0
Saturday 5 May 2012 14:20

اینگلو امریکن بلاک شامی قیادت اور تہذیب کو مٹانے پر بضد ہے، پروفیسر بھیم سنگھ

اینگلو امریکن بلاک شامی قیادت اور تہذیب کو مٹانے پر بضد ہے، پروفیسر بھیم سنگھ
نیشنل پنتھرس پارٹی کے چیئرمین پروفیسر بھیم سنگھ کا تعلق جموں و کشمیر کے ان ماہرینِ سیاست میں سے ہے جنہوں نے ہر سطح پر حق گوئی کا سہارا لیکر میدان سیاسیات میں اپنا لوہا منوایا ہے، پروفیسر بھیم 40 برسوں سے عرب ممالک کے سیاسی عمل سے وابستہ ہیں، حال میں آزاد مشاہد کے طور پر ایک ہفتہ کا ملک شام کا دورہ مکمل کرنے کے بعد نیشنل انٹگریشن کونسل کے رکن اور ہند عرب یکجہتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر بھیم سنگھ نے شام کے سنگین حالات کا جائزہ لیا، اسلام ٹائمز نے پروفیسر صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جس میں آپ کے سفر کی تفصیل اور شام کے موجودہ حالات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی، آ ئیے پروفیسر صاحب سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: آپ نے حال ہی میں شام کے حالات کو جاننے کے لئے ملک شام کا دورہ کیا، اس دورے کی تفصیل ہم اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے سننا چاہیں گے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ: عراق، افغانستان، سوڈان اور دیگر عرب ممالک میں سیاسی اتھل پتھل کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ اسلامی دنیا کا مشہور ملک شام (سیریا) بھی امریکہ اور ناٹو کے گھیرے میں آچکا ہے، میں 1968ء میں اپنی وشو یاترا کے دوران موٹر سائکل پر شام میں داخل ہوا تھا اور پھر 1975ء میں وہاں گیا تھا، اس وقت فلسطینی لیڈر یاسر عرفات شام میں رہ رہے تھے اور پھر عرب ممالک میں اتھل پتھل اور عراق جنگ کے دوران مجھے لبنان کی خانہ جنگی کے تعلق سے ہندوستانی دور درشن کے لئے ڈوکیومنٹری فلمیں بنانے کا موقع بھی ملا، پنجاب کیسری میں میرے کتنے ہی آرٹیکل ہند عرب تعلقات پر شائع ہو چکے ہیں لیکن ابھی آزاد مشاہد کے طور پر شام جانے کا تجربہ کچھ مختلف ہی تھا۔ 

اسلام ٹائمز: آپ کے حالیہ مشاہدات کے مطابق شام میں غیر ملکی ایجنسیوں اور میڈیا کا رول موجودہ حالات میں کیا ہے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ: دیکھئیے شام کے سلسلے سے میں نے جو سنا تھا اور میڈیا نے جو پیش کیا وہ سب حقیقت سے دور ہے لیکن جب میں شام کی راجدھانی دمشق میں پہنچا تو اس وقت سارے راز افشاں ہوگئے، وہاں نجی اور سرکاری دفاتر اور کاروبار یعنی کہ ہر کام معمول کے مطابق چل رہا تھا لیکن غیر ملکی ایجنسیوں کی نشریات کو سن کر ایسا لگتا تھا جیسے پورا ملک شام آگ کے دہانے پر کھڑا ہے، شام میں 7 دنوں کے دوران میں درجن بھر وزرا، اعلی حکام، میڈیا کے افراد اور غیر ملکی صحافیوں سے بھی ملا، الیپو، جو دمشق سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور حمص بھی اسی سلسلہ میں آتا ہے جو ترکی کی سرحد سے 40،50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، میں الیپو کے گورنر کی سرکاری رہائش گاہ پر پہنچا ہی تھا کہ تھوڑی دور پر ایک دھماکے کی آواز سنی، فوجیوں سے بھری ایک بس کو دہشت گردوں نے اڑا دیا تھا، ہم لوگ اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے لئے گئے، حملہ آوروں کی کوئی شناخت نہیں ہوسکی، اقوام متحدہ کے مشاہد اس وقت ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں آرام فرما رہے تھے اور جب ان سے دریافت کیا گیا کہ شام کی یہ جنگ بندی کس کے ساتھ ہے یا کس کے خلاف ہے، تو وہ یہ بھی نہیں بتا سکے کہ مخالف پارٹی کون ہے؟ اور یہی کہانی ان ٹھکانوں کی ہے جہاں پر ’بھوت گولہ باری کرکے راتوں رات غائب ہوجاتے ہیں۔ 

جس دن یعنی 26 اپریل کو ہم لوگ شام سے واپس آرہے تھے تو لندن کی ایک آزاد نشریاتی ٹیم دمشق پہنچی، اسے شام کی پولیس نے پورا تحفظ اور سہولتیں فراہم کیں، یہ سہولیات بھی کہ وہ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں، جب یہ ٹیم دمشق کے ایک محلے بیگم جینوا پہنچی، جو دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے بہت مشہور ہے، محلے کے اندر اتنا بڑا دھماکہ دن دھاڑے ہوا کہ دور دور کھڑے لوگوں کو بھی اڑتی ہوئی لاشوں کے ٹکڑے نظر آئے، یہاں پر اقوام متحدہ کے مشاہدوں کا کیا رول ہوسکتا ہے اس کاجواب تو وہی ممالک دے سکتے ہیں جنہوں نے قرار داد نمبر 2042 پاس کرکے شام میں مشاہد بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
 
اسلام ٹائمز: بھارت شام کے دیرینہ تعلقات،  اور ہندوستان کا شام کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال، اس بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ: شام کے سابق صدرحافظ الاسد پہلے عر ب لیڈر تھے جنہوں نے شام کے التحریر میدان پر ایک قومی سڑک کا نام ’جواہر لال نہرو‘  کے نام پر رکھا، جس ملک میں مہاتما گاندھی کو اسکولوں میں پڑھا یا جاتا ہو اور جس ملک نے ہر حالت میں ہندوستان کے ساتھ دوستی نبھائی ہو، اس ہندوستان نے ہمارے خلاف ووٹ کیوں دیا؟ دمشق یونیورسٹی کے باہر ایک نہایت بزرگ شخص نے مجھے عربی زبان میں بتایا کہ "میں ہندوستان کے چکراتا میں فوجی تربیت کے لئے گیا تھا اور ہمیں ہندوستان سے بے حد محبت ہے، اندرا گاندھی نے ہمارا بہت ساتھ دیا تھا، کیا آپ اندرا گاندھی سے شام کو بچانے کی گزارش کرسکتے ہیں‘‘؟ اس شخص نے اتنی سنجدگی سے یہ بات کہی تھی کہ میں اسے یہ بتانے کی ہمت نہیں کرسکا کہ اندرا گاندھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

غرض کہ شام کے عوام، خاص کرعرب دنیا کو ہندوستان سے بہت امید ہے کہ شام میں امن بحالی کے لئے ہندوستان ضرور مناسب قدم اٹھائے گا، اسی لئے آج دنیا یاد کر رہی ہے نہرو جی کو، اندرا جی کو اور ہندوستان کو، لیکن ہندوستان نے شام کے خلاف ووٹ دیکر۔ ۔ ۔شام کے عوام کو ان استعماری و استکباری دھماکوں پر اتنی حیرت نہیں ہے جتنی کہ شام کے خلاف قرارداد پر ہندوستان کے ووٹ دینے پر ہے، یہ سوال مجھ سے بار بار پوچھا گیا چاہے میں شام کے سرکاری ٹیلی ویزن کے سامنے کھڑا تھا یا کسی نجی چینل کے، وہاں کے دانشوروں نے بار بار یاد دلایا کہ کیا ہندوستان شام (سیریا) کی دوستی کو بھول گیا ہے۔؟ 
 
مہاتما گاندھی سے لیکر اٹل بہاری واجپئی تک عرب دنیا کے بارے میں ہندوستان کا نہایت اثردار رول رہا ہے، چاہے وہ فلسطینی عوام کی ریاست کی تشکیل کا معاملہ ہو یا عراق کے اتحاد کا، ہندوستان نے عرب ممالک کو کبھی مایوس نہیں کیا، ہندوستان ان ممالک میں سے تھا جنہوں نے 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی تھی اور فلسطین کی حمایت میں اقوام متحدہ کے اندر اور باہر ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر فلسطنیوں کی ریاست قائم کرنے کے معاملے پر حمایت دی تھی۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل بین الاقوامی قراردادوں کی دھجیاں اڑا رہا ہے، اس پر امریکہ اور اس کے اتحادی خاموش بیٹھے ہیں، کیا تجزیہ ہے آپ کا فلسطین کی مظلومیت اور اسرائیلی جارحیت کے بارے میں۔؟ 
پروفیسر بھیم سنگھ: ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے صدر اوبامہ صہیونی لابی کے گھیرے میں اسی طرح آچکے ہیں جس طرح بش سینئر اور بش جونیئر آگئے تھے، اقوام متحدہ کی مشرق وسطی کے حوالے سے دہری پالیسی کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگئی ہے کہ اسرائیل کے خلاف قرارداد کو 40 برسوں میں نافذ کرانے کی کوشش نہیں کی گئی مگر عراق اور شام کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو فوراً عملی جامہ پہنانے میں بھی یورپی ممالک کو یعنی ناٹو کو استعمال کیا گیا، سوڈان کے دو ٹکڑے کردیئے گئے اور اسرائیل کے خلاف ایک چھوٹی سی قرارداد بھی نافذ نہیں کرائی جاسکی، شام کی گولان پہاڑیاں، دنیا میں مشہور یروشلم، نصف غزہ پٹی اور کئی دیگرعرب علاقے 1967ء سے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے میں ہیں۔
 
فلسطین کے اندر یہودی نئی بستیوں کی تعمیر کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے، فلسطین کی غزہ پٹی کو اسرائیل نے کئی برسوں سے چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے، اسکول بند، تمام سرکاری و نجی آرگنائزیشنز بند یعنی 10 سال سے فلسطینی عوام بھوکے مرنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کے جس مشاہد جناب کوفی عنان کو غزہ بھیجنا چاہئے تھا، ان کو یروشلم بھی بھیجنا چاہئے تھا تاکہ وہ پتہ لگا ئیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی اسرائیل نے کتنی بے شرمی سے کی ہے، انہیں فلسطین بھی بھیجنا چاہئے تھا، نہ کہ صرف شام۔

اسلام ٹائمز: شام میں استعماری و استکباری طاقتیں کیا چاہتی ہیں۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ: ایسا لگتا ہے کہ اینگلو امریکن بلاک شامی قیادت اور تہذیب کو مٹانے پر بضد ہے، جیسا اس نے عراق، لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں کیا ہے، شامی نظریہ سے اس کی اہم وجہ یہی ہے کہ صیہونی لابی اوبامہ انتظامیہ پر حاوی ہے اور وہ اپنی انتظامیہ کے ذریعہ بھیڑیے اور میمنے کی کہانی دہرانا چاہتی ہے، اور یہاں پر میں یہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ شام کی موجودہ حکومت کو گرانے کے بعد مغربی طاقتیں ایران پر حملے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہیں یعنی شام کو وہ مورچے کی طرح استعمال کرنا چاہتی ہیں، جو ہر صورت میں ناممکن ہے۔

عرب دنیا کہ جن کی ثقافت، تہذیب و تمدن ایک ہے کو ملکر شام کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا اور اپنی شان و شوکت برقرار رکھنی چاہئے اس کے برعکس عرب دنیا کو مغربی قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہونا چاہئے کہ جن مغربی ممالک کی ہر چیز عرب دنیا سے الگ و جداگانہ ہے، غرض کہ عرب دنیا کو اپنی منزلت و افادیت سے آگاہی حاصل کرنا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: شام کے عام لوگوں میں ملک کے بارے میں کیا خیال پایا جاتا ہے، اور پھر استعمار کی ناپاک سازش کیا ہے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ: شام کے لوگوں کا یہ خیال عام ہے کہ جمہوریت کے نام پر ملک شام میں موجودہ بحران پیدا کیا گیا ہے، جس سے کہ اقوام متحدہ کی 242، 338، 425 اور درجن بھر دیگر قراردادوں کی ناکامی سے دنیا کی توجہ ہٹائی جاسکے، کیونکہ اسرائیل نے امریکہ کی شہ پر ان قراردادوں کو نافذ کرنے سے انکار کردیا ہے، ان قراردادوں میں اسرائیل کے قبضہ کئے گئے تمام عرب علاقوں، شام کی گولان پہاڑیوں، یروشلم وغیرہ کو خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ مشاہدوں کو غزہ بھیج کر یروشلم میں آباد کی جانے والی یہودی بستیوں کو روکا جاسکتا تھا، وہاں کے لوگوں کا یہ صحیح خیال ہے کہ موجودہ بحران جمہوریت یا شہریوں کے حقوق کے لئے نہں بلکہ عرب تیل، پانی اور اسٹریٹجک علاقوں پر اینگلو امریکی مفاد کی وجہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے تو شام میں صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں اور اس ماہ 250 رکنی پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں، اقوام متحدہ کو اس مشکل سیاسی عمل کو کامیاب بنانے میں تعاون کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ شام کے سیاسی حالات میں ہی گڑبڑی کی جارہی ہے۔ 

 اسلام ٹائمز: ہندوستان نے شام کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے، کیا سوچتے ہیں آپ اس بارے میں۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ: سلامتی کونسل میں ہندوستان کے شام کے خلاف ووٹ دیئے جانے کے کے حوالے سے عرب دنیا میں غصہ پایا جاتا ہے، شام نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق وہاں تقریبا 300 مشاہدوں کا استقبال کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ نام نہاد جنگ بندی کن پارٹیوں میں یا کن پارٹیوں کے خلاف کی جاسکتی ہے، بے قصور لوگوں کو قتل کیاجانا، آدھی رات کو الپو اور حمص میں عمارتوں کو بموں سے اڑا دینا اور ایسے ہی بھوتیا دہشت گردانہ حملوں کو صحیح نہیں ٹھہرایاجاسکتا، پھر بھی یہ شامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام باشندوں کو آزادی اور سلامتی مہیا کرے۔ 

بالکل اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا، ہندوستان کے پاس دو اہم بین الاقوامی پلیٹ فارم یعنی ناوابستہ ممالک کی مہم (نام) اور برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ ممالک کی تظیم (برکس) موجود ہیں، ان دونوں کے لیڈران سے ہندوستان کو تبادلہ خیال کی پہل کرنی چاہئے، اگر ہندوستان اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں کامیاب نہیں ہوا تو عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے اور اقوام متحدہ کی وہی حالت ہوسکتی ہے جو لیگ آف نیشنس کی ہوئی تھی، اسی لئے میں وزیراعظم کو پہلے ہی مشورہ دے چکا ہوں کہ ساوتھ بلاک کی وزارت خارجہ میں جڑ سے تبدیلی کی ضرورت ہے، شام میں ہندوستان کے سفیر کے ذریعہ وہاں کے حالات کی رپورٹ بھیجے جانے کے باوجود وزارت خارجہ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
 
اسلام ٹائمز: شام کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ: شام کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں نہایت افسوسناک اور ناقابل قبول ہیں جو کسی بھی سول سوسائٹی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے، یہ پابندیاں نہ صرف انسانی وقار کے خلاف ہیں بلکہ بچوں، بزرگوں اور عورتوں کو غذائی اشیاء اور دوائیوں سے محروم کرتی ہیں، جیسا کہ پہلے عراق میں ہوچکا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں بچوں کی موت ہوگئی تھی، کسی ملک کو دوسرے خودمختار ملک کے بچوں کی دوائیں، دودھ اور غذائی اشیاء وغیرہ پر پابندی لگانے کا کیا حق ہے؟ ان مسائل پر ہندوستان کے وزیراعظم کو کوئی باہمت فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ عرب ممالک میں ہندوستان کے حوالے سے وہی جذبہ پیدا ہوسکے جو اندرا گاندھی کے زمانے تک تھا۔
خبر کا کوڈ : 158808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش