0
Friday 27 Apr 2012 01:45

بھارت امریکہ کے اشارے پر برصغیر کو تباہی کے دہانے پر لیجارہا ہے، مولانا محمد عباس انصاری

بھارت امریکہ کے اشارے پر برصغیر کو تباہی کے دہانے پر لیجارہا ہے، مولانا محمد عباس انصاری

سابق حریت کانفرنس چیئرمین اور اتحاد المسلمین کے سرپرست اعلیٰ حجة الاسلام و المسلمین مولانا محمد عباس انصاری ملت اسلامیہ کشمیر کے ایک ایسے حریت پسند رہنماء ہیں جو پچھلے 50 برسوں سے پورے عزم اور استقامت کے ساتھ میدان عمل میں برسر پیکار ہیں اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا دفاع کر رہے ہیں، انصاری صاحب اپنی پوری زندگی میں ہمیشہ سخن اور قلم کے ذریعے کوششوں میں مشغول رہے ہیں، جس کی پاداش میں کئی بار انھیں گرفتار کرکے بھارت کی مختلف بدنام زمانہ جیلوں میں پابند سلاسل کیا گیا، 1962ء کے ابتداء میں ملکی سیاست میں فعالیت شروع کی اور اپنے سیاسی اہداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے ”جموں و کشمیر اتحاد المسلمین“ کا قیام عمل میں لائے۔ جس کے اہم ترین اہداف میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسلکوں کے درمیان وحدت برقرار رکھنا اور فرقہ پرست قوتوں کا مقابلہ کرنا تھا، شیعہ سنی اختلافات کی گہری خلیج کو پاٹنے کیلئے اتحاد المسلمین اور مولانا انصاری صاحب نے ہمیشہ اہل سنت علماء کے ساتھ قریبی رابطہ قائم رکھا اور ان ہی کوششوں کی وجہ سے تمام مسلمانانِ کشمیر بلا تفریق مذہب و مسلک اپنے حقوق کے مطالبے کیلئے متحد ہو چکے ہیں، مولانا صاحب مسئلہ کشمیر کی سفارتی سطح پر حمایت حاصل کرنے کیلئے پاکستان، ایران، کویت، سعودی عرب، دوبئی، مراکش، برطانیہ، قطر وغیرہ میں کئی کانفرنسوں اور سمیناروں میں کشمیر کی نمائندگی کر چکے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورموں میں اجاگر کیا، اسلام ٹائمز نے مولانا عباس انصاری سے ایک خصوصی ملاقات میں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور اس دیرینہ مسئلہ کے حل کے لئے ہونے والی کوششوں کو جاننے کی کوشش کی، آئیے مولانا محمد عباس انصاری سے ہم کلام ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اولاً ہم اسلام ٹائمز کے لئے آپ کی تنظیم (اتحاد المسلمین) کا تعارف سننا چاہیں گے۔؟
مولانا محمد عباس انصاری: ساٹھ کی دہائی میں ملک اور قوم کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر اور اپنے وسیع تر سیاسی نظریات کی تشہیر کیلئے ایک انقلابی قدم اٹھانے کی اشد ضرورت محسوس کی گئی، انجمن سفینہ نامی دینی فورم کے مقتدر اراکین کی بڑی بحث و تمحیص کے بعد وسیع تر مذہبی اور قومی ضرورتوں کے پیش نظر، عملی سیاست میں شیعیان کشمیر کے رول کو موثر اور فعال بنانے کیلئے ایک ہمہ گیر سیاسی جماعت جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو 27 مارچ 1962ء کے دن معرض وجود میں لایا گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ نوزائیدہ تنظیم اپنی کار کردگی، ملی جذبہ، معزز اراکین کے خلوص اور وسیع عوامی حمایت کی وجہ سے کشمیر کے سیاسی افق پر ایک قد آور سیاسی تنظیم کے بطور مانی جانے لگی۔

اتحاد المسلمین کے اغراض و مقاصد جن میں قومی ضرورتوں اور بدلتے وقت کے ساتھ اضافہ و ترامیم ہوتی گئیں، آپ کی خدمت میں مختصراً پیش کر رہا ہوں، قوم کو منظم و متحد کرنا، اس کے مذہبی، سیاسی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور ثقافتی حقوق کی حفاظت اور ترجمانی کرنا، مذہبی منافرت اور مسلکی و فرقہ وارانہ اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کی سعی کرنا، مقبوضہ کشمیر کی سیاسی پوزیشن، جغرافیائی حدود، ثقافتی ورثے اور اسلامی تشخص کے تحفظ اور سالمیت کیلئے ہر جائز اور بروقت اقدام کرنا اور ساتھ ہی ساتھ فکر اسلامی کے احیاء اور اسلامی احکامات کے نفاذ اور اجراء کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا۔

ضمناً اگر میں شیعیان کشمیر کی بات کروں تو شیعیان کشمیر نے یہاں کی ہر سیاسی تحریک خصوصاً تحریک حریت کے تحت اپنے رول کو بہت احسن طریقے سے نبھایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آگے چل کر موئے مقدس کی تحریک ہو یا محاذ رائے شماری، سٹیٹ پیپلز کنونشن ہو یا پیوپلز یونائیٹد فرنٹ، مسلم متحدہ محاذ ہو یا کل جماعتی حریت کانفرنس کا تاریخی اتحاد ہر محاذ پر شیعیان کشمیر نے مثالی کردار ادا کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اتحاد المسلمین کے موقف سے ہم آگہی چاہتے ہیں۔؟
مولانا محمد عباس انصاری: مسئلہ کشمیر کے بارے میں اتحاد المسلمین کا موقف صاف اور واضح ہے ،اور ریاستی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہم اسکا اظہار بھی کرتے رہے ہیں، ہماری نظر میں یہ مسئلہ ریاست کے لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ عوام کا مسئلہ ہے اور اسے کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے، جو اقوام متحدہ یا کسی بھی غیر جانبدار بین الاقوامی فورم کے تحت ہونے والے استصواب رائے کے ذریعے ہی ممکن ہے،  یہ مسئلہ کشمیر و کشمیری عوام سے متعلق ہے اور کشمیری عوام کی خوا ہشات اور امنگوں کے بغیر ہونے والا کوئی بھی فیصلہ کشمیری قوم کو قابل قبول نہیں، سہ فریقی مذاکرات اس طولانی مسئلہ اور دیرینہ اختلاف کا واحد حل ہے۔ 

اسلام ٹائمز: بھارتی مظالم کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کل کشمیر کے کیا حالات ہیں۔؟
مولانا محمد عباس انصاری: کشمیر کی تحریک آزادی اس وقت ایک اہم مرحلے سے گزر رہی ہے جبکہ بھارت کی حکومت اپنی ہٹ دھرمی سے یہ ثابت کر رہی ہے کہ اس کو برصغیر کے تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں، موجودہ حالات میں بھارت پاکستان کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کے اشارے پر استعماری قوتوں کی صفوں میں شامل ہو کر برصغیر کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے جبکہ امریکی حکومت کی دوہری پالیسی کی وجہ سے ہی بھارت پاکستان اور جموں و کشمیر کے کروڑوں عوام پچھلے 64 سالوں سے مصیبتوں اور خون خرابے کے دن بہ دن شکار بنتے جارہے ہیں، جموں و کشمیر کی Demography کو تبدیل کرنے کیلئے حکومت ہند نے آج تک بہت سے ناکام حربے آزمائے اور آئندہ بھی ہر ایسے حربے کو ناکام بنایا جائے گا جس کا تعلق سرزمین کشمیر سے وابستہ رہے گا،
 
حکومت اور پولیس میڈیا کے ذریعے حریت پسند رہنماﺅں اور معصوم بچوں کی رہائی سے متعلق ہر دن دوہرے معیار کے بیان دے کر مزید نوجوانوں کو الٹا گرفتار کر رہی ہے، پچھلی کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں کشمیری آزادی کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہوئے، مستقبل قریب میں اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو جموں کشمیر ایک وسیع قبرستان میں تبدیل ہوجائے گا کیونکہ بھارتی افواج بے لگام ہوکر کشمیریوں کا قتل عام کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ بھارت نے سال 2010ء میں کشمیر کے طول و عرض میں ہونے والے پر امن عوامی مظاہروں کے دوران طاقت کے بے تحاشہ استعمال اور سرکاری دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کرکے ایک سو سے زیادہ بے گناہ کشمیری طالب علموں اور نوجوانوں کو بےدردی سے شہید کیا جو کہ عالمی سطح پر ایک پر تشویش امر ہے اور اس حوالے سے حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے اور ایک کمیشن کے ذریعے ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
 
کالے قوانین کے تحت بلا جواز گرفتاریوں، پر امن مظاہرہ کرنے والوں کو ہراساں کرنے، انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈرانے دھماکنے اور مقامی میڈیا سے وابستہ افراد کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے روکنے کی کارروائیاں بھی تشویشناک امر ہے، ان ہلاکتوں کی تحقیق کے لئے کمیشن بٹھانا تو دور کی بات ہے 2010ء کے پرامن مظاہرین کو شہید کرنے کیخلاف آج تک حکومت کی جانب سے FIR بھی درج نہیں کی گئی۔ جو بربریت کی خطرناک مثال ہے، دوسری جانب حریت پسند عوام اور قائدین کو سیاسی عمل یا جلسہ کرنے سے روکا جاتا ہے اور پولیس اور بندوق کے بل پر کشمیر میں قبرستان جیسی خاموشی ہے لیکن جو لاوا ابل رہا ہے وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور کشمیری عوام اپنے مسلمہ حقوق کے حصول کے لئے کبھی بھی ہمت نہیں ہار سکتے۔

اسلام ٹائمز: افسپا کیا ہے اور اس کالے قانون پر کشمیری عوام کا رد عمل کیا ہے۔؟
مولانا محمد عباس انصاری : دراصل بھارت صرف طاقت اور بے پناہ فوجی جماﺅ کے بل پر کشمیر پر اپنی گرفت جمائے ہوئے ہے اور ظلم و تشدد اور طاقت کے نشے میں چور یہاں کے لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ہمیں اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا کر رکھ دیا گیا ہے، جموں کشمیر کے تمام شہروں، قصبہ جات اور دیہاتوں میں فوجوں کی تعداد دن بدن بڑھائی جارہی ہے اور حکومت ہند نے انہیں افسپا AFSPA سمیت تمام کالے قوانین کے ذریعے نہ صرف تحفظ فراہم کر رکھا ہے بلکہ  فورسز کو حاصل بے پناہ اختیارات کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں، بے لگام آرمڈ فورسز نے حد سے زیادہ دئیے گئے اختیارات کا غلط استعمال کرکے کشمیری عوام کا جینا مشکل کردیا، مکمل فوجی انخلاء اور کالے قوانین کے خاتمے سے ہی کشمیریوں کے جان و مال اور عزت وعصمت کا تحفظ یقینی ہے اور کوئی بھی کمیشن فوجی دباﺅ اور کالے قوانین کے ہوتے حق ادا نہیں کرسکتا۔
 
کشمیری عوام کی جدوجہد کو کچلنے اور یہاں مبنی برحق جدوجہد کو دبانے کے سرکاری عزائم کو عیاں کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ کشمیری عوام کو عملاً فوجی اور نیم فوجی دستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور ایک طرف ریاستی سرکار کشمیر میں حالات کی بہتری کا دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتی مگر دوسری طرف یہاں کے عوام کو ہر روز کالے قوانین کی سختیاں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں، اس قسم کے اقدامات حریت پسند قائدین اور عوام کے حوصولوں کو توڑنے کے لئے کئے جا رہے ہیں تاہم اس کے نتیجے میں عوامی رد عمل کی ذمہ داری خود سرکار پر عائد ہوگی، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جاری حقوق انسانی کی پامالیوں پر فوری پابندی لگائی جائے اور  افسپا سمیت تمام کالے قوانین ختم کئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں میں اسمبلی میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیری قوم کو بیگار پر لے جانے کا معاملہ زیر بحث رہا، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
مولانا محمد عباس انصاری: ایسے واقعات ہماری نظر میں کشمیریوں کے خلاف ننگی جارحیت کا ایک واضح ثبوت ہے۔ مگر ایسے ہر واقعہ کے بعد فوج اپنی کارروائی کو غلط جواز فراہم کرکے اپنے اہلکاروں کو بری کراتی ہے اور پھر پولیس اور عدلیہ دونوں خاموش تماشائیوں کا رول ادا کرتے ہیں حالانکہ بھارت کو موجودہ قانونی ضابطہ کے تحت ایسے واقعات میں ملوث فوجی اہلکاروں کی فوری گرفتاری، مقامی پولیس کی منصبی ذمہ داری ہے اور تحقیقات مکمل کرکے باضابطہ طور عدالت میں چالان پیش کرکے انصاف دلانا بھی پولیس کا ہی کام ہے لیکن یہاں بھارتی حکمرانوں نے مقامی حکمراں ٹولوں کے ساتھ ملکر ایسے کالے قوانین لاگو کروائے ہیں جنکی موجودگی میں فوج یا دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنا پولیس اور عدلیہ کے بس سے باہر ہے۔
 
یہاں یہ ریت بھی برسوں سے جاری ہے کہ ہر ایسے خونین واقعہ کے بعد یہاں کی حکومت مجرموں کو کیفر کردار تک پہچانے کے بلند بانگ دعوے بھی کرتی ہے لیکن چند ہی ایام کے بعد وہ یہ وعدے بھول جاتی ہے اور اکثر نئی دہلی کے دباو میں آکر اپنے وعدوں سے ہی مکر جاتی ہے، فوج نے بھی یہاں کے عوام کے جذبات کی کبھی قدر نہیں کی۔ جسکی وجہ سے ایسے گھناونے جرائم میں ملوث فوجی افسر اور اہلکار تحتِ قانون سزاء نہیں پاسکے، یہاں نافذ کالے قوانین نے بھارت میں رائج قانونی نظام کی زد میں آنے سے بھی صاف راہداری ان مجرموں کو عطا کی ہے اور کشمیری ظلم کی چکی میں پستے جارہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں گمنام قبروں کا انکشاف ہوا ہے، اس سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کمیٹی کی رپوٹ اور بھارتی حکام کی حیلہ سازی کے حوالے سے آپ مظلوم ملت کی ترجمانی کن الفاظ میں کریں گے۔؟
مولانا محمد عباس انصاری: ہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں خصوصاً ایمنسٹی انٹرنیشنل سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کروانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے خصوصاً کشمیرمیں بے نام قبروں کی دریافت کے بارے میں جو مفصل رپورٹ اور دوسری دستاویزات سامنے آئی ہیں اس سلسلے میں مزید عملی اقدامات کرے، اس رپورٹ سے ہمارا یہ دعویٰ اب ثابت ہو گیا ہے کہ یہاں سالہا سال سے ہزاروں لوگوں کو بھارتی فوجیوں نے مارکر لاوارث دفن کردیا ہے، بھارتی فوجیوں نے کشمیریوں پر ظلم کی انتہاء کردی ہے اور اب بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے، امریکہ، یورپی ممالک اور دنیاکی دوسری اقوام کوجان لینا چاہیے کہ بھارت ہرگز سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا اہل نہیں کیونکہ کشمیر پر گذشتہ ساٹھ سالوں سے سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں لیکن بھارت ان قراردادوں پر عمل نہیں کررہا، بھارت کا کشمیر پر قبضہ ظالمانہ ہے اور ہم کشمیری ہرگز اس قبضے کو نہیں مانتے۔
 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی روک تھام اور مسئلہ کے پرامن حل کے لیے ایک موثر کردار ادا کرے یا کم ازکم کشمیریوں پر مظالم بند کروانے میں ہماری مدد کرے، بھارت پر دباﺅ ڈالے کہ وہ کشمیریوں کا حق خودارادیت انھیں دے، ہماری خواہش ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل مہذب دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر توجہ دلائے، بھارتی افواج نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے تمام عالمی ریکارڈ توڑ دئیے ہیں مگر پھر بھی ابھی تک کسی بھی غیر جانبدار بین الاقوامی تنظیم کو اس بارے میں تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، گمنام اجتماعی قبروں، زیر حراست ہلاکتوں، گرفتاری کے بعد لاپتہ کرنے یا پھر فوج کی طرف سے کشمیری خواتین کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کامعاملہ ہو، کسی بھی واقعہ میں آج تک بھارتی افواج کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا، ہم بین الاقوامی ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھارت پر دباﺅ ڈالیں تاکہ خصوصی ٹریبونل کے ذریعے گمنام قبروں اور لاپتہ افراد کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کا عمل شروع کیا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: کیا ایمنسٹی انٹرنیشنل کمیٹی کے دورے کشمیر سے کوئی مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔؟
مولانا محمد عباس انصاری: کشمیر میں بھارتی فوجوں اور سرکاری فورسز کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کے خون اور آئے روز لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم حقوق انسانی کے عالمی اداروں کے لئے چشم کشا ہیں اور گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری عوام اپنے جائز حق کے لئے جو پرامن جدوجہد کر رہے ہیں اس کو دبانے کےلئے یہاں ہر قسم کے ظالمانہ حربے استعمال کئے جا رہے ہیں، آج پوری دنیا حقوق انسانی کاڈھنڈورا پیٹ رہی ہے لیکن کشمیر میں اس حوالے سے حقوق بشر کی عالمی تنظیموں کی خاموشی نہ صرف مجرمانہ ہے بلکہ یہاں کی اصل صورتحال سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے یہ تنظیمیں جانبداری سے کام لے رہی ہیں، ہمارا روز اول سے ہی یہ مطالبہ رہا ہے کہ عالمی انصاف پسند اداروں اور حقو ق البشر جماعتوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ زمینی حقائق کا جائزہ لیں لیکن بھارتی حکومت نے اپنے جرائم کا پردہ فاش ہونے کے خوف سے اب تک ان کی کشمیر آمد پر پابندی لگائی تھی۔ 

جموں کشمیر کی سنگین صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ نے اپنے نمائندوں کو یہاں روانہ کردیا تھا اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی نمائندہ مارگریٹ سکیگ نے کشمیر کا دورہ کرکے جس طرح عام لوگوں سے یہاں کی سنگین صورتحال کا جائزہ لیا وہ دیر سے ہی سہی لیکن خوش آئند ہے، ہم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق سے وابستہ دیگر اداروں پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ کشمیر آکر صحیح صورتحال سے آگاہی حاصل کرکے یہاں بدترین پامالیوں کو رُکوانے کے لئے بین لاقوامی قوانین کے تحت ضروری اقدامات کریں، اگر ان اداروں کے با اختیار اور غیر جانبدار نمائندوں پر مشتمل ایک ڈیلی گیشن ریاست کا دورہ کرکے یہاں کے زمینی حالات معلوم کرے اور مختلف مکاتیبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملکر جموں و کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے اُنکی آراء اور خیالات سے روشناس ہوکر اپنی رپورٹ عالمی سطح پر منتشر کرے تو ریاست کے بارے میں ضروری فیصلے لئے جاسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہند پاک مذاکرات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا محمد عباس انصاری : ہم مذاکراتی عمل کو مسائل حل کرنے کا موثر اور مہذب ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن کشمیر کے معاملے پر مذاکرات برائے مذاکرات کے سلسلے کو رد کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ ایٹمی خطرات کو بھانپتے ہوئے، معاشی مفادات کی نگہداشت، اور مستقبل کو محفوظ دیکھنے کے لئے کشمیر کے مسئلے کے حل کو اولیت دی جائے اور سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل میں ہی خطے کا امن، سلامتی اور خوشحالی پوشیدہ ہے، لہٰذا مذکراتی عمل کو ایسے میں عظیم تر مفاد میں با معنی اور نتیجہ خیز بنایا جائے۔ کشمیر کے لوگ کسی بھی طور سیاسی بالا دستی قبول نہیں کرتے اور نہ تو کسی پرسوار ہونا چاہتے ہیں اور نہ کسی کو اپنے اوپر سوار ہونے دینگے۔
 
اس لئے مذاکراتی عمل میں تین باتوں کا خیال رکھا جا نا چاہئے اول یہ کہ سوچ میں پختگی ہو دوسرا یہ کہ دلیل میں وزن ہو اور تیسرا یہ کہ ایمان کی پاسبانی ساتھ رہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا جانا چاہئے کہ بھارت ہو یا پاکستان یا پھر کشمیر جب تک معقول لچک پیدا نہیں کی جاتی ہے کوئی بھی مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا، آج برصغیر میں جو تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل جنگ سے نہیں نکالا جا سکتا، اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عالمی سطح پہ حمایت کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے دانشمندی، حقیقت پسندی اور وسعت سے کام لیا جائے کیونکہ اب کے کشمیر ایک ایسے مرحلے تک آپہنچا ہے جہاں جنوبی ایشیائی خطے میں رہنے والے لوگوں کی خود بقاء ہی اس مسئلے کے حل کے ساتھ جڑ چکی ہے۔
 
اسلئے بھارت پاکستان اور کشمیری قیادت مذکراتی عمل کو با معنی اور نتیجہ خیز بناتے ہوئے خود اپنی بقاء کے مفاد میں کشمیر کے مسئلے کا حل نکالے۔ مذاکرات کے سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارت حریت قیادت کو اپنے مقصد سے دستبردار نہیں کرسکتا اسلئے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حق کو تسلیم کرکے عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے پاکستان اور کشمیری قیادت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں، ہم بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کےلئے مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کو بھی شامل کریں۔ کیونکہ آج تک دو فریقی بات چیت کے عمل سے یہ تنازعہ حل نہیں ہوا ہے، جب تک بھارت اور پاکستان کشمیریوں کو ساتھ لیکر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے عملی اقدامات نہیں کریں گے تب تک مذاکرات کے بارے میں تعمیری ہونے کا دعویٰ کبھی بھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوگا اور نہ ہی جنوب ایشیائی خطے کے اندر پائدار امن و استحکام قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

خبر کا کوڈ : 156485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش