0
Friday 29 Jun 2012 07:33

3 بھائیوں سمیت خاندان کے 14 افراد شہید ہو چکے، آئندہ بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، جان حسین

3 بھائیوں سمیت خاندان کے 14 افراد شہید ہو چکے، آئندہ بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، جان حسین
جان حسین ولد محمد افضل کا تعلق بنیادی طور پر پارا چنار کے قریب واقع خیواص گاؤں سے ہے، آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول کے علاوہ مدرسہ جعفریہ و مدرسہ خامنہ ای پارا چنار سے دینی تعلیم بھی حاصل کی، اور آج کل شلوزان گاؤں کے ہائی سکول میں بطور معلم عربی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ سکول سے متصل رہائشی کالونی میں شہداء کے خانوادوں کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں۔ آغا جان حسین کے 3 بھائی اور خاندان کے 14 افراد خیواص پر ستمبر 2010ء میں وزیرستان، دیگر علاقوں اور سرحد پار افغانستان سے آنے والے غیر ملکی طالبان کے دہشتگردانہ حملے اور یلغار کے دوران دفاع مقدس کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اب شہداء کے خانوادوں کے وارث اور چار بھائیوں میں سے صرف آغا جان حسین حیات ہیں۔ چونکہ آغا جان حسین خیواص گاوں پر جارحین کے حملے اور انکے مقابلے کیلئے دفاع مقدس کا عینی شاہد اور اس راہ حق میں شہید ہونیوالے شہداء کے خون کا امین ہے۔ اس لئے اسلام ٹائمز نے 4 شعبان یوم وفا اور روز میلاد غازی عباس علمدار ع کے مبارک دن کی مناسبت سے ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا، وفا اور کربلا کی راہ پر گامزن شہداء کی یادوں پر مبنی یہ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کا بنیادی تعلق پاک افغان بارڈر پر واقع گاؤں خیواص سے ہے اور آپ ستمبر 2010ء میں یہاں پر ہونے والے حملے و یلغار کے عینی شاہد ہیں، دو سال گزرنے کے بعد خیواص کے متاثرین کی حالت کیسی ہے۔؟
آغا جان حسین: پاک افغان بارڈر، تورا بورا و سپین غر پہاڑی سلسلے میں واقع ہونے کی وجہ سے خیواص گاؤں پر جیسا کہ بین الاقوامی میڈیا پر یہ واقعات رپورٹ بھی ہوئے کہ ستمبر 2010ء میں رات کی تاریکی میں وزیرستان اور دیگر علاقوں حتی سرحد پار افغانستان سے غیر ملکی طالبان کے مسلح لشکروں نے خیواص اور شلوزان تنگی میں مزارع کے طور پر رہنے والے احسان فراموش منگل قبیلے کی مدد سے یلغار و حملہ کرکے بزدلانہ فعل سرانجام دیا۔ لیکن خیواص کے غیور و بہادر افراد کے علاوہ پارا چنار کرم ایجنسی کے مختلف علاقوں سے طوری بنگش اہل تشیع نے اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کے لئے دہشتگرد طالبان اور جارحیبن کا حملہ پسپا کرکے انہیں وہ شکست دی کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔
 
اس دفاعی جنگ میں میرے تین بھائی،ضعیف خالہ اور خاندان کے دیگر چودہ افراد سمیت خیواص گاوں کے کل 33 افراد جام شہادت نوش کرگئے۔ اس کے علاوہ پارا چنار کرم ایجنسی کے گرد و نوح کے دیگر درجنوں افراد بھی خیواص پر قابض دشمن کا قبضہ چھڑانے اور دفاعی جنگ میں جام شہادت نوش کرگئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دشمن اتنا بزدل اور انسانی و اسلامی اقدار سے بے بہرہ و ذلیل ہے کہ خیواص پر حملے کے بعد ہم نے اپنے بچوں و خواتین کو قریبی گاؤں شلوزان اور دیگر علاقوں میں عزیزوں و رشتہ داروں کے ہاں بجھوایا تھا اور جوان و مرد دفاع میں مصروف تھے لیکن دشوار گزار پہاڑی سلسلہ ہونے کی وجہ سے میری 60 سال سے زائد ضیعف العمر خالہ جن کی نظر بھی کمزور تھی اور وہ جا نہیں سکتی تھیں، بزدل دشمن نے ضیعف خاتون والدہ میر علی و میر حسین پر بھی رحم نہ کیا اور انہیں دو بیٹوں سمیت شہید کر دیا۔ 

جہاں تک خیواص گاؤں کے متاثرین کا تعلق ہے تو دو سال گزرنے کے باوجود ان کے مکانات اب تک تعمیر نہیں ہو سکے اور نہ ہی ان کی معقول و مناسب امداد کی گئی۔ اس لئے وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

اسلام ٹائمز: قبائلی علاقہ جات میں متاثرین کے لئے حکومتی و غیر سرکاری سطح پر امداد کے بلند و بانگ دعوے ہو رہے ہیں، خیواص کے حوالے سے حکومتی، غیر سرکاری یا مقامی و ملی سطح کی تنظیموں کی جانب سے امداد کی کیا تفصیلات ہیں۔؟
آغا جان حسین: حکومتی و غیر سرکاری اداروں کی طرف سے خیواص کے متاثرین کی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یا اگر اسے سوتیلی ماں جیسا سلوک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، ہاں البتہ مقامی اور ملی تنطییموں میں سے مقامی انجمن، علمائے کرام اور شہید فاؤنڈیشن پاکستان کچھ حد تک تعاون و امداد کرتی رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آغا صاحب، آپ کے تین سگے بھائی اور خاندان کے 14 افراد شہید ہو چکے ہیں ان کی کچھ تفصیل بتائیے۔؟
آغا جان حسین: میرے تین بھائی دفاع کرتے ہوئے راہ حق میں شہید ہوگئے۔ میں بھی دفاعی جنگ میں ان کے شانہ بشانہ تھا، لیکن مجھے شہادت نہیں ملی۔ شاید اللہ کی یہی مرضی تھی کہ اس نے شہداء کے خانوادوں اور بچون کے لئے وسیلے کے طور پر مجھے زندہ رکھا، لیکن اگر مکتب و دھرتی جو ماں کا مقام رکھتی ہے کے حوالے سے آئندہ بھی قربانی دینا پڑے تو دریغ نہیں کریں گے، یہی کربلا کا اسوہ و سبق ہے، میرے بھائیوں کی تفصیل اور تاریخ شہادت اس طرح ہے۔ 
شہید میر علی شاہ ولد محمد افضل، عمر 42 سال، تاریخ شہادت 25 مئی 2010ء جب خیواص سے متصل شلوازن تنگی کی پہاڑیوں پر دشمن نے یلغار کی، شہید محاذ جنگ پر جام شہادت نوش کرگئے۔ شہید کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ 7 بیٹے و بیٹیاں جن میں سے دو بیٹے 12 سالہ منتظر حسین اور 6 سالہ قیصر عباس معزور ہیں، قیصر عباس اتہائی کم نظر کی عینک لگاتے ہیں جبکہ منتظر حسین آنکھوں کی بنیائی سے مکمل معذور اور ان کے علاج معالجے کی ضرورت ہے۔

شہید میر افضل ولد محمد افضل، عمر 45 سال، 16 ستمبر 2010ء کے دن خیواص پر دشمن کے حملے کے موقع پر اپنی دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ شہید کے پسماندگان میں ایک بیوہ جبکہ شہید کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

شہید میر عالم شاہ ولد محمد افضل، عمر 37 سال، آپ بھی اپنے بھائی کے ہمراہ ستمبر 2010ء کو خیواص پر دشمن کے حملے کے موقع پر اپنی دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔

اس کے علاوہ میرے بہنوئی شہید میر علی ولد مرحوم میر حیدر، عمر 35 سال بھی اپنے دوسرے بھائی میر حسین اور ضیعف والدہ سمیت جو میری خالہ بھی تھی شہید ہوگئے، شہید میر علی کی بیوہ جو میری بہن ہیں وہ بھی میرے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ الغرض صرف میرے اپنے خاندان کے 14 افراد بشمول میرے تین بھائی شہید ہو چکے ہیں اور میرے تین بھائیوں سمیت بہنوئی یعنی کل چار شہدا کے خانوادے میرے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ جن کی کفالت اور روزی تو اللہ ہی دے رہا ہے، شاید سعادت اور وسیلہ مجھے بنا دیا ہے۔ 

البتہ میں یہاں گزارش کروں گا کہ اگر کوئی شہداء کے بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت کے لئے پارا چنار یا کسی اور جگہ پر اچھے سکول میں پڑھانے کے علاوہ شہید میر علیشاہ کے معذور بیٹوں کے علاج معالجہ یا معذوروں کے سکول و اداروں میں داخل کروانے میں معاونت کرسکے تو اللہ بحق اہلبیت ع اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

اسلام ٹائمز: خیواص پر ملکی و غیر ملکی طالبان کے مسلح لشکر کے حملوں کے باوجود یہاں کا دفاع یقیناً ایک معجزے سے کم نہیں تھا، چونکہ آپ وہاں موجود تھے، لہذا اپنے تاثرات یا کوئی اہم واقعہ یاد ہے تو اسلام ٹائمز کے قارئین کیلئے بیان کریں۔؟
آغا جان حسین: خیواص کا خونیں معرکہ اور دشمن کی یلغار عصر حاضر کی کربلا تھی، میں نے اپنی آنکھوں سے خیواص کی مسجد و امام بارگاہ میں اپنی دھرتی کا دفاع کرنے والے شہداء اور زخمیوں کے خون بھرے انبار اور خون سے بھری امام بارگاہ دیکھی، لیکن اس کے باوجود کربلا کی راہ پر چلنے والے سرفروشوں نے بہادری کی ایسی مثال قائم کی کہ یزیدیت کے نقش قدم پر چلنے والے بزدل حملہ آور دشمن جو افرادی قوت اور اسلحے میں کئی گنا زیادہ قوت کے حامل تھے، اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ 

مجھے خیواص گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک بہادر شہید ریٹائرڈ صوبیدار شریف حسین کی شہادت سے بہت پہلے یہ بات یاد ہے اور یہ واقعاً معجزے سے کم نہیں۔ شہید شریف حسین کہتے تھے کہ مجھے یقین ہے کہ ایک دن خیواص اور اس سے متصل شلوزان تنگی کی پہاڑیوں سے طالبان نواز قابض و جارح افغان مینگل قبیلہ جو ہمارے آباو  اجداد کے مزارع تھے لیکن بعد میں حکومتی سرپرستی اور احسان فراموشی کی وجہ سے قابضین بن گئے تھے، کا شلوزان تنگی کی پہاڑیوں سے خاتمہ ہوگا۔ لیکن اے کاش کہ اس وقت ہم نہیں ہونگے۔ واقعاً اسی طرح ہوا۔ شہید شریف حسین اور دیگر شہداء کے مقدس خون اور مقاومت و مزاحمت کی وجہ سے ایسا ہی ہوا جیسا کہ شہید شریف حسین نے پیشن گوئی کی تھی۔ ہمارا تو عقیدہ بلکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ شہداء زندہ ہیں، اس لئے شہید شریف حسین اور اس کے دیگر شہداء ساتھی شاد و آباد رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: شہید ہونے والے اپنے 3 بھائیوں کی کچھ یادیں یا شہادت کے بعد کوئی خواب و واقعات اور شہادت کے حوالے سے تاثرات قارئین کی خدمت میں بیان کریں۔؟
آغا جان حسین: شلوازن تنگی کی پہاڑیوں اور خیواص پر دشمن کی جارحیت و حملوں کے دفاع کے لئے ستمبر 2010ء میں تیس افراد پر مشتمل ایک دفاعی گروپ کے لئے میں نام لکھ رہا تھا، جس میں میرے بھائی شہید میر افضل اور میرا نام شامل تھا۔ جب ناموں کی فہرست مکمل ہوئی اور نام پکارے گئے تو میرے دوسرے شہید بھائی میر عالم شاہ نے مجھے کہا کہ میرا نام کیوں شامل نہیں کیا؟ تو میں نے کہا کہ ایک بھائی میر علیشاہ پہلے ہی مئی 2010ء میں شہید ہوچکا اور ہم دو بھائی محاذ و مورچے کے لئے کافی ہیں، جس پر میر عالم شاہ نے کہا کہ اس میں ایک بھائی دو بھائی کی بات نہیں، دفاع ہم سب کا فریضہ ہے۔ اس لئے مجھے شہید میر عالم شاہ کا نام دوبارہ شامل کرنا پڑا۔
 
اسی طرح ایک رات گئے محاذ پر جانے کے لئے تیاری ہوئی اور اس رات میرے بھائی شہید میر عالم شاہ و میرے بہنوئی شہید میر علی امام بارگاہ کے منبر اور علم عباس ع کے قریب ہی اس وجہ سے سو گئے تھے کہ علی الصبح محاذ پر جانے والے افراد شبیہہ منبر رسول ص اور علم غازی عباس ع کی زیارات کرکے جائیں گے۔ اس لئے وہ ضرور جاگ جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ کیونکہ ان دونوں شہیدوں کو خدشہ تھا کہ دفاع کے لئے کئی راتیں محاذ و مورچوں میں گزارانے کی وجہ سے اگر وہ امام بارگاہ کے منبر کے علاوہ کسی اور جگہ سوگئے تو کہیں نیند غالب آنے کی وجہ سے وہ علی الصبح محاذ پر جانے سے رہ نہ جائیں۔

میرے تینوں بھائی ایماندار و دیندار تھے، پارا چنار شہر میں ہر سال 19 رمضان المبارک ایام شہادت امیر المونین علی ابن ابی طالب ع کی مناسبت سے یوم شہداء منایا جاتا ہے، جس میں شہداء کی تصاویر لگانے میں میرے بھائی میر افضل پیش پیش تھے اور کہا کرتے تھے کہ کتنے خوش نصیب ہیں یہ شہداء کہ جن کی یادیں تازہ ہیں، خدایا مجھے بھی شہادت کی موت عطا فرما۔ خواب بھی حالات کے عکاس ہوتے ہیں۔ جب میرے تینوں بھائی بہنوئی اور خاندان کے 14 افراد شہید ہوگئے اور ان شہداء کے خانوادے باقی رہ گئے تو بعض اوقات میں فکر مند ہوتا تھا کہ یااللہ میں کس طرح ان کی دیکھ بھال کروں گا کہ میں نے خواب میں اپنے بڑے بھائی شہید کو دیکھا، جس نے مجھے کہا کہ فکر نہ کروں صرف یتیموں کا خیال رکھو، خدا تمہاری نصرت کرے گا۔ 

اسی طرح ایک دن خواب میں مجھے شہد دے کر کہا کہ اسے یتیموں اور شہداء کے گھرانوں میں تقسیم کروں، یہ شہد ہر کسی کو نہیں ملتا۔ شہداء کی یاد اور ان کے یہ خواب مجھے تقویت و توانائی دیتے ہیں۔ شہداء نے تو راہ حسین ع پر چلتے ہوئے اپنا مشن سرانجام دیا، کاش ہم سب اپنا مشن کار زینیبی س یعنی شہداء کا مشن سرانجام دے سکیں۔ شہادت ایک فخر کا مقام ہے اور حدیث رسول ص کے مطابق شہادت ہر ایک گناہ کا کفارہ ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر قارئین اور تنظیمیں یہ انٹرویو پڑھ کر خیواص کے متاثرین اور شہداء کے خانوادوں کی مدد کرنا چاہیں، تو آپ کی نظر میں کیا ترجیحات ہونی چاہیئے، اور آپ سے رابطے کا کیا طریقہ ہے۔؟
آغا جان حسین: رزق تو اللہ دینے والا ہے، لیکن بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت فراہم کرنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ اس لئے اگر پارا چنار کی سطح پر اچھے سکولوں میں خیواص کے شہداء کے بچوں کی تمام تر تعلیمی ضروریات و وسائل فراہم ہو جائیں یا حتی پارا چنار سے باہر کے شہروں میں بھی جیسے ممکن ہو، اس کے علاوہ خیواص کے متاثرین کے لئے گھروں کی تعمیر اور رہائشی کالونی کے علاوہ سب سے اہم بات یہ کہ خیواص کے شہداء کے آٹھ گھرانے مکمل طور پر لاوارث ہوچکے ہیں، یعنی انکے پسماندگان میں صرف بیوہ باقی ہیں، اگر ان لاوراث گھرانوں کو ایران، عراق اور شام میں آئمہ معصومین و اہلبیت ع کے مزارات کی زیارات کی سعادت کے لئے لے جایا جائے، کیونکہ ان میں سے اکثر گھرانوں کی یہی خواہش و آرزو ہے تو یہ بہت بڑا اجر اور شہداء کے مقدس خون سے وفا کا نمونہ ہوگا۔ اگر کوئی شخص یا تنظیم خیواص کے متاثرین و شہداء کے خانوادوں کی مدد کرنا چاہے تو رابطے کا طریقہ یہ ہے۔
ڈاک کے ذریعے اور بعض اوقات سگنل ہونے کی صورت میں پی ٹی سی ایل ٹیلفوں کے ذریعے رابط کیا جا سکتا ہے۔
آغا جان حسین ولد محمد افضل بمعرفت رہائشی کالونی ہائی سکول شلوزان، ڈاکخانہ شلوزان، تحصیل پاراچنار، کرم ایجنسی فاٹا، ٹیلی فون نمبر برائے رابطہ: 0926،303632
خبر کا کوڈ : 175133
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش