0
Thursday 24 May 2012 23:46

ملی یکجہتی کانفرنس میں تمام مقررین نے تکفیری رویہ کی کھل کر مذمت کی، ثاقب اکبر

ملی یکجہتی کانفرنس میں تمام مقررین نے تکفیری رویہ کی کھل کر مذمت کی، ثاقب اکبر
جناب ثاقب اکبر ملک کے ایک اہم تحقیقی و سماجی ادارے البصیرہ کے سربراہ ہیں، آپ کی شخصیت علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بھی آپ کی کوششیں پاکستان کی اہم مذہبی و مسلکی قیادت سے داد تحسین وصول کر چکی ہیں۔ آپ کی معرکہ آراء تحقیقی کتاب ''پاکستان کے دینی مسالک'' ملک بھر میں بین المسالک ہم آہنگی کے حوالے سے ایک اہم دستاویز تصور کی جاتی ہے۔ علمی و تحقیقی میدان کے علاوہ شعبہ صحافت میں بھی آپ متعدد کالم نویسوں اور لکھاریوں کے استاد ہیں۔ آپ ملک کے کئی ایک معروف مجلات کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے، جن میں سہ ماہی تقریب اور ماہنامہ معصوم۔ ماہنامہ پیام اب بھی آپ ہی کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے۔ جناب ثاقب اکبر ''عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید'' بین الاقوامی کانفرنس جو 27 مئی 2012ء کو نشتر ہال پشاور میں منعقد کی جا رہی ہے کی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ درج ذیل انٹرویو ان کی حالیہ فعالیتوں اور مصروفیات، بالخصوص ملی یکجہتی کونسل کی بحالی اور اہم بین الاقوامی کانفرنس کے تناظر میں لیا گیا، جو قارئین اسلام ٹائمز کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں آپ شریک ہوئے، اس اجلاس میں کیا پیش رفت ہوئی۔؟
ثاقب اکبر: موجودہ سیاسی میدان میں اگرچہ مذہبی جماعتیں زیادہ موثر نہ ہوں، تاہم مذہبی ہم آہنگی کے لیے وہ مل جل کر اب بھی بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کچھ عرصے سے پاکستان میں بعض ایسے واقعات پھر سے رونماء ہونے لگے ہیں کہ جن کی وجہ سے درد رکھنے والے اہل دین کو تشویش ہے کہ اگر ان کی روک تھام نہ کی گئی تو اس سے پاکستان کے استحکام کو ہی خطرہ لاحق نہ ہوگا بلکہ دین اسلام کے تشخص کو بھی عالمی سطح پر زیادہ نقصان پہنچے گا۔ کراچی،کوئٹہ، چلاس اور کوہستان وغیرہ میں ہونے والے اندوہناک واقعات اس کی غمناک مثال ہیں۔ اس پس منظر میں بعض اہل سوز نے یہ ضرورت محسوس کی کہ اہل دین و مذہب کو پھر سے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تدابیر کرنا چاہیے۔ 21 مئی 2012ء کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقدہ ''اتحاد امت اور اسلامی یکجہتی'' کانفرنس اسی غور و فکر کا نتیجہ ہے۔

اس میں ملک کے تمام اسلامی مکاتب فکر کے ذمہ دار نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کا دعوت نامہ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کی طرف سے جاری کیا گیا تھا اور یہ کانفرنس جماعت اسلامی پاکستان ہی کے زیراہتمام منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں شریک تمام مقررین نے وحدت اور اتحاد پر زور دیا، سب نے تکفیری رویے کی کھل کی مذمت کی۔ تمام مقررین کا نظریہ تھا کہ انتہاء پسندی اور دہشتگردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سب کی رائے تھی کہ مختلف اسلامی مسالک کے افراد کو قتل کرنے والے گروہوں اور افراد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یقیناً اس سے پاکستان کے تمام مسلمانوں کو بہت اچھا پیغام گیا ہے اور ان پر یہ امر روشن ہو گیا ہے کہ قتل و غارت میں ملوث افراد اور گروہ غیر ملکی اور اسلام دشمن ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے اس اجلاس میں کون سی اہم شخصیات اور جماعتیں شامل تھیں۔؟
ثاقب اکبر: اس اہم کانفرنس میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، شیعہ علمائے کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی، جماعت اسلامی کے قیم لیاقت حسین بلوچ، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی، جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبد الرشید ترابی، تنظیم العارفین کے سیکرٹری جنرل صاحبزادہ سلطان احمد علی، رابطة المدارس کے سربراہ مولانا عبدالمالک، جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم، جماعت اسلامی ہی کے رہنماء سراج الحق، جماعت الدعوہ کے پروفیسر مولانا عبدالرحمن مکی، تنظیم اسلامی کے سربراہ حافظ محمد عاکف سعید، وفاق المدارس شیعہ کے نائب صدر قاضی نیاز حسین نقوی، منہاج القرآن علماء کونسل کے علامہ علی غضنفر کراروی، جامعہ مدینة العلم کے ڈاکٹر سید محمد نجفی، وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکرٹری قاری محمد حنیف طیب، مولانا نذیر احمد فاروقی، تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلٰی رحیق عباسی، مولانا ملک عبدالرئوف، مولانا ابو شریف، جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلٰی علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنماء حافظ حسین احمد، پیر ہارون گیلانی، مولانا محمد طیب طاہری، پیر عبدالرحیم نقشبندی، حزب الدعوة کے محمد یحییٰ مجاہد، مولانا محمد خان لغاری، صاحبزادہ محمود الحسن نقشبندی، مولانا مظہر بخاری اور راقم کے علاوہ متعدد مذہبی قائدین اور شخصیات نے شرکت کی۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں کن امور پر اتفاق رائے ہوا۔؟
ثاقب اکبر: اجلاس میں شامل تمام جماعتوں اور شخصیات نے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے، اس اعلامیہ کے مطابق متحدہ مجلس عمل کے انتخابی پلیٹ فارم اور دفاع پاکستان کونسل کی موجودگی اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے ''ملی یکجہتی کونسل'' کی بحالی کا اعلان کیا گیا۔ یہ بھی طے پایا کہ ملی یکجہتی کونسل کا باقاعدہ سیکریٹریٹ بنایا جائے گا اور مختلف کمیشنز بنائے جائیں گے، جن میں مصالحتی کمیشن، علمی کمیشن، خطبات جمعہ کی رہنمائی کا کمیشن اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کا کمیشن شامل ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے نو منتخب صدر قاضی حسین احمد نے یہ بھی اعلان کیا کہ آئندہ پندرہ روز کے اندر اندر مرکزی کابینہ کی تشکیل اور دیگر امور طے کرنے کے لیے ایک اجلاس طلب کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمان اور صاحبزادہ ابو الخیر زبیر کیوں شریک نہیں ہوئے۔؟
ثاقب اکبر: مولانا فضل الرحمن کی طرف سے تو مولانا حافظ حسین احمد اس اجلاس میں شریک تھے بلکہ وہ تو اسٹیج پر بیٹھے تھے، نیز اعلامیہ تیار کرنے والی کمیٹی میں بھی شامل تھے، جبکہ مولانا سمیع الحق خود بہتر وضاحت کر سکتے ہیں۔ جہاں تک میرے علم میں ہے دعوت انھیں دی گئی تھی، البتہ دفاع پاکستان کونسل میں شامل ایک گروہ نے اس بات کو بہت نمایاں کیا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل، دفاع پاکستان کونسل کے متبادل کے طور پر سامنے لائی جا رہی ہے۔ ممکن ہے اس بات کا اثر دفاع پاکستان کونسل کے بعض دیگر ذمہ داروں پر ہوا ہو۔ تاہم ملی یکجہتی کونسل کے اعلامیہ میں جس طرح سے ایم ایم اے اور دفاع پاکستان کونسل کے وجود اور افادیت کو تسلیم کیا گیا ہے اس کے بعد اگر کوئی غلط فہمی ہے بھی تو اسے ختم ہو جانا چاہیے۔
 
حافظ حسین احمد صاحب نے بھی اجلاس میں ایم ایم اے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے ہی اس حوالے سے تحفظات ختم ہو گئے۔ ہمیں توقع ہے کہ آئندہ اجلاس میں حضرت مولانا سمیع الحق تشریف لائیں گے، جس سے مزید ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی۔ مولانا سمیع الحق نہایت اہم دینی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے قبل ازیں بھی ملی یکجہتی کونسل کے قیام اور اس کے مقاصد کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یقیناً وہ یہ کردار آئندہ بھی ادا کرتے رہیں گے۔ صاحبزادہ ابو الخیر زبیر کی عدم شرکت کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ میری اطلاع کے مطابق ان کا پہلے سے طے شدہ 21 مئی کو کوئی اہم اجلاس تھا، اس لیے وہ تشریف نہیں لا سکے۔

اسلام ٹائمز: "عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید" بین الاقوامی کانفرنس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟
ثاقب اکبر: اس وقت اقوام عالم بالخصوص امت مسلمہ میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے مسلمان ملکوں میں آمریت اور استعماری قوتوں کے خلاف ابھرنے والی تحریک کے اثرات مغرب تک جا پہنچے ہیں۔ عوامی شعور کی بیداری نے باطل نظاموں کے چہروں پر پڑے ہوئے ترقی و فلاح کے نقاب نوچ ڈالے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے والے معاشرتی طبقات کے درمیان پائی جانے والی خلیج واضح ہو کر دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔ کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام نے جس انداز میں مخلوق خدا کا استحصال کیا، آج روز روشن کی طرح واضح اور آشکار ہے۔ اس صورتحال میں اقوام عالم کی نظریں ایک ایسے نظام کی جانب اٹھ رہی ہیں جو لا شرقیہ و لاغربیہ کا نعرہ مستانہ بلند کرکے ان دونوں نظاموں کے اثرات بد سے انسانیت کو نجات دلائے۔
 
ہم اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ آج عالم انسانیت کا مسئلہ صرف معاشرتی نظاموں کی کوتاہیاں اور حشر سامانیاں ہی نہیں، بلکہ مادی تصور کائنات کے تحت انسان اور عالم کی محدود شناخت بھی ہے۔ ہم علی الوجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی وہ نظام فکر و عمل ہے جو دنیا بھر کے انسانوں کے لیے حقیقی نجات اور فلاح کا ضامن ہو سکتا ہے۔ ان مسائل بالخصوص پاکستان کے حوالے سے ان کی اہمیت کے مدنظر اس بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ''عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں ملک بھر سے اہم سیاسی و مذہبی شخصیات، یونیورسٹی اساتذہ، دانشور، محققین اور نوجوانوں کے نمائندوں کے علاوہ غیر ملکی مندوبین بھی شرکت فرما رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس کانفرنس میں کون کون سی جماعتیں اور شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔؟
ثاقب اکبر: ملک بھر کی مذہبی، سیاسی اور سماجی قیادت کے اہم اور ممتاز نمائندوں کے علاوہ بعض غیر ملکی اکابرین بھی اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ ان میں چند ایک کے نام آپ کے سامنے ذکر کرتے ہیں:
جناب قاضی حسین احمد (سابق امیر جماعت اسلامی)، علامہ سید ساجد علی نقوی (سربراہ اسلامی تحریک پاکستان)، مولانا سمیع الحق (سرپرست دفاع پاکستان کونسل)، صاحبزادہ ابو الخیر زبیر(سربراہ جمعیت علمائے پاکستان)، جناب ڈاکٹر فرید پراچہ (نائب قیم، جماعت اسلامی پاکستان)، علامہ امین شہیدی ( ڈپٹی جنرل سیکریٹری مجلس وحدت مسلمین)، مولانا محمد خان شیرانی ( چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل)، مولانا افتخار نقوی (رکن اسلامی نظریاتی کونسل)، مولانا گل نصیب (مرکزی نائب امیر جمعیت علمائے اسلام (ف)، حافظ ابتسام الہی ظہیر (ناظم اعلٰی جمعیت اہلحدیث پاکستان)، مولانا قاری روح اللہ مدنی (سابق وزیر اوقاف، خیبر پختونخوا)، میاں افتخار حسین (وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا)، سینیٹر حاجی عدیل صاحب ( عوامی نیشنل پارٹی)، مولانا عتیق الرحمان (جمعیت علمائے اسلام (ف)، عبدالرشید ترابی (امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر)، مولانا رمضان توقیر (تحریک اسلامی خیبر پختونخوا)، پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز (وائس چانسلر، پشاور یونیورسٹی، پشاور)، صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان (امیر تحریک منہاج القرآن، انٹرنیشنل)، علامہ سید جواد ہادی (سابق سینیٹر)، ڈاکٹر علامہ راغب حسین نعیمی (پرنسپل جامعہ نعیمیہ لاہور)، جنرل (ر) حمید گل ( مرکزی رہنماء دفاع پاکستان کونسل)، مولانا قاضی احمد نورانی(سرپرست فلسطین فائونڈیشن)، صابر حسین اعوان (جماعت اسلامی خیبر پختونخوا)، فقیر حسین بخاری (سینیئر نائب صدر پاکستان مسلم لیگ)، کمیل عباس (چیئرمین آئی او پاکستان)، محترمہ ام لیلٰی ( امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، شعبہ طالبات)، حنان علی عباسی (صدر نیشنل یوتھ اسمبلی، پاکستان) سمیع اللہ حسینی (صدر اسلامی جمعیت طلبہ، پاکستان)، پیرفدا حسین ( انجمن طلباء اسلام)، ڈاکٹر غیرت بہیر (دانشور از افغانستان)، مولانا سبیل حسن (مجلس وحدت مسلمین پشاور)، حافظ ابرار (شباب ملی خیبر پختونخوا)، سید رحمان شاہ (امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان) وغیرہ۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ کانفرنس فقط البصیرہ ہی کی کاوش ہے یا اس میں دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں۔؟
ثاقب اکبر: اس کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں البصیرہ کو مختلف اہم علمی، تحقیقی، سیاسی اور سماجی تنظیموں کا تعاون حاصل ہے۔ جس میں دارالعلوم جامعہ نعیمیہ اسلام آباد، مرکز علوم اسلامیہ پشاور، جماعت اسلامی پشاور، انجمن طلبہ اسلام پاکستان، رابطہ امن الامة، میثاق اور روزنامہ پبلک آئی اہم ہیں۔
خبر کا کوڈ : 165183
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش