے، ان کو پاکستان سے الحاق کا انعام ملنا چاہئے تھا نہ کہ سزا، کہ 60 سال سے شہری اور اجتماعی آئینی حقوق سے محروم رہیں، تو یہ ابتدائی قدم ہے اور ناکافی، ان کو کامل ایک صوبہ بنانا چاہئے، اور ان کو پورے صوبائی اختیارات ملنے چاہئیں۔
اسلام ٹائمز:مجلس وحدت مسلمین کے پاس پاکستان میں فرقہ واریت کے کنٹرول کا کیا فارمولا ھے؟۔ میرے خیال میں پاکستان میں فرقہ واریت کنٹرول نہ ھونے کی ایک وجہ کمزور سیاسی سیٹ اپ بھی ہے، اگر ریاست مضبوط اور طاقتور ہو، اس کے ادارے فعال ہوں تو اس طرح کی صورتحال کو کنٹرول کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ سٹیٹ کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ ان سب حالات کے پیچھے ایجنسیوں اور سٹیٹ میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو ان عناصر کو سپورٹ کرتے رہے ہیں، وہ لوگ تھے جنہوں نے شیعوں کے خلاف ایجنسیوں کے اندر سسٹمز بنائے، ان لوگوں کو آگے لے کر آئے، اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلاب کے بعد جو حالات تھے، روس افغانستان میں آیا ہوا تھا، امریکہ کی مداخلت اور پھر اسلامی انقلاب ایران کے بعد شیعیت کی سب سے بڑی تعداد پاکستان کے اندر موجود تھی، ان کو منظم نہ ہونے دینا اور کمزور کرنا بہت سے عوامل موجود تھے۔ اگر ھم کوشش کریں کہ ہم طاقتور ہو جائیں، طاقتور آدمی کے ساتھ جو ٹکر لیتا ہے اس کو احساس ہوتا ہے کہ میں پتھر کے ساتھ سر مار رہا ہوں اور آسانی سے میں اس کو اپنے راستے سے ہٹا نہیں سکوں گا، طاقتور ہوا جائے، منظم ہوا جائے، ہمارے درمیان وحدت ہو، اور اپنی عوامی طاقت اور جدوجہد کے ذریعے ہم حکومت پر پریشر ڈیویلپ کریں، دوسرے مذاہب کے ساتھ ہمارے روابط بڑھنا چاہئیں تا کہ فرقہ وارانہ عناصر ان میں سے اراکین جذب نہ کر سکیں، جیسے لبنان کے اندر ہوا ہے، ایک زمانے میں صرف شیعوں کا قتل ہوتا تھا، عیسائی بھی شیعوں کو مارتے تھی، تمام طبقات شیعوں کو مارتے تھے، لیکن جب وہاں پر شیعہ مسلمان حزب اللہ کی شکل میں طاقتور ہو گئے تو کیا آج وہاں شیعہ مارنا آسان ہے؟۔ یہ ایک طولانی جدوجہد ہے، ہم عوامی جدوجہد اور بیداری کے ذریعے شیعوں کو متحرک کریں گے اور اگر ہم اس قابل ہو جائیں کہ ایک آواز پر چند ملین شیعوں کو سڑکوں پر لے آئیں تو ہم اپنا پریشر بھی ڈیویلپ کر سکتے ہیں اور طاقت کا بھی اظہار کر سکتے ہیں اور دشمن کو بھی یہ بتلا سکتے ہیں کہ ہمیں مارنا اتنا آسان نہیں ہے، لیکن اس کام کے بھی حربے ہیں، معلومات، بیداری، دشمن شناسی، یہ ساری چیزیں ہیں، اس سسٹم کے بارے میں سوچنا بھی چاہئے اور کوشش بھی کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور امید ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے ہم فرقہ واریت کو اگر ختم نہ بھی کرسکے تو ان واقعات کو کم از کم کرنے کے ضرور قابل ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ ہم اہلسنت علماء کے قریب ہونے کے لئے بھی بات چیت کر رہے ہیں، یہ بھی ایک اہم چیز ہے، تاکہ فرقہ وارانہ ذھنیت رکھنے والے ان اھلسنت گروھوں سے اراکین جذب نہ کر سکیں۔ سب کے ساتھ مکالمے کے ضرورت ہے، کیونکہ اگر اپنے وطن کو، پاکستان کو ناامن کریں گے تو اس میں ہمارا ہی نقصان ہو گا، ہمارے دشمن اس میں آ جائیں گے، اس میں انڈیا کا فائدہ ہے، امریکہ کا فائدہ ہے، ہم خود کو ان کے سامنے پیش کریں، اگر ان کو کوئِی غلط فہمی ہے تو ہم اس کا ازالہ کریں اور اپنے منبر کو بھی کسی حد تک اصلاح کریں اور ہمارے منبر سے بھی اس طرح نہیں ہونا چاہئے کہ کروڑوں کی تعداد میں بسنے والوں کی دل آزاری کی خاطر کھلے بندوں نازیبا الفاظ استعمال کریں، یہ نقصان دہ ہے، دشمنی پیدا کرتے ہیں اور دشمن کو موقع دیتے ہیں کہ وہ وہاں سے ہم پر حملہ آور ہو۔ ہمارا پروگرام ہے کہ ہم ذاکرین کو بلائیں، اور جو باتیں ان کے منبروں پر کہی جاتی ہیں ان کو ان کے سامنے رکھیں پھر ان کو بتائیں کہ ان گفتگووں کے صلے میں یہ نتائج ہمیں ملے ہیں، اور اس سے ہمارے ملک کو، مسلمانوں کو اور ہمیں نقصان ہوا ہے، اس کا مقابلہ ایسے کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی زبانوں کو بہتر چیزوں کے لئے استعمال کریں، اخلاق اہلبیت ع کو بیان کریں ان کے فرامین اور افکار کو بیان کریں، تربیت اولاد اور ہزار چیزیں جو اہلبیت ع کے پاس ہیں دوسرے لوگوں کے پاس نہیں ہیں ان کو لوگوں تک ہم پہنچائیں۔ اگر جامع موومنٹ شروع ہو تو ان چیزوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور اب اس کی ضرورت بھی ہے، یہ ایک دو دن کے بات نہیں ہے، مسلسل جدوجہد کی جائے، خود کو بھی طاقتور کیا جائے، اپنے رابطے بھی بڑھائے جائیں اور جہاں غلطیاں ہیں اصلاح بھی کی جائِے اور حکومت پر پریشر ڈیویلپ کیا جائے اور حکومتی اداروں کو ایسی کاروائیاں روکنے کیلئے انوالو کیا جائے۔
اسلام ٹائمز:مجلس وحدت مسلمین کی مکمل شکل کب تک سامنے آ جائے گی؟۔
موجودہ ڈھانچہ بھی عبوری نہیں ہے، بلکہ عارضی ہے، 13/12 دسمبر 2009ء کو جب مرکزی تنظیمی اجتماع ہو گا، اس اجلاس میں مرکزی سیکرٹری جنرل کا انتخاب ہو گا، جو صوبائی سیکرٹری جنرلز کی مدت کے توثیق ہو جائے گی، امکان ہے بعض عہدیدار بدل بھی جائیں۔،
اسلام ٹائمز:آخر میں اگر قارئین کے لئے کوئی پیغام دینا چاھیں تو فرمائیں؟۔
ایک بات کہنا چاہوں گا، کہ ہم پاکستان کے اندر رہتے ہوئے، جیسے قائد شہید کہا کرتے تھے، ہم مسلمان ہیں پاکستانی ہیں شیعہ ہیں اور ایک انسان بھی ہیں، ہم چاروں حوالوں سے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ بعض انسانی حوالوں سے انٹرنیشنل سطح پر بہت وسیع ہو جاتا ہے، اسلامی حوالے سے انٹرنیشنل ہے اور پاکستانی حوالے سے بھی ہمارا انٹرنیشنل رول بنتا ہے اور شیعہ ہونے کے لحاظ سے بھی ہمارا رول بڑا اہم بنتا ہے، اس پوری دنیا میں شیعیت ہے۔ ہم ان چاروں کے درمیان ایک یونٹی اور وحدت دیکھتے ہیں یہ چاروں کردار ایک دوسرے کے مکمل ہیں۔ انشاءاللہ جو شہید قائد رہ کی آرزو تھی ارمان تھے انشاءاللہ ہم ان کا احیاء کریں گے، ان پر چلیں گے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر راستہ ایک منزل روشن شکل میں چھوڑ کر جائیں گے۔ انشاءاللہ

خبر کا کوڈ : 13388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش