0
Monday 21 May 2012 11:32

مذہب کے نام پر دہشتگردی کیوجہ سے پاکستان میں دینی جماعتوں کے برسر اقتدار آنے کا کوئی چانس نہیں، علامہ جواد ہادی

مذہب کے نام پر دہشتگردی کیوجہ سے پاکستان میں دینی جماعتوں کے برسر اقتدار آنے کا کوئی چانس نہیں، علامہ جواد ہادی
علامہ سید جواد ہادی کا شمار ملک کے نامور شیعہ علماء میں ہوتا ہے، آپ تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی رہنماء رہ چکے ہیں، آپ کا بنیادی تعلق قبائلی علاقہ پارا چنار سے ہے، علامہ صاحب رکن سینٹ کے طور پر ملت تشیع کی آواز ملک کے ایوان بالا میں بھی بلند کر چکے ہیں، اس کے علاوہ بھی آپ نے ہر دستیاب فورم پر تشیع کی بھرپور نمائندگی کی، آپ کا شمار شہید قائد ملت جعفریہ علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے، آپ مختلف شیعہ تنظیموں میں سرگرم نوجوان علماء کرام کے استاد کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، قوم و ملت کے بچوں اور نوجوانوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے میں بھی سرگرم ہیں، اسلام ٹائمز نے پاکستان کی مجموعی صورتحال، ملت تشیع کو درپیش مشکلات اور دیگر اہم امور پر علامہ صاحب کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، علامہ سید جواد ہادی کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو انٹرویو کی صورت میں قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ہمارے قارئین کو پارا چنار کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہ فرمائیں۔؟
علامہ سید جواد ہادی: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران کرم ایجنسی کے حالات جس طرح رہے، اس کی وجہ سے وہاں کے عوام کی زندگی بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی تھی، بیرونی عناصر نے کرم ایجنسی میں مداخلت کر کے وہاں کی پرامن فضاء کو خراب کیا، اور راستوں کو غیر محفوظ بنایا، دھماکے کئے، قتل عام کیا، لوگوں کو اغواء کیا اور ان کی نعشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے اہل خانہ کو بھیجا، دہشتگردوں کی ان ظالمانہ کارروائیوں سے وہاں کی پرامن فضاء خراب ہوئی اور امن و امان کے علاوہ اقتصادی حوالے سے بھی وہاں لوگ بہت پریشان ہوئے، یہ چار سال کی زندگی بہت کٹھن زندگی تھی، ان چار سالوں کے دوران پارا چنار ملک کے دیگر علاقوں سے کٹا ہوا تھا، رفت و آمد ممکن نہیں تھی، لوگ افغانستان کے راستے پاکستان کے دیگر شہروں تک پہنچتے تھے۔
 
اب راستے کھلے ہیں اور رفت و آمد جاری ہے،، لیکن اگرچہ صورتحال اب بھی اطمینان بخش نہیں ہے، یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ دہشتگرد کسی وقت بھی دہشتگردانہ کارروائی کر کے امن وامان خراب کر سکتے ہیں، اگرچہ حکومت نے کسی حد تک سکیورٹی کا انتظام کیا ہے لیکن پھر بھی دھماکے ہوتے ہیں، کبھی گاڑیوں پر حملہ ہوتا ہے، کبھی ریمورٹ کنٹرول بم کے ذریعے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن الحمد اللہ کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا، لوگ معمولی زخمی ہوئے ہیں، تاہم پھر بھی حکومت اور شیعہ سنی عوام کی کوشش ہے کہ یہ امن و امان بحال رہے اور راستے کھلے رہیں۔

اسلام ٹائمز: پارا چنار کے حالات خراب ہونے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اور کیا آپ حالات کی بہتری کے لئے حالیہ حکومتی اقدمات سے مطمئن ہیں۔؟
علامہ سید جواد ہادی: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پورے پاکستان میں افغانستان کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ہیں، خیبر پختونخوا اور خصوصاً فاٹا کے علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے امن وامان کو نقصان پہنچا، چونکہ قبائلی علاقوں کو ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت طالبان کے حوالے کر دیا گیا ہے، تاکہ باہر کی دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ طالبان اتنے طاقتور ہیں کہ ان کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں نہیں، پاکستان کی ا سٹیبلشمنٹ اور کرتے دھرتے لوگوں کے اپنے مقاصد ہیں، وہ دنیا کہ یہ show کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان ایک بڑی قوت ہیں، یہ ہم پر بھی حملے کرتے ہیں اور ہمارے لئے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں، چونکہ افغانستان میں کسی بھی وقت نیٹو کی افواج طالبان پر قابو پا سکتی ہیں، لہٰذا انہوں نے پاکستان کے ایک علاقہ کو جان بوجھ کر پسپائی اختیار کرکے طالبان کے حوالے کر دیا، یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ طالبان کی عسکری قوت اتنی زیادہ ہے کہ آرمی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، تاکہ اگر افغانستان میں طالبان کو اگر کچھ مسئلہ ہو تو یہاں انہیں محفوظ ٹھکانے میسر ہوں۔

یہ دنیا جو چیخ رہی ہے کہ پاکستان نے طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے ہیں، یہ سب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، قبائلی علاقوں میں بعض ایسے علاقے ہیں جہاں طالبان محفوظ ہیں، اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ صرف کرم ایجنسی ایک ا یسا علاقہ تھا جہاں کے شیعہ سنی باشندوں نے اس بات کو مسترد کیا کہ ہم طالبان کو نہیں مانتے اور اپنا علاقہ ان کے حوالے نہیں کرینگے۔ اس وجہ سے پورے علاقہ میں موجود طالبان دہشتگرد کرم ایجنسی پر حملہ آور ہو گئے، وہ چاہتے تھے کہ اس علاقہ کو بزور شمشیر فتح کریں اور وہاں بھی اپنا اقتدار قائم کریں، لیکن کرم ایجنسی کے لوگوں نے مزاحمت کی، قربانیاں دیں اور دہشتگردوں کو انکے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس کی وجہ سے کرم ایجنسی کے لوگوں کو یہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، جانی، مالی اور دیگر مشکلات کی صورت میں۔ کرم ایجنسی کے باشندوں نے اپنی مٹی، عزت و ناموس اور مذہب کی حفاظت کیلئے دہشتگردوں کے خلاف مزاحمت کی اور انہیں اپنے علاقہ میں داخل نہیں ہونے دیا۔

اسلام ٹائمز: پورے پاکستان میں تشیع کو مشکلات درپیش ہیں، کراچی سے خیبر اور پارا چنار سے کوئٹہ تک قتل و غارت گری جاری ہے، آپ کے خیال میں اس صورتحال کی وجہ کیا ہے۔؟
علامہ سید جواد ہادی: دیکھیں، ایک طرف دہشتگردوں کو پالنا، ان کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنا اور دوسری طرف یہ توقع رکھنا کہ ہمارے اپنے ملک میں امن و امان قائم رہے، یہ ممکن نہیں۔ یہ پوری دنیا جانتی ہے اور کسی پر مخفی نہیں کہ ہمارا ملک دہشتگردوں کے کچھ گروپوں کو پالتا ہے اور انہیں بعض دشمن ممالک سمجھیں یا ہمسایہ ممالک، ان کے خلاف استعمال کرتا ہے، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے، اب ہم آنکھیں بند کر کے کہیں کہ کوئی ہمیں نہیں دیکھتا تو یہ ہماری بے وقوفی ہے۔
 
جب دنیا دیکھتی ہے، ہمسایہ ممالک دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو وہ تماشا تو نہیں دیکھیں گے۔ اگر آپ دوسرے ممالک میں دہشتگرد بھیجیں گے تو وہ آپ کے ممالک میں دہشتگرد بھیجیں گے۔ اگر آپ دوسرے ملکوں کو غیر مستحکم کرینگے تو وہ آپ کے ملک کو غیر مستحکم کرینگے۔ پھر وہ دیکھیں گے کہ حالات کس چیز کیلئے سازگار ہیں اگر زبان، قومیت، نسل کے حوالے سے وہ امن و امان خراب کر سکتے ہیں تو وہ وہی کرینگے۔ جہاں مذہبی اختلاف کو ہوا دینے سے ان کے مقاصد حاصل ہو سکیں تو وہ اس حوالے سے کام کرینگے۔

اب دیکھیں کہ دشمن یا ہمسایہ ملک نے بلوچستان میں کیا کیا ہے۔ وہ آپ سے بدلہ لے رہا ہے، اس کا جو آپ وہاں کر رہے ہیں۔ اگر آج پاکستانی حکومت، بلکہ حکومت کی کیا حیثیت ہے، پاکستان کے کرتا دھرتا لوگ افغانستان اور ہندوستان میں مداخلت بند کر دیں تو پاکستان میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوگی۔ بلوچوں میں بہت مختصر تعداد ایسی ہو گی جو ملک دشمن ہے یا پاکستان سے الگ ہونا چاہتے ہیں، بلوچوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ ہے۔ اس طریقہ سے صوبہ خیبر پختونخوا میں سب پاکستان کے ساتھ ہیں۔ یہاں علیحدگی کی کوئی آواز تک نہیں، سندھ میں بھی نہیں ہے۔ 

یہ تو کرائے کے مزدور ہیں جنہیں ہمسایہ ممالک آپ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، وہ اس لئے یہ کر رہے ہیں کہ آپ ان کے ممالک میں یہی کام کر رہے ہیں، آپ کے یہاں طالبان کی تنظیمیں رہتی ہیں، یہاں ان کے لیڈر ہیں، ان کے لشکر یہاں تیار ہوتے ہیں اور یہاں سے جاتے ہیں، تو یہی کام انہوں نے بھی شروع کیا۔ آپ کے ملک کے خلاف دہشتگردوں کی تربیت کر کے یہاں بھیجتے ہیں، وہ دھماکے بھی کرتے ہیں، وہ لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں، مساجد میں بھی دھماکے کرتے ہیں، بازاروں میں بھی، پولیس پر بھی، آرمی پر بھی حملے کرتے ہیں۔ آپ نہ کریں وہ بھی نہیں کرینگے۔

اسلام ٹائمز: فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں ملک کی دیگر مذہبی جماعتوں کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید جواد ہادی: جو قابل ذکر مذہبی جماعتیں ہیں وہ فرقہ واریت میں ملوث نہیں ہیں، جماعت اسلامی یا جمعیت علماء اسلام بڑی مذہبی جماعتیں ہیں، یہ مذہب کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں، فرقہ واریت میں ان کے لئے کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ مذہبی فرقہ واریت سے جتنا نقصان مذہبی جماعتوں کو ہوا اتنا نقصان کسی اور کو نہیں ہوا، اس وقت پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے برسر اقتدار آنے کا کوئی چانس نہیں، اس کی وجہ یہاں مذہب کے نام پر ہونے والی دہشتگردی ہے، مذہبی جماعتوں سے لوگ خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ ابھی یہ لوگ اقتدار میں نہیں ہیں تو انہوں نے ملکی صورتحال کو خراب کیا، اگر اقتدار میں آگئے تو کیا کریں گے۔ 

چند سال پہلے ہم نے اسی مدرسہ (مدرسہ شہید عارف حسین الحسینی پشاور) میں مختلف مسالک کے علماء اور ضلع پشاور کے مدارس کے پرنسپل حضرات کو اکٹھا کیا اور میں نے ان سے یہی کہا کہ اگر پاکستان میں اسلامی حکومت کے کوئی چانسز ہیں تو وہ آپ اہل سنت کی طرف سے ہو سکتے ہیں، ہم تو پاکستان میں اتنی اقلیت میں ہیں کہ یہاں اسلامی حکومت نہیں لا سکتے، لیکن ہم آپ کے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ یہ جو دہشتگردی ہے اور مذہبی منافرت پھیل رہی ہے اس کا ہمیں نقصان ہو رہا ہے کہ ہم قتل ہو رہے ہیں، لیکن سب سے بڑا نقصان آپ کا ہو رہا ہے۔

پڑھنے لکھے لوگ مذہبی جماعتوں سے خوفزدہ ہیں، فوج، ایجنسیاں اور تاجر سب آپ لوگوں سے خوفزدہ ہو رہے ہیں، لہٰذا آپ کا ووٹ بنک دن بدن کم ہو رہا ہے، اس مخصوص ووٹ بنک سے آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس ملک میں اگر کوئی تبدیلی آسکتی ہے تو ووٹ کے ذریعے آسکتی ہے، یہاں اسلحہ کے زور پر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، یہاں فوج بہت مضبوط ہے اور فوج کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، اگر لوگوں کے ذہن تبدیل کریں اور ان کے ووٹ حاصل کریں تو آپ اقتدار میں آسکتے ہیں، لیکن مذہب کے نام پر ہونے والی دہشتگردی سے لوگ مذہبی جماعتوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں، اس وجہ سے مستقبل میں آپ لوگوں کے اقتدار میں آنے کے امکانات کم ہو رہے ہیں لہٰذا آپ پر فرض ہے کہ مذہب کے نام پر ہونے والی دہشتگردی کو روکیں۔ 

آپ کو آگے آنا چاہئے۔ بدقسمتی سے مذہبی جماعتیں وہ فعال کردار ادا نہیں کر سکیں، وہ بھی ان دہشتگردوں سے بلیک میل ہو رہی ہیں، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام وغیرہ بھی دہشتگردوں سے خوفزدہ ہیں، ان کے لئے بھی خطرہ ہے، ان دہشتگردوں کے خلاف سب کو نکل کر فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے ذہن کو تبدیل کیا جائے، جب تک اس طرح نہیں کیا جاتا ان کی اپنی پوزیشن بھی کلیئر نہیں ہو گی اور جب ان کی پوزیشن کلیئر نہیں ہوگی تو لوگ بھی انہیں ویلکم نہیں کرینگے۔

اسلام ٹائمز: بعض حلقوں کی جانب سے ملک میں اہل تشیع کو درپیش مشکلات کا ذمہ دار نااتفاقی اور عدم اتحاد کو قرار دیا جاتا ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید جواد ہادی: اس میں کوئی شک نہیں کہ نااتفاقی کا اس صورتحال میں عمل دخل ہے، اگر یہ لوگ متحد اور منظم ہوتے تو کسی حد تک مسائل حل کر سکتے تھے، آپ نے دیکھا کہ جب تحریک جعفریہ ایک فعال تنظیم تھی، اس کے ہر جگہ دفاتر تھے، اور رول ادا کرتی تھی، اس زمانے میں جھنگ میں سپاہ صحابہ نے جو دہشتگردی شروع کی تو یہ ا یک منظم تنظیم تھی، ان کے خلاف میدان میں اتری اور وہاں صورتحال تبدیل ہو گئی، آج بھی اگر یہاں پر اتفاق و اتحاد ہوتا،  نظم و ترتیب ہوتی، فعال کردار ادا کرتے اور فعال قیادت ہوتی تو کافی حد تک لوگوں کا سہارا بنا جاسکتا تھا اور دشمن اس طرح آسانی سے اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے بعض قریبی ساتھی آج علمی میدان میں تو فعال نظر آتے ہیں، لیکن تحریکی یا عملی میدان میں موجود نہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ سید جواد ہادی: تحریک جعفریہ کے حوالے سے جو مسائل پیش آئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس میں تمام تر کوششوں کے باوجود کامیابی نہیں ہوئی اور وہ اختلافات ختم نہیں ہوئے، جن لوگوں کی وجہ سے حالات خراب ہوئے اور تحریک کو نقصان ہوا، انہوں نے تعاون نہیں کیا، انہوں نے غلطیاں کیں اور تحریک کو نقصان پہنچایا، لیکن اصلاح کیلئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا، لہٰذا قائد شہید کے جو ساتھی تھے وہ مایوس ہو گئے اور انہوں نے دیکھا کہ کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تو وہ تنظیمی معاملات سے الگ ہو گئے اور علمی کاموں میں مصروف ہو گئے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے پاکستان کے تشیع کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے آپ کس حد تک پرامید ہیں۔؟
علامہ سید جواد ہادی: شیعہ علماء کونسل کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ کوئی تنظیم ہے، وہ شائد ایک شو ہو جو ضرورت کے وقت کیا جاتا ہو، البتہ مجلس وحدت مسلمین کے بارے میں مجھے جتنی معلومات ہیں کہ انہوں نے کام شروع کیا ہے، وہ ایک شیعہ پلیٹ فارم بنا رہے ہیں، اگر وہ اختلافات میں نہ الجھے، صرف مثبت اور فلاحی کاموں کی طرف توجہ دی تو وہ کامیاب ہوں گے، ابھی تک ان کا رزلٹ اچھا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: عرب ممالک میں جنم لینے والی بیداری کی تحریکوں کے تناظر میں کیا مستقبل قریب میں پاکستان میں بھی اس قسم کی اسلامی بیداری دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید جواد ہادی: جب سے انقلاب اسلامی کامیاب ہوا ایک سوچ دنیا میں پیدا ہو گئی کہ قومیں بڑے سے بڑے ملک کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہیں، امام خمینی رہ اور ان کی قوم نے ثابت کر دیا کہ اگر کوئی قوم اور ملک فیصلہ کر لے تو بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، اس سوچ پر عمل کرنے میں تیس سال سے زیادہ عرصہ لگا، اب کچھ ممالک میں ایران والا تجربہ دہرایا گیا اور وہ کامیاب ہوا، یمن، بحرین کے بعد اب دیگر ممالک میں یہ سلسلہ شروع ہو رہا ہے، اگر پاکستانی قوم کو یقین آگیا تو پاکستان میں بھی ایسا ہو سکتا ہے، اگر پاکستان کے جوان اس نتیجہ پر پہنچیں کہ ہم بھی استعماری طاقتوں کے اثر و رسوخ سے نکل سکتے ہیں اور ان کے مقابلہ میں سر بلند ہو کر جی سکتے ہیں تو پاکستان میں بھی یہ تجربہ کامیاب ہو گا۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ پاکستان میں تشیع کے حوالے سے مستقبل کے حالات کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ سید جواد ہادی: ایک صورتحال مذہب تشیع کے حوالے سے ہے اور ایک شیعہ معاشرہ کے حوالے سے، مذہب تشیع بہت ٹھوس اصولوں اور منطقی دلائل پر قائم ہے، اس کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، اس کا مستقبل روشن ہے، قرآن، حدیث، عقل یہ اس سوچ کے بہت مضبوط اور ٹھوس بنیادیں ہیں، پاکستان میں شیعہ معاشرہ کے مستقبل کے حوالے سے میں یہ کہوں گا کہ جب تک ایک دین دار، دیانت دار، بیدار قیادت نہیں ملتی، شیعہ قوم اسی افراتفری اور تشدد کا شکار رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 163834
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش