0
Tuesday 17 Apr 2012 00:50
قیام امن کیلئے امریکہ کو خطے سے نکالنا ہوگا

دہشتگردی کو ہمارے بعض ادارے، امریکہ اور چند عرب ممالک سپورٹ کر رہے ہیں، علامہ امین شہیدی

دہشتگردی کو ہمارے بعض ادارے، امریکہ اور چند عرب ممالک سپورٹ کر رہے ہیں، علامہ امین شہیدی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی کا تعلق گلگت سے ہے، علامہ صاحب کا شمار پاکستان کے متدین علماء میں ہوتا ہے اور قومی معاملات میں ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں، اتحاد بین المسلمین کیلئے آپ کی کاوشیں لائق تحسین ہیں، علامہ صاحب پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دیئے جانے والے حالیہ کامیاب احتجاجی دھرنے میں مسلسل شریک رہے اور حکومت کیساتھ کامیاب مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام ٹائمز نے اس موقع پر سانحہ چلاس سمیت ملک میں بڑھتی ہوئی شیعہ نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال اور ملکی حالات پر علامہ امین شہیدی صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
 

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے یہ بتائیں کہ آپ کے خیال میں گلگت بلتستان میں پیش آنے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے۔؟

علامہ امین شہیدی: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ گلگت بلتستان کا مجموعی علاقہ 28 ہزار مربع میل پر مشتمل ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر چار مذاہب کے پیرو کار آباد ہیں، وہاں پر موجود سب سے بڑی آبادی اہل تشیع، اس کے بعد اسماعیلی، پھر اہل سنت اور نور بخشی ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنی پوری تاریخ میں پرامن طریقے سے بھائی چارے کے ساتھ جیتے رہے ہیں، انقلاب اسلامی کے بعد جب پاکستان میں بیداری کی کیفیت پیدا ہوئی تو اس علاقے میں بھی شیعہ سنی وحدت کیلئے کام کیا گیا، اس میں شہید سید ضیاءالدین کا بہت بنیادی کردار رہا ہے لیکن پاکستان میں وحدت بین المسلمین کے لئے جو کوششیں کی گئیں اس کے نتیجے میں یقینی طور پر پاکستان میں استعماری مفادات کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے عزائم یہاں پورے نہیں ہو پاتے۔ اس لئے امریکہ، یورپ اور بالخصوص اسرائیل نے پاکستان میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی، تاکہ یہاں پر امت کو تقسیم کیا جاسکے۔ 

پاکستان کا ایک حصہ گلگت بلتستان ہے، جہاں پر تشیع کی ایک بڑی اکثریت موجود ہے۔ اسوجہ سے اس علاقہ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں نفرتیں پھیلتی گئیں اور پھر دھڑے بندیاں ہوئیں، علاقے تقسیم ہوئے، ان علاقوں کی تقسیم کے بعد بھی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اہل تشیع نے پہل کر کے اہل سنت، اسماعیلی یا نور بخشی کو تنگ کیا ہو۔ ضیاء دور میں 1988ء کے دوران اس پورے خطے جس میں وزیرستان، سوات، باجوڑ، کوہستان اور شبقدر شامل ہیں، ان علاقوں سے ایک بہت بڑا لشکر اس علاقے میں شیعت کو ختم کرنے کے لئے پہنچا۔ اس کے پس منظر میں امریکی ڈالر اور سعودی ریال کی سپورٹ سے یہ سب کچھ ہوا، اس حملے میں وہاں متعدد افراد کا قتل عام کیا گیا، جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، درجنوں گائوں اور فصلیں تباہ کر دی گئیں، حتیٰ کہ پالتو جانوروں اور پرندوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ 

اس بربریت کے بعد بھی شیعت تو وہاں ختم نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی، لیکن نفرت کی جو آگ انہوں نے بھڑکائی اس سے علاقے میں شدت پسندی پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اداروں نے یہ کوشش کی کہ ان علاقوں میں خصوصی طور پر تربیتی کیمپس بنائے جائیں اور ان کیمپس میں جن لوگوں نے تربیت پائی، انہوں نے گلگت، کراچی اور کوئٹہ میں دہشتگردی کی۔ یہ میں دہشتگردی کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، یہ وزیر داخلہ حمان ملک نے ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ وہاں ایسا ہوا ہے اور وہاں سے جو دہشتگرد تربیت پا کر نکلتے ہیں وہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردی کرتے ہیں، اس پس منظر میں اب جبکہ امن کا ماحول ہوتا ہے تو شیعہ سنی اکٹھے بیٹھتے ہیں۔
 
20 نومبر کو مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے وہاں پر جشن آزادی کے عنوان سے ایک اجتماع منعقد کیا گیا تھا، جس میں شیعہ، سنی، اسماعیلی، نور بخشی سب اکٹھے تھے اور تمام رہنماء ایک ساتھ موجود تھے، اس کے بعد معاشرے کو جو پیغام گیا وہ انتہائی مثبت تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دہشتگردی یا شدت پسندی نہیں، لیکن ایک گروہ ہے جن کو ہمارے بعض ادارے، امریکی، بھارت اور بعض عرب ممالک سپورٹ کر رہے ہیں، حن میں سرفہرست سعودی عرب ہے، یہ لوگ ان دہشتگردوں کو سپورٹ کرتے ہیں، جو وہاں پر جا کر امن کو تہہ و بالا کرتے ہیں اور نفرتوں کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پھر ایسے ہولناک واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ جو کوہستان میں 19 افراد کے قتل کا واقعہ ہوا یہ بھی انہی گماشتوں کا کام تھا۔ 

ہمیں اگر گلہ ہے تو اپنی فوج سے ہے، ہمیں اگر شکایت ہے تو ریاستی اداروں سے ہے کہ ملک کو اس طرح تباہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود نہ تو یہ ان کیمپوں کو بند کر رہے ہیں اور نہ ان دہشتگردوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ اب جب پہلا واقعہ پیش آیا کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی، بلکہ ان کو سپورٹ فراہم کی گئی اور پناہ دی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سے بڑا جرم کیا گیا، اس وقت جو صورتحال ہے اس کے مطابق 22 سے زیادہ نعشوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ 62 سے زائد افراد لاپتہ ہیں، پورا علاقہ تباہی کے دہانے پر ہے، لیکن حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بے گناہوں کو گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ قاتلوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ صورتحال ان قوتوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے ہے، جو پاکستان کی سالمیت اور جغرافیائی اہمیت کو برداشت نہیں کرتیں۔
 
بعض فوجی افسران کا بھی کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کو بھی بلوچستان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے یعنی بلوچستان میں جو جذبات موجود ہیں وہی جذبات یہاں پر بھی ابھارے جا رہے ہیں۔ تو میں نے فوجی افسران سے سوال کیا کہ اگر یہ جذبات ابھارے جا رہے ہیں تو آپ روکتے کیوں نہیں؟ اور آپ ان لوگوں کو کیوں نہیں پکڑتے جو بلوچستان جیسی صورتحال وہاں بنا رہے ہیں، حالیہ بربریت کے واقعہ میں بعض عینی شاہدین نے ہمیں بتایا کہ کچھ بچیوں نے اپنی عزتیں بچانے کی خاطر بسوں سے اتر کر دریا میں چھلانگ لگا کر جان دے دی، کئی لوگوں نے فائرنگ سے بچنے کے لئے دریا میں چھلانگ لگائی۔ دروازے بند کر کے بسوں کو آگ لگائی گئی اور لوگوں کو دریا میں پھینک دیا گیا۔ جہاں پر اس طرح کے مظالم ڈھائے جائینگے وہاں پر فطری طور پر لوگوں کے جذبات بھڑکیں گے اور وہاں ایسے لوگوں کو پنپنے کا موقع ملے گا، جو شرپسند ہیں۔
 
اس وقت شرپسندوں کی بھرپور سرپرستی کی جا رہی ہے۔ جس کی ایک مثال آپ کے سامنے ہے، پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کالعدم تنظیم کے لوگوں کو ہمارے ادارے لائے ورنہ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ یہاں پر آکر اس طرح کی نعرہ بازی کریں، سو، ڈیڑھ سو بندوں کو یہاں لا کر ہمارے پرامن احتجاجی کیمپ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی، ہمیں دھمکایا گیا کہ اگر آپ نے یہ کیمپ ختم نہ کیا تو یہ لوگ آئیں گے اور آپ کو یہاں ڈسٹرب کریں گے، ہم اپنی یہ مظلومیت کی آواز پوری دنیا میں پہنچائیں گے اور یہ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمارا فریضہ ہے، کیونکہ آج پاکستان کو تباہ کیا جا رہا ہے، ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا والوں کو بتائیں کہ یہاں کسطرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور انشاءاللہ ہم یہ آواز اٹھاتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ ٹارگٹ کلنگ کی لہر کو روکنے کے لئے مجلس وحدت مسلمین کا کیا لائحہ عمل ہے۔؟
علامہ امین شہیدی: دیکھیں۔ ایم ڈبلیو ایم لوگوں میں بیداری پیدا کر رہی ہے اور اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے عوام میں بیداری پیدا ہو چکی ہے، چاہے شدت پسندی کیسی ہی کیوں نہ ہو، دہشتگردی کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم نہ پہلے دہشتگردوں سے مرعوب ہوئے اور نہ آئندہ ہونگے، ہم میدان عمل میں اپنی وحدت، اتحاد اور قومی طاقت سے اس کا جواب دینگے، البتہ جواب دینے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دہشتگردی کریں، ہم دہشتگرد نہیں ہیں اور نہ ہی ہونگے، کیونکہ ہمارا دین دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارا مکتب بھی اسکی اجازت نہیں دیتا، لیکن ہم میدان میں ان دہشتگردوں جن کے ہاتھ ہمارے اپنوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں کو سامنے لانے والی پس پردہ قوتوں کے چہروں سے نقاب اٹھائیں گے، ہم پوری دنیا کو بتاتے رہیں گے کہ اصل مجرم کون ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے معاملہ کو شیعہ، سنی رنگ دینے سے بچانے کے لئے آپ نے کیا دیگر مسالک کی دینی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطے کئے ہیں۔؟
علامہ امین شہیدی: ہم نے اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا ہے، ان کے ساتھ ہماری اس حوالے سے ایک لمبی نشست ہوئی تھی، وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ اس صورتحال کو کنٹرو ل کیا جائے، لوگوں کے جذبات کو بھڑکنے سے روکا جائے، انہوں نے مجھ سے یہ کہا ہے کہ ہم گلگت جانے کو تیار ہیں، تاکہ لوگوں کے جذبات کو کنٹرول کیا جاسکے اور جو فرقہ پرست عناصر ہیں ان کو ہم تنہا کرنا چاہتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ یہ فرقہ پرست عناصر کی ہی کارستانیاں ہیں، تمام مکاتب فکر اہل حدیث، اہل سنت اور دیوبندیوں کی سب سے بڑی جماعت مولانا فضل الرحمان کی ہے، ان سب نے اس دہشتگردی کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ فرقہ واریت کسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین نے 25 مارچ کے اجتماع میں سیاست میں آنے کا اعلان کیا ہے، اس حوالے سے آپ کی جماعت کی آئندہ پالیسی کیا ہے۔؟
علامہ امین شہیدی: انشاءاللہ مستقبل کی پالیسی کا باقاعدہ اعلان لاہور میں مینار پاکستان پر یکم جولائی کو کیا جائے گا کہ سیاست میں آنے کا مطلب کیا ہے اور ہم کس طرح سیاست میں اپنا وجود منوائیں گے، البتہ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم پاکستان میں موجود سیاست سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، جو ملکی اور قومی حوالے سے جو ایشوز ہیں ان سے ہم الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ پاکستان کو اس وقت بیرونی سازشوں کا بہت بڑا چیلنج درپیش ہے، پاکستان کی ایٹمی قوت کو بہت بڑا خطرہ ہے۔
 
امریکی یہاں پر گھسے بیٹھے ہیں، ان سے نجات دلانا بہت بڑا چیلنج ہے، ہمارے سیاستدانوں نے بیرونی قوتوں نے امریکی گماشتے بٹھائے ہوئے ہیں وہ جب چاہیں ملک کو ڈسٹرب کر دیتے ہیں، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس پر ہمیں فوکس کرنا ہے، لہذا انشاءاللہ تعالٰی یکم جولائی کے اجتماع میں باقاعدہ طور پر ہم پاکستان کو بچانے کے حوالے سے اور پاکستان کی خود مختاری کے تحفظ کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کا اعلان کرینگے۔

اسلام ٹائمز: بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی موجودہ لہر پاک ایران تعلقات کو متاثر کرنے کی سازش ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ امین شہیدی: پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ پاکستان کے تعلقات اردگرد کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور مضبوط ہوں، جب تک اس خطے کے اندر موجود ممالک کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہو گی اس وقت تک دیگر استعماری قوتیں اور امریکہ سازشیں کرتا رہے گا، امریکہ کو کس نے اجازت دی ہے کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے یہاں آکر اس خطے میں مداخلت کرے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خطے میں تفرقہ چاہتا ہے اور یہاں افراتفری کا خواہشمند ہے، امریکہ اس خطے میں ایسی فضاء چاہتا ہے جس میں یہاں پر لڑائی جھگڑے ہوں، تاکہ اسے اپنے وجود کو یہاں پر برقرار رکھنے کے لئے جواز فراہم کر سکے، تاہم ہم ہرگز اس کی اجازت نہیں دینگے۔

پاکستان کے تعلقات افغانستان، بھارت، ایران کیساتھ برابری کی بنیاد پر آبرو مندانہ ہونے چاہئیں، تاکہ ملکر اس خطے کے دشمنوں کا مقابلہ کیا جاسکے، اس خطے میں جو وسائل موجود ہیں ان کو بروئے کار لا کر اس خطے کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کوئی ایسی سازش جس سے اس خطے کے اندر تفرقہ پھیلے، اس کو کسی صورت پروموٹ نہیں کرنا چاہئے، ہمیں اس خطے کو آگ سے بچانا چاہئے، جو یہاں لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ آگ لگانے والی قوت امریکی ہے۔

اسلام ٹائمز: مستقبل قریب میں پاکستان کے حالات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ امین شہیدی: جب تک امریکی مداخلت یہاں موجود رہے گی، حالات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے اور ہمیں حالات کی بہتری کیلئے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے، اس خطے کے حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے سب سے امریکیوں کو اس خطے سے باہر نکالنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 153909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش