0
Tuesday 8 May 2012 21:53

علاقائیت، صوبائیت، لسانیت کی لڑائی صرف اور صرف اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے، حاجی حنیف طیب

علاقائیت، صوبائیت، لسانیت کی لڑائی صرف اور صرف اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے، حاجی حنیف طیب
سابق وفاقی وزیر اور سنی اتحاد کونسل کے سیکرٹری جنرل حاجی حنیف طیب نے کھارادر کے مدرسۃ الاسلام سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور قریشی ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لے لیا لیکن بعد ازاں آرٹس مضامین کا انتخاب کیا، کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اردو لاء کالج سے ایل ایل بی بھی کیا، لیکن قانون کی تعلیم کو پروفیشن کے طور پر نہیں اپنایا۔ اس کے بعد وہ سیاسی میدان میں آگئے۔ انہوں نے انجمن طلباء اسلام کی بنیاد بھی رکھی اور اس کے بانی صدر بھی منتخب ہوئے۔ کچھ عرصہ کے لئے انہوں نے مولانا عبدالستار ایدھی کے ساتھ بھی کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جمعیت علمائے پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی اور کراچی کے جنرل سیکرٹری بنا دیئے گئے۔ 1975ء میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ 1977ء میں بھی دوبارہ رکن قومی اسمبلی بن گئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس فتح پر انہیں وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ اس سفر کے بعد بھی وہ متعدد وزارتوں پر فائز رہے۔ آپ پانچ مرتبہ آل پاکستان میمن فیڈریشن کے بھی صدر منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز نے ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر حاجی حنیف طیب سے خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عدلیہ کا فیصلہ، ن لیگ کی احتجاجی ریلیاں، حکومت اور اتحادیوں کا دفاع، بیان بازیاں اور استعفٰی لینے کی باتیں، ان تمام چیزوں کو کیسے دیکھتے رہے ہیں۔؟
حاجی حنیف طیب: میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ وزیراعظم پہلے ہی یہ اعلان کر چکے تھے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کی حق میں نہ آیا تو مستعفی ہو جائیں گے، شریف برادران کو کچھ دن انتظار کر لینا چاہئے تھا، جہاں تک آپ کی ن لیگ کے لانگ مارچ کی باتیں ہیں تو میرے خیال کے مطابق اب پاکستان کسی لانگ مارچ اور احتجاجی تحریک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک کئی بحرانوں سے دوچار ہے، پاکستان اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے، اگر یہ لانگ مارچ اور احتجاجی تحریک چل نکلتی ہے تو یہ جمہوریت کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تصادم کی فضاء پیپلزپارٹی اور عدلیہ کے درمیان ہو گی، لیکن نقصان سب پارٹیاں اٹھائیں گی۔ اس سے عوام کے مسائل بڑھیں گے نہ کہ کم ہونگے۔

اسلام ٹائمز: ن لیگ کا قبل از وقت اعلان لانگ مارچ عجلت کا نتیجہ ہے، دوسرا یہ لیاری میں حکومت کی جانب سے کیا جانے والا آپریشن کیا تھا۔؟

حاجی حنیف طیب: میرے خیال میں ن لیگ والے اگر فل آرڈر آنے تک رک جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا، لیکن انہوں نے بہت جلدی کی۔ اس کے علاوہ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ لیاری سے ایم این اے پیپلز پارٹی کا جیتتا رہا ہے۔ عبدالستار 1970ء میں جیتا تھا اور اس نے ہمیشہ پارٹی کو جتوایا تھا۔ وہاں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال یہ ہے کہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں، دکانیں بند ہیں، لوگوں کے پاس کھانے پینے کا راشن نہیں۔ وہ علاقہ جس نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا ہے، اس علاقے کا اگر یہ حال ہو تو باقی علاقوں کا کیا حال ہو گا، یہ غور طلب بات ہے۔ میں تو ایک ورکر آدمی ہوں، ابھی بھی ملتان میں ہوں اور کل بہاولپور کی طرف جاؤں گا۔ 

لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اے اللہ ہم سے کیا گناہ سرزد ہو گیا، تو ہمیں معاف فرما دے کہ ایسے حکمران ہم پر مسلط کر دیئے گئے ہیں کہ جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کی کرپشن کی دھوم مچا دی ہے۔ اس بات کو سوچنا چاہیے، لوگ کس منہ سے ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کہاں تھیں اور آج آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ میڈیا والوں کو یہ چاہیے کہ کم از کم زرداری اور گیلانی کو ٹی وی پر بلا کر ایک پروگرام کرنا چاہیے کہ جس میں ان کے دور اقتدار سے پہلے اور اب کرپشن کا گراف دکھانا چاہیے۔ اس کے بعد ان دونوں کو پریس کانفرنس کرنی چاہیے۔ پھر صحافی حضرات ان سے سوال کریں کہ اب بتائیں کہ آپ نے کتنی ترقی کی ہے۔

اسلام ٹائمز: لیاری آپریشن کس کی خوشنودی کی خاطر کیا گیا، اور اہم سوال یہ کہ اتنا بڑا اسلحہ آیا کہاں سے، لوگوں کے پاس راکٹ لانچر تک تھے۔؟

حاجی حنیف طیب: دراصل بات یہ ہے کہ اس ملک کو ڈی اسٹیبلائز کرنے میں بہت ساری قوتیں فعال ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب خود یہ بیان بارہا دے چکے ہیں کہ پاکستان میں انڈیا کا اسلحہ بھی استعمال ہو رہا ہے۔ رحمان ملک صاحب ایسا بیان بلوچستان کے حوالے سے بھی دے چکے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان کی طرف سے بھی اسلحہ استعمال ہو رہا ہے۔ ویسے بھی وہاں کے حالات خراب کرنے میں ذوالفقار مرزا کا بہت بڑا کردار ہے، لیکن یہ ذوالفقار مرزا کون ہے؟ کیا یہ سپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزا کے شوہر نہیں۔؟ یہ صرف لیاری کے حالات خراب نہیں ہیں بلکہ آدھا کراچی بند ہو چکا ہے۔ کاروباری مراکز کے تمام گھر بند ہو چکے ہیں۔ فیکٹری ایریا کا راستہ لیاری سے گزر کر جاتا ہے اور وہ سارے راستے بند ہیں۔ اس سے پورے پاکستان کی معیشت کو دھچکا لگا ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ میں مسلسل قرآن پاک کی بیحرمتی کی جا رہی ہے، آپ لوگوں نے کیا کیا، دوسرا یہ کہ آئندہ الیکشن میں سنی اتحاد کونسل کا کیا لائحہ عمل ہو گا۔؟

حاجی حنیف طیب: اب آپ نے سنی اتحاد کونسل کی بات کی تو میں مختصراً یہ کہوں گا کہ ہر پانچویں دن امریکہ میں کوئی پادری قرآن پاک کو جلاتا ہے، اس حوالے سے ہم نے یوم احتجاج منایا۔ اس میں اگر امریکہ چاہے تو روک سکتا ہے اور خصوصاً اس میں حقوق بین المذاہب کا چمپین ہے، اس نے بھی اس کے روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی اس میں امریکہ نے اس کے روکنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے مسلم حکمرانوں کو کچھ تو شرم اور غیرت آنی چاہیے کہ اتنی مرتبہ قرآن پاک جلایا جا چکا ہے، لیکن یہ بے حس ہو چکے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل نے آج سینکڑوں مساجد میں احتجاج کا پروگرام کیا۔ سنی اتحاد کونسل کے دوسری پارٹیوں سے کچھ مذاکرات ہوئے ہیں اور جاری ہیں۔ سنی اتحاد کونسل الیکشن بھی لڑے گی اور جو امیدوار ہمارے میرٹ پر اترے گا، ہمارا اس سے معاہدہ ہو گا اور ہم اسے سہولیات دیں گے۔

اسلام ٹائمز: حاجی فضل کریم کی نواز شریف سے ملاقاتوں کی باتیں گردش میں ہیں، کوئی بیک ڈور ڈپلومیسی تو نہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: ابھی تک تو نہیں ہوئی ہیں لیکن اسے حوالے سے پیشرفت جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کی طرف سے بھی ہمیں دعوت دی گئی، لیکن اچانک ان کی صحت خراب ہو گئی تھی اس وقت سے وہ ملاقات نہیں ہوپائی، ملاقاتیں کسی بھی پارٹی سے ہو سکتیں ہیں اور ہمارے معاملات چل رہے ہیں کیونکہ ایک سیاسی پارٹی ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتی ہے۔

اسلام ٹائمز: جنوبی پنجاب (صوبے) کے حوالے سے قرارداد منظور ہوئی ہے؟ سنی اتحاد کونسل بالخصوص آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے۔؟

حاجی حنیف طیب: سنی اتحاد کونسل کی رائے تو یہ ہے کہ حکومت اس ملک کے ساتھ مذاق کرنا چھوڑ دے۔ ظفر احمد انصاری کمیشن کی رپورٹ موجود ہے۔ اس ملک میں صرف ایک یا دو صوبے بڑھانے کی ضرورت نہیں بلکہ زیادہ صوبے بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ قوم کی مشکلات آسان ہو جائیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی کا کام سکھر میں ہو اور وہ کراچی آنے پر مجبور ہو، ایک آدمی صادق آباد میں ہو اور وہ لاہور آنے پر مجبور ہے، حکومت کب تک عوام پر یہ ظلم کرے گی۔ وہ دور جس میں محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے، اس کمیشن ظفر انصاری کی رپورٹ دوبارہ وزارت اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کو دیں، تاکہ اس پر ٹاک شوز ہوں اور صوبے بڑھا دیئے گئے ہوتے تو یہ جتنی قتل و غارت، ظلم و بربریت، دہشتگردی ہے یہ نہ ہوتی۔ سنی اتحاد کونسل کا اس پر بھی شدید ردعمل ہے۔ اگر بسوں کو روک لیا جائے، شناختی کارڈ پہچان کر ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا جائے اور اس میں حکومت ناکام ہو گئی ہو تو کسی کو تو غیرت کا مظاہرہ کر کے استعفٰی دینا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جو آگ کوئٹہ سے شروع ہوئی اور اب گلگت اور چلاس تک پہنچ گئی؟ اس کے پیچھے کیا سازش ہو سکتی ہے۔؟

حاجی حنیف طیب: یہ صرف اور صرف پاکستان کو ڈی اسٹیبلائز کرنے کی اس ملک کی سازش ہے جس کی غلامی ہمارے حکمرانوں نے اختیار کر رکھی ہے۔ یہ اس ملک کی کارستانیاں ہیں جو یہ طے کرتا ہے کہ اس کے ملک میں سفیر کون ہو گا، اگر حسین حقانی نہیں تو شیری رحمان بنے گی، اس کا فیصلہ امریکہ ہی تو کرتا ہے۔ ہمارا وزیراعظم کون ہو گا، خارجہ اور داخلہ وزیر کون ہوگا، یہ سب امریکہ ہی طے کرتا ہے، یہ سارے معاملات پاکستان کو ڈی اسٹیبلائز کرنے کی سازشیں ہیں، جو امریکہ کر رہا ہے، تاکہ ان کے لیے نیٹو کا راستہ کھل جائے اور وہ ڈرون حملے جاری رکھ سکیں۔ یہ سارے کام وہ صرف پریشر ڈالنے کے لیے کر رہے ہیں اور جیسے ہی وہ پریشر ڈالتے ہیں تو ہمارے حکمران گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر ملک میں دہشتگردی امریکہ ہی کروا رہا ہے تو افراد تو اس ملک کے ہی استعمال ہو رہے ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: آپ نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ اس سارے معاملے میں ہمارے اپنے لوگ استعمال ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خودکش حملہ ہوتا ہے تو اس میں استعمال ہمارے لوگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر بسوں کو روک کر لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے تو اس میں جو بندے مار رہے ہیں وہ لوگ تو ہمارے ہی ملک کے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان کا ایمان باقی نہیں رہا، ان کا ایمان اگر ہے تو وہ صرف دولت پر ہے اور وہ لوگ باہر سے پیسہ لے کر یہ سب کارروائیاں کر رہے ہیں۔ 

ہماری حکومت بھی اندھی ہے کہ جنہوں نے ایسے لوگوں کو تو گرفتار نہیں کیا کہ جو فتوے دیتے ہیں کہ تم فلاں کو مارو گے تو تمہیں جنت ملے گی بلکہ اس کے برعکس انہوں نے حامد سعید کاظمی صاحب کو نشانہ بنایا ہوا اور میں ان کے بارے میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان پر آج تک ایک الزام بھی ثابت نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ہو سکے گا۔ درحقیقت ہمارے ملک کا سارا نظام کرپٹ ہو چکا ہے۔ ہم نے پاکستان کو اسلام کی خاطر بنایا اور لاکھوں افراد شہید ہو چکے ہیں لیکن ہم اسلام کی اب تک ایک الف بھی نافذ نہیں کر پائے ہیں، بلکہ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں۔ علاقائیت، صوبائیت، لسانیت کی لڑائی صرف اور صرف اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے۔

اسلام ٹائمز: جس طرح سنی اتحاد کونسل ہے، اسی طرح دیگر شیعہ تنظیمیں ہیں کہ جو ان چیزوں کو خوب سمجھتیں ہیں اور ان کی حمایت کبھی نہیں کی، میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ لوگ الائنس وغیرہ کی طرف آگے نہیں بڑھ پا رہے۔؟

حاجی حنیف طیب: میں نے تو حکومت کے عہدیداروں کو یہ بات بارہا کہہ چکا ہوں کہ وزارت مذہبی امور کا کام صرف لوگوں کو حج کرانا ہی نہیں جبکہ اب حج بھی پرائیویٹ ٹوور والے کرواتے ہیں، یعنی اب آدھا حج بھی حکومت کی ذمہ داری نہیں، کیونکہ اس کی جگہ پرائیویٹ حج والے کام کرتے ہیں۔ اس سے پہلے وزارت مذہبی امور والے تمام فرقوں کے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرتے تھے اور آپس میں مذاکرات بھی کراتے تھے، اس وقت اتنی قتل و غارت نہیں ہوتی تھی۔ اب یہ کام بالکل رکا ہوا ہے۔ وزارت مذہبی امور حج والے دنوں میں حج کا کام کرتی ہے اور پھر اس کے بعد گہری نیند سو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کوئی ایسی کاوش کریں جس سے مذہبی جماعتیں آپس میں بیٹھ سکیں اور اکھٹی ہو سکیں اور تکفیری افراد کیخلاف مشترکہ محاذ قائم ہو سکے۔

حاجی حنیف طیب: سب لوگوں کو جمع کرنا حکومت کے لیے بہت آسان ہے، لیکن جب حکومت اس پر عمل نہیں کرتی تو اس کے برعکس دوسرا آپشن وہی باقی بچتا ہے کہ جس کی طرف آپ نے نشاندہی کی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاک فوج اور حکومت کو گیاری سیکٹر سے یکطرفہ انخلا کر دینا چاہئے۔؟

حاجی حنیف طیب: میں یک طرفہ انخلاء کے حق میں نہیں ہوں بلکہ دونوں کے آپس میں مذاکرات ہونے چاہیں اور پھر دونوں کو بیک وقت پیچھے ہٹنا چاہیے، 1984ء میں بھارت نے چڑھائی کی، لہٰذا جارح انڈیا ہے نہ کہ ہم۔ اس لئے واپس پہلے بھارت نے جانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 160143
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش