0
Wednesday 9 May 2012 23:57

بعض طلبہ تنظیموں نے تعلیمی اداروں کو دوسروں کیلئے نوگو ایریا بنا دیا ہے، حسنین جاوید

بعض طلبہ تنظیموں نے تعلیمی اداروں کو دوسروں کیلئے نوگو ایریا بنا دیا ہے، حسنین جاوید
جے ایس او کے مرکزی صدر حسنین جاوید کراچی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ 2000 سے جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ ہیں۔ وہ مطالعہ کے شوقین، اچھے مقرر اور تنظیمی امور میں مہارت رکھتے ہیں۔ قومی مسائل کا حل اتحاد کو سمجھتے اور مایوسی کی بجائے جہد مسلسل پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ یکساں نظام تعلیم کو قومی ترقی کا راز گردانتے اور طلبہ یونینز کے انتخابات کو نئی سیاسی قیادت کی نرسری سمجھتے ہیں۔ پرامن تعلیمی ماحول کے خواہشمند جے ایس او کے مرکزی صدر سے اسلام ٹائمز نے موجودہ حالات پر پہلے انٹرویو کی دوسری اور آخری قسط قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملت جعفریہ میں نفاق بھی ہماری تباہی کا ذمہ دار ہے۔؟ کیا شیعہ تنظیموں کو متحد ہونا چاہیے اور اس کا فارمولا کیا ہو سکتا۔؟
حسنین جاوید: میں سمجھتا ہوں کہ شیعہ قوم میں کوئی نفاق نہیں ہے۔ البتہ ڈیڑھ انچ کی بنائی ہوئی الگ مساجد اور انانیت کے سبب نفاق کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اگر قوم میں نفاق ہوتا تو 18 اپریل 2012ء کو ہونے والی علماء کانفرنس کامیاب نہ ہوتی۔ علماء کا اتنا بڑا اجتماع، نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کے تمام بزرگ علماء کا قائدِ ملتِ جعفریہ حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی کی مختصر کال پر جمع ہونا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ گویا کہ یہ پاکستان کی مجلسِ خبرگان تھی۔ اس اجتماع کا واضح پیغام تھا کہ آج بھی قوم کی رہنمائی کرنے والے علماء ایک ہی قیادت کے زیرِ سایہ جمع ہو کر گویا اعلان کر رہے ہیں کہ ہم قیادت کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس مرحلے پر جے ایس او، آئی ایس او میں ضم ہو سکتی ہے یا دونوں تنظیموں کا اتحاد کم از کم مشترکہ ایجنڈے پر ممکن  ہے۔؟
حسنین جاوید: جے ایس او ایک حقیقت ہے۔ لہٰذا اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ جے ایس او کی بنیادوں میں شہداء کا مقدس لہو شامل ہے۔ الٰہی نظریے اور وحدت کی سوچ لے کر یہ تنظیم اپنی حیثیت کے مطابق پاکستان میں شیعہ طلبہ کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کسی بھی تنظیم کا کسی تنظیم میں ضم ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوتا۔ ہر تنظیم کے اپنے اہداف ہوتے ہیں، اپنے نظریات ہوتے ہیں، جس کے تحت وہ معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ طلبہ کے شیرازے کو بکھرنے سے بچانے کے لیے ہم نے بہت کوششیں کیں، مگر افسوس ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے بعد شیعہ طلبہ تقسیم ہوئے۔ 

جہاں تک اتحاد کی بات ہے تو ہم اس قائدِ کے پیروکار ہیں جو کہ پاکستان میں عملی اتحاد و وحدت کا بانی ہے۔ ہماری تنظیم متحدہ طلبا محاذ کا بھی حصہ ہے۔ ہم جب دوسری تنظیموں سے اتحاد کر سکتے ہیں تو شیعہ طلبا تنظیموں سے کیوں نہیں۔؟ بڑی معذرت کے ساتھ میں کہوں گا ہماری طرف سے اتحاد کی کوششیں بھی ہوئیں، مگر ایسا ہونے نہیں دیا گیا اور اس بات کے گواہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے فرزند دانش علی بھی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا تعلیمی اداروں میں یونینز کے انتخابات ہونے چاہیں۔؟
حسنین جاوید: اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں میں یونینز کے انتخابات ہونے چاہیں۔ میرے خیال میں تعلیمی اداروں میں یونینز کے انتخابات کے لیے موجودہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ محض ایک اعلان تھا اور لگتا یوں ہی ہے کہ وزیرِاعظم صاحب کا یہ اعلان، شاید اعلان ہی رہے گا۔
اسلام ٹائمز: حکومت نے آتے ہی طلبا یونینز پر پابندی اٹھانے کا اعلان تو کیا مگر انتخابات نہیں کروائے گئے؟ طلبا تنظیموں کی طرف سے کوئی ردعمل کیوں نہیں آیا۔؟
حسنین جاوید: تعلیمی اداروں میں یونینز کے انتخابات کے حوالے سے طلباء تنظیموں نے آواز اٹھائی مگر موثر انداز میں اسے تحریک کی شکل نہیں دی جا سکی۔ اس سلسلے میں، میں یہ ضرور کہوں گا کہ خود طلباء تنظیموں کو بھی اپنے رویہ میں تبدیلی لانا ہو گی۔

اسلام ٹائمز: طلبا تنظیموں کو اپنے رویہ میں تبدیلی لانا ہو گی سے کیا مراد ہے؟
حسنین جاوید: ہماری تنظیم نے متحدہ طلبا محاذ کے فورم پر متعدد بار اس بات کو اٹھایا ہے کہ ہم اجلاسوں میں ایک دوسرے سے بہت اچھے انداز سے ملتے ہیں، بہت پیاری پیاری اور بڑی بڑی باتیں بھی کرتے ہیں مگر تعلیمی اداروں میں ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ بعض تنظیموں نے تو تعلیمی اداروں کو دوسری تنظیموں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا ہے۔ معمولی باتوں پر ایک دوسر ے کو قتل تک کر دیتے ہیں۔ اس رویے کو بدلنا ہو گا۔ کسی بھی طلبا تنظیم کو کسی بھی ادارے میں آنے سے نہیں روکنا چاہیے، مگر بدقسمتی سے ہم بھی اسی کا شکار ہیں۔ ہم نے اسی وجہ سے خود کو بعض تعلیمی اداروں میں آنے سے روکا ہوا ہے اور ہم تصادم سے بچنے کے لیے بہت سے تعلیمی اداروں میں باضابطہ تنظیم سازی نہیں کر رہے۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ جے ایس او کے سابقین امامیہ آرگنائزیشن کی طرز پر جعفریہ آرگنائزیشن بنانے کی تیاریاں کر رہے ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں۔؟
حسنین جاوید: جعفریہ آرگنائیزیشن کے قیام کے حوالے سے سینئرز ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس تنظیم کا قیام عمل میں آنا چاہیے اور بعض سینئرز کا خیال ہے کہ جے ایس او سے فارغ ہونے کے بعد قومی جماعت (تحریک جعفریہ پاکستان) کا حصہ بنا جائے۔ اس سلسلے میں بانیانِ جے ایس او کا ایک مشاورتی اجلاس ہو چکا ہے۔ جلد ہی ایک اور اجلاس بلانے کی تجویز ہے تاکہ حتمی فیصلہ کیا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں رائج طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات ضروری ہیں۔؟
حسنین جاوید: نظامِ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں اپنی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے بےحد سنجیدہ رہتی ہیں اور یقیناً ان کی ترقی کا راز بھی یہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں رائج تعلیمی نظام فرسودا اور طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ یہاں پر تعلیمی اداروں کی عمارت کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں مگر اس پر عمل نہیں ہوتا۔ ایک طرف تو امیروں کے لیے کیمبرج سسٹم ہے تو غریبوں کے لیے پیلا اسکول سسٹم، تو دوسری طرف سیلف فنانس اسکیم اور پرائیوٹ اعلٰی تعلیمی ادارے میرٹ کا منہ چڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب حد تو یہ ہے کہ آغا خان بورڈ بھی ملک میں نافذ ہو چکا ہے۔ اللہ جانے مزید کتنے بورڈ آئیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی کے ساتھ ماہرینِ تعلیم کا بورڈ تشکیل دے کر ازسر ِ نو ملک گیر جدید نظامِ تعلیم رائج کریں۔
خبر کا کوڈ : 160241
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش