0
Friday 17 Aug 2012 07:46
عرب حکمران امریکہ کے تابع ہیں

فلسطینیوں پر ظلم سے انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں، حمید گل

فلسطینیوں پر ظلم سے انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں، حمید گل
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی امور پر اُن کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، جنرل حمید گل اس وقت دفاع پاکستان کونسل کے چیف کوآرڈینیٹر ہیں، اسلام ٹائمز نے قبلہ اول کی آزادی سمیت، ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر اُن سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: یوم القدس اور فلسطین کی آزادی کی کیا اہمیت ہے اور مسلم امہ کو اس پر کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔؟
جنرل حمید گل: اس مسئلے کے تین پہلو ہیں، پہلا تو یہ کہ یہ مذہبی پہلو ہے، دوسرا سیاسی جبکہ اس کا تیسرا پہلو ہیومن رائٹس ہے، یعنی بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ جمہوری قدریں جس کا مغرب دعوے دار ہے، اس کے باوجود فلسطین میں جو ظلم ہو رہا ہے، وہ میرے خیال میں تاریخ میں سب سے بڑا ظلم ہے جو مسلسل جاری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ مذہبی ہے، یعنی مذہبی طور پر تینوں بڑے مذاہب جو آج دنیا کے اندر رائج ہیں، تینوں کا منبع اور جائے پیدائش (اسلام، عیسائیت، یہودیت) وہیں پر ہے۔ لہٰذا جہاں تک عبادت کا تعلق ہے، اس کے لیے تو تینوں کے لیے بہت اہم جگہ ہے۔ مسلمانوں کے لیے بھی بہت اہم جگہ ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے، اس کی طرف منہ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ فلسطین انبیاء (ع) کی سرزمین ہے۔ رسول پاک (ص) جب معراج پر گئے تو فلسطین میں بھی تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب ہمارے عقائد کا حصہ ہیں۔ یہ مذہبی پہلو ہے۔ 
فلسطین کی سرزمین ہمارے لیے بہت مقدس جگہ ہے۔
 
بہرحال اس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ پہلے جب عیسائیوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے یہودیوں کو نکال دیا، وہاں پر ایک بھی یہودی موجود نہیں تھا۔ جب مسلمان لشکر وہاں گئے۔ یروشلم پر مسلمانوں نے قبضہ کیا تو اس کے بعد وہاں پر ایک بھی یہودی نہیں تھا اور ان کو اپنی عبادت گاہوں میں آنے کی، دیوار گریہ سے اوپر سے آنے کی اجازت ہوتی تھی۔ جب مسلمان وہاں پہنچے تو اس علاقے کی یہ صورتحال تھی۔ اب جب مسلمان وہاں پہنچے تو اس سے مراد یہ ہوا کہ وہاں پہلے سے کوئی مسلمان آباد نہیں تھا بلکہ وہاں سب عیسائی رہتے تھے۔ اب جب مسلمان وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ آپ کون لوگ ہیں اور یہاں پر کیوں آئے ہیں۔ جواب میں مسلمانوں نے بتایا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اللہ کے بندے ہیں۔
 
عیسائیوں کے راہب نے یہ شرط لگائی کہ آپ کا خلیفہ آئے، پھر ہم اس کو دیکھیں، پہچانیں، پھر ہم یہ سمجھتے ہوئے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے یہ کہا تھا کہ میرے بعد آنے والا اصل دین لیکر آئے گا۔ بہرحال ان کی کتاب آسمانی میں ساری شہادتیں موجود تھیں۔ حضرت عمر رضی تعالٰی عنہ وہاں ایک طویل سفر کرکے پہنچے، جب حضرت عمر پہنچے تو انہوں نے کہا کہ ہاں تم ہی اصل وارث ہو، حضرت عمر کو انہوں نے پہچان لیا۔ چنانچہ وہاں ایک مذہبی معاہدہ ہوا تھا کہ تم وارث ہو اور یہاں آ کر تم اس کی نگہداشت سنبھال لو۔ یروشلم جنگ کے ذریعے فتح نہیں ہوا تھا بلکہ یہ ایک معاہدے کے تحت سارا کام ہوا تھا۔ وہ معاہدہ سیاسی معاہدہ نہیں تھا۔
 
القدس کو تینوں کتب (توریت، انجیل، قرآن) کی روشنی میں ایک معاہدے کے تحت انہوں نے مسلمانوں کے حوالے کیا تھا۔ جب نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے حضرت عمر رضی تعالٰی عنہ سے کہا کہ آئیں اور نماز ادا کریں۔ حضرت عمر نے کہا کہ نہیں میں یہاں نماز نہیں پڑھوں گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے سے بعد آنے والے لوگ اس جگہ پر قبضہ نہ کر لیں، یعنی برداشت اور رواداری کا یہ تقاضا نہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر نے حیرت انگیز بات کی، وہ یہ کہ حضرت عمر نے کہا کہ یہاں پر یہودیوں کی بھی عبادت گاہیں ہیں، ان کو اجازت کیوں نہیں، ان کو بھی یہاں آنا چاہیے۔ 

چنانچہ باقاعدہ ایک حکم دیا گیا کہ یہودی آئیں اور باقاعدہ اپنی عبادت گاہوں میں آ کر اپنی عبادت انجام دیں۔ حیرت انگیز طور پر 90 یہودی خاندانوں کو دعوت دی گئی کہ یہاں پر آ کر رہائش اختیار کریں۔ یعنی وہ لوگ جو وہاں سے نکال دیئے گئے تھے، ان کو دوبارہ وہاں پر آباد کرنا یہ صرف مسلمانوں کا ہی ایک کمال ہے۔ اس روایت کے مطابق کہ یہ دین تسلسل ہے، یہ دین ابراہیمی ہے۔ جتنے بھی ادیان گزرے ہیں وہ سب دین ابراہیمی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ پس یہ کام ایک معاہدے کے تحت ہوا۔

اس کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ وہاں ایک تحریک چلی۔ 1898ء میں یہودیوں نے سوئٹزرلینڈ کے اندر ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا اور ایسی ریاست کہ جب وہ اللہ کے بہت نزدیک ہوا کرتے تھے، اس وقت اللہ تعالٰی نے ان کو بہت نعمات سے نوازا تھا۔ پس ان یہودیوں نے وہاں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدوجہد شروع کر دی۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم گزریں۔ پہلے یہودی حضرات نے بہت پیسہ خرچ کیا اور بہت سرمایہ لگایا۔ وہاں پر یہودیوں نے جو جنگیں کروائیں، لہٰذا یہ بھانپ لیا گیا تھا کہ یہودی تکلیف پہنچاتے ہیں، جنگیں کرواتے ہیں۔
 
مغربی اقوام نے اس کے اوپر جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ‘‘فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں۔’’ بس فرنگ کی جان کو یہودیوں نے اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا، پیسہ اور سرمایہ لگا کر ان کی جنگیں کراتے تھے۔ یہ داستانیں بہت لمبی ہیں۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ اس سے جان چھڑانی تھی۔ یورپی ممالک یہودیوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے، یورپی ممالک کہتے تھے کہ یہ کسی طریقے سے یہاں سے رخصت ہوں اور ان کا کوئی اور ہدف ان کو دے دیا جائے۔ 

قیصر نے تو یہاں تک ان کے بارے میں کہا کہ جب میں تاریخ پڑھتا ہوں تو میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ کیسا ایک عجیب و غریب حادثہ ہے کہ کرائم اور انٹی کرائم ایک ہی قوم میں پیدا ہوئے ہیں۔ یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کے خلاف اینٹی۔ حضرت عیسٰی (ع) تو پیدائشی یہودی تھے اور پھر انٹی کرائم یہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ غلط ہے۔ بدقسمتی سے سلطان عبدالحمید نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ تم زمینیں خرید سکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی زمینیں خریدیں، لیکن ان کا بنیادی مقصد و ہدف یہ تھا کہ وہاں پر اپنی رہائش اختیار کر لیں اور ایک ریاست بنا سکیں۔ ایک ناجائز ریاست کا قیام ان کا بڑا ہدف تھا۔ 

پہلی جنگ عظیم کے بعد 1927ء میں برطانیہ کے وزیراعظم بلفور نے اس کو قبول کیا۔ انہی دنوں میں تحریک پاکستان جنم لے رہی تھی۔ ایک طرف خلافت ختم ہوئی اور ان کو خلافت کے ختم ہونے سے موقع مل گیا۔ انہوں نے اپنا جال پھیلانا شروع کر دیا اور اپنا سیاسی مطالبہ لے کر آگئے کہ ہمیں بھی ایک ریاست ملنی چاہیے اور کیونکہ یورپ ان سے جان چھڑانا چاہتا تھا، لہٰذا یورپ والوں نے فوراً کہا کہ ہم آپ کو الگ ریاست دینے کے لیے تیار ہیں۔
 
سلطان عبدالحمید صاحب نے ان کو زمینیں خریدنے کی اجازت دیدی تھی۔ ان کے پاس پیسہ بہت زیادہ تھا، انہوں نے غریب کسانوں سے زمینیں خرید لیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ وہاں پر ریاست بنائیں گے۔ آخرکار یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا۔ یہاں پر میں ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا پاکستان سے کیا تعلق ہے۔؟ جب بلفور ڈیکلریشن آئی اور پاکستان کی تحریک زوروں پر پہنچی تو انہی دنوں میں قائداعظم نے ان کے خلاف بہت سی قراردادیں منظور کی۔ اگر آپ مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادیں دیکھیں تو جتنی پاکستان کے حق میں آئی ہیں تو اتنی یا اس سے بھی زیادہ ان کے خلاف آئی ہیں۔
 
جب پہلی دفعہ موتمر اسلامی وجود میں آئی اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی اس کے سربراہ بنے، اس کے نائب صدر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال تھے۔ جب ہماری یہاں سے تحریک خلافت ختم ہوئی تو محمد علی جوہر جیسے اشخاص ان کے ہیڈ تھے۔ محمد علی جوہر فلسطین منتقل ہوگئے اور ان کی قبر آج بھی فلسطین میں ہے۔ یہ پاکستان کا تعلق ہے۔ قائداعظم نے تو یہاں تک کہا کہ اسرائیل حرامی بچہ ہے۔ پھر قائداعظم نے یہاں تک کہا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آئے گا اور پاکستان کا بچہ بچہ اس ناجائز ریاست سے ٹکڑائے گا، تاکہ یہ پاش پاش ہو جائے۔ یہ ہماری تاریخ کی بہت اہم باتیں ہیں۔ پس ہمارا فلسطین کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ سیاسی پہلو ہے۔

یہ لوگ یہودی نہیں ہیں، یہودی پیدا ضرور ہوئے مگر یہ لوگ یہودی کہلانے کے قابل نہیں، بلکہ یہ لوگ صہیونی ہیں۔ یہودی تین قسم کے ہیں۔ یہودی کی پولیٹیکل فارم ہے۔ جیسا کہ کہتے ہیں کہ پولیٹیکل اسلام۔ اس کے علاوہ باقی تمام یہودی گروہ اس صہیونی گروہ کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے، ان کے فلسفے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کیونکہ ہم نے اللہ سے رخ موڑ لیا تھا، اس لیے ہمیں ایک ریاست بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے ایک ریاست بنائی اور مغرب نے ان کی اس لیے مدد کی کہ ایک طرف تو ان سے جان چھڑانا چاہتے تھے جبکہ دوسری جانب وہ جنگوں سے اس طرح تھک چکے تھے کہ وہ کہتے تھے کہ ان کی ایک ایسی آؤٹ فورس بنا دی جائے۔ اب جب یورپی طاقتیں بالخصوص برطانیہ کمزور ہوئیں تو یہ بیڑہ امریکہ نے اٹھا لیا۔
 
اس وقت تک 1945ء میں ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ ظلم کیا اور ان کو وہاں سے نکالا۔ مسلمانوں نے تو ان سے ظلم نہیں کیا بلکہ مسلمانوں نے تو انہیں پناہ دی تھی۔ یہ ایک لمبی داستان ہے کہ یہ کیسے سپین سے نکل کر آئے، ترکی نے ان کو کیسے پناہ دی اور بہت سارے ایسے معاملات ہیں۔ بہت سارے یہودی یورپ سے امریکہ میں منتقل ہوگئے۔ بالخصوص جرمنی سے امریکہ منتقل ہوئے اور امریکہ میں انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا سکہ جما لیا۔ نتیجتاً 1945ء میں جب امریکہ مغرب کی سب سے بڑی شناخت بن کر ابھرا تو یہودی ان کے ساتھ منسلک ہوگئے جو کہ ان کا پرانا طریقہ کار تھا۔ ان کا پرانا طریقہ کار، ان کی پرانی پالیسی یہ ہے کہ وقت کی جو اہم ترین طاقت ہے اس کے ساتھ نتھی ہو جاؤ۔ اس کے بعد یہ ہمارے ساتھ نتھی ہوگئے تھے۔ یعنی میثاق مدینہ پر دستخط کئے تو یہودیوں نے کیا، انہوں نے ہمارے خلاف بھی ایسے اقدامات کئے۔ اب یہ سارا سلسلہ چل کر اپنی آخری منزل پر پہنچا ہوا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: عربوں کی تعداد اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ممالک اسرائیل کے جرائم پر خاموش ہیں۔؟
جنرل حمید گل: جی بالکل میں اسی طرف آ رہا ہوں، امریکہ جمہوریت کی بات کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی بات بھی آپ کو پتہ ہی ہوگی۔ ایک ریاست آپ نے بنائی، اس کے آپ نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ غزہ پٹی الگ کر دی، جورڈن الگ کر دیا۔ انوار سادات نے قبضہ کر لیا، اس کے مارے جانے کے بعد حسنی مبارک آیا، اسی طرح یہ سارا سلسلہ چلتا رہا۔ انہوں نے پوری فلسطین کی ایک ریاست کو بالخصوص غزہ کی پٹی کو ایک کیمپ بنا دیا، نہ کوئی وہاں پر جا سکتا ہے، نہ وہاں پر سامان پہنچایا جا سکتا ہے۔ 

ہر دن ان پر ڈرون حملے ہوتے ہیں، ان پر ہیلی کاپٹر حملے ہوتے ہیں، بمباری ہوتی ہے۔ پس مصر، سیریا، عراق تمام ممالک نے ان سے جنگیں لڑیں، لیکن چونکہ ان کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور عرب ممالک باوجود اس کہ تعداد میں زیادہ ہیں۔ اس وقت وہاں کل ساڑھے 6 ملین یہودی آباد ہیں، انہوں نے ایک ایسی منفرد ریاست بنائی۔ اب وہ عرب دنیا کی گود میں شیطانی بچہ بیٹھا ہوا ہے۔ عرب سرمایے میں بھی ان سے زیادہ ہیں، اسلحے کے حوالے سے بھی ان سے زیادہ ہیں، تعداد کے حوالے سے بھی ان سے زیادہ ہیں اور علاقے میں بھی ان سے زیادہ ہیں، لیکن اس کے باوجود عرب قوت جمع ہو کر کیوں نہیں اس کا مقابلہ کرتی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ امریکہ ہے، کیونکہ ہمارے مسلمان حکمران بالعموم اور عرب حکمران بالخصوص امریکہ کے تابع ہیں۔
 
وہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے امریکہ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں نہیں یاد کہ کبھی اسرائیل کے خلاف انہوں نے فتویٰ دیا ہو کہ یہ ریاست ناجائز ہے۔ انقلاب کے بعد اس کو ختم ہونا چاہیے لیکن اس ریاست کو برقرار رکھنے کے لیے عرب جدوجہد کر رہے ہیں۔ پس اسی لیے امریکہ ایران سے خوفزدہ ہے کہ وہ فلسطین کا حمایتی ہے اور اسرائیل کا مخالف ہے۔ امریکہ پاکستان سے بھی خوف کھاتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی فلسطین کے حوالے سے بہت جدوجہد ہے۔
 
2006ء میں جب حزب اللہ نے اسرائیل کے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس کے بعد اسرائیل کے اندر خوف بڑھا اور وہ یہ کہ پوری دنیا اسرائیل کے خلاف ہے حتیٰ کہ امریکہ کے بھی خلاف ہو جائے گی (کیونکہ ان کی روایات ہیں کہ یہ اپنوں کا بھی بیڑا غرق کرتے ہیں اور حقیقتاً یہ امریکہ کا بیڑا غرق کر رہے ہیں، ان کو ایسے ایسے جال میں پھنسا دیتے ہیں، جیسا کہ ان کو افغانستان میں بہت برے طریقے سے پھنسا دیا، بم دھماکے خود کروا کر امریکہ کا بیڑا غرق کیا)۔

اسلام ٹائمز: سیریا (شام) کے موجودہ حالات کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟ خصوصاً اب جبکہ بشارالاسد حزب اللہ اور ایران کا حامی بھی ہے۔؟
جنرل حمید گل: سارے عرب ایک جیسے نہیں ہیں۔ جس طرح مصر کے صدر کے اقدامات اسرائیل کے لیے خطرناک ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے گزشتہ دنوں فوج کے چیف کو ہٹا دیا۔ وہاں پر تو فوج ہی قبضہ کر کے بیٹھی ہوئی تھی۔ یہاں پر ایک بڑی کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ ایک طرف حکمرانوں سے مایوسی ہے جبکہ دوسری جانب عوام میں بیداری کی لہر چل رہی ہے۔ بشارالاسد کے سیریا کے اندر جو اقدامات ہیں، اپنے ہی لوگوں کو مارنا۔ ان کو چاہیے کہ اس کے لیے کوئی طریقہ نکالیں، حل تلاش کریں۔

اسلام ٹائمز: شامی حکومت کا کہنا ہے کہ اُن کے ملک میں برطانیہ اور امریکہ کی براہ راست مداخلت ہے، باغیوں میں پیسہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔؟
حمید گل: بشارالاسد سے ان لوگوں نے جنہیں باغی کہا جاتا ہے کہا تھا کہ آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرو اور معاملات حل کرتے ہیں، ہم بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اس وقت کو بشارالاسد نے ضائع کر دیا۔ اب ترکی نے بھی ایک رویہ اختیار کیا ہے۔ اب آپ جمہوریت کی طرف آئیں۔ جمہوریت کے دعوے دار امریکہ نے حماس کی حکومت کو تسلیم تک نہیں کیا۔ اسماعیل ہانیہ نے 88 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، لیکن انہیں حکومت نہیں بنانے دی گئی اور محمود عباس کو انہوں نے تسلیم کر رکھا ہے۔
 
اگر آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو عربوں کو حقوق دیں۔ 5 سے 6 ملین سے بھی زائد فلسطینی ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ کیا یہ مسئلہ انسانی بنیاد پر بھی حل نہیں ہوسکتا۔ اب کیا وہ لوگ اگر اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں اور اپنے وطن میں جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ اکثریت تو مسلمانوں کی ہی ہوگی اور اکثریت عربوں کی ہوگی۔ اگر آپ اس بات کے بھی دعوے دار ہیں کہ اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کرے، تو اب ان جمہوریت کے دعوے داروں سے کوئی پوچھے اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے۔؟
 
2009ء میں جب میں عمرے کے لیے گیا تو وہاں پر سعودی عرب کے ایک دانشور نے (میں نام نہیں لینا چاہتا) پوچھا کہ ایران ہمارے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا خطرہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ نیوکلیئر بم بنا رہا ہے، تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کے پاس اس کا توڑ کیا ہے، جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ سے بم لیں گے، میں نے کہا کہ امریکہ کا مطلب اسرائیل سے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ خود بم کیوں نہیں بنا لیتے، جبکہ آپ کے پاس تو سارے وسائل موجود ہیں۔ اگر آپ کو ایران کے بم سے خطرہ ہے تو آپ اپنا بم کیوں نہیں بنا لیتے۔
 
اب آپ دیکھ لیں کہ 27 رمضان کو سعودی حکومت نے وہاں پر کانفرنس بلائی ہوئی ہے لیکن وہ سارے الجھ کر رہ گئے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے جو ایک جال بچھایا تھا اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ روس اور چائنہ آپس میں اکھٹے ہوگئے ہیں اور اس کی وجہ سے اب ترکی کے لیے بھی ایک نئی مشکل کھڑی ہوگئی ہے، کیونکہ ترکی میں جو شام سے پاپولیشن آ رہی ہے، وہ اس سے نہیں سنبھالی جا رہی۔ آئے روز ایک نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ 

اب معاملات کافی پیچیدہ اور گھمبیر ہوگئے ہیں، لیکن (مصر کی آبادی دنیای عرب کی سب سے زیادہ آبادی شمار ہوتی ہے، اس کی آبادی تقریباً 85 ملین ہے اور وہ بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں) اگر مصر میں ایک بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے اور اس کے اثرات اسرائیل پر بھی مرتب ہوتے ہیں، اسی طرح دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کی تبدیلی آتی ہے تو باقی وہ ممالک جو امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کے لیے خطرات اپنی ہی عوام سے پیدا ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے پاکستان کے فلسطین کے ساتھ تعلقات کی ایک تاریخ بیان کی، کیا ہمارے موجودہ تعلقات بھی اسی نہج پر ہیں۔؟
حمید گل: دیکھئے، ابھی تک تو ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ماسوائے پرویز مشرف کے اور کسی نے آج تک یہ بات نہیں کی کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ باقی بھی چند ایک افراد ہیں جن کے میں نام نہیں لینا چاہتا کہ انہوں نے سیاسی طور پر کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے، لیکن عمومی طور پر آپ کی قوم نے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی، جیسے کہ آج تک کشمیر کے حوالے سے صورتحال ہے، بالکل اسی طرح ہماری فلسطین کے حوالے سے بھی ایک ہی نظریہ ہے۔ ایک بہت ہی اچھی بات ہے، باوجود اس کے کہ ہم امریکہ کے اطاعت گزار بن کر رہ گئے ہیں۔ 

پرویز مشرف واحد آدمی تھا، جس وقت تقریباً 2003ء میں شمعون پیرز اسرائیل کا وہ وزیر خارجہ تھا اور آج کل وہ صدر ہے، اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایک یہودی بچہ ہونے کے ناطے میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ میں رات کو سونے سے پہلے پرویز مشرف کے لیے لمبی عمر کی دعا کروں، یہ انٹرویو ریکارڈ پر ہے، چھپا بھی ہے۔ پرویز مشرف آج کل انہی کے پیسے کے اوپر دندناتا پھرتا ہے۔ پرویز مشرف کہتا ہے کہ میں لیکچر دیتا ہوں، یہ اپنے ملک کو تو سنبھال نہیں سکا، بیڑہ غرق کر دیا۔ دنیا کو تم کیا لیکچر دو گے۔ تم نے تو کہا تھا کہ افغانستان میں امریکہ فتح یاب ہو جائے گا، اب امریکہ تو ناکام ہو کر جا رہا ہے۔ تمہاری حکمت عملی اور سوچ اس قابل ہے کہ وہ لاکھوں ڈالر کے عوض لیکچر دے۔ یہ سب پیسے یہودیوں کے ہیں اور انہی کے پیسوں کے اوپر یہ عیش کر رہا ہے اور وہاں بیٹھ کر یہ خواب دیکھتا ہے کہ میں پارٹی بناؤں گا۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ 27 رمضان المبارک کو یوم آزادی منائے گی، اس کے علاوہ وہ جمعۃ المبارک کو یوم القدس بھی منائے گی، آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟
حمید گل: جی ہاں! بہت اچھا اقدام ہے، ظاہر ہے اس کے پیچھے ایران کی سوچ کارفرما ہے، جو احسن اقدام ہے۔ ایران ظاہر ہے کہ پاکستان کے قریب ہونا چاہتا ہے، اچھی بات ہے، ہمارا ہمسایہ ہے، ان کا اور ہمارا عقیدہ ایک ہے۔ 

نوٹ: تفصیلی انٹرویو ہونے کے باعث اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کا بقیہ حصہ عید کے روز پیش کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 188182
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش