0
Friday 17 Aug 2012 03:35

فلسطین کا مسئلہ سردخانے سے نکل کر اب ایک عالمی ایشو بن چکا ہے، مولانا غلام حسین

فلسطین کا مسئلہ سردخانے سے نکل کر اب ایک عالمی ایشو بن چکا ہے، مولانا غلام حسین

عالی جناب مولانا شیخ غلام حسین متو 1994ء سے ایران میں میں زیر تعلیم ہیں، فعلاً مطہری فکری و ثقافتی مرکز جموں و کشمیر میں اپنی مصروفیت انجام دے رہے ہیں، اور مقبوضہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں اپنی دینی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا غلام حسین متو سے یوم القدس کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، آئیے موصوف سے ہم کلام ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اولاً ہم اسلام ٹائمز کے قارئین کرام کے لئے آپ کا تعارف و مصروفیت جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام حسین متو: میں ایک چھوٹا سا طالبعلم ہوں۔ اس وقت حوزہ علمیہ قم میں زیر تعلیم ہوں اگرچہ اس گلستان علم و معرفت سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، لیکن کبھی کبھی اگر توفیق ملتی ہے عوام کے درمیان تبلیغی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کرتا ہوں اور اس کے علاوہ وادی کشمیر میں اسلام ناب محمدی (ص) کی تبلیغ و ترویج میں مشغول علماء، دانشور اور مخلص جوانوں نے غلطی سے مجھے بھی اس لائق سمجھا اور انھوں نے مجھے بھی اپنی صفوں میں جگہ دی اور ان کے کاموں میں مختصر سا تعاون میرا رہتا ہے، جس پر میں خدا کا مشکور اور ان دوستوں کے میرے بارے میں حسن نیت رکھنے پر ان کا بھی شکر گزار ہوں۔

اسلام ٹائمز: کیا اہمیت و افادیت ہے یوم القدس کی۔؟
مولانا غلام حسین متو: اس عظیم دن کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہمیں خود رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) کے نورانی بیانات سے ہوتا ہے، آپ ہی اس عظیم دن کے احیاء کرنے والے اور اس کی ندا دینے والے تھے۔ آپ نے متعدد مقامات پر اس دن کی اہمیت کے بارے میں فرمایا کہ یوم القدس اسلام کی حیات کا دن ہے، یوم القدس یوم الاسلام ہے، روز قدس روز اسلام ہے، روز قدس روز قرآن ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ روز قدس ایک عالمی دن ہے یہ دن دنیا کے کمزور انسانوں کا مستکبریں کے خلاف قیام کا دن ہے۔ یہ دن اسلام کی حیات کا دن ہے، یہ وہ دن ہے جس میں ہمیں دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کو یہ چیلنج کرنا ہے اب اسلام تمہارے اور تمارے پلید نوکروں کے قبضہ میں نہیں آنے والا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں امام خمینی (رہ) نے جمعة الوداع کو یوم القدس کے طور منانے کا اعلان کیا۔؟ کیا راز پنہاں ہے اس حکم میں۔؟
مولانا غلام حسین متو: صہیونیزم کے نام پر جب یہودیوں نے دنیا خصوصاً عالم اسلام پر قبضہ کا منصوبہ بنایا اور انھوں نے اپنے منحوس عزائم کا آغاز فلسطین کے قبضہ سے شروع کیا اس وقت عالم اسلام خواب غفلت میں تھا اور مسلمانوں کو یہودیوں کے منصوبہ کا اندازہ بھی نہیں تھا۔ امام خمینی (رہ) دنیا کے ان استثنائی رہبروں میں سے تھے جنھوں نے بہت ہی باریک بینی سے یہودی منصوبوں کو سمجھ لیا تھا۔ آپ نے ان کے عالم اسلام کے تئیں منحوس عزائم کا بخوبی اندازہ لگا لیا تھا۔ اس وقت ضرورت تھی عالم اسلام بھی صہیونی ارادوں کے خلاف ایک عالمی تحریک شروع کرے۔ جس کے ذریعہ ایک طرف مسلمان ان کے عزائم کے بارے میں باخبر ہوں اور ساتھ ہی ان منصوبوں کو ناکام بنانے کے خلاف ایک عالمی عوامی تحریک شروع ہو۔
 
میں عالمی عوامی تحریک اس لیے کہتا ہوں کیوں کہ امام خمینی (رہ) جانتے تھے کہ عالم اسلام کے حکمران یہودیوں کے پنجہ میں گرفتار ہیں اور آپ عالم اسلام کی نجات امت اسلامی کی بیداری میں دیکھتے تھے۔ آپ نے یہودیوں کے عزائم کے بارے میں فرمایا کہ یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ بڑی طاقتوں کا مقصد صرف مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام پر ختم نہیں ہوگا بلکہ ان کے عزائم تو یہ ہیں کہ تمام عرب ملکوں کا حشر وہی کریں جو انھوں نے فلسطین کا کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: جمعة الوداع کو یوم القدس کے طور پر مناکر ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔؟
مولانا غلام حسین متو: یوم القدس مناکر ہم چند باتیں ثابت کرنا چاہتے ہیں: ایک یہ کہ ہمارا دینی شعور انفرادی ہی نہیں اجتماعی بھی ہے، دوسرا یہ کہ ہم مسلمانوں کے مسائل سے لاپرواہ نہیں ہیں، تیسرا یہ کہ ہم اس عالمی عوامی تحریک کا حصہ ہیں جو اس وقت دنیا میں ولی فقیہ کی قیادت میں صہیونی منصوبوں کے خلاف جاری ہے، چوتھا یہ کہ ہم امام خمینی (رہ) اور اپنے وقت کے ولی فقیہ کی آواز پر لبیک گو ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا یوم القدس کے نتیجے میں صہیونی طاقتوں کو کوئی خطرہ لاحق ہورہا ہے۔؟
مولانا غلام حسین متو: بہرحال یہ اسی عالمی عوامی تحریک ہی کا نتیجہ تو ہے کہ فلسطین کا مسئلہ سردخانے سے نکل کر اب ایک عالمی ایشو بن چکا ہے اور یہ اسی عالمی عوامی تحریک کا نتیجہ ہے کہ عین اس وقت جب بڑی طاقتیں فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں مطمئن ہوچکی تھیں کہ اب یہاں عوامی مزاحمت دم توڑ چکی ہے فلسطین اور لبنان میں حماس اور حزب اللہ کی صورت میں مزاحمتی تحریک نے جنم لیا۔ اور بہت ہی کم وقت میں اسرائیل کو دو جنگوں میں تاریخی شکست سے دوچار کیا، اور ان دو عوامی تحریکوں نے اسرائیل کو ایسی ھزیمت سے دوچار کیا کہ عرب ملکوں کی ریگولر فوج بھی وہ کام نہیں کر سکی۔

اس کے علاوہ اسی عوامی تحریک کا نتیجہ ہے کہ یہودیوں کا ’’نیل سے فرات‘‘ تک کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، یہ اسی عوامی مزاحمت کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل حماس کے ہاتھوں اسیر ایک مردہ فوجی کے مقابلہ میں چار سو فلسطینیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوا۔

اسلام ٹائمز: اقوام عالم خاص طور پر اسلامی ممالک کی کیا کاوشیں رہیں ہیں بیت المقدس کو آزاد کرانے میں۔؟
مولانا غلام حسین متو: نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ایک دو ملکوں کو چھوڑ کر اکثر اسلامی ملکوں کا فلسطین کے بارے میں کردار بالکل منفی رہا ہے۔ سعودی عرب ہی کو لیجیے وہاں کے مذہبی پلیٹ فارموں پر آپ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف ایک کلمہ بھی نہیں بول سکتے۔ ترکی کو لیجیے جس کو اس وقت عالمی اسلام کی قیادت کا بڑا شوق ہے اور اس وقت اپنے کو عالم اسلام کا ایک نمبر کا لیڈر بنا کے پیش کرتا ہے اس ترکی کا سب سے بڑا تجارتی شریک اسرائیل ہے اور اسرائیل کی بہت ساری ضروریات ترکی پوری کرتا ہے اور یہی ترکی ہے جو اس وقت اس ملک کے خلاف نبرد آزما ہے جو اسرائیل کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کون سا اسلامی ملک فلسطینی عوام اور فلسطینی کاز یا پھر بیت المقدس کی رہائی کے لئے سب سے زیادہ حمایت کرتا ہے اور کیوں۔؟
مولانا غلام حسین متو: فلسطین کے مسئلہ کو سرد خانے سے نکال کر ایک عالمی اور عوامی مسئلہ بنانے میں امام خمینی (رہ) امام خامنہ مدظلہ اور جمہوری اسلامی ایران کی سیاسی و مذہبی قیادت کا بنیادی رول رہا ہے۔ اس ملک اور وہاں کی قیادت نے اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے اس مسئلہ کی بھرپور حمایت کی اور اپنی خارجہ پالسی کا حصہ بنایا، مالی، اخلاقی اور سیاسی حمایت کے علاوہ اس ملک کی قیادت کے علاوہ کونسا ملک ہے جو انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر مسئلہ فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔ توحید کا دم بھرنے والے اور شرک کے فتوے صادر کرنے والے جب یو این او میں جاتے ہیں تو اپنے آقاؤں کی کاسہ لیسی کے علاوہ کیا کرتے ہیں لیکن ایران کی سایسی قیادت جب بھی اس انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر ظاہر ہوئی فلسطین کے مسئلہ پر یورپ و امریکہ کو ہر بار چیلنج کیا اور ان کے دہرے معیار پر ان کی سر زنش کرتی رہی۔۔

اسلام ٹائمز: فلسطینی مظلومیت اور اسرائیلی جارحیت کو آپ کن الفاظ میں بیان کریں گے۔؟
مولانا غلام حسین متو: یہاں پر میں عالم اسلام کے عظیم فکری رہنماء استاد شھید مطھری (جو خود مسئلہ فلسطین کو احیاء کرنے میں پیش پیش تھے) کا ایک قول نقل کرتا ہوں جس سے فلسطین کی مظلومیت اور یھودیوں کی بربریت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم لوگ غافل ہیں۔ خدا کی قسم جس ایک مسئلہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے دل کو خون کیا ہے یہی مسئلہ ہے جس واقعہ نے امام حسین علیہ السلام کے دل کو خون کیا ہے یہی فلسطین کا مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت اور یہودیوں کی جارحیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک وہ مسئلہ جو اس صدی کے دامن پر بدنماء داغ ہے اور اس صدی کے کارناموں کو (وہ صدی جس کو جھوٹ میں حقوق بشر، آزادی اور انسانیت کی صدی کا نام دیا گیا ہے) تاریک کر رہا ہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہے۔ اس عظیم فکری رہنماء کے بیان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطین کے عوام کس مظلومیت میں ہیں اور وہاں پر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کس طرح جاری ہے۔

خبر کا کوڈ : 187989
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش