0
Monday 23 Jul 2012 18:26

امریکہ گلگت بلتستان کو علیحدہ کرکے پاکستان کو کمزور کرسکتا ہے، فدا محمد ناشاد

امریکہ گلگت بلتستان کو علیحدہ کرکے پاکستان کو کمزور کرسکتا ہے، فدا محمد ناشاد
حاجی فدا محمد ناشاد کا تعلق اسکردو کے نواحی گاؤں حسین آباد سے ہے۔ آپ کا شمار گلگت بلتستان کے صف اول کے منجھے ہوئے سیاستدانوں، ادیبوں اور علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ گلگت بلتستان کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو بھی رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پاکستان اور گلگت بلتستان کے موجودہ حالات کے حوالے سے آپ سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی اور تجارت و سیاست میں کب قدم رکھا۔؟
فدا محمد ناشاد: فدا محمد ناشاد میرا نام ہے۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ اس کے بعد تقریباً پندرہ سال تک مختلف سرکاری ملازمتوں میں مصروف رہا۔ پھر ملازمت چھوڑ کر کاروبار کا آغاز کیا۔ پہلا کاروبار ہم نے کچھ ایجنسیاں کھول کر کیا۔ اس وقت بلتستان میں مختلف ایجنسیوں کا تصور نہیں تھا، میں نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر گھی کارپوریشن آف پاکستان، سیمنٹ ایجنسی، پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی ایجنسی اور جنرل ٹائر کی ایجنسی لی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ہم نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں قدم رکھا تو بلتستان میں ہماری کمپنی، مشہ بروم پہلی پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی تھی۔ 

بعد ازاں 1983ء میں جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو میں نے ڈسٹرکٹ کونسل کے انتخابات میں بحیثیت ممبر حصہ لیا اور اللہ کے فضل سے کامیاب ہوا۔ پھر میرے ساتھیوں نے چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل کے لیے منتخب کیا، 83ء سے 87ء تک چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل رہا، اس وقت بلتستان میں ایک ہی ضلع تھا۔ اس کے علاوہ میں مسلسل مختلف سطح پر الیکشن میں حصہ لیتا رہا اور اللہ کے فضل سے کامیاب ہوتا رہا۔ چار مرتبہ GB کونسل میں بحیثیت ممبر رہا، پھر ایک مرتبہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو منتخب ہوا اور ایک مرتبہ میں نے لیڈر آف دی اپوزیشن کی حیثیت سے کام کیا۔

اسلام ٹائمز: آپ کی علم و ادب کے حوالے سے بھی خدمات ہیں، آپ قلم کاری اور شاعری بھی کرتے ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
فدا محمد ناشاد: جہاں تک ادب میں شاعری کا تعلق ہے تو شاعری میری نہایت مختصر ہے، البتہ میرے کچھ مناقب ہیں، میں نے شعر بہت کم کہا ہے۔ میں باقاعدہ شاعری تو نہیں کرتا البتہ اللہ نے یہ صلاحیت عطاء کی ہوئی ہے کہ جب موقع ملے فی البدیہ شعر کہہ دیتا ہوں۔ تیاری کا عادی نہیں ہوں۔ ایک مرتبہ گلگت میں مشاعرہ ہوا۔ جی بی سطح کا تھا تو مجھے مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا اور اس کی صدارت شاکر شمیم صاحب کر رہے تھے، وہ بہت بڑی شخصیت ہیں۔ جب اسٹیج سیکریٹری نے میرا نام لیا اور تعارف کے دوران کہا کہ گلگت بلتستان کے نامور شاعر فدا محمد ناشاد صاحب تشریف لائیں گے۔ اس وقت میری کوئی تیاری نہیں تھی۔ اس نے شاعر کے طور پر تعارف کرایا تو شعر کہنا پڑا۔ اس وقت اللہ نے میرے ذہن میں ایک قطعہ ڈال دیا وہ یوں تھا۔

مجھ پہ الزام شاعری ہے بہت
پر کبھی شاعری میں کر نہ سکا
ذہن میں میرے چند خاکے ہیں
میں کبھی ان میں رنگ بھر نہ سکا

جہاں تک قلم کاری کا تعلق ہے تو شخصیات، اقتصادیات اور سیاسیات کے حوالے سے مختلف اخبارات و رسائل میں لکھتا رہا ہوں۔ ادبی نوعیت کے مضامین بھی لکھتا رہا ہوں۔ جب انگریزی اخبار PAKISTAN TIMES تھا تو اس میں لکھتا تھا۔ اس میں میرا ایک ہفتہ وار کوارٹر پیج کا کالم ہوتا تھا، جس کا عنوان Baltistan News تھا۔ تالیفات کے حوالے سے یہ ہے کہ حسین آباد میں ہم یوم حسین (ع) کو ہر سال شایان شان طریقے سے مناتے ہیں، اس میں علمائے کرام، دانشور حضرات اور شعراء حصہ لیتے ہیں۔ ان کے خطبات اور قصائد کو کمپائل کرکے ایک کتاب ترتیب دی ہے، گلہائے عقیدت کے نام سے۔ اس کے علاوہ جب خدا نے ایران عراق زیارت کا موقع بخشا تو ایک سفر نامہ جادہ نور کے نام سے مرتب کیا۔ آج کل ایک انگریزی کتاب سیاچن کے موضوع پر ترتیب دے رہا ہوں، جس میں انڈیا اور پاکستان کے جن قلم کاروں نے سیاچن کے موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے، ان کو جمع کر رہا ہوں۔ اس کا مسودہ تیار ہے۔ کچھ ہی دنوں میں کتاب مارکیٹ میں آجائے گی۔

اسلام ٹائمز: ملک اس وقت جن مشکل حالات سے دوچار ہے اس کا اصل سبب کیا ہے۔؟
فدا محمد ناشاد: حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں عادلانہ نظام نہ ہو، اس ملک کا حال وہی ہوگا جو ہمارے ملک کا ہو رہا ہے۔ یادداشت کے مطابق اور میرے تجربات کے اعتبار سے جس قدر موجودہ حکومت ناکام رہی ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ہم نے اس سے بھی سخت دن دیکھے ہیں، جیسے 65ء کی جنگ، 71ء کے مسائل، کارگل وار وغیرہ، لیکن جس قدر ناکام یہ حکومت رہی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ 

ظلم، ناانصافی، اقرباء پروری، لاقانونیت، رشوت، چور بازاری اور دیگر اخلاقی مسائل جو آج کل ہیں، یہ پہلے کبھی نہیں تھے۔ آج کرپشن کرنے والے کو بہادر سمجھا جاتا ہے۔ دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اسے کامیاب حکومت تو نہیں کہا جاسکتا اور جب تک عادلانہ نظام نہ ہو تو یہی حال رہے گا۔ ہم اس کی بہتری کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ گلگت بلتستان والوں کی حیثیت ملکی اور قومی سطح پر بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں پاکستان کو درپیش مشکل حالات کی ذمہ دار حکومت، سکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں ہیں یا پھر اس کی ذمہ دار عدلیہ ہے۔؟
فدا محمد ناشاد: میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم سب خود غرض ہوگئے ہیں، جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو عوام الناس اس چیز کو بھول جاتے ہیں کہ ہماری کچھ اخلاقی اور اسلامی ذمہ داریاں بھی ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ اس وقت ہم لالچ میں آکر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ مثال دیکھ لیجئے کہ گذشتہ انتخابات کے حوالے سے آپ کو بتا دوں کہ گلگت بلتستان کے الیکشن پر ہیومن رائٹس نے جو کتاب لکھی ہے اور لکھنے والا غیر جانب دار شخص ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس سے بدترین الیکشن ماضی میں شاید کبھی نہ ہوا ہو۔ ایسا ہوا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے راتوں رات فارمز تقسیم ہوئے اور یہ ایک سیاسی رشوت تھی۔ انکم سپورٹ پروگرام میں مستحق افراد کو یکسر نظر انداز کرکے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور ووٹ بینک بنایا گیا۔

اس کے علاوہ وزیراعظم گیلانی الیکشن کے دنوں اسکردو آئے تو نہ جانے کتنے وعدے کرکے گئے، لیکن اب تک کتنے وعدوں پر کام ہوا، سب آپ کے سامنے ہے۔ جبکہ نواز شریف صاحب بھی آئے، انہوں نے جو اعلانات کئے اس پر عمل ہوا۔ آج ہمارے طلباء پنجاب میں مراعات حاصل کر رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ لوگ جھوٹے وعدوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کرپٹ سیاست دانوں کو سامنے لے آتے ہیں، تو یقیناً وہ قوم کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے نہیں لوٹیں گے تو اور کیا کریں گے۔ یوں پاکستان کی موجودہ مشکلات کی ذمہ داری صرف سکیورٹی اداروں، حکومت اور عدلیہ پر عائد نہیں ہوتی بلکہ عوام بھی ذمہ دار ہے۔

اسلام ٹائمز: اس وقت امریکہ پاکستان کے معاملات کچھ زیادہ ہی دخل اندازی کر رہا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی مخالفت کرکے پاکستان ترقی کرسکے گا۔؟
فدا محمد ناشاد: دیکھیں امریکہ کو امام خمینی (رہ) نے شیطان اعظم قرار دیا ہے اور یقیناً امریکہ پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش ضرور کرے گا اور ہر طرح کے حربے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ اگر امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تو اس وقت ہر طرح کی پابندیاں عائد کرے گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو امریکہ کی مدد کے بغیر بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے پاس بہت زیادہ وسائل موجود ہیں اور اس کے علاوہ ایمانی طاقت سے دنیا کی کافر طاقتوں سے مقابلہ ممکن ہے۔
 
جیسا کہ ہمارے سامنے ایران بہترین مثال ہے کہ کتنی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں؟ لیکن ایران کمزور نہیں طاقتور ہوا۔ وہ اس لئے کہ ایرانی قوم کو یقین ہے کہ جب تک موت نہیں آئے گی، کوئی نہیں مار سکتا۔ یعنی ان کے اندر موت کا خوف نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ انسان کو اقتصادی خوف ہے۔ انہیں اس پر بھی یقین کامل ہے کہ خدا سب سے بہترین رزق دینے والا ہے، اور تیسرا یہ کہ انسان کو ذلت کا خوف ہوتا ہے، انہیں یہ بھی یقین ہے عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھوں ہے۔ اسی طرح ہم اگر اپنے اندر اسلامی سمجھ بوجھ پیدا کریں، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کریں، تو یقیناً تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امریکہ یو ایس ایڈ کے ذریعے گلگت بلتستان میں کیا اہدافات حاصل کرنا چاہتا ہے۔؟
فدا محمد ناشاد: میں یہ بتانا چاہ رہا تھا امریکہ اس وقت گلگت بلتستان میں جس تیزی کے ساتھ یو ایس ایڈ کے پردہ میں کام کر رہا ہے، وہ بہت خطرناک ہے۔ امریکہ کی بنیاد ہی شر پر مبنی ہے، انسانیت کی خدمت ان کا شعار نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہے۔ یہاں پر کئی اہداف آسانی سے امریکہ حاصل کرسکتا ہے۔ ایک تو چائنہ کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ چائنہ ان کا اقتصادی حریف ہے۔ دوم گلگت بلتستان کو علیحدہ کرکے پاکستان کو کمزور کرسکتا ہے اور پاکستان کو کمزور کرکے اسلام کو بھی کمزور کر سکتا ہے۔ 

اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں موجود قدرتی وسائل بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ لہذا ہمہ جہتی فوائد کو مدنظر رکھ کر امریکہ نے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہے۔ ہمیں ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے اور مخالفت کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ امریکہ کبھی اسلام اور پاکستان کا مخلص نہیں رہا۔ بلکہ اسلام اور پاکستان کو کمزور کرنے میں امریکہ سب سے آگے ہے۔
خبر کا کوڈ : 181403
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش