4
0
Thursday 31 May 2012 14:22

ملت بہت جلد شیعہ علماء کونسل کی صورت میں تحریک جعفریہ کو دیکھے گی، علامہ رمضان توقیر

ملت بہت جلد شیعہ علماء کونسل کی صورت میں تحریک جعفریہ کو دیکھے گی، علامہ رمضان توقیر
شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صدر اور سابق مشیر وزیراعلٰی علامہ محمد رمضان توقیر کا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، آپ انقلاب اسلامی ایران کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قم المقدس تشریف لے گئے اور وہاں 6 سال تک تعلیم حاصل کی، زمانہ طالب علمی میں ہی ملت کی تحریکی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے دور میں تحریک کی ضلعی صدارت سے باقاعدہ خدمات کا آغاز کیا، اس کے بعد تحریک کی صوبائی نائب صدارت اور پھر 1993ء میں صوبائی صدارت کی ذمہ داریاں آپ کو سونپی گئیں، 4 سال بعد تحریک کے مرکزی رہنماء  کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے، اور پھر صوبائی سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں، خیبر پختونخوا میں مخصوص حالات کے باوجود یہاں اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے میں آپ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، آپ دینی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کے رہنما بھی رہے، آپ نرم مزاج اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں، حال ہی میں ایک مرتبہ پھر آپ کو شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے، اسلام ٹائمز نے علامہ محمد رمضان توقیر کی تنظیمی حوالے سے نئی ترجیحات اور منصوبہ بندی سمیت تشیع کو درپیش مشکلات اور دیگر امور پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ حال ہی میں ایک بار پھر ایس یو سی کے صوبائی سربراہ منتخب ہوئے ہیں، خیبر پختونخوا میں تنظیم سازی اور جماعت کی فعالیت کے حوالے سے کیا ترجیحات ہوں گی۔؟
علامہ رمضان توقیر: سب سے پہلے تو ہماری کوشش ہوگی کہ تنظیمی حوالے سے دوبارہ گرمی پیدا کریں، کچھ عرصہ تک حالات کی نزاکت کی وجہ سے جمود اور خاموشی کا سلسلہ رہا، اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ہم تنظیمی ڈھانچہ کو فعال بنائیں گے، اور اس حوالے سے ہمارا کام شروع ہو چکا ہے، ہم سب سے پہلے دوبارہ یونٹ سطح تک تنظیم سازی کریں گے، ہماری کوشش ہے کہ ماہ رمضان المبارک سے قبل ہمارا تنظیم سازی کا عمل مکمل ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت کو دو مرتبہ کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ آپ کے خیال میں فعالیت میں کس قسم کی مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر: اس کا توڑ ہم نے اپنے دستور میں ترمیم کرکے نکالا ہے، جس کے مطابق انتخاب کے ذریعے سیکرٹری جنرل کا عہدہ لایا گیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تنظیمی عمل ان کے توسط سے آگے بڑھے ، قائد محترم کے ہوتے ہوئے اس تناظر میں ہمیں تنظیمی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں ایک راہ ملے گی، ہمیں امید ہے کہ اس عذاب میں ہم نہیں آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال اور تشیع کو درپیش مشکلات سے آگاہ کریں۔؟
علامہ رمضان توقیر: مجموعی طور پر تو یہاں امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے اور دہشتگردی ہے، ہم پہلے بھی کئی مرتبہ عرض کر چکے ہیں کہ یہ شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے، یہ مخصوص طاقتیں اور ادارے ہیں جو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے مختلف طریقوں سے بدامنی پیدا کرتے ہیں، کہیں لسانی بنیاد پر تو کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر، یا پھر کبھی قومیت کی بنیاد پر حالات خراب کئے جاتے ہیں۔ پہلے ہماری مساجد اور امام بارگاہوں پر خودکش حملے ہوتے تھے آج ملاکنڈ جہاں اہل تشیع کا کوئی نام و نشان نہیں وہاں پر بھی دھماکے ہوتے ہیں، آج جمرود میں بھی مساجد میں نمازیوں کو شہید کیا جا رہا ہے، یہ گروہ وہی ہے جو ڈی آئی خان کی امام بارگاہ اور جمرود کی مسجد دھماکے کرتا ہے۔
 
یہ گروہ تو ایک ہے لیکن ان کے جو پیر مرشد ہیں اور جو ان لوگوں کو استعمال کرتے ہیں وہ اپنی سوچ کے تحت کہیں بھی ڈی آئی خان میں تو کبھی جمرود میں دہشتگردی کرواتے ہیں، مجموعی طور پر شیعہ سنی کے حوالے سے الحمد اللہ ہمارے حالات بہت بہتر ہیں، جتنا بھی سنجیدہ طبقہ ہے یعنی بریلوی، دیوبندی یا ان کی جو جماعتیں ہیں وہ قطعاً اس دہشتگردی کی حامی نہیں، پشاور میں منعقد ہونیوالی بین الاقوامی کانفرنس آپ کے سامنے ایک مثال ہے، جہاں مذہبی رہنمائوں کی جانب سے خوبصورت گفتگو کی گئی اور لوگوں کا جوش دیدنی تھا، جنہوں نے تمام مقررین کو دل کھول کر داد دی، ہم سب کو مل کر ملک کے استحکام کے لئے ان طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے، جو ہمارے ملک کے امن کو خراب کرنا چاہتی ہیں اور یہ اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے پشاور کانفرنس سے خطاب میں رہبر معظم کے اس فتوے کا تفصیلی ذکر کیا جس میں اہل سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دیا گیا ہے، اس فتوے کے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں کس حد تک بہتری آسکتی ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر: اس فتوے کا پاکستان میں بہت خیر مقدم کیا جا رہا ہے، میں نے خود ڈیرہ اسماعیل خان کے اخبارات میں وہاں کے خالص دیوبند لوگ جو کبھی سپاہ صحابہ کے مداح ہوا کرتے تھے یا ان کے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے ان کے تائیدی بیانات پڑھے ہیں کہ جس میں ان کی جانب سے اس فتوے پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایرانی رہنماء کی جانب سے دیا جانے والا فتویٰ قابل تعریف اور قابل تحسین ہے۔ میرے خیال میں اس قسم کی باتوں کو زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے کہ ملت تشیع کے جو رہبر ہیں ان کی سوچ یہ ہے کہ وہ اس قسم کی باتوں میں نہیں الجھنا چاہتے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں ملی یکجہتی کونسل کا احیاء ہوا، یہ اتحاد جب غیر فعال ہوا تو اس میں کیا خامیاں تھیں اور کیا اب وہی خامیاں اس دینی اتحاد کو دوبارہ متاثر کر سکتی ہیں۔؟
رمضان توقیر: ملی یکجہتی کونسل اس وجہ سے ناکام ہوئی تھی کہ اس میں چوں چوں کا مربہ شامل ہو گیا تھا، ہر ایک کو موقع دیا گیا اور وہ آئے اور گھس گئے، ان کی سوچ اور فکر تعمیری نہیں بلکہ تخریبی تھی، اسوقت کے اجلاسوں میں بھی بدمزگی ہوتی رہی، اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ جو غیر سنجیدہ لوگ اور پارٹیاں جو صرف اور صرف کسی مسلک کی مخالفت میں قائم ہوئی ہیں، ان کو ساتھ لے کر ملی یکجہتی کونسل کو نہیں چلایا جاسکتا اور نہ ہی اس طریقہ سے ملی یکجہتی حاصل کی جاسکتی ہے، لہٰذا اس کے بعد ایک سنجیدہ طبقے اور سنجیدہ جماعتوں کے قائدین نے ملکر متحدہ مجلس عمل تشکیل دی، تاہم بدقسمتی سے وہ بھی سیاسی چپلقش کا شکار ہو گئی، میں نہیں سمجھتا کہ اگر ہر ایک کو اس میں جمع کیا جائے گا تو یہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔

اسلام ٹائمز: بعض حلقوں کی جانب سے سوال اٹھایا جاتا ہے دیوبند مکتب کی جماعتوں نے دفاع پاکستان کونسل کے نام سے پلیٹ فارم تشکیل دیدیا، بریلوی اہلسنت کا سنی اتحاد کونسل کی صورت میں مشترکہ پلیٹ فارم موجود ہے، اہل تشیع جماعتیں اپنا ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل کیوں نہیں دیتیں۔؟
علامہ رمضان توقیر: میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ قومی پلیٹ فارم موجود ہے، جو 1965ء سے چلا آ رہا ہے، شیعہ مطالبات کمیٹی کے نام سے۔ پھر مفتی جعفر حسین کی قیادت میں پاکستان بھر کی ملت تشیع ایک جگہ پر جمع ہوئی، جس میں علماء اور خطباء، وکلاء اور عام شہری شامل تھے، جنہوں نے مل کر ایک جماعت بنائی، جس کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نام دیا گیا، مفتی جعفر حسین جس کے سربراہ تھے، جسکے بعد دستور بنایا گیا اور اسی دستور کی روشنی میں قائد مظلوم اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو قائد منتخب کیا گیا، اور اس دستور اور منشور کے مطابق موجودہ قائد علامہ ساجد نقوی کو منتخب کیا گیا۔
 
درمیان میں تھوڑی چپلقش پیدا ہوئی، اب میرے خیال میں جو ناراض ہیں اور جنہیں گلہ شکوہ ہے، اس حوالے سے علامہ ساجد نقوی صاحب بھی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے اقدامات شروع ہیں کہ جو ناراض دوست ہیں ان کو راضی کیا جائے، اس سلسلے میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں، گزشتہ روز مدرسہ شہید حسینی (پشاور) جانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تھوڑی قربت حاصل کی جائے۔ میرے خیال میں پلیٹ فارم موجود ہے، ہر ایک کی اپنی فکر اور نظریہ اپنی جگہ ہے، تحریک جعفریہ اور اس کے بعد اسلامی تحریک وہی تسلسل ہے،  سب ایک جگہ پر سما نہیں سکتے، ہر ایک کے اندر جرثومے ہوتے ہیں کہ میں صدر بنوں یا جنرل سیکرٹری بنوں اور آگے نکلوں۔ لیکن عہدہ تو ایک ہوتا ہے جبکہ امیدوار سینکڑوں میں ہوتے ہیں، لہٰذا ایک فطری بات ہے، اگر جماعتیں بن گئی ہیں اس میں زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہئے، ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے اور کام کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: اتحاد و وحدت کی بات کی جاتی ہے لیکن بعض علماء کرام کی جانب سے حالیہ دنوں میں بعض ایسے بیانات دیئے گئے جو اتحاد کی کوششوں کو دھچکا پہنچا سکتے تھے، اور اس کا ذمہ دار اکثر میڈیا کو قرار دیا گیا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ رمضان توقیر: باہمی احترام تو ہر قوم اور قبیلے کا فرض ہے، البتہ میڈیا کو بھی چاہئے کہ اگر حالات کو سدھارنا چاہتے ہیں تو اگر کوئی اس قسم کی منفی بات کسی کی ذات کے حوالے سے ہے بھی، تو اس حوالے سے احتیاط کی جائے، کیونکہ ہمیں شریعت بھی اجازت دیتی ہے کہ وہ سچ جو وحدت کو نقصان پہنچائے، اس سچ کو کنارے پر کر سکتے ہیں۔ حالات کی بہتری کیلئے آپ کچھ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں اور دو مومنوں کو نزدیک لانے کیلئے آپ سچ کو چھپا بھی سکتے ہیں، مثلاً اگر کسی نے مجھے برا بھلا کہا ہے تو آپ مجھے جھوٹ بول کر مطمئن کر سکتے ہیں کہ فلاں شخص آپ کی بہت تعریف کر رہا تھا، حالانکہ درحقیقت اس نے مجھے برا بھلا کہا ہوگا، تو خواہ مخواہ میرے ذہن میں آئیگا کہ وہ میری تعریف کر رہا ہے تو مجھے بھی اس کا احترام کرنا چاہئے اور اگر اس حوالے سے کسی نے بری بات کہی اور آپ سچ کہتے ہوئے بتا دیں تو فطری عمل ہے کہ میں بھی اسے برا بھلا کہوں گا۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ لہٰذا اس معاملے میں تھوڑی سی احتیاط کی جانا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: علامہ ساجد نقوی صاحب شیعہ علماء کونسل کے نام سے تحریک کا سسٹم رواں دواں رکھے ہوئے ہیں، تاہم ملت تشیع شیعہ علماء کونسل کو تحریک جعفریہ کی صورت میں کب دیکھے گی۔؟
علامہ رمضان توقیر: انشاءاللہ صبح قریب ہے، ہم مطمئن ہیں کہ جو تنظیمی اسٹرکچر بن رہا ہے، صوبوں کی تنظیمیں بنی ہیں اور جنرل سیکرٹری کا عہدہ انتخاب کے ذریعے آیا ہے، ہماری ٹیم ہے اور ہمارا نیٹ ورک یونٹ تک موجود ہے، صرف اس کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے، اور تھوڑا بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تو انشاءاللہ بہت جلد صورتحال پہلے جیسی ہو گی، ہم انتخابات سے قبل کوشش کریں گے کہ کامیاب ہوں۔

اسلام ٹائمز: گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی ملت تشیع کی بیداری کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر: الحمداللہ، ملت بیدار ہے، یہ ملت کی بیداری اور علماء کرام کی اپنے فرائض کی ادائیگی کا نتیجہ ہے کہ دشمن اس سازش میں کامیاب نہیں ہوا جو سازش اس نے ہمیں دیوار سے لگانے کیلئے کی تھی، سنی شیعہ کا مسئلہ پیدا کرکے بگاڑ پیدا کرنے کی کوششیں ناکام رہیں، یہ بیداری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم دشمن کی سازش کا شکار نہیں ہوئے، ہم نے جذبات پر قابو رکھا اور حکمت عملی کے ساتھ پاکستان، اسلام اور تشیع کی بہتری کیلئے دشمن کا مقابلہ کیا اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سے امریکی مداخلت کے خاتمے کا تاثر دیئے جانے کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، آپ کے خیال میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر: امریکی مداخلت کا مقابلہ کرنا بہت آسان ہے، اگر ہمارے حکمران تھوڑا سا غیرت کا شربت پی لیں تو کوئی مشکل نہیں ہو گی، جب پوری قوم بلاتفریق ایک مطالبہ کر رہی ہے تو حکومت کو بھی سٹینڈ لینا چاہیے، اگر عوام کی ہمدردیاں حکومت کے ساتھ ہوں تو حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، میں سمجھتا ہوں کہ جتنی صابر و شاکر پاکستانی قوم ہے، شائد ہی کسی اور ملک میں ہو، بہت مشکلات ہیں، تاہم اتنا واویلا نہیں ہوتا جتنا کہ ہونا چاہیے، لوڈشیڈنگ، مہنگائی کا مسئلہ دیکھیں لیں، دیگر ممالک میں تو ان مسائل پر آگ لگ جاتی ہے، لیکن ہمارے لوگ یہ سب کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں، تھوڑا بہت احتجاج تو حیوان بھی کر لیتا ہے۔

اسلام ٹائمز: گزشتہ دنوں ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کی جانب سے نیٹو سپلائی کی بحالی اور ڈرون حملوں کیخلاف واضح بیان سامنے آیا، یہ احساس پاکستانی حکمرانوں کو کیوں نہیں ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر: مدت سے ہمارے حکمران ان قوتوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں، یہ ان معامات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ میرے خیال میں سینہ زوری اور ڈٹ کر کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے۔
خبر کا کوڈ : 167173
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Kaash k sub rehnuma is buzerg ki zaban-o-andaaz ikhtiyar karain tu wahadat door nahi.
علامہ ساجد علی نقوی صاحب ہمت کریں، ملت ان کے ساتھ ہے۔
Tehreek e Jafria insh Allah jald wapas aye Gi.
علامہ رمضان توقیر جسی بزرگ شخصیات کو ملت کو یکجا کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا، اللہ تعالٰی اسلام ٹائمز کی ٹیم کی توفیقات میں بھی اضافہ فرمائے۔
ہماری پیشکش