0
Sunday 4 Mar 2012 00:55

ایران پر حملے کا کوئی جواز نہیں، امریکہ کو یہ حملہ مہنگا پڑے گا، صاحبزادہ فضل کریم

ایران پر حملے کا کوئی جواز نہیں، امریکہ کو یہ حملہ مہنگا پڑے گا، صاحبزادہ فضل کریم
چیئرمین سنی اتحاد کونسل پاکستان، سربراہ مرکزی جمعیت علماء پاکستان، رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر اوقاف پنجاب صاحبزادہ فضل کریم کسی تعارف کے محتاج نہیں، مذہب کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی سرگرم ہیں، مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور بعدازاں مسلم لیگ (ن) سے الحاق کر لیا۔ صاحبزادہ فضل کریم مذہبی رہنما کے ساتھ ساتھ سیاست دان بھی ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں سنی اتحاد کونسل کے مرکزی دفتر میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے موجودہ حالات، ملکی سیاسی صورتحال اور سنی اتحاد کونسل کی سرگرمیوں کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو کیا جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اپنی پیدائش، کب اور کہاں پیدا ہوئے، ابتدائی زندگی، تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیں۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: میرے والدین مشرقی پنجاب کے شہر گورداس پور سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے دادا علاقے کے ایک بڑے زمیندار اور صوفی منش انسان تھے جبکہ میرے تایا بھی بڑے ریاضت کش عبادت گزار تھے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے والے قافلوں پر خونریز حملوں کے دوران ہمارے خاندان کے 12 افراد سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان میں میری نانی اور پھوپھا بھی شامل تھے۔ نئے وطن میں آ کر میرے والدین نے اس وقت کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی۔ جھنگ بازار میں ہماری رہائش گاہ تھی۔ میں نے اسی گھر میں 1955ء کو آنکھ کھولی۔ ہم چھ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ بھائیوں میں میرا نمبر تیسرا ہے۔

ایک بڑے بھائی صاحبزادہ فضل رسول، والد صاحب مولانا سردار احمد کے دربار کے سجادہ نشین ہیں۔ دوسرے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل احمد بزنس کے ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ دین کی ابتدائی تعلیم میں نے شیخ الحدیث مولانا غلام رسول، مفتی محمد نواب الدین اور استاد مولانا محمد عرفان الحق سے حاصل کی۔ میری شادی 1977ء میں ہوئی۔ اس وقت میں 22 برس کا تھا۔ میرے والد صاحب کے ایک مرید چوہدری محمد صدیق رندھاوا تھے۔ وہ جنرل ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ کے رکن اور ڈسٹرکٹ بار کے صدر بھی رہ چکے تھے۔

قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے انہوں نے 1977ء کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ ان کی صاحبزادی میری شریک حیات بنیں۔ نکاح، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی نے پڑھایا تھا جبکہ میری بارات میں نوابزادہ نصراللہ خان، چوہدری ظہور الٰہی، خان عبدالقیوم اور پیر آف مانکی شریف شریک تھے۔ میں نے 1987ء میں جامعہ رضویہ فیصل آباد سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری لی۔

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں پاکستان کے حقیقی مسائل کیا ہیں۔؟
صاحبزادہ فضل کریم : پچھلے 63 سالوں کے دوران مفاد پرست اور نااہل حکمرانوں نے پاکستان کو مسائلستان بنا دیا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کے حقیقی مسائل میں کرپشن، بدانتظامی، بدامنی، میرٹ کی پامالی، اقربا پروری، امریکہ نواز خارجہ پالیسی، موروثی سیاست، توانائی کا بحران نمایاں ہیں۔ اس وقت پاکستان دہشتگردی، بے روزگاری، کمر توڑ مہنگائی، غربت اور افلاس کی آگ میں جل رہا ہے۔ گیس اور بجلی کے بدترین بحران نے صنعتوں کو تباہ کر دیا ہے۔ پی آئی اے، اسٹیل مل، واپڈا اور ریلوے جیسے قومی ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ قومی معیشت تباہی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ کراچی جل رہا ہے، بلوچستان آتش فشاں بن چکا ہے۔

خیبر پختونخواہ دہشتگردی کی زد میں ہے۔ پنجاب میں ڈاکو راج ہے۔ غریب عوام فاقوں کا شکار ہے اور حکمران طبقہ قومی خزانے کو اپنی عیاشیوں پر لٹا رہا ہے۔ قائداعظم کا پاکستان اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور حکمران اقتدار اور طاقت کے نشے میں مست ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہے اور عوام کی فکر کسی کو نہیں ہے، لیکن حکمران اشرافیہ یاد رکھے کہ عوامی مسائل حل نہ ہوئے تو بھوکے ننگے لوگ حکومتی ایوانوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور ملک میں خونی انقلاب آئے گا۔

اسلام ٹائمز: نواز لیگ کے ٹکٹ پر آپ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، کیا جے یو پی کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں تھی کہ آپ نے نواز لیگ کا ٹکٹ لیا۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نواز لیگ کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوا بلکہ ہمارا مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد تھا اور میں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے کاغذات میں اپنی پارٹی مرکزی جمعیت علماء پاکستان کا نام لکھا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ملک بھر میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دیئے اور بے شمار سیٹوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار ہمارے ووٹوں کی وجہ سے جیتے، جبکہ مسلم لیگ ن نے ملک بھر میں ہماری حمایت کے بدلے میں صرف چند سیٹوں پر ہمارے امیدواروں کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے جن میں ایک میری سیٹ بھی شامل تھی۔ اس طرح اگر مسلم لیگ ن کی وجہ سے ہمیں ووٹ ملے تو ملک بھر میں ہمارے ووٹ بھی مسلم لیگ ن کو ملے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فیصل آباد میں میرے قومی اسمبلی کے حلقے میں مسلم لیگ ن کا ایم پی اے کا امیدوار پیپلز پارٹی کے راجہ ریاض کے مقابلے میں ہار گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ میری کامیابی میں مسلم لیگ ن کا زیادہ کردار نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز: سنی اتحاد کونسل بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: سنی اتحاد کونسل 2008ء میں اس وقت قائم کی گئی جب ملک میں خودکش حملوں کے ذریعے دہشت و وحشت کا بازار گرم کیا جا رہا تھا اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں اہل سنت کے علماء و مشائخ کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ طالبانائزیشن کا راستہ روکنے کے لئے سنی اتحاد کونسل معرض وجود میں آئی۔ سنی اتحاد کونسل میں اہل سنت کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں شامل ہیں۔ سنی اتحاد کونسل نے اپنے قیام سے اب تک مسلسل امریکہ اور اس کے ایجنٹ پاکستانی طالبان کے خلاف زوردار آواز بلند کی ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے خوف کی فضاء میں انتہائی جرات کے ساتھ ملک بھر میں سواتی طالبان کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کی حمایت میں ریلیاں اور جلسے منعقد کئے اور مزارات اولیاء پر بم دھماکوں کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی۔

ہمارے علماء نے خودکش حملوں کے خلاف فتوے جاری کئے۔ سنی اتحاد کونسل نے ’’امریکہ ناں طالبان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ کے نظرئیے کو پروان چڑھایا۔ اب سنی اتحاد کونسل سیاسی میدان میں بھی اتر آئی ہے، تاکہ صوفیاء کے ماننے والے اہل حق کو متحد اور منظم کر کے انقلاب نظام مصطفٰی ص برپا کیا جا سکے اور سیاست و اقتدار پر قابض جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور امریکی غلاموں سے نجات حاصل کی جا سکے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ سے ڈالر لینے کے الزامات کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟ کچھ لوگوں نے پیسے لئے تو ہیں۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: سنی اتحاد کونسل نے ہمیشہ امریکی سامراج کی مخالفت اور مزاحمت کی ہے کیونکہ سامراج دشمنی ہمارے عظیم اسلاف کا راستہ ہے۔ امریکہ نے سنی اتحاد کونسل کی مقبولیت سے خائف ہو کر ہمیں بدنام کرنے کے لئے ڈالر لینے کا بے بنیاد، جھو ٹا، گمراہ کن اور شرانگیز الزام عائد کیا ہے، جبکہ اس الزام میں کوئی صداقت نہیں۔ ہم نے سنی اتحاد کونسل کی طرف سے امریکی سفیر کو خط لکھ کر ان سے پوچھا کہ سنی اتحاد کونسل کے نام پر ڈالر لینے والوں کے نام بتائے جائیں، لیکن امریکی سفارت خانہ نام بتانے سے انکاری ہے۔ امریکی ویب سائٹ پر درج کیا گیا تھا کہ 14 اگست 2009ء کو راولپنڈی میں ہونے والے ’’پاکستان فلیگ مارچ‘‘ کے لئے سنی اتحاد کونسل کو 36 ہزار ڈالر دیئے گئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس فلیگ مارچ کے لئے ڈالر دیئے گئے، وہ سنی اتحاد کونسل کا پروگرام نہیں تھا۔

اس فلیگ مارچ کی خبر میں ایک عیسائی خاتون نائلہ جوزف دیال کا نام بھی مقررین میں شامل تھا جبکہ سنی اتحاد کونسل کی کسی بھی ریلی سے آج تک کسی مسلمان خاتون نے بھی خطاب نہیں کیا۔ امریکی ویب سائٹ پر سنی اتحاد کونسل کے دفتر کا جو ایڈریس دیا گیا، وہاں ہمارا کوئی دفتر نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے ہمیشہ امریکہ اور طالبان دونوں کی مذمت کی ہے۔ ہمارا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ پاکستانی طالبان دراصل امریکی ایجنٹ ہیں۔ ہمارے ہر جلسے اور ہر ریلی میں ’’امریکہ نا طالبان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ کا نعرہ گونجتا ہے۔ ہم نے کبھی کسی بھی موقع پر امریکہ کے بارے میں نرم رویہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ امریکہ کو اسلام اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن اور عالمی دہشتگرد قرار دیا۔ امریکہ نے ہمیں عاشق رسول غازی ملک ممتاز حسین قادری کے حق میں تحریک چلانے کی سزا دی ہے، لیکن ہم کسی دباؤ، خوف اور مصلحت کا شکار ہوئے بغیر غازی ممتاز قادری کی حمایت کرتے رہیں گے، کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ سمجھتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے آپ اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: صوفیاء کو ماننے والے اور یارسول اللہ کہنے والے اہل حق کی واضع اکثریت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ سنی اتحاد کونسل اس ملک کے اکثریتی مکتبہ فکر کا نمائندہ اور متحدہ سیاسی پلیٹ فارم ہے۔ سنی اتحاد کونسل کو ملک بھر کے روحانی آستانوں اور خانقاہوں کے سجادہ نشین حضرات کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ اس لئے سنی اتحاد کونسل کی سیاسی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مینار پاکستان گراؤنڈ اور دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں بڑے جلسے منعقد کر کے اپنی طاقت کا ثبوت دے چکے ہیں۔ ماضی میں اہل سنت کا انتشار ہماری کمزوری کا سبب تھا لیکن اب ملک بھر کے اہل سنت متحد ہیں۔

اس لئے ہمیں یقین ہے کہ آئندہ الیکشن میں ہمارے امیدوار جیتیں گے۔ ہم پوری طاقت سے انتخابی میدان میں اتریں گے اور لبیک یا رسول اللہ کے نعرے پر زوردار انتخابی مہم چلائیں گے۔ قوم بار بار آزمائے ہوئے سدا بہار حکمرانوں سے اکتا چکی ہے۔ اس لئے یقیناً قوم آئندہ الیکشن میں امریکی غلاموں کو مسترد اور نبی کے غلاموں کو منتخب کرے گی۔ ہم ہر مسجد، ہر خانقاہ، ہر مدرسے اور ہر گلی سے عوامی حقوق کے لئے زوردار اور توانا تحریک اٹھا کر عوام کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔ قوم تبدیلی چاہتی ہے۔ اس لئے آئندہ جنرل الیکشن میں روایتی سیاست کاروں کی مفاداتی سیاست کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو جائے گا اور نئی قیادت ابھرے گی، جو دیانتدار بھی ہو گی اور اہل بھی۔
اسلام ٹائمز: آپ نظامِ مصطفٰی ص کی بات کرتے ہیں، کیا کسی ملک میں یہ نظام نافذ ہے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: بدقسمتی سے اس وقت کسی اسلامی ملک میں عملاً نظامِ مصطفٰی ص نافذ نہیں ہے، کیونکہ تمام مسلمان ممالک میں امریکہ پٹھو حکمران اقتدار پر قابض ہیں، جنہیں نظام مصطفٰی وارا نہیں کھاتا، لیکن اب ساری اسلامی دنیا میں ماحول بدل رہا ہے۔ عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ بادشاہتوں کے قلعے ٹوٹ رہے ہیں اور دینی قوتوں کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لئے مستقبل میں نظام مصطفٰی ص کی حامی قوتیں اقتدار میں آئیں گی اور پاکستان سمیت ساری اسلامی دنیا نظام مصطفٰی ص کی بہاروں سے آشنا ہو گی۔ سنی اتحاد کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لئے سعودی نہیں، ترکی ماڈل کو اپنانا ہو گا۔

صوفی ازم کے ذریعے ہی اسلامی اور روحانی انقلاب لایا جا سکتا ہے کیونکہ صوفی ازم ہی عوامی سوچوں کے قریب ہے۔ صوفی ازم انسان دوستی اور محبت و اخوت کا درس دیتا ہے۔ ہم صوفی ازم کے ذریعے ہی انقلاب نظام مصطفٰی ص ووٹ کی طاقت سے برپا کریں گے۔ اب دین بیزار عناصر اور امریکی ایجنٹ حکمران اشرافیہ نظام مصطفٰی ص کا راستہ نہیں روک سکے گی۔ ہم غریب عوام کو سمجھائیں گے کہ نظام مصطفٰی ص میں ہی تمہارے مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلام میں تو بہت سے فرقے بن چکے ہیں تو آپ کس طرح سب کو (نظام مصطفٰی ص سے) راضی کریں گے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: اسلام میں فرقہ واریت بہت بڑا المیہ ہے۔ فرقہ واریت اسلام دشمن طاقتوں کی پیدا کردہ ہے۔ فرقہ واریت پیدا کر کے اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کر کے ہمیں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن نظام مصطفٰی ص پر اختلاف نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل اتفاق رائے سے شرعی نظام کی تفصیلی سفارشات تیار کر چکی ہے۔ ان سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مولانا عبدالستار خان نیازی جب وفاقی وزیر مذہبی امور تھے تو انہوں نے تمام مکاتب فکر کے اسکالرز کے مشورہ سے نظام مصطفٰی ص کا مسودہ تیار کیا تھا۔ اس مسودے پر سب کا اتفاق ہے، لیکن بدقسمتی سے اس مسودے کو نافذ کرنے میں حکمرانوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: سب جانتے ہیں کہ دہشتگردی میں ایک مخصوص گروہ ملوث ہے، پھر کارروائی کیوں نہیں ہوتی، ان کے بندے عدالتوں سے رہا بھی ہو جاتے ہیں۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: اسلام کے نام پر دہشتگردی کرنے والے اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ، کرائے کے قاتل، نفرت کے بیوپاری اور موت کے سوداگر ہیں۔ اسلام ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔ خودکش حملے اسلام میں حرام ہیں۔ اسلام قتل ناحق کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ اس لئے بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والے جہادی نہیں فسادی ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کا موقف ہے کہ افغانستان میں جارح ملک امریکہ کے خلاف لڑنے والے فریڈم فائٹر ہیں، جبکہ پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے دراصل امریکی ایجنٹ ہیں، جو امریکہ اور بھارت سے پیسہ اور اسلحہ لے کر پاکستان کی سکیورٹی فورسز، ہسپتالوں، مسجدوں، مارکیٹوں اور سرکاری دفاتر پر حملے کر کے پاکستان کو کمزور کر رہے ہیں۔ جنہیں امریکہ سے لڑنے کا شوق ہے وہ افغانستان جائیں۔

پاکستانی حکمرانوں کی امریکہ نوازی کی سزا بے گناہ عوام کو دینا کہاں کا جہاد ہے۔ جہاد کے لئے جہاد کی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشتگردی کی کارروائیوں میں مخصوص گروہ ملوث ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی بھی مخالفت کی تھی اور قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا تھا۔ دہشتگرد گرفتار تو ہوتے ہیں، لیکن انہیں سزا نہیں سنائی جاتی۔ کتنا ظلم ہے کہ 36 ہزار پاکستانیوں کو شہید کرنے والے دہشتگردوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں کی مصلحتیں اور عدالتی قوانین میں سقم کا ہونا ہے۔ مناسب پراسیکیوشن نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگرد عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں۔ حکومتیں عدالتوں میں گواہ اور شہادتیں پیش نہیں کرتیں۔ دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ بعض صوبائی حکومتیں اور بعض سیاستدان اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر کالعدم تنظیموں کے لئے نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جب آپ اور اہلِ تشیع مشترکہ دہشتگردی کا شکار ہیں تو آپ متحد ہو کر جدوجہد کیوں نہیں کرتے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ اسلامی ممالک بھی اپنی پراکسی وار پاکستان میں لڑ رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ دہشتگردی میں ملوث فرقہ پرست تنظیموں کو بیرون ممالک سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ اسلامی ممالک کو اپنی لڑائی پاکستان میں نہیں لڑنی چاہیے۔ سنی اتحاد کونسل کی شوریٰ کا فیصلہ ہے کہ ہم خالصتاً اپنے پلیٹ فارم پر اپنی پالیسی کے مطابق انتہا پسندی، دہشتگردی اور امریکی سامراجیت کی مزاحمت کریں گے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب حکومت کے کالعدم جماعت سے رابطے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، یہ ووٹوں کے لئے تعلق ہے تو کیا کالعدم جماعت کو ووٹوں کے لئے دوسرے فرقہ کو قتل کرنے کا لائسنس جاری کیا جا سکتا ہے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: حکومتوں کو دہشتگردی میں ملوث مذہبی جنونیوں کی کسی بھی طرح حمایت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا جرم کی سرپرستی کرنا ہے اور یہ سنگین عمل ملکی سلامتی کے لئے شدید خطرات پیدا کرتا ہے۔ بندوق اٹھانے والوں سے مجرموں والا سلوک ہونا چاہیے۔ جب حکومتیں قاتلوں کی حمایت کریں گی تو ملک میں امن کیسے ہو گا۔ محض تھوڑے سے ووٹوں کی خاطر کالعدم تنظیموں کو حکومتی تعاون فراہم کرنا غیر قانونی عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: اچھے طالبان اور برے طالبان کی جو اصطلاح سامنے آئی ہے، اس کے پیچھے کیا مقصد ہے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: طالبان تو بہت خوبصورت لفظ ہے۔ علم کا طالب ہونا نہایت احسن بات ہے، لیکن بعض گمراہ لوگوں نے اپنی تخریبی کارروائیوں سے اس لفظ کو بدنام کر دیا ہے اور اب طالبان کو ظالمان سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں افغانستان میں اپنے ملک کی آزادی کے لئے جہاد کرنے والے اچھے طالبان اور پاکستان میں بے گناہوں کا خون بہانے والے برے طالبان ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ جو ڈرون اٹیک دوبارہ شروع ہو گئے ہیں، اس پر پاکستانی حکومت کیوں خاموش ہے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری، آزادی اور سلامتی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اس پر حکومت کو خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ پارلیمنٹ کی قراردادوں کی روشنی میں ڈرون حملے رکوانے کے لئے امریکہ سے دو ٹوک بات کرنی چاہیے۔ پاکستان کی حدود میں داخل ہونے والے ڈرونز کو گرائے بغیر امریکہ کی عقل ٹھکانے نہیں آئے گی۔ حکومت پاکستان کو ڈرونز کا معاملہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں لے جانا چاہیے۔

ڈرونز حملوں میں دہشتگردوں کی بہت کم اور عام بے گناہ افراد کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی حدود میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا امریکہ کو کوئی حق نہیں ہے۔ یہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ امریکہ مسلسل ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کی خود مختاری کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ اس پر حکومت کی پراسرار خاموشی انتہائی شرمناک ہے۔ محض مذمت سے نہیں بلکہ امریکہ کی مرمت سے ڈرون حملے رکیں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ اور ایران کی محاذ آرائی میں نقصان کس کا ہو گا؟ خطے کے امن کے لئے پاکستان کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔؟
صاحبزادہ فضل کریم :امریکہ اور ایران کی محاذ آرائی سے نقصان انسانیت کا ہو گا۔ معصوم انسانوں کا لہو بہے گا۔ ایران پر امریکی حملے سے خطے کا امن تباہ ہو جائے گا۔ امریکہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسے عراق اور افغانستان کی طرح ایران میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو گا۔ اس لئے امریکہ کو اس مہم جوئی سے باز رہنا چاہیے کیونکہ ایران پر امریکی حملے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دراصل امریکہ تمام قابل ذکر اسلامی ممالک کو ایک ایک کر کے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

امریکہ مسلمانوں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ ایران پر ممکنہ امریکی حملہ رکوانے کے لئے عرب لیگ اور او آئی سی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان بھی امریکہ کو کھل کر بتائے کہ ایران پر حملے کی صورت میں پاکستان امریکہ کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی تعاون نہیں کرے گا۔ عالمی برادری اور مہذب دنیا بھی امریکہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ ایران پر حملے سے باز آ جائے، کیونکہ دنیا کو جنگوں کی نہیں امن کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک امریکہ کے توسیع پسندانہ سامراجی عزائم کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہو جائیں۔ خطے میں امریکہ کو بے دخل کرنے کے لئے پاکستان، افغانستان، ایران اور ترکی کو متحدہ بلاک تشکیل دینا چاہیے۔ نیز اسلامی ممالک نیٹو کی طرز پر مشترکہ دفاعی فورس قائم کریں اور کسی بھی اسلامی ملک پر حملے کی صورت میں جارحیت کرنے والے ملک کا ساتھ نہ دینے کا معاہدہ کریں۔ 

اسلام ٹائمز: کیا امریکی ایرانی حکومت کو بھی غیر مستحکم کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق میں کروایا گیا۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: ایران پر حملہ امریکی زوال کا سبب بنے گا اور سپر پاور کے زعم میں مبتلا امریکہ کو ایران پر حملہ مہنگا پڑے گا۔ بے مقصد جنگوں کی وجہ سے امریکی معیشت پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے اور امریکی عوام میں شدید اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک‘‘ امریکی عوام کی مایوسی کی واضع مثال ہے۔ امریکہ نے دنیا سے امن چھین لیا ہے۔ ایران پر امریکی حملہ ہوا تو تیل سمیت تمام ضروریات زندگی مہنگی ہو جائیں گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ امن پسند عالمی قوتیں آگے بڑھیں اور نئی جنگوں کو روکنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لائیں، کیونکہ اس وقت دنیا کو کشیدگی نہیں کشادگی کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر ایران امریکہ کی جنگ ہوتی ہے تو پاکستانی عوام کا ردعمل کیا ہو گا۔؟
صاحبزادہ فضل کریم: یقیناً پاکستانی عوام ایران پر امریکی حملے کی بھرپور مخالفت کرے گی اور پاکستانی عوام میں پہلے سے موجود امریکہ سے نفرت میں مزید اضافہ ہو گا۔ کسی بھی ملک پر بلاجواز حملے کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو پاکستانی عوام اس جارحیت اور ظلم کے خلاف ضرور آواز اٹھائے گی۔
خبر کا کوڈ : 142595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش