0
Saturday 18 Aug 2012 22:46

یوم القدس پاکستان میں سرکاری سطح پر منانے کی ضرورت ہے، مفتی فضل جمیل رضوی

یوم القدس پاکستان میں سرکاری سطح پر منانے کی ضرورت ہے، مفتی فضل جمیل رضوی
امیر جماعت اہل سنت صوبہ خیبر پختونخوا علامہ مفتی فضل جمیل رضوی کا بنیادی تعلق درگئی (ملاکنڈ) سے ہے، آپ کا شمار صوبے کی اہم مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اسلام ٹائمز نے علامہ صاحب کے ساتھ یوم القدس کی مناسبت سے انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: امریکہ، اسرائیل گٹھ جوڑ کے نتیجے میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: مسلمانوں پر جو بھی ظلم کر رہا ہو اور انسانیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اگر کوئی مسلمان نہ بھی ہو اور اس پر ظلم کیا جا رہا ہو، وہ ہمارے مذہب اسلام میں جائز نہیں، جس طرح فلسطین میں امریکہ اور اسرائیل جو ظلم کر رہے ہیں، ہم اس کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جس طرح کہ آپ کے علم میں ہے کہ غزہ کا عرصہ دراز سے صہیونیت نے محاصرہ کر رکھا ہے، اس تناظر میں مسلمان ممالک کے کردار کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: ہمارے ہاں او آئی سی موجود ہے، عرب میں عرب لیگ موجود ہے، میرے خیال میں تمام مسلم ممالک کے سربراہان کو اکٹھا ہونا چاہئے اور دنیا میں کہیں بھی اگر مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہو یا ان کا محاصرہ کیا جا رہا ہو، اس کے خاتمے کیلئے سفارتی سطح پر انہیں رول ادا کرنا چاہیے، عوام یہی کرسکتے ہیں کہ احتجاج کرلیں، جلسہ جلوس اور اظہار یکجہتی کرلیں، پھر ان کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے عرب لیگ کا ذکر کیا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کئی عرب ممالک کے تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں، ایسے میں ان عرب ممالک سے کیسے خیر خواہی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: یہ علامات قیامت ہیں کہ مسلمانوں میں اتفاق نہیں ہوتا، اور معمولی سی بات پر یا تو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور پھر دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں، میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، کم از کم وہ عرب ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں، انہیں ضرور ایکشن لینا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: اسرائیلی مصنوعات کئی مسلم ممالک میں فروخت اور استعمال ہوتی ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ہم کسی حد تک اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اسرائیل کی مصنوعات پہلے بھی استعمال کر رہے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں، اگر بطور احتجاج ہم اسرائیل کی مصنوعات استعمال نہیں کرینگے تو میرے خیال میں میڈیا کے ذریعے سے یہ بھی ایک تاثر جاسکتا ہے کہ مسلمان اسرائیل سے اتنی نفرت کر رہے ہیں کہ اس کی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کر رہے ہیں، اس طرح سے اگر کوئی میسج دیا جائے تو میرے خیال میں یہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں اسرائیلی دہشتگردی کیخلاف مزاحمت کرنے والی حماس اور حزب اللہ اور ان جیسی دیگر تنظیموں کے اتحاد کی صورت میں کیا صہیونی ناپاک ریاست کیخلاف بہتر طریقہ سے کارروائی ممکن ہے۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: میرے خیال میں جہاں بھی مسلمان متحد ہوجائیں تو خداوند اس میں برکت ڈالتا ہے، جس طرح ہمارے فقہی مسائل میں اجماع ہوا کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اتفاق میں برکت ہوتی ہے، اگر یہ لوگ متحد ہوگئے تو بہت اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور انہیں متحد ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: قبلہ اول کی آزادی کیلئے یوم القدس کی اہمیت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: میں اس کو بہت ضروری اور اہم سمجھتا ہوں، جیسا کہ بیت المقدس ہمارا قبلہ اول ہے، اور اس کی آزادی کیلئے ہمیں کوششیں کرنی چاہئے، آج کل جنرل لیول پر احتجاج بھی کیا جاتا ہے اور یوم بھی منایا جاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بیت المقدس کی آزادی کیلئے تو ضرور دن منایا جانا چاہیئے، یہ رمضان المبارک کا مہنیہ ہے اور اب عیدالفطر بھی آ رہی ہے، ایسے موقع پر احتجاج کرنا اور یوم منانا بہت اہمیت کا حامل ہے، میرے خیال میں ایسا ہونا بھی چاہیے اور انشاءاللہ اس کا اثر بھی دنیا پر بہت اچھا جائے گا کہ یہ لوگ اپنی خوشیوں کو اہمیت نہیں دیتے، لیکن اپنے بیت المقدس کی آزادی کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس اہم دن کو سرکاری سطح پر بھی منانے کی ضرورت ہے۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: جی بالکل، اگر اس دن کو سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے تو بہت بہتر ہوگا، کیونکہ عوام کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے اور حکومت کا اپنا اثر ہوتا ہے، حکومت پاکستان اس حوالے سے بہتر اقدامات کرے، ہماری حکومت او آئی سی جیسے فورم پر اس مسئلہ کو اٹھا سکتی ہے، دنیا میں مسلمانوں پر ہر جگہ ظلم ہو رہا ہے، جس طرح برما میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، جس طرح افغانستان میں ہوا، فلسطین میں اور دیگر ممالک میں ہو رہا ہے، یہ افسوسناک ہے، مسلمان ایک بدن کی حیثیت رکھتے ہیں، پاکستان کے مسلمان اس حوالے سے اپنی استطاعت کے مطابق احتجاج کرسکتے ہیں، جب عوام میں اتنا شعور اور اتنی محبت ہے اور یہ مسلمانوں کا ملک ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان کو بھی سرکاری سطح پر یوم القدس منانا چاہئے، اور سلامتی کونسل اور او آئی سی میں اس معاملہ کو ضرور اٹھانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کا وجود کیونکر ممکن ہوسکا، جبکہ دوسری جانب میں دیکھتے ہیں کہ آزاد مسلم ممالک پر استعماری قوتوں نے قبضے کر لئے اور صہیونی ریاست کو مکمل سپورٹ کیا جاتا ہے، کیا یہ عالمی قوانین اور اصولوں کا تضاد نہیں۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: یہ امریکہ کی دوغلی پالیسی ہے، میں اس ضمن میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ڈھایا گیا، نہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے سر اٹھایا اور نہ کبھی یورپی ممالک کی جانب سے کسی قسم کی آواز بلند کی جاتی ہے، اگر کبھی کسی غیر مسلم کیساتھ کبھی کوئی مسئلہ ہوا یا مسلمانوں کے درمیان آپس میں کوئی معاملہ ہوا، جس طرح سعودی عرب اور عراق کے مابین ہوا تھا یا پھر صدام حسین پر جو مقدمہ چلایا گیا تو ایسے مواقع پر ان کی نظریں ہماری طرف ہوتی ہیں، آپ دیکھں کہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے لیکن نہ امریکہ نے کبھی ثالثی کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ دیگر عالمی طاقتوں نے اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس طرف توجہ دیتی ہیں، یہ دوغلی پالیسی ہے، یہ خود دہشتگرد ہیں، یہ لوگ ریاستی سطح پر دہشتگردی کر رہے ہیں، دنیا کے جتنے ممالک ہیں چاہیے اسلامی یا غیر اسلامی ان کو اس پر لازمی نوٹس لینا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: بیت المقدس کی آزادی کیلئے مسلم حکمرانوں کیلئے کیا اقدامات تجویز کریں گے۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: سب سے پہلے تو احتجاج کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، اس کے بعد اسلامی ممالک جس طرح کہ او آئی سی ہے اس کو بھی متحرک ہونا چاہیے، پھر اس مسئلہ کو سارک ممالک کے فور پر بھی اٹھانا چاہئے، اور پھر آخر میں یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لیجانا چاہئے، عالمی طاقتوں کے ذہن میں اس مسئلہ کو ڈالنا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ جیسا کہ یوم القدس منانے کا آغاز امام خمینی (رہ) نے کیا، ان کے اس اقدام پر کیا کہیں گے۔؟
علامہ مفتی فضل جمیل: ایسا اقدام چاہئے امام خمینی اٹھائیں، پاکستان کی کوئی مذہبی شخصیت اٹھائے یا کوئی حکومت، اچھی بات کو سراہنا چاہئے، ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ مسئلہ کس نے اٹھایا بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ جو مسئلہ اٹھایا گیا ہے، اس میں اس کا ساتھ دیا جائے، بیت المقدس جیسا کہ ہمارا قبلہ اول ہے، وہ یہودیوں کا قبلہ ہے اور اہل کتاب کا قبلہ رہا ہے، یہ ایک مقدس مقام ہے، اور اس کی آزادی کیلئے ہمیں کوششیں جاری رکھنی چاہیں۔
خبر کا کوڈ : 188628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش