0
Saturday 25 Feb 2012 22:21

امریکہ کو چیلنج کرنیوالی ایران جیسی قوتوں کی حمایت پاکستان کے مفاد میں ہے، ڈاکٹر حسن عسکری

امریکہ کو چیلنج کرنیوالی ایران جیسی قوتوں کی حمایت پاکستان کے مفاد میں ہے، ڈاکٹر حسن عسکری
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سیاسیات کے سابق چیئرمین ڈاکٹر حسن عسکری رضوی معروف سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ سیاسیات میں پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والے اور انتہائی سادہ طبیعت کے مالک حسن عسکری عالمی امور پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ تحقیقات، عالمی میگزین اور بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر جاتے رہتے ہیں۔ لمبی گفتگو سے اجتناب کرتے اور نپی تلی بات کہنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اسلام آباد میں حالیہ سہ فریقی کانفرنس کے ملکی اور عالمی منظر نامے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس حوالے سے ہونے گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: سہ ملکی کانفرنس کا پیغام کیا ہے۔ اس کے خطے کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: سہ فریقی کانفرنس کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ تینوں ممالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں، اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ افغانستان کے استحکام کے امکانات بڑھ جائیں گے جو کہ سب کے مفاد میں ہے۔ دوسرا اگر ایران، پاکستان اور افغانستان چاہتے ہیں کہ علاقے میں بیرونی قوتوں کے اثرورسوخ کو ختم کرنا ہے، مثلاً سب کے ذہن میں امریکہ ہے۔ اس سے نجات حاصل کرنی ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔ اور اگر یہ تعاون اقتصادی میدان میں ہو تو بیرونی قوتوں پر دار و مدار اور انحصار کم ہو جائے گا اور یہ احساس سیاسی قیادت کو ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے سے تعاون ان کے مفاد میں ہے۔
 چونکہ ماضی میں تعاون کے لئے صرف باتیں ہوئی ہیں۔ لیکن حالات کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ان کے درمیان فاصلے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کسی وجہ سے ایک ناراض ہو گیا پھر دوسرا ناراض ہو گیا۔ تو پھر ان کے درمیان تعاون کی رفتار سست پڑ جاتی رہی ہے۔ اب جو تعاون کا احساس پیدا ہوا ہے تو یہ کس حد تک ہے اور عملی شکل کیا اختیار کرتا ہے یہ تینوں ممالک کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ جو کہ ان کی ضرورت بھی ہے کہ اس سمت میں آگے بڑھیں۔

اسلام ٹائمز: تو کیا لگتا ہے کہ تینوں ممالک اس پر برقرار رہیں گے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: ابھی تینوں ممالک کے درمیان مفاہمت ہوئی ہے جس سے سمت کا تعین تو ضرور ہوا ہے لیکن یہ understanding ہی کافی نہیں۔ اس کے لئے بعض عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ اب اس میں مسائل بھی موجود ہیں۔ چونکہ افغانستان اور پاکستان کی ایک دوسرے کے خلاف شکایات کی فہرست موجود ہے، تو پھر افغانستان متنازع معاملات کو چھیڑتے ہیں تو پھر تعاون کم ہو جائے گا۔ افغانستان میں پاکستان کی مخالفت زیادہ ہے، کیونکہ افغانستان میں اصل اقتدار شمالی اتحاد کے پاس ہے۔ تو وہاں خطرہ موجود ہے کہ پاکستان کی مخالفت ہو۔
 
ہاں ایران اور پاکستان کا یہ مسئلہ تو نہیں، لیکن یہ اس وقت پیدا ہو جاتا ہے جب دہشتگردی کا کوئی واقعہ جنداللہ کی طرف سے کر دیا جاتا ہے تو ایران ایک دم سے اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کر لیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ گیس پائپ لائن کا جو منصوبہ ہے اس میں زیادہ مسئلہ پاکستان کا ہے۔ ایران تو پائپ لائن پر کام کر رہا ہے۔ مگر پاکستان کو فنڈنگ کا مسئلہ بنا ہوا ہے، چونکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا امریکہ مخالف ہے تو پاکستان کو فنڈنگ ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان اپنے وسائل سے گیس پائپ لائن بنا سکتا ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ 

گیس پاکستان کو چاہیے، کیونکہ پاکستان میں توانائی کا بحران شدید ترین ہو چکا ہے۔ قطر سے گیس آ سکتی ہے مگر فاصلہ بہت زیادہ ہے اور اسے لمبا چکر پڑے گا۔ گیس بہت مہنگی پڑے گی اور دیر بھی زیادہ لگے گی۔ درمیان میں سمندر بھی ہے، تو پھر سستی اور جلدی گیس پاکستان کو صرف ایران ہی سے مل سکتی ہے۔ اس لئے گیس پائپ کا مکمل ہونا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ لیکن پاکستان کی فنڈنگ کا مسئلہ کہاں سے حل ہو گا ابھی واضح نہیں کہ چین یا روس سے فنڈنگ لی جائے گی یا خود وسائل پیدا کئے جائیں گے۔ سرمایہ ہو گا تو ہی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہو سکے گا۔ 

اسی طرح بجلی کی قلت بھی پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے۔ ایران نے بجلی کی فراہمی کی پیشکش بھی کی ہے۔ مگر ٹرانسمیشن لائن ابھی تک نہیں بچھائی گئی۔ عملی طور پر فوری یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اصولی طور پر پاکستان نے فیصلہ تو کر لیا ہے مگر پاکستان عملی طور پر فائدہ حاصل کرے گا یا نہیں آنے والے دنوں میں اس پر عمل درآمد ہونے سے ہی واضح ہو گا۔ چونکہ ضرورت پاکستان کو ہے اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی طرف کی ٹرانسمیشن لائن بھی مکمل کرے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اب امریکی بلاک سے نکل رہا ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: نہیں بلاک کی بات نہ کریں، پاکستان کی کوشش ہے کہ اس علاقے میں امریکی اثر و رسوخ کم کرے یا کم از کم اپنے اوپر امریکی دباؤ قبول نہ کرے۔ تو یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے اپنے قریبی اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر ہوں۔ ان میں ایران اور چین ہیں جن سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہیں۔ اسے روس سے تعلقات بہتر کرنے چاہیں۔ اسی طرح ہندوستان ہے اس سے تعلقات کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے۔ گیس پائپ لائن سے پاکستان کی ضرورت پوری ہو گی اور اگر اسے امریکہ کی فکر لگی رہے گی، تو گیس پائپ لائن نہیں بن سکے گی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ پاکستان امریکی influence سے خود کو باہر نکالنا چاہتا ہے، چونکہ پاکستان کی معیشت کمزور ہے اسے سہارا چاہیے۔ جس کی وجہ سے امریکہ اور مغرب پر انحصار کرتا ہے۔ اگر ایران یہ ضرورت پوری کر دے تو پاکستان کا امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کم ہو جائے گا۔ 

دوسری طرف ایران بھی دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ عالمی برادری میں ایران کو تنہا کرنے کی امریکی سازشوں کے باوجود اس کی خارجہ پالیسی میں وسعت موجود ہے اور یہ کہ ایران کی خارجہ پالیسی ناکام نہیں ہوئی۔ امریکی شور شرابے کے باوجود ہمارے تعلقات دوسرے ممالک سے بڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ ایران کے علاوہ کسی دوسرے ملک سے اتنی جلدی توانائی کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے fund raising پاکستان کو خود ہی کرنا ہو گی۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان امریکہ کی مخالفت مول لے گا۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: امریکہ پاکستان کی سو فیصد مخالفت بھی نہیں کر سکتا۔ امریکی اثر و نفوذ سے نکلنے کا پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ امریکہ 2014ء تک افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان سے اچھے تعلقات اس کی مجبوری ہیں۔ اس لئے پاکستان گیس پائپ لائن مکمل کر لے ورنہ اس کے بعد مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور امریکہ زیادہ پریشر ڈال سکتا ہے۔ اس لئے ایران والی آپشن پاکستان کے پاس بہتر ہے کہ تین سال کے عرصے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پائپ لائن لے آئے۔ اس طرح پاکستان کی معیشت کی حالت اتنی خراب نہیں ہو گی بلکہ بہتر ہو جائے گی۔ اور اگر پاکستان کو گیس مل جاتی ہے۔ اور 1000 میگا واٹ بجلی بھی ایران سے مل جاتی ہے تو انڈسٹری کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
 
اسلام ٹائمز: بلوچستان پر قرارداد، پارا چنار میں دھماکہ اور ڈرون حملے، امریکی غصے کا اظہار نہیں کہ ایرانی صدر کی اسلام آباد موجودگی کے دوران یہ واقعات رونما ہوئے۔؟ 
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: پاراچنار کے واقعہ کو تو ہم امریکہ سے براہ راست نہیں جوڑ سکتے۔ یہ مقامی دہشتگرد گروہوں کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ تاکہ پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کئے جائیں۔ ہاں ڈرون حملوں کو امریکہ کا ردعمل کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اس خطے میں اپنا پریشر برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ مختلف کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔ اگر آپ دباو میں آئیں گے تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔ لیکن یہاں مصیبت یہ ہے کہ حکومت کے پاس قوت فیصلہ نہیں۔ کوئی نہ کوئی حکومت کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس لئے وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی۔ امریکہ کے بارے میں اب فوج بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ اس لئے پاکستان میں زیادہ مسائل ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان امریکہ کے ساتھ جائے گا یا ایران کے ساتھ، مستقبل کے پس منظر میں کیا نظر آ رہا ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: جہاں تک ایران پر امریکہ کے حملے کا تعلق ہے تو پاکستان کبھی بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو یہ فکر ہے کہ آج ایران پر حملہ ہو گیا تو کل اس کی باری ہو گی۔ اس لئے پاکستان کے مفاد میں ہے کہ خطے میں کچھ ایسی قوتیں ہوں جو امریکہ کے سامنے کھڑی ہو جائیں۔ جس طرح ایران امریکہ کی مخالفت میں کھڑا ہے اور اسے چیلنج کر رہا ہے۔ مستقبل کے منظر نامے میں پاکستان امریکہ سے تعلقات بالکل ختم نہیں کرے گا۔ 

معیشت کا تعلق دو چیزوں سے ہوتا ہے۔ توانائی اور امن و امان، پاکستان میں توانائی کا بدترین بحران اور دہشتگردی بڑے مسئلے ہیں۔ پاکستان بیرونی قرضوں اور طاقتوں میں کیوں پھنستا ہے۔ اس لئے کہ اس کا پبلک ڈویلپمنٹ سیکٹر کا ایک بڑا حصہ خیرات پر چلتا ہے۔ آج کل جو فنڈز بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک سے آنے والی خیرات پر مشتمل ہے، کیونکہ امیر ممالک سمجھتے ہیں کہ غریبوں کو کچھ تو مالی امداد پہنچ رہی ہے۔ 

پھر پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ملکی آزادی کا تعلق اقتصادی پالیسی سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کے ایشوز بہت نچلی سطح کے ہیں۔ ان کا ایشو حکومت کو نیچا دکھانا ہے۔ میمو ہے، توہین عدالت ہے، زرداری کو حکومت سے الگ کرنا ہے۔ انہیں فکر نہیں ہوتی کہ کشمیر پر مشترکہ پالیسی کیا ہونی چاہیے؟ اقتصادی مسائل کا حل کیا ہے؟ امریکی دباو سے کیسے نکلا جاسکتا ہے؟ اس لئے جب تک یہ ایشوز رہیں گے۔ پاکستان امریکی اثر سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ چونکہ اقتدار کے لئے ہم آپس میں لڑتے ہیں، عدالت میں درخواست دیتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، لانگ مارچ کرتے ہیں، نہیں کرتے تو مغرب سے نجات کے لئے لائحہ عمل تیار نہیں کرتے۔

اسلام ٹائمز: امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کی گئی قرارداد میں امریکی حکومت کا کس حد تک عمل دخل نظر آتا ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: بلوچستان پر قرارداد پاکستان مخالف لابی نے پیش کی ہے۔ جو پہلے بھی پاکستان کے خلاف کام کرتے رہتے ہیں، لیکن حکومت امریکہ اس قرارداد کی مخالفت کرے گی اور نہ ہی حمایت، بلکہ واضح کر دیا گیا ہے کہ قرارداد امریکی حکومت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ پہلے پارلیمانی کمیٹی پر بحث کروانا اور پھر قرارداد پیش کرنا، یہ اسی پاکستان مخالف لابی کا کام ہے، یہ امریکہ میں معمول کی بات ہے۔ جو مختلف تھنک ٹینکس کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ کشمیر، بوسنیا پر بھی اس طرح کے مباحثے ہو چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس پراپیگنڈے کے خلاف پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: پاکستان نے اس پر احتجاج کر کے اچھا اقدام کیا ہے۔ دوسرا پاکستان کو اپنے اندرونی حالات کو درست کرنا چاہیے۔ امریکی کانگریس اور ایوان نمائندگان سے قرارداد بلوچستان کے بارے میں منظور ہو بھی جائے تو کچھ نہیں ہو گا۔ ہو گا وہی جو پاکستان کے اندر ہو گا۔ حکومت پاکستان کو ناراض بلوچ رہنماوں سے مذاکرات کرنے چاہیں۔ حکومت بلوچستان شکایت کرتی ہے کہ ایم آئی اور فوج اس کے کنٹرول میں نہیں۔ تو حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ 

ایف سی اور پیراملٹری فورسز کا بلوچستان میں کیا کردار ہے اس کا تعین ہونا چاہیے۔ سیاسی کارکن اٹھائے جاتے ہیں، وہ غائب ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے کچھ ملک چھوڑ کر بھی چلے گئے ہوں گے۔ لیکن ایجنسیوں کی طرف سے شہریوں کے اغوا کی شکایت اور شواہد تو موجود ہیں۔ حکومت اس کا تدارک کرے۔ ایجنسیوں اور فوج کے کردار پر سب کو اعتراض ہے، حکومت اس کا ازالہ کرے، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کاغذات نامزدگی مسترد اور منظور ہونے کے خلاف اپیلوں کی سماعت جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 140324
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش