0
Saturday 18 Feb 2012 01:51

انقلاب اسلامی ایران نے امت مسلمہ میں جان ڈال کر اتحاد کا راستہ دکھایا، علامہ ساجد نقوی

انقلاب اسلامی ایران نے امت مسلمہ میں جان ڈال کر اتحاد کا راستہ دکھایا، علامہ ساجد نقوی

علامہ ساجد علی نقوی، قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین مرحوم اور علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے ساتھ پاکستان میں شیعہ حقوق کی جدوجہد میں شریک رہے۔ وہ یہ جدوجہد اب بھی استقامت سے جاری رکھے ہوئے ہیں، انہیں شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد قائد تحریک جعفریہ منتخب کیا گیا۔ وہ انقلاب اسلامی ایران کی حمایت کرنے والوں اور امام خمینی رہ کی جدوجہد کا حصہ رہنے والوں میں شامل ہیں۔ اتحاد بین المسلمین پر یقین رکھتے اور اس کی عملی جدوجہد کا حصہ بھی ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کی 33 ویں سالگرہ کی مناسبت سے ان سے کیا گیا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایران کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: انقلاب اسلامی ایران کے دنیا بھر میں بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انقلاب اسلامی مسلمانوں میں کئی پہلووں سے بہت بڑی تبدیلیوں کا باعث بنا ہے۔ انقلاب نے مسلمانوں کے مدتوں سے زنگ آلود کلچر کو صاف شفاف کیا اور امت مسلمہ میں جان ڈال کر اسے اتحاد کا راستہ دکھایا۔ امت کو وقار اور استقلال کا درس دیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انقلاب اسلامی سے امت مسلمہ کو بڑھاوا اور اسلام کو جلا ملی اور لوگوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر آئی۔ انقلاب اسلامی کے اثرات کے بہت سے پہلو ہیں جو ایک نشست میں زیر بحث نہیں لائے جا سکتے۔ اس پر لمبی بحث ہو سکتی ہے اور اس موضوع پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی سے پہلے اور بعد کے ایران میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: انقلاب اسلامی سے پہلے اور اب کے ایران میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلے جو ایران تھا اس کی کیفیت سب کے سامنے ہے۔ بدترین شہنشاہیت تھی۔ آزادی نہیں تھی، مذہب کے حوالے سے استقلال نہیں تھا۔ مذہب کو مسخ کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ انقلاب کے بعد لوگوں کو آزادی ملی، استقلال ملا، محروم اور مظلوم طبقات کو حقوق ملے۔ اسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے آئی اور لوگوں کے لئے ایک موقع فراہم ہوا کہ وہ اپنے آپ کو آگے بڑھا سکیں۔ انقلاب اسلامی سے پہلے تو غلامی کا دور تھا۔ یوں سمجھئے کہ ایران گروی رکھ دیا گیا تھا۔ ان کی ہر چیز گروی رکھ دی گئی تھی۔
 
اسلام ٹائمز: کیا انقلاب اسلامی کا پہلو صرف آزادی کا پہلو ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: نہیں بہت سے پہلو ہیں، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ انقلاب کا ایک پہلو استقلال ہے۔ عوام اپنی تقدیر کے مالک خود ہیں۔ وہ اپنے فیصلے وہ خود کر سکتے ہیں۔ عوام کے سامنے مذہب کی صحیح تصویر آ رہی ہے، اس پر عمل کرنے کی ان کو آزادی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: جن مقاصد کے لئے انقلاب اسلامی برپا کیا گیا، کیا وہ حاصل ہوئے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ظاہر ہے کہ انقلاب اسلامی اسی راستے پر گامزن ہے جو انقلاب کے لئے متعین کیا گیا تھا۔ بیرونی مداخلتوں اور مشکلات کے باوجود اس سے پیچھے نہیں ہوا۔
 
اسلام ٹائمز: ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد باقی مسلم ممالک میں اس طرح کا انقلاب کیوں برپا نہیں کیا جا سکا۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: اس کی وجہ تو حالات ہیں کہ دوسرے مسلم ملکوں میں انقلاب اسلامی کا راستہ روکا گیا۔ ان ممالک میں انقلاب کے لئے سازگار حالات پیدا نہیں ہونے دیئے گئے۔ بڑی کوششیں ہوئیں۔ پھر جس طرح کی کیفیت ایران میں تھی کہ ایک شخصیت (امام خمینی) مرجعیت کے درجے پر فائز تھی۔ اس کے حکم کو حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ اس قسم کی کیفیت دوسرے ممالک میں نہیں ہے۔ اس طرح کی مخلص اور نڈر قیادت دوسرے ممالک میں موجود نہیں ہے کہ اس قسم کا انقلاب لا سکے اور مختلف الخیال لوگوں کو ایک راستے پر ہم آہنگ کر سکے۔
 
اسلام ٹائمز: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایرانی انقلاب شیعہ انقلاب ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: اسلامی انقلاب لانے والے تو شیعہ ہیں، لیکن شیعہ انقلاب کس حوالے سے ہے۔ کوئی ایسی بات انقلاب اسلامی میں نہیں ہے کہ جس سے تاثر ملے کہ کسی کی نفی ہوتی ہے یا کسی کو موقع فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ وہاں تو سب کا حصہ ہے۔ سب فرقے اور گروہ اس میں شریک ہیں۔ یہ بھی انقلاب اسلامی کو بدنام کرنے کی کوشش ہے کہ لوگ اس سے متاثر نہ ہو سکیں، کہ یہ ایک شیعہ انقلاب ہے۔ تاکہ سنی عوام کو تاثر دیا جائے کہ یہ شیعہ انقلاب ہے اس لئے وہ درس نہ ملے جو دراصل اس انقلاب کا ہے۔ امام نے جو اہداف سامنے رکھے اور انقلاب اسلامی نے جو پروگرام دیا ہے اور راستہ دکھایا ہے وہ خالصتاً اسلامی راستہ ہے اور تمام مکاتب فکر کے لئے وہ ایک روشن راستہ ہے۔
 
اسلام ٹائمز: کیا یہ درست ہے کہ انقلاب اسلامی ایران برآمد کرنے کی کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: کوئی فکر اور سوچ برآمد کی نہیں جاتی، وہ خود بخود ہوتی ہے اور عوام میں سے ایسی بات اٹھتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ مختلف ممالک میں پروان چڑھنے والے مختلف افکار خود بخود دوسرے ملکوں میں پہنچے۔ تو اسی طریقے سے انقلاب اسلامی کی جو سوچ ہے۔ وہ خود دوسرے ممالک میں پہنچی ہے۔ ہمیں کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آتا ہے کہ جس کے ذریعہ اس کو برآمد کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
 
اسلام ٹائمز: کیا پاکستان میں انقلاب لانا ممکن ہے۔؟ اور کیسے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: پاکستان میں انقلاب اسلامی لانا بالکل ممکن ہے۔ یہاں کے لوگ مذہب سے والہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔ مذہب کا احترام کرنے والے ہیں۔ مذہب پر جان دینے والے لوگ ہیں۔ اور اگر مذہب کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور تشریح کی جائے۔ لوگوں کو صحیح مذہب کا راستہ دکھایا جائے تو وہ اس پر عمل کرنے اور آنے کے لئے تیار ہیں، بشرطیکہ قیادت مہیا ہو۔ 

اسلام ٹائمز: تو قیادت کہاں سے آئے گی۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: یہیں عوام اور پاکستان کے اندر سے قیادت آئے گی۔
 
اسلام ٹائمز: مذہبی جماعتیں ووٹ تو انتخابات میں حاصل کر نہیں پاتیں، تو انقلاب کیا لائیں گی؟ کیا ڈنڈے کے زور پر انقلاب آئے گا۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: نہیں ڈنڈے کے زور پر انقلاب نہیں آیا کرتے، یہ سوچ کی تبدیلی اور جمہوری راستے سے آتا ہے۔ پاکستان کے اندر مروجہ جمہوری راستہ ہی انقلاب کا راستہ ہے اور جمہوری راستے سے ہی انقلاب آ سکتا ہے۔ اس لئے کہ عوام کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دینی جماعتوں کو ووٹ دیں، تاکہ مذہبی جماعتیں ان کی زیادہ خدمت کر سکیں۔
 
اسلام ٹائمز: تو کیا پاکستان کے جو جمہوری ادارے قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں ہیں، کیا یہ اسلامی جمہوری ایران کی طرز کے انقلاب کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ایران میں بھی پارلیمنٹ ہے، یہاں بھی پارلیمنٹ ہے، ہاں شکل قدر مختلف ہے۔ پاکستان کا جو آئین ہے اور جو ضابطہ کار ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ کا صحیح استعمال کیا جائے تو انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ انتخابات کو بہتر انداز میں کیا جائے اور عوام تک ہر ایک کو رسائی دی جائے۔ دینی جماعتیں بھی عوام کے پاس جائیں اور ووٹ لیں اور عوام کو قائل کریں کہ جو نظام ہم لائیں گے اس پر عمل کریں گے۔ وہ پاکستان کے لئے پاکستانی عوام کے لئے بہتر ہو گا تو میں سمجھتا ہوں کہ انقلاب پاکستان میں بھی آ سکتا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: کچھ روشن خیال دانشور کہتے ہیں کہ ولایت فقیہہ جمہوریت کی ضد ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ولایت فقیہہ قانون کی حکمرانی کا نام ہے اور قانون کی حکمرانی جمہوریت کا بڑا ستون ہے۔
 
اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ ایران میں اسلامی جمہوریت ہے، لیکن جمہوریت تو جمہوریت ہوتی ہے یہ اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی؟ کیا تبصرہ کرتے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: جمہوریت کو الگ دیکھیں تو ایک نظام حکومت ہے اور میرے خیال میں اگر اس میں اصلاح کر لی جائے اور جمہوریت کے جو تقاضے ہیں ان کو مدنظر رکھا جائے تو یہی اسلامی جمہوریت ہے۔

خبر کا کوڈ : 138184
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش