0
Thursday 9 Feb 2012 15:16

وحدت حکم قرآن ہے، امام خمینی رہ کی وصیت سمجھتے ہوئے اتحاد امت کیلئے جدوجہد جاری رکھوں گا، علامہ ساجد نقوی

وحدت حکم قرآن ہے، امام خمینی رہ کی وصیت سمجھتے ہوئے اتحاد امت کیلئے جدوجہد جاری رکھوں گا، علامہ ساجد نقوی
علامہ ساجد علی نقوی پاکستانی سیاست میں صلح پسند رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اتحاد و وحدت کے لئے اپنی ذات کی پرواہ کئے بغیر جدوجہد کی ہے۔ وہ جمہوریت پسند ہیں اور اپنی رائے کسی پر ٹھونسنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے اور جانے والے سے واپسی کا تذکرہ تک نہیں کرتے۔ سماجی تعلقات کو توڑے بغیر اپنے موقف پر ڈٹے رہنے والے قائد ملت جعفریہ مدبرانہ گفتگو میں مختصر لفظوں کا چناو خوب جانتے ہیں۔ ان سے ہفتہ وحدت کے حوالے سے کیا گیا انٹرویو قارئین کے مطالعے کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے 12 تا 17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت قرار دیا ہے، اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: وحدت تو حکم قرآن ہے، یہ وحی الٰہی کا حکم ہے۔ پیغمر اکرم (ص) کا فرمان اور اہل بیت علیہم السلام کے فرامین کا تقاضا بھی ہے۔ وحدت ایک فریضہ الٰہی ہے جس کو امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے انجام دیا۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے۔ دوسرا یہ کہ امام کی دور بین نگاہوں اور بصیرت نے اس بات کو درک کر لیا تھا کہ انقلاب اسلامی کا جو مشن وہ لے کر چلے ہیں، اس کو اگر کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے تو وہ انتشار، تفرقہ اور فرقہ واریت ہی ہے۔ انہیں علم تھا کہ انقلاب اسلامی کے خلاف کتنی سازشیں ہوئیں اور حتٰی کہ اسلامی ملکوں کے اندر بہت سی کوششیں ہوئیں، میں کس کس کا نام لوں۔ 

انقلاب کو کمزور کرنے کے لئے منظم کوششیں ہوئیں اور باقاعدہ طے ہوا کہ شیعہ سنی مسئلے کو اٹھا کر انقلاب اسلامی کو بدنام کیا جائے۔ تاکہ ایران سے باہر یہ ٹرانسفر نہ ہو۔ تو اس سازش کو بھانپتے ہوئے اتحاد و وحدت کو فروغ دینے کے لئے امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اقدامات کئے۔ شاید ہی کوئی تقریر امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی ایسی ہو گی کہ جس میں اتحاد و وحدت کی طرف توجہ نہ دلائی گئی ہو۔ ہر وہ اقدام جو اتحاد و وحدت کے لئے ہو سکتا تھا امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے کیا اور یہ جو ہفتہ وحدت ہے یہ ایک بہت بڑی علامت ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اتحاد و وحدت کی کوششوں کے لئے۔
 
اسلام ٹائمز: کیا ہفتہ وحدت کے واقعی مسلمانوں میں اتحاد پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اتحاد و وحدت کی کوششوں پر فرقہ پرست اور ان کے سرپرست طلملا اٹھے ہیں۔ امام رضوان اللہ علیہ کی رہنمائی اور رہبری کی وجہ سے دشمنوں کے تمام منصوبے ناکام ہوئے اور اس کے اثرات مسلمانوں کے اندر بہت زیادہ ہوئے، ورنہ شاید یہ ہفتہ وحدت اور دیگر اقدامات نہ ہوتے اور تفرقہ پھیلانے والے اور ان کے سرپرست دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے۔
 
اسلام ٹائمز: آپ نے بطور قائد تحریک جعفریہ، تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری کے ساتھ اعلامیہ وحدت پر دستخط کئے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے مثبت نتائج بر آمد ہوئے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ہم نے وحدت و اتحاد کا درس امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے حاصل کیا۔ میں پاکستان میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کا نمائندہ بھی تھا۔ ہم جب بھی ان سے ملتے، وہ ہمیں وحدت کا درس دیتے اور اس طرف توجہ دلاتے۔ حتٰی کہ امام کی وفات کے چند روز پہلے میں اور مرحوم آیت اللہ سید فضل اللہ رضوان اللہ علیہ امام سے ملے اور بیماری کی حالت میں بھی امام نے ہمیں وحدت و اتحاد کا درس دیا۔ اس لئے میں تو اسے امام رضوان اللہ علیہ کی وصیت سمجھتا ہوں۔ 

پھر چند دنوں بعد امام رضوان اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو اس وقت کے صدر پاکستان کے ساتھ امام رضوان اللہ علیہ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے گیا۔ امام خمینی رہ سے درس لیتے ہوئے ہم نے یہاں پاکستان میں اتحاد و وحدت کو آگے بڑھایا۔ اعلامیہ وحدت برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا کہ جس پر دو مسالک کے سربراہوں نے دستخط کئے۔ پھر یہ اعلامیہ وحدت، بعد میں آنے والے اتحاد بین المسلمین کے لئے تشکیل پانے والے فورموں اور ضابطوں کے لئے بنیاد بنا۔ اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے، فرقہ وارانہ فضا بہت بہتر ہوئی۔ کچھ لوگوں کے اندر موجود کشیدگی میں کمی واقع ہوئی۔

اسلام ٹائمز: لیکن کیا زمینی حقائق مختلف نہیں کہ اب بھی سنی شیعہ اختلافات میں بریلوی سنی بھی دیوبندی اور اہل حدیث سے پیچھے نظر نہیں آتے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: میں سمجھتا ہوں کہ یہ نیا phenominon ہے۔ سب دیوبندیوں کو تو میں الزام نہیں دیتا کیونکہ ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، البتہ دیوبندیوں کا ایک فرقہ پرست اور دہشتگرد گروہ کہ جسے استعمار نے اس کام کے لئے تیار کیا تھا چونکہ وہ بدنام ہو چکا ہے۔ اب استعمار نے بریلویوں میں سے کچھ لوگوں کو اس طرف آگے بڑھایا ہے، تاکہ فرقہ واریت کو نیا رخ دیا جا سکے۔ اس لئے یہ ایک بڑی سازش ہے۔
 
اسلام ٹائمز: فرقہ وارانہ اختلافات کی اصل جڑ کیا ہے؟ اور اسے کیسے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: میں سمجھتا ہوں کہ فقہی یا جزوی نوعیت کے اختلافات کو ابھارا اور اچھالا جائے اور دین کے جو مشترکات ہیں انکی بجائے اختلافات کو ترجیح دی جائے اور انہیں اس طرح سے اچھالا جائے کہ جس سے نفرتیں بڑھیں اور دوسرے کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ جس سے امن و امان کی صورتحال کو خراب کیا جائے۔ تو یہ رویہ فرقہ واریت ہے۔ جو معاشرے کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ورنہ علمی انداز میں ہر فرقہ اپنا اپنا موقف بیان کرے تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ یہ فقہی اور اجتہادی اختلافات ہیں اور ان کا علمی انداز میں بیان ہو تو حرج نہیں ہے۔ دینی مشترکات پر لوگوں کو اکٹھا کر کے فرقہ واریت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ جو اختلافی باتیں ہیں ان میں حدت و شدت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے اور تہذیب کے دائرے میں علمی اختلاف کیا جائے۔ تو اس سے فرقہ واریت کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: ایک طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان کے فرقہ وارانہ حالات کا ایران اور سعودی عرب کے آپس میں تعلقات کے اتار چڑھاو سے گہرا تعلق ہے اور دونوں ممالک پاکستان میں اس مقصد کے لئے سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: میں سمجھتا ہوں کہ جن ملکوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف سازشیں کی ہیں، ان ملکوں کا ایران کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ رہا ہے۔ انہوں نے یہاں پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ حالات کو خراب کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس بارے میں جانتا ہوں لیکن میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ کئی ممالک ہیں کہ جنہوں نے ایران کے خلاف کام کیا اور اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تاکہ امریکی کے عزائم کو کامیاب بنایا جا سکے اور اسی تسلسل میں انہوں نے پاکستان میں فرقہ پرستوں کی سرپرستی بھی کی۔
 
اسلام ٹائمز: شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی 5 اگست 1988ء کو شہادت کے بعد سے قیادت کی ذمہ داریاں آپ پر ہیں، آپ نے وحدت ملت اسلامیہ کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ہم نے وحدت امت کے لئے بڑے اقدامات کئے ہیں، گذشتہ سوال میں آپ نے خود اعلامیہ وحدت کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے شریعت بل کے حوالے سے دینی جماعتوں کا فورم بنایا۔ برصغیر کے مخصوص حالات کی وجہ سے پاکستان کے شیعہ شریعت بل کے نام سے خائف و ترساں تھے اور خدشہ تھا کہ یہاں شریعت کے نام پر کوئی خاص قسم کا نظام نافذ کیا جائے گا۔ یقیناً وہ حساس اور اہم دور تھا۔ پاکستان میں شریعت بل کی تحریک کو تبلیغات، پروپیگنڈے اور نشر و اشاعت کے حوالے سے لوگ اسے تحریک پاکستان کی سطح تک لے گئے تھے تو شریعت بل پر دینی جماعتوں کے فورم کا ہم ہراول دستہ رہے اور شریعت بل کے مسئلے کو ہم نے ہاتھ میں لیا اور اسے اچھے انداز میں سلجھایا اور نبھایا۔ 

اس کے بعد ملی یکجہتی کونسل بنانے میں بھی ہم نے کلیدی کردار ادا کیا، ہم اس کے بانیوں میں سے ہیں۔ ہم متحدہ مجلس عمل کے بانیوں میں سے ہیں۔ اس میں اعلامیہ اسلام آباد آیا۔ مشترکات پر ہم اکٹھے ہوئے اور قانون سازی کا ایک فارمولا دیا۔ اس سے فضاوں میں بہتری آئی۔ لوگ نزدیک ہوئے اور ایک دوسرے سے تعاون کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ فساد پھیلانے والے تو شرپسند عناصر ہیں، جن کا کام ہی یہی ہے۔ یہ کسی کے آلہ کار ہیں جو حالات خراب کرنے کے لئے تیار کئے گئے ہیں اور وہ اس میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں، لیکن عوام میں اب تک وہ نہیں پہنچ سکے اور نہ پہنچ سکیں گے۔
 
اسلام ٹائمز: قوم کو سیاست نے کمزور کیا یا مذہب نے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: یہ ایسا سوال ہے کہ جس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، مذہب کو صحیح انداز میں پیش نہ کیا جائے تو یہ قوم کو کمزور کر سکتا ہے۔ مذہب کی صحیح تشریح و تعبیر نہ کی جائے، مذہب کی صحیح شکل پیش نہ کی جائے۔ مذہب کو مسخ کیا جائے اور لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھا دیا جائے، مذہب کے نام پر اختلافات کو ترجیح دی جائے تو مذہب بھی قوم کو کمزور کرتا ہے۔ 
جبکہ مذہب کی حقیقی شکل، مفہوم اور اس کی روح انسان کو کمال کی طرف لے جاتی ہے۔
البتہ ہمارے ملک میں جو مروجہ سیاست ہے اس سے قوم میں کمزوری آتی ہے۔ صاف ستھری سیاست آلائشوں سے پاک ہو تو وہ بھی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: آپ ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام اتحاد بین المسلمین کی کوششوں کا حصہ رہے ہیں۔ حتٰی کہ ضابطہ اخلاق بھی تشکیل دیا گیا۔ مگر اب اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ یہ شیعہ عقائد کے خلاف ہے، کیا آپ خود کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ہم سے بڑھ کر شیعہ عقائد کو جاننے والا کون ہے، جو کہتا ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کا ضابطہ اخلاق شیعہ عقائد کے خلاف ہے، انہیں ادراک ہی نہیں، انہیں کیا اعتراض ہے۔؟
 
اسلام ٹائمز: اعتراض یہ ہے کہ خلافت راشدہ کی بات ضابطہ اخلاق میں موجود ہے جس پر آپ نے دستخط کئے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ضابطہ وہاں بنتا ہے جہاں اختلاف ہو اور تحفظات ہوں، جن لوگوں کے ساتھ ہم نے ضابطہ اخلاق پر دستخط کئے تو وہ اگر خلافت راشدہ کو مانتے ہیں تو کیا ہم ان کی توہین کریں، یہ کیا بات ہوئی۔؟
 
اسلام ٹائمز: تو کیا یہ اعتراض بلا جواز ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: یہ اعتراض بے کار ہے، اعتراض کرنے والوں کو پتہ ہی نہیں اور نہ ہی ان کو اس بات کی سمجھ ہے کہ ضابطہ اخلاق کیا ہوتا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: رویت ہلال کمیٹی کتنے عرصے سے پاکستان میں ایک عید پر بھی قوم کو متفق نہیں کرا سکی، اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: دیکھیں جی کہ رویت ہلال میں تمام مسالک کی نمائندگی موجود ہے، ماہر اور معتبر لوگ موجود ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ معتبر شہادتوں پر رویت کا اعلان کرتے ہیں، تو اگر کسی کو اختلاف ہے تو ان سے بیٹھ کر بات چیت کر سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 136572
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش