0
Sunday 1 Apr 2012 00:14

فرقہ وارانہ گروہ اس منصوبہ کا حصہ ہیں جس کے تحت ملک چلایا جا رہا ہے، علامہ ساجد نقوی

فرقہ وارانہ گروہ اس منصوبہ کا حصہ ہیں جس کے تحت ملک چلایا جا رہا ہے، علامہ ساجد نقوی
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے قائد علامہ سید ساجد علی نقوی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین مرحوم اور علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے ساتھ پاکستان میں شیعہ حقوق کی جدوجہد میں شریک رہے، یہ جدوجہد آپ آج بھی استقامت سے جاری رکھے ہوئے ہیں، آپ کو شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد قائد تحریک جعفریہ منتخب کیا گیا، آپ انقلاب اسلامی ایران کی حمایت کرنے والوں اور امام خمینی رہ کی جدوجہد کا حصہ رہنے والوں میں شامل ہیں، پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے آپ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، علامہ ساجد علی نقوی پاکستانی سیاست میں صلح پسند رہنماء کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، آپ نے اتحاد و وحدت کیلئے اپنی کوششیں ہمیشہ جاری رکھیں، اسلام ٹائمز نے ملکی حالات اور اہل تشیع کو درپیش مسائل کے تناظر میں علامہ ساجد نقوی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئیں کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں اہل تشیع کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے اور یہ مسائل کیسے حل ہوں گے۔؟
علامہ ساجد نقوی:اس کی بنیادی وجہ ملک کا وہ سسٹم ہے جس کے تحت ملک کو چلایا جا رہا ہے، اور تسلسل سے یہ ہو رہا ہے، جب تک اس منصوبہ کے تحت ملک چلایا جاتا رہے گا اس وقت تک حالات ایسے ہی رہیں گے، حکومتیں بےبس ہیں ان کے پاس کچھ نہیں ہے، اس کے علاوہ انتظامیہ اور دیگر ذمہ دار لوگ بھی بےبس ہیں، اسی وجہ سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

اسلام ٹائمز:صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کیا حکومتی سطح پر آپ کے کسی اعلیٰ عہدیدار سے کوئی مذاکرات ہوئے ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی:ہم نے ممکنہ کوششیں کی ہیں، صدر اور وزیر اعظم تک سے ملاقاتیں ہوئی ہیں ان کو مسائل کی طرف متوجہ کیا، لیکن تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، عوامی رابطہ کے ذریعے ہم نے مسلسل مختلف پروگراموں اور اجتماعات میں احتجاج کیا، مختلف اوقات میں مظاہرے بھی ہوتے رہے، اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی جو کوشش کی جا رہی تھیں، اس کو روکنے کیلئے ہم نے اتحاد و وحدت کا راستہ بھی اپنایا تاکہ اس کو کوئی مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے، یہ تو کچھ گروپس ہیں جو اس کام کیلئے تیار کئے گئے ہیں یہ کارروائیاں تو وہ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز:اس دہشتگردی کو اندرونی سپورٹ حاصل ہے یا بیرونی قوتیں بھی اس کھیل میں ملوث ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی:یہ خالصتاً داخلی مسئلہ ہے، بیرونی قوتیں بھی اس پر راضی ہوں گی اور ہو سکتا ہے کہ ان کی منشاء بھی اس میں شامل ہو لیکن مسئلہ داخلی ہے، یہ گروہ داخلی عناصر نے تشکیل دیئے ہیں اور وہی انہیں چلا رہے ہیں، ملک کی باگ دوڑ بھی ان کے ہاتھ میں ہے اور یہ گروہ بھی انہی کے قبضے میں ہیں، یہ جو چاہیں کر لیتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں حملہ کر دیتے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں ہے، امن و امان نام کی یہاں کوئی چیز نہیں ہے، آئین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، ایک بےبسی کا عالم ہے۔

اسلام ٹائمز:تشیع کے اتحاد کی بات کی جاتی ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ نہیں ہو رہا، اس کی کیا وجہ ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی:تشیع کے اتحاد کا فارمولہ ہمارے یہاں یہ ہے کہ ہم چونکہ قومی پلیٹ فارم کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اسے چلا رہے ہیں، اس قومی پلیٹ فارم کی اپنی پالیسیاں ہیں، اس سے الگ ہو کر اگر کوئی سلسلہ قائم کرتا ہے اگر مثبت کام کرے گا تو ہم اس کی تائید کریں گے اور اگر منفی ہو تو ہم خاموش رہتے ہیں، یہ اتحاد و وحدت کا فارمولہ ہے اور ہم اس پر چل رہے ہیں، گروہ مختلف ہیں اپنی اپنی خواہشات ہیں، اپنے اپنے ایجنڈے اور پروگرام ہیں لیکن سب کو چاہیے کہ اس چیز کو مدنظر رکھیں کہ آپس میں جھگڑیں نہ۔

اسلام ٹائمز:کافی عرصہ سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ ساجد نقوی:مجلس عمل کی بحالی کی کوششیں جاری تھیں اور جاری ہیں، لیکن بظاہر کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی، ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ اگر مجلس عمل کا سیٹ اپ قائم ہوتا ہے تو ہماری پہلی ترجیح یہی ہو گی، دوسری صورت میں نئی صف بندیاں ہوں گی اور کسی صف میں ہم بھی ہوں گے۔

اسلام ٹائمز:آئندہ الیکشن کے حوالے سے شیعہ علماء کونسل پاکستان کی کیا تیاریاں ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی:جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا سیاسی رول ملک میں رہا ہے اور انشاء اللہ اس مرتبہ بھی ہو گا، ہم ایک پراسس سے گزر رہے ہیں اور سیاسی جائزے لے رہے ہیں، اور جب جائزے مکمل ہو جائیں گے اس کے بعد ہم انشاء اللہ اپنا لائحہ عمل مرتب کریں گے اور اس کی روشنی میں آگے بڑھیں گے۔

اسلام ٹائمز:آپ کو مستقبل قریب میں فرقہ واریت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے یا پھر حالات مزید خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی:جس طرح میں نے کہا کہ جس طریقہ سے ملک کو چلایا جا رہا ہے فرقہ واریت بھی اس کا حصہ ہے، کبھی اسے روک دو، کبھی بڑھاوا دے دو، جب وہ چاہتے ہیں اور ان کے مقاصد ہوتے ہیں وہ ایسا کرتے ہیں، ایک زمانہ تھا جب تشیع کیخلاف غلیظ نعرے اور غلیظ فتوے تھے، یہ ہوتا رہا ہے اور لوگ کراتے رہے ہیں، وال چاکنگ اور سب کچھ ہوا، کوئی ٹس سے مس تک نہیں ہوا، یہ تو ایک جنگل ہے۔

اسلام ٹائمز:اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی:مذہبی جماعتوں کا کردار اس حوالے سے کافی بہتر ہے، وہ ان معاملات میں نہیں ہیں، فرقہ وارانہ جو کشیدگی ہے وہ اس میں حصہ دار نہیں، مذہبی جماعتوں کے نچلی سطح کے لوگ اس میں اپنے مقاصد، مقامی خواہشات اور دکانداریوں کے تحت ملوث ہو سکتے ہیں، لوگوں کے معاش کا مسئلہ ہوتا ہے، عوام کو ساتھ ملا کر آگے بڑھنا اور جذباتی عوامل سے ناجائز فائدہ اٹھانا، یہ لوکل طور پر ہو سکتا ہے، تاہم اصل فرقہ واریت تو وہ گروہ پھیلا رہے ہیں جو اس منصوبے کا حصہ ہیں، جس کے تحت ملک چلایا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز:آپ جیسا کہ پشاور کے دورہ پر ہیں، یہاں کے اہل تشیع کو بھی کئی مشکلات کا سامنا رہا ہے، ٹارگٹ کلنگ اور پھر امام بارگاہ کا مسئلہ بھی درپیش آیا، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ ساجد نقوی:جیسے پاکستان کے دیگر حصوں میں مسائل ہیں یہاں بھی ویسے ہی مسائل ہیں، انہی مسائل کو دیکھنے کیلئے ہم یہاں آئے ہیں، پہلے بھی ہم پشاور کے مسائل کا جائزہ لیتے رہے ہیں اور انہیں مدنظر رکھا، اور اس حوالے سے جو رول ادا ہو سکتا تھا ہم کیا، اور اب بھی انشاء اللہ اپنا کردار ادا کریں گے، امام بارگاہ کا مسئلہ یا دیگر جو مسائل ہیں ان کو مدنظر رکھیں گے، طریقہ کار اور ممکنہ حالات کو مدنظر رکھ کر مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔

اسلام ٹائمز:ایسا ممکن نہیں کہ آپ کی کال پر تمام شیعہ تنظیمیں ایک چھت تلے بیٹھ جائیں اور یہ اندرونی مسلئے مسائل حل ہوں۔؟
علامہ ساجد نقوی:دیکھیں، مجھے اس کا علم نہیں ہے، ہم نے تو کسی کو اپنے سے الگ نہیں کیا، لوگ اپنے طور پر الگ ہوئے اور راستے نکالے، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی کیا سوچ ہے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان کے اہل تشیع کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ ساجد نقوی:میں یہ کہوں گا کہ ایک موقف اور ایک آواز اپنائیں جو تشیع اور امت مسلمہ کے مفاد میں ہو، اس پر سب متفق ہوں، یکجہتی ہونی چاہئے اور ایک آواز ہونی چاہیے، بات بات کی بولیاں اور بات بات کے نعرے تشیع کے مفاد میں نہیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 149407
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش