0
Tuesday 31 Jul 2012 22:56
دفاع پاکستان کونسل کا کوئی مستقبل نہیں

جے یو آئی مسلح تنظیموں کے حق میں نہیں، انہیں ہماری ایجنسیوں نے پیدا کیا، مولانا شیخ امان اللہ

جے یو آئی مسلح تنظیموں کے حق میں نہیں، انہیں ہماری ایجنسیوں نے پیدا کیا، مولانا شیخ امان اللہ
مولانا شیخ امان اللہ کا شمار جمعیت علماء اسلام (ف) کے بزرگ رہنمائوں میں ہوتا ہے، آپ صاف گو اور کھل کر بات کرنے کے عادی ہیں، آج کل آپ جے یو آئی خیبر پختونخوا کی امارت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، مولانا صاحب مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے مابین اتحاد کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں، مذہبی رہنماء ہونے کے علاوہ ملکی سیاسی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا شیخ امان اللہ صاحب کے ساتھ ملک کے موجودہ حالات، مذہبی تحریکوں کے اتحاد، بیرونی مداخلت اور مسلمانوں کو درپیش مشکلات کے تناظر میں گفتگو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے میں آپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ایک عام تاثر ہے کہ دینی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کا آپسی اختلاف رکاوٹ ہے، اس تاثر میں کس حد تک حقیقت ہے، اگر نہیں تو اتحاد کی بحالی میں پھر کون رکاوٹ ہے۔؟

مولانا شیخ امان اللہ: جناب، میرے خیال میں یہ سوال ان سے پوچھنا زیادہ بہتر ہوگا جو قریب نہیں آنا چاہتے، جہاں تک جمعیت علماء اسلام کا تعلق ہے تو ہم کھلے دل کے ساتھ پیشکش کرتے ہیں کہ ہم اتحاد کے داعی ہیں، آئیں اتحاد کریں، لیکن شرطیں تو جماعت اسلامی والے پیش کرتے ہیں، ہمارا یہ موقف ہے کہ آپ اتحاد قائم کریں پھر تمام جماعتوں کے سامنے اپنی شرائط پیش کریں، تب آپ کی شرائط مانی جاسکتی ہیں اور ان پر غور ہوسکتا ہے، لیکن اتحاد سے قبل آپ شرائط پیش کریں اور جمعیت علماء اسلام آپ کی بات مانے تو یہ بے اصول سی بات ہوگی، کیونکہ مجلس عمل میں دیگر جماعتیں بھی ہیں، صرف جمعیت علماء اسلام ہی تو نہیں ہے، تو میرے خیال میں آپ کو ان سے یہ سوال کرنا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: جب ہم نے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے سامنے یہ سوال اٹھایا تو ان کا کہنا تھا کہ مجلس عمل کی بحالی میں مولانا فضل الرحمان رکاوٹ ہیں۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: جماعت اسلامی والوں سے یہ بھی پوچھا جائے کہ کیا جمعیت علماء اسلام نے انہیں کوئی شرط پیش کی ہے؟ اگر ہم نے کوئی شرط پیش کی ہے تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی جمعیت علماء اسلام رکاوٹ ہے، اور جب آپ شرائط پیش کرتے ہیں، اور ایک شرط بھی نہیں کئی شرائط، مطلب ظاہر میں آپ کچھ بولتے ہیں اور جب آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو کچھ اور بولتے ہیں، جو آپ کی پیش کردہ شرائط ہیں وہ رکاوٹ ہیں اتحاد قائم کرنے میں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی پر جمعیت علماء اسلام کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے کہ اس نے ''بیک ڈور چینل'' کے ذریعے حکومت کے ساتھ کوئی معاملات طے کرلئے ہیں۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: دیکھیں، ایک ہوتا ہے الزام اور ایک ہوتی ہے حقیقت۔ جہاں تک جمعیت علماء اسلام کا پارلیمنٹ کے باہر اور اندر اصولی اختلاف رائے ہے، اس کا اظہار جمعیت نے کھل کر کیا ہے، اسمبلی کے فلور پر بھی اور عوام کی اسمبلی میں بھی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم نیٹو سپلائی کی بحالی کو روک نہ سکے تو آپ سوچیں کہ ہمارے پاس کتنی طاقت ہے کہ ہم نیٹو سپلائی کو روکیں۔ اس کا مطلب تو پھر ایک کھلی جنگ کرنا ہے، اور ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنی ریاست کیخلاف مسلح کارروائی کریں اور بزور شمشمیر اسے روکیں، یہ نہ ہماری پالیسی ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل (جس کے مرکزی سیکرٹری جنرل آپ ہی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے حافظ حسین احمد ہیں) کے احیاء کے بعد اب تک اس کے کئی اجلاس ہوچکے ہیں، تاہم مولانا فضل الرحمان صاحب نے ابھی تک شرکت نہیں کی، کیا مستقبل قریب میں مولانا صاحب اجلاسوں میں شریک ہونگے یا پھر انہیں اس حوالے سے کوئی تحفظات ہیں۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: ملی یکجہتی کونسل کے جہاں تک اغراض و مقاصد کا تعلق ہے تو وہ مذہبی ہم آہنگی قائم کرنا، بھائی چارگی پیدا کرنا، فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے، اور یہ جمعیت علماء اسلام کے بھی اغراض و اہداف ہیں، ہم اس حوالے سے بالکل متفق ہیں، جہاں تک بات ان کے ساتھ مل کر چلنے کی ہے تو جیسا کہ آپ نے خود فرمایا کہ ہمارے حافظ حسین احمد صاحب اس کے جنرل سیکرٹری ہیں اور وہ اس اتحاد کے ساتھ باقاعدہ چل بھی رہے ہیں، اگر ہمارے مولانا صاحب (مولانا فضل الرحمان) کی ضرورت پڑے اور ان کو بلایا جائے تو وہ بھی حاضر ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں اسلحہ کے زور پر اپنی سوچ مسلط کرنے، فرقہ واریت پھیلانے اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی کوششیں کرنے والی تنظیموں کے حوالے سے جمعیت علماء اسلام کی کیا پالیسی ہے۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: جمعیت علماء اسلام کی پالیسی واضح ہے کہ ہم ریاست کے اندر یاست قائم کرنے کے قائل نہیں ہیں، ایک ایسے فتنے کو برپا کرنا کہ جس کا پھر کوئی حل نہ نکل سکے، ہم اس کے ہرگز قائل نہیں، باقی چھوٹی چھوٹی ایسی جو تنظیمیں ہیں جن سے جمعیت علماء اسلام روز اول سے اتفاق نہیں رکھتی، اور جنہوں نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ہماری خفیہ ایجنسیاں ہیں، یعنی کسی گمنام سی شخصیت کو وہ اتنا ابھارتے ہیں کہ جیسے وہ بہت بڑی شخصیت ہے اور پورا پاکستان اس کے پیچھے ہے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، پھر کچھ عرصہ بعد وہ شخصیت غائب ہو جاتی ہے، کیونکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، ہماری ایجنسیاں ہی یہ کردار ادا کر رہی ہیں، ہماری ایجنسیاں ملک پر رحم کریں اور ایسی سازشیں ختم کر دیں کیونکہ ملک اب ایسی چیزوں کا متحمل نہیں سکتا۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب جمعیت علماء اسلام دفاع پاکستان کونسل کا حصہ کیوں نہیں بنی۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: جو لوگ دفاع پاکستان کونسل میں شامل ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کا کردار نہ اس ملک کی سیاست میں تھا اور نہ ہے، وہ ایجنسیوں کے پلیٹ فارم سے یہاں آئے ہیں، ہم مذہبی اور سیاسی جماعت ہیں، پہلے روز سے ہی ہمارے ان لوگوں کے حوالے سے تحفظات تھے، اس وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل کو معروضی حالات کی وجہ سے عمل میں لایا گیا ہے، آپ خود سوچیں کہ اس میں جو جماعتیں اور افراد شامل ہیں ان کے پیچھے کوئی عوامی سپورٹ نہیں ہے، صرف پیسے کے بل بوتے پر انہیں سپورٹ کیا جا رہا ہے، چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا ہے، اور اس کا کوئی مستقبل نہیں، ایک دور وہ تھا کہ انہوں نے دفاع افغانستان کونسل بھی بنائی تھی اور پھر افغانستان کا بیڑہ غرق کر دیا تھا، ہمیں ڈر ہے کہ اب جو انہوں نے دفاع پاکستان کونسل بنائی ہے تو کہیں یہ پاکستان کا بیڑہ غرق نہ کر دیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان آٹھ، دس سال سے دہشتگردی کی شدید لپیٹ میں ہے، اور اب گزشتہ کچھ عرصہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھی سبوتاژ کرنے کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، آپ کے خیال میں ان دونوں اقسام کی دہشتگرد کارروائیوں میں کون ملوث ہے۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: دیکھیں، ہمارے ملک کے اندرونی حالات حکمرانوں کے کنٹرول میں ہیں نہ ہی بیرونی حالات۔ ہمارے ملک پر بیرونی طاقتیں اپنی مرضی مسلط کرتی ہیں، اور ہمارے حکمران ان کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں، پھر کبھی وہ اپنے عوام کو ذبح کرتے ہیں، کبھی ان کے خلاف آپریشن کرتے ہیں، کبھی فرقہ واریت پھیلائی جاتی ہے، یہ جو ملک غیر مستحکم ہے، ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے ہے، اور ہم اس کو ملک اور قوم کے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب برما میں ہونے والے ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام پر ذرائع ابلاغ، عالمی اداروں اور بعض بے حس مسلم ممالک کی خاموشی پر آپ کیا کہیں گے۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس حوالے سے آگے ہونا چاہئے تھا، کیونکہ یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ برما میں انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے، ایک مخصوص فرقہ کو بیرونی قوتیں سپورٹ کر رہی ہیں، اور بے چارے مسلمان قتل ہو رہے ہیں، کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا، کوئی ان کے سر پر ہاتھ نہیں رکھ رہا، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس پر خاموش ہیں۔ میڈیا کو بھی اس حوالے سے اچھا کردار ادا کرنا چاہئے تھا، اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے اور ہمدردی کی فضاء پیدا کرتے، میڈیا والے بھی اس حوالے سے ٹھیک نہیں کر رہے اور جہاں تک عالمی طاقتوں کی بات ہے تو وہ تو اسی کے پیچھے لگی رہتی ہیں کہ جہاں بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش ہو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: عرب دنیا میں انقلاب کی بہار کو جمعیت علماء اسلام کیسے دیکھتی ہے اور وہ عرب ممالک جہاں امریکی مداخلت ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: عرب ممالک میں اپنا انداز حکمرانی ہے، اس وقت تک وہ اپنی حکومتیں ٹھیک ٹھاک طریقہ سے چلا رہے تھے، ٹھیک ہے کہیں نہ کہیں مسائل ہوتے ہیں لیکن یہ اس کے متقاضی نہیں کہ وہاں کی حکومتوں کے خلاف ایسی فضاء قائم کی جائے کہ اس کی بساط الٹ دیں اور اس کے نتیجے میں جو فسادات ابھرتے ہیں پھر اس کا حل کسی کے پاس نہیں ہوتا، عالمی طاقتوں کو خدارا اپنی سازشیں روکنی چاہیئں اور انسانیت پر رحم کرنا چاہئے، وہ اپنے معمولی مفادات کی خاطر بڑا جرم کر رہے ہیں۔

عرب حکومتیں ٹھیک ٹھاک چل رہی ہیں، وہاں کے عوام مطمئن ہیں، وہاں کے حالات پرامن ہیں، کیوں ایسے لوگوں کو یہاں لایا جاتا ہے جو ایک دو مسائل کو ہاتھ میں لیکر اچھالتے ہیں، اقتدار میں ہر کسی کا شامل ہونا ضروری نہیں، اصل بات یہ ہے کہ حکومت اور عوام ٹھیک چل رہے ہوں، پاکستان میں جمہوریت ہے، ہر کوئی صدر اور وزیر اعظم بن سکتا ہے، وہاں بھی ایک نظام ہے اور وہ چل رہا ہے، ٹھیک ہے کہ کچھ مخصوص لوگ وہاں پر حکمرانی کرتے ہیں، لیکن جب وہ ٹھیک طریقہ سے معاملات کو چلا رہے ہیں تو انہیں چلنے دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سے امریکی مداخلت کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات تجویز کریں گے۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ دنیا کا ''بڑا'' ہے۔ پاکستان ایک ملک ہے اور اس کا اپنا مزاج، ثقافت اور مذہب و عقیدہ ہے، اگر امریکہ اس میں مداخلت کر رہا ہے اور اپنے مفادات کیلئے یہاں انتشار اور خلفشار پیدا کر رہا ہے تو یہ امریکہ کے حق میں بہتر نہیں ہے، جہاں تک امریکی مداخلت کو روکنے کا سوال ہے تو اسے ہم ایسے روک سکتے ہیں کہ ہمارے ادارے ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دیں، یہاں سیاسی اور فوجی طاقتیں یکجان ہوں، تب ہم بیرونی مداخلت سے آزاد ہوسکتے ہیں، ہماری اپنی صفوں میں سے امریکہ کی آشیر باد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہمارا ملک روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال یہ کہ جمعیت علماء اسلام آئندہ انتخابات میں کسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصہ لے گی یا پھر اپنے طور پر الیکشن لڑا جائے گا۔؟
مولانا شیخ امان اللہ: ہماری تو حتی الامکان کوشش ہے کہ کم از کم مذہبی جماعتیں ایک فورم پر متحد ہو کر الیکشن لڑیں، اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا جیسا کہ ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش بھائی ایسا نہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، تو پھر ظاہر ہے کہ ہم نے الیکشن تو لڑنا ہے، ہم میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے، یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ جماعتیں جن کا منشور اور پالیسی ہم سے کچھ قریب ہے تو ان سے اتحاد کیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 183884
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش