0
Tuesday 19 Jun 2012 09:59

امریکہ پاکستان کو آزاد ملک نہیں بلکہ اپنی ریاست تصور کرتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

امریکہ پاکستان کو آزاد ملک نہیں بلکہ اپنی ریاست تصور کرتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں اور اس وقت نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے اُن سے ملکی اور بین الااقومی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: پاک امریکہ تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: بدنصیبی سے امریکہ ایک غلط پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یہ ان کا اسٹرٹیجک بلنڈر اور ناسمجھی ہے کہ وہ پاکستان کو پریشرائز کرکے مسائل حل کر لیں گے۔ پاکستان ان کو بڑے ہی خلوص کے ساتھ یہ بتا رہا ہے کہ آپ ہمیں اعتماد میں لیں اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کے یہاں مفادات کیا ہیں۔ پاکستان نے کئی بار کہا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملکر دہشتگردی کو ختم کریں، اس کاز کیلئے تو پاکستان نے بڑی قربانیاں دیں، جو اس بات کی غماز ہیں کہ پاکستان دہشتگردی کیخلاف ہے، اب اگر امریکی وزیر دفاع بھارت جا کر پاکستان کیخلاف بیان بازی کرتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اور آپ ہمیں کیا پیغام دے رہے ہیں۔
 
امریکی وزیر دفاع نے یہ کہا کہ پاکستان دہشتگردی کا اڈہ ہے یا افغانستان کے لیے جو کہا کہ افغانستان میں انڈیا کو بڑا رول دیں گے۔ یا یہ کہ افغانستان میں پہنچ کر یہ کہنا کہ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکہ معاملات حل کرنے میں بالکل سنجیدہ نہیں اور جان بوجھ کر پاکستان کو مسائل کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ جب امریکہ اس طرح کی حرکتیں کرے گا تو عام آدمی سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ ان کا منصوبہ کچھ اور ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ نیٹو سپلائی کیلئے راستے کھلیں۔ دراصل امریکہ چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کو بدنام کرے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو خراب کیا جائے۔ امریکہ افغانستان میں شکست کو پاکستان کے اوپر ڈالنے کے درپے ہے۔

اسلام ٹائمز: نیٹو سپلائی پر مذاکرات کس نہج پر ہیں اور اس کی کامیابی کتنے امکانات ہیں۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: امریکہ اگر چاہے تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، ہمارے جائز مطالبات ہیں اور قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پرامریکہ نے ننگی جارحیت کی، جس پر اسے معافی مانگنی چاہئے، جن لوگوں نے یہ قتل عام کیا ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ ان خاندانوں کی مدد کی جائے، جن کے چراغ گل کر دیئے گئے۔ اس کے بعد امریکہ یہ گارنٹی دے کہ آئندہ ایسی کوئی جارحیت نہیں ہوگی، چونکہ ہم نہیں مانتے کہ آپ کی ٹیکنالوجی اتنی تیز ہے کہ یمن کے اندر یا سعودی پہاڑ کے اندر کوئی گاڑی جا رہی ہو تو آپ اس پر ڈرون مارتے ہیں اور وہ صحیح ٹارگٹ کرتے ہیں، آپ کو یہ نہیں پتہ کہ فل فلیج اٹیک ہو رہا ہے۔
 
یہاں سے جو لوگ مثلاً فضل اللہ وغیرہ بھاگ کرگئے ہیں، ان کو انہوں نے خود پیسے دیئے اور انہیں مہاجرین کا رتبہ دیا اور انہیں بھگا دیا، پھر انہی پر اٹیک کر رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ ہمیں ٹائم فریم دیں کہ آپ کب تک یہ کام کریں گے، تاکہ ہم آپ کے راستے کھول سکیں۔ اس کے علاوہ ڈرون پر تو کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ کوئی بھی زندہ قوم یہ قبول نہیں کرسکتی، آپ ہمیں ڈرون دیں اور ہمارے ساتھ انٹیلی جینس شیئر کریں۔ ہم کوشش کریں گے کہ مسائل کو سیاسی طور پر حل کریں اور جہاں ڈرون کی ضرورت ہوگی خود حملے کریں گے، اس حوالے سے ایف سولہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ بہرحال ہمارے ملک کے اندر کارروائی پاکستان کو ہی کرنی چاہیے۔ کسی دوسرے ملک کی مداخلت کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں اور یہ بین الاقوامی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکی مذاکراتی ٹیم چھ ماہ اسلام آباد بیٹھی رہی، لیکن نیٹو سپلائی پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، سپلائی لائن کی بحالی کا کیا مستبقل نظر آرہا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: چھ ماہ کیا، آپ چھ سال بھی یہاں بیٹھے رہیں تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ حکومت نے اب یہ کہا ہے کہ ہمارے ساتھ تحریری معاہدہ کرو۔ آپ اس سے کیوں کتراتے ہیں۔ دراصل یہ پاکستان کو آزاد ملک سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ امریکہ پاکستان کو اپنی ریاست سمجھتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوتی، حالانکہ ایران ہم سے ہر لحاظ سے چھوٹا ملک ہے، اس کے علاوہ کوریا ہے۔ امریکہ ہمارے ہی ملک کے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب کوئی تو وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اس کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہماری قیادت کمزور ہے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے صدر اور وزیراعظم صاحب نے حسین حقانی جیسے شخص کو امریکہ میں سفیر لگایا، جس کے بارے میں سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ اس شخص کی پاکستان کے بارے میں وفاداری بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ حسین حقانی کو سفیر لگانے والوں سے تو بندہ پوچھے کہ آپ نے ایسا ہیرا کہاں سے دریافت کیا ہے کہ جس کے بیانات نے سب کچھ ثابت کر دیا ہے۔ ہم امریکہ سے کہتے ہیں کہ آپ ہمارے مسائل گھمبیر نہ بنائیں۔ امریکہ ہمارے اندرونی و بیرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ہم اپنے مسائل خود حل کریں گے۔ یہ امریکہ کے مفاد میں بھی ہے اور ہمارے بھی مفاد میں ہے۔

اسلام ٹائمز: ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاسی عسکری قیادت کی طرف سے مخالفت کے باوجود ڈرون حملے جاری ہیں، لگتا ہے کہ معاملات طے ہیں، صرف عوام کو نہیں بتایا جا رہا۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: جہاں تک ڈرون کا تعلق ہے، ان کو روکا تو جا سکتا ہے۔ کچھ دن قبل تین چار ڈرون اکٹھے آزادانہ گھوم رہے تھے۔ اگر ہماری سیاسی قیادت یہ فیصلہ کرے کہ انہیں گرانا ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ میرے خیال میں سیاسی اور فوجی قیادت بھی یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ اب افغانستان کے اندر شکست خوردہ ہے اور بہت زیادہ پریشان ہے اور اب وہ بہانے ڈھونڈ رہے ہیں کہ کسی طریقے سے انہیں افغانستان میں رہنے کا مزید موقع مل جائے۔ اور پاکستان کو اسی جنگ میں لپیٹ لیں۔ امریکہ کا یہ واضح منصوبہ ہے کہ ہم پاکستان کو اس جنگ میں شامل کریں، کیونکہ اب ان کا افغانستان سے بوری بستر اٹھایا جا چکا ہے۔ اس لیے حکومت بھی اب ان سے محتاط ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو UN کے لیول تک لے کر جائیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کو بتانا چاہیے کہ ہمارے ساتھ یہ زیادتی کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امریکہ افغانستان میں شہریوں کے قتل پر معافی مانگ لیتا ہے، لیکن سلالہ چیک پوسٹ واقعہ پر لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی کمزور قیادت ہے۔ پاکستان اندر سے جتنا مرضی مضبوط ہو، لیکن اس کا چہرہ تو پارلیمنٹ ہے جو کہ نہایت ہی کمزور ہے۔ رہی بات اوباما کی افغانیوں سے معافی مانگنے کی، تو سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی افغانستان کے اندر اب بھی فوجیں موجود ہیں اور امریکہ کا افغانستان پر فقط 20 یا 25 فیصد قبضہ ہے۔ اب امریکہ کو وہاں سے نکلنا ہے اور اب وہ صرف ایک مصلحت کی خاطر اپنی جان چھڑانے کے لیے ان کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم بھی ہوگا کہ صرف اس سال یعنی 2012ء میں 16 امریکن کو افغان ٹرینڈ آرمی نے قتل کیا ہے۔ اس کے دفتر کے اندر جا کر میجر کو قتل کیا ہے۔ امریکہ کیلئے سب سے بڑا دھچکا ہے کہ اسے وہ لوگ مار رہے ہیں جنہیں وہ خود تربیت دے رہے ہیں اور اپنا سمجھتے ہیں۔ یہ وہ مصلحت ہے جس نے امریکہ کو مجبور کیا ہوا ہے۔
 
دوسری بات یہ ہے کہ امریکن فوج اب افغانستان کے اندر بالکل تھک چکی ہے اور ان کا لڑنے کا ارادہ و جذبہ سب ختم ہوچکا ہے۔ ان کے پاس لڑنے کا اب کوئی جواز نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہی کے ایک اخبار کی رپورٹ ہے کہ 2012ء میں صرف 155 دنوں میں 154 خودکشیاں ہوئی ہیں۔ یعنی ہر روز ایک بندہ خودکشی کر جاتا ہے۔ امریکہ اب معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے معافیاں مانگ رہا ہے۔
 
امریکی عوام پوچھتے ہیں کہ 10 سالوں میں 1200 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ پاکستان کو تو انہوں نے 20 ارب ڈالر دیا ہے۔ امریکہ کا ہر سال افغانستان کے اندر تقریباً 100 ارب ڈالر خرچہ ہے۔ امریکیوں نے حقانی گروپ کا بہانہ بنا رکھا ہے کہ ان کی وجہ سے وہ یہ جنگ نہیں جیت پا رہے، باقی وہ افغانستان کے اندر جنگ جیت چکے ہیں۔ امریکہ اسی لیے تو پاکستان کے ساتھ مسائل حل نہیں کرنا چاہتا، ورنہ ایسا کیا ہے کہ آپ ان کے پاؤں پر ہاتھ رکھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شکاگو کانفرنس کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: شکاگو کانفرنس کی ناکامی کے بارے میں تو صرف یہ کہوں گا کہ ان کے جو ساتھی ہیں وہ بھی بھاگنا چاہتے ہیں۔ فرانس کے نومنتخب صدر نے اپنی الیکشن کمپین میں کہا تھا کہ میں اپنے 3355 فوجی نکالوں گا، اسی طرح کنیڈین بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نکالیں گے۔ چونکہ سب لوگ اس جنگ سے عاری ہو چکے ہیں۔ اسی لیے تو پاکستان کو انہوں نے اتنی اہمیت نہیں دی، تاکہ وہ شکاگو میں آکر کہیں ان کے حقائق نہ بیان کر دے۔ جب پاکستان کے صدر نے بولنا شروع کیا تو اس وقت انہوں نے پریس کو باہر نکال دیا۔ عوام کو گمراہ کرنے کے امریکہ کے یہ سارے اوچھے ہتھکنڈے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ہمیں صدر کو اتنا تو کریڈٹ دینا چاہئے کہ انہوں نے نیٹو ممالک میں پاکستان کے موقف کو اچھے انداز میں پیش کیا ہے اور نیٹو سپلائی کو پارلیمنٹ کی اجازت سے مشروط قرار دیا، جبکہ ماضی میں لوگ ایک فون پر ڈھیر ہو جاتے تھے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: صدر نے تو صرف اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھی، جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ موثر تقریر نہیں تھی۔ اس میں ہمیں ساری چیزیں ریکارڈ پر لانی چاہیں تھیں۔ پاکستان کا نقصان کتنا ہوا ہے۔ ہماری معیشت کا کتنا نقصان ہوا ہے، ہمارے کتنے لوگ شہید ہوئے ہیں، کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں، ہمارے قرض کتنے بڑھ چکے ہیں۔ امریکہ نے صرف چھ ارب ڈالر معاف کر کے ہمارے جائز پیسے بھی روک لیے ہیں۔ جب پریس تقریر کے وقت نہیں تھا تو بلیک آؤٹ ہوگیا۔ جو اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ سارے امریکہ کے چمچے تھے اور جو باہر تھے ان کو تو پتہ ہی نہیں چلا کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ صرف پاکستان کے صحافیوں کو پتہ چلا تھا، چونکہ پاکستان کے صحافیوں کو انہوں نے ہینڈ پیپر دے دیا تھا۔

اسلام ٹائمز: شنگھائی کانفرنس کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: شنگھائی کانفرنس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پاکستان اس کا ممبر نہیں بلکہ اس کا آبزرور سٹریٹر ہے اور ایران کا بھی یہی سٹیٹس ہے۔ اب چونکہ انڈیا امریکہ کی گود میں جا رہا ہے اور اس وقت امریکہ کے لیے اسلحے کا بڑا سپلائر انڈیا ہے۔ اس لیے شنگھائی ہمارے لیے ایک امید ہے۔ مجھے امید ہے کہ شنگھائی میں ہماری سفارتکاری سے ہمارا نمبر بنے گا اور ہم امریکہ کے اوپر اپنا دباؤ پیدا کریں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکی دباؤ میں آئے چین کو صدر زرداری نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے لئے حکومتی سطح پر قرض دینے پر رضامند کر لیا ہے۔ کیا کہیں گے اس پر۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اگر صدر نے جا کر ایران گیس پائپ لائن یا ترکی سے بات کی ہے تو یہ دونوں بہت اچھی باتیں ہیں۔ آپ دیکھیں کہ اس حکومت کو چار سال ہو چکے ہیں۔ 10 سال پہلے جنرل پرویز مشرف سے ہم یہ سنتے رہیں ہیں اور اب چار سال سے یہ سن رہے ہیں۔ ایرانیوں کا کہنا ہے کہ ہم بارڈر تک گیس لے آئے ہیں، آپ اس ٹرانسمیشن لائن کو آگے لے جائیں، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہمیں بتائیں کب ٹائم فریم ہوگا اور کب ہوگا۔ اس کے فنڈز کتنے ہیں، آپ کے پاس اتنے فنڈز موجود بھی ہیں یا کہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: ملک ریاض کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ یہ لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: ملک ریاض نے جتنے بھی کنسٹرکشن کے کام کیے ہیں اور جتنی بھی کالونیاں بنائی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کو رہائشیں ملی ہیں، لوگوں کو کاروبار ملا ہے، روزگار ملا ہے، یہ بہت ہی اچھی بات ہے، ہسپتال بھی بنایا ہوا ہے، لیکن ملک ریاض کا جو ناقابل معافی جرم ہے وہ یہ کہ فالتو پیسے کا پاکستان میں انرجی کا پلانٹ لگا دے۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ یہ صدر، وزیراعظم اور اپوزیشن کے لوگوں کو دیتا ہے۔ 

کہا یہ جاتا ہے کہ جب بے نظیر بھٹو شہید ہوئی تھیں تو اس وقت بھی بے نظیر کے پاس جو گاڑی تھی وہ ملک ریاض کی ہی تھی۔ اگر پلاٹ، کوٹھیاں اور نقد مال لوگوں کو دے رہا ہے اور ان سے فائدہ بھی لے رہا ہے، جیسا کہ یہ اقبال جرم کر رہا ہے کہ میں نے لیا، لیکن میرے کیسیز پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ آپ دیکھیں کہ امریکہ کا بل گیٹس دنیا کا مانا ہوا انٹیلکچوئل اور ایجوکیٹیڈ شخص ہے، لیکن وائٹ ہاؤس میں اس کو اتنی کھل نہیں کہ جیسے کہ ایک ان پڑھ ملک ریاض کو ایوان صدر کے اندر ہے۔ اس طرح وہ بلیک میل نہیں ہوتے۔ جب ایسا شخص صدر، وزیراعظم یا کسی بھی کو دو ارب روپیہ دے دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے تین ارب روپے کا کام نکالے گا۔ 

بڑے بڑے وکیل حامد علی خان، اعتزاز احسن جیسے اس کا کیس لڑتے ہیں کیونکہ یہ مال صحیح دیتا ہے۔ جو لوگ ملازمتیں کر رہے ہیں ان کا تو حق ہے کہ وہ اپنی ملازمت کریں، جہاں بھی کریں، چونکہ انہوں نے تو اپنی محنت سے کمانا ہے، لیکن جنہوں نے اس سے غیر ضروری فائدے اٹھائے ہیں اور مال بنایا ہے کہ آپ میرے لیے یہ کر دو تو میں آپ کے لیے فلاں کام کر دوں گا، اسی چیز کا نام تو کرپشن ہے۔ ملک ریاض کا قوم کے اوپر یہ بہت بڑا احسان ہوگا کہ وہ یہ بتا دیں کہ کس نے ان سے کتنا فائدہ اٹھایا ہے، بے شک وہ سر پر قرآن نہ اٹھائیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ادارے ملک ریاض کو استعمال کر رہے ہیں۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: میرے خیال میں اگر ادارے اس کو استعمال کر رہے ہیں تو یہ بہت ہی بڑی بدقسمتی ہے۔ چونکہ میں ایک فوج کا بندہ ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ اس وقت تک نہیں چل سکتا کہ جب تک لیڈرشپ کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کر لیتی کہ جس میں اس کا مفاد ہو۔ اب تو صرف ایک ہی ادارہ عدلیہ تھا جس کا ہر کسی کو سہارا ہے، اگر اب اس کے پیچھے بھی لگ جائیں اور اس کو تباہ کرا دیں تو باقی کیا بچ جائے گا۔ میرے خیال میں آرمی یا آئی ایس آئی بالکل اس میں مداخلت نہیں کریں گی۔ عدلیہ کو نقصان پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ چیف جسٹس کے پیچھے اسی لیے پڑے ہیں کہ حق کی آواز کو دبایا جاسکے۔ دفاعی ادارے کبھی بھی ایسے کام میں پارٹی نہیں بنیں گے، جو ملک کے مفاد کے خلاف ہو۔

اسلام ٹائمز: کیا چیف جسٹس کو اس مسئلہ کو اٹھانا چاہئے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: جی ہاں! یہ بہت ہی ضروری ہے کہ چیف جسٹس کو یہ معاملہ اٹھانا چاہیے۔ چیف جسٹس اپنے بیانات اگر کورٹ سے باہر دے تو یہ کورٹ کے احکامات نہیں کہ مانے جائیں۔ کورٹ کے باہر صرف بیان دینے یا کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جب تک کورٹ میں آکر ثبوت کے ساتھ کسی کو مطمئن نہ کریں، اس وقت تک معاملہ حل نہیں ہوتا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ چیف جسٹس نے جب مسنگ پرسن کا ذکر کیا تو چیف جسٹس کے پیچھے انٹیلی جینس تھی تو انہوں نے ان کو اس کام پر لگا دیا۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ ن کی طرف سے خاموشی ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: جی نہیں! خاموشی تو نہیں ہے، کل آپ نے چوہدری نثار صاحب کو سنا ہوگا۔ چوہدری نثار پارٹی کی ہی بات کر رہا تھا اور پارٹی نے ڈنکے کی چوٹ پر اگلے دن شہباز شریف نے مخالفت کی۔ پارٹی کا موقف یہی ہے کہ یہ صرف عدلیہ کے خلاف سازش ہے۔ ہم عدلیہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ ملک ریاض بے شک کاروبار کرے، لیکن اپنی حد میں رہے۔ ملک ریاض یہ نہ کرے کہ میں نے اپوزیشن لیڈر کو ہرانے کے لیے دو ارب روپے الگ رکھ دیئے ہیں، اس نے کیا سمجھ لیا کہ اپوزیشن لیڈر تمہیں درخواست دے کر آیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر تو ایک پائے کا سیاستدان ہوتا ہے اور اسمبلی کا منتخب شدہ رکن ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 172349
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش