0
Sunday 2 Sep 2012 00:14

پاکستان میں آبادی کے مقابلے میں اہل تشیع مدارس کی تعداد کم ہے، آیت اللہ ریاض حسین نجفی

پاکستان میں آبادی کے مقابلے میں اہل تشیع مدارس کی تعداد کم ہے، آیت اللہ ریاض حسین نجفی
جامعتہ المنتظر لاہور کے پرنسپل آیت اللہ ریاض حسین نجفی کا شمار بزرگ علماء کرام میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے علم دین کی ترویج و اشاعت میں دن رات ایک کر رکھا ہے۔ وہ وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ ہیں اور قومی تنظیموں کی سرپرستی کرنے والے ہیں۔ اتحاد بین المسلمین پر زور دیتے ہوئے آیت اللہ ریاض حسین نجفی قومی تنظیموں کی فعالیت کو عقائد کے تحفظ کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ پاکستان میں مدارس دینیہ کی تعداد کو کم خیال کرتے اور اس میں اضافے اور علمی مراکز کے اعلٰی معیار کے خواہاں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے انٹرویو کیا ہے۔ جس کا دوسرا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان میں اہل تشیع کی آبادی کے مطابق مدارس دینیہ کا تناسب تسلی بخش ہے۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: جہاں تک تشیع کی پاکستان میں آبادی کا تعلق ہے تو سابق فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے ایک بار کہا تھا کہ شیعہ پاکستان میں 21 فیصد ہیں۔ دیکھئے حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ہمارے مراکز لکھنو میں تھے۔ لکھنو کے بعد پھر پٹنہ اور کلکتہ میں بھی مدارس بنے۔ پاکستان کی سرزمین پر کوئی مدرسہ ہمارا نہیں تھا۔ ملتان میں ہمارا پہلا مدرسہ باب العلوم 1932ء میں بنا۔ پھر دوسرا مدرسہ سرگودھا شہر سے بارہ میل دور جلال پور جدید میں بنا۔
 
یہ 1939ء کی بات ہے کہ استاذ العلما مولانا محمد یار شاہ صاحب قبلہ نے علم دین لوگوں کو سکھانا شروع کیا۔ جتنے بزرگ علماء اس وقت پاکستان می ہیں، سب ان کے شاگرد ہیں۔ اس سے آپ یہی سمجھیں کہ پاکستان میں مدارس کا کام 1939ء سے شروع ہوا۔ چونکہ کام ہم نے تاخیر سے شروع کیا ہے۔ اس وقت ہمارے مدارس کی تعداد 400 سے کچھ زیادہ ہے۔ جو کہ ہماری آبادی کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ البتہ رشد بڑھ رہی ہے۔ مدارس کی طرف توجہ بھی ہے، نئے مدارس قائم ہو رہے ہیں۔ لیکن کچھ وقت لگے گا، چونکہ کام لیٹ شروع کیا ہے، اس لئے اس کی حقیقت تک ہم نہیں پہنچ سکے۔ 

اسلام ٹائمز: باقی مسالک کے مقابلے میں ہمارے مدارس کا معیار اور تعداد کیسی ہے۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: کسی زمانے میں ہمارے بریلوی بھائیوں کے مدارس کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ 1960ء میں ایک کتاب "جائزہ مدارس دینیہ" چھپی تھی۔ ایک مولانا لائلپور فیصل آباد سے تھے۔ انہوں نے لکھی تھی۔ اس میں بریلوی حضرات کے مدارس کی تعداد زیادہ تھی۔ لیکن اس کے بعد بریلوی پیچھے ہٹتے گئے۔ اب دیوبندیوں کے مدارس زیادہ ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ مدارس کی تعداد دیوبندیوں کی ہے۔ آج سے چھ سال پہلے تک حکومت نے تمام مدارس کے پتہ جات نام وغیرہ جمع کئے، اس فہرست کے مطابق 13000 مدارس تھے۔ ان میں سے 10500 دیوبندیوں کے ہیں۔ باقی 2500 شیعہ اور بریلویوں کے ہیں۔ اس لحاظ سے مدارس کی تعداد ان کی زیادہ ہے۔ ہمارے علمی مراکز کی تعداد کافی کم ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں علماء اور مدارس موجود ہونے کے باوجود پاکستان میں مرجعیت پیدا نہیں کی جاسکی۔؟ 
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: جہاں تک پاکستان میں مرجعیت کا تعلق ہے تو کافی اچھی تعداد ایسے  لوگوں کی ہے، جنہوں نے باقاعدہ درس خارج پڑھا ہے اور وہ اجتہاد کے درجے پر پہنچے بھی ہیں۔ جیسے ہمارے استاد محترم شیخ الجامعہ استاذ العلما علامہ اختر عباس قبلہ تھے۔ یہ بزرگوار دس سال تک آیت اللہ العظمٰی سید ابوالقاسم خوئی سے پڑھتے رہے ہیں۔ وہ اجتہاد کے درجے تک پہنچے ہوئے تھے۔ اسی طرح قبلہ مولانا محمد یار شاہ صاحب کی شخصیت تھی۔ 

اصل بات یہی ہے کہ ہمارے حضرات میں پہلے رشد فکری نہیں تھا۔ جب پاکستان بنا تو ہماری آبادی تو اپنی جگہ پر تھی لیکن اس کے مقابلے میں مساجد اور مدارس کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ 1954ء میں جامعتہ المنتظر قائم ہوا اور اس کا قیام نجف اشرف میں ہوا۔ جب ایک مومن عراق زیارات کے لئے گئے۔ اس کی وجہ مولانا صفدر حسین نجفی نے یہ بتائی کہ لاہور سے پاراچنار تک صرف دو شیعہ مساجد تھیں۔ ایک شاہ چن چراغ راولپنڈی اور دوسری پاراچنار میں۔ درمیان میں کوئی اور شیعہ مسجد نہیں تھی۔ تو ظاہر ہے کہ جب مراکز ہی نہیں تھے تو ایسی صورت حال میں کام کیسے ہو سکتا تھا؟ جب یہ مدارس قائم ہوئے تو اس کے بعد ہی سے پہلے کی نسبت کام بہتر ہو رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: تو مرجع تقلید پاکستان میں کیوں نہیں۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: پہلے لوگ رجوع کرتے تھے لکھنو کی طرف۔ جھنگ، سرگودھا وغیرہ سے لوگ اس وقت تقلید کرتے تھے۔ پہلے شخص مولانا اختر عباس ہیں، جنہوں نے علماء کو نجف اشرف کی طرف رجوع کروایا۔ اس زمانے میں آغا ابوالحسن شیرانی مرحوم کی تقلید کی جاتی تھی۔ اب نجف اشرف کی تقلید بھی ہو رہی ہے۔ اصل میں چونکہ تقلید کے لئے یہ مراکز پرانے ہیں۔ اس لئے عوام کی اکثریت اسی طرف رجوع کرتی ہے۔ 

جہاں تک حوزہ علمیہ قم کا تعلق ہے تو حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہاں علما تھے، جن کو قمیون کہا جاتا تھا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم بارہ تیرہ سو سال تو حوزہ علمیہ قم کو بنے ہوگئے ہیں۔ جہاں تک نجف کا تعلق ہے۔ یہ حوزہ 460 ھجری میں قائم ہوا۔ تو 1460 میں اس کو ایک ہزار سال ہوچکے ہیں، چونکہ یہ پرانے حوزے تھے۔ یہاں حالات بھی ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے آدمی بیٹھ جاتا ہے۔ تحقیقاتی کام کرتا ہے مطالعہ کرتا ہے، درس پڑھاتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی اسی میں گذرتی ہے۔ 

ہمارے پاکستان میں سلسلہ اس طرح کا نہیں تھا۔ پاکستان میں تو یہ تھا کہ ایک عالم دین پڑھ کر آیا ہے۔ اس نے درس بھی پڑھانے ہیں، مدرسے کے لئے چندہ بھی جمع کرنا ہے۔ طلبا کی تربیت بھی کرنی ہے۔ لوگوں کے جنازے اور نکاح بھی جاکر پڑھنے ہیں اور یہ مجبوری ہوتی ہے کہ بہ معنی کہ آپ معاون ہیں۔ جس وقت آپ آئیں گے۔ اسی وقت ہمارا نکاح ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ کسی جونیئر عالم دین کو بھیج دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ نہیں جی آپ خود آئیں۔ تو ہمارا کام زیادہ تر ان چیزوں میں صرف ہوتا ہے۔ لہٰذا ٹائم ہی نہیں ہے کہ کوئی آدمی حقیقتاً بیٹھ کر مطالعہ کرے اور تحقیق کرے۔ جس کے بغیر مرجعیت ممکن نہیں۔ 

دس بارہ سال ہوگئے ہیں کہ جامعہ المنتظر میں بھی درس خارج دیا جا رہا ہے۔ اصول اور فقہ کا درس دیا جا رہا ہے۔ اور گیارہ علماء جو باقی تمام کتابیں پڑھ کر آئے ہیں۔ وہ اس وقت یہاں پڑھ رہے ہیں۔ کام تو ہو رہا ہے، لیکن ابھی اجتہاد کی طرف گئے نہیں۔ اس وجہ یہ ہے کہ ہمارے آیت اللہ بشیر حسین نجفی حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ہیں، وہ اسی جامعہ المنتظر سے پڑھے ہوئے ہیں۔ آیت اللہ شیخ اسحاق فیاض ہیں۔ وہ کوئٹہ کے رہنے والے ہیں اور اردو بھی تھوڑی بہت جانتے ہیں۔ آیت اللہ سید علی سیستانی آدھے پاکستانی ہیں، چونکہ وہ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان سے ہیں۔ سیستان بلوچستان کے دو حصے ہیں۔ ایک ایران میں ہے اور کچھ ہمارے ہاں پاکستان میں ہے۔ تو کام چونکہ ہو رہا ہے۔ ضرورت پوری ہو رہی ہے۔ اس لئے پاکستان میں مجتہدین جو ہیں بھی، انہوں نے دعویٰ نہیں کیا۔ البتہ ایک دو نے دعویٰ کیا ہے، جو اپنی جگہ بہرحال موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے اہل تشیع میں عقیدے کے اعتبار سے بھانت بھانت کی بدعات متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس پر علماء کرام خاموش کیوں ہیں۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: جہاں تک ان بدعات کا تعلق ہے۔ یہ سلسلہ شرارتوں کا ہے جو چلتا رہتا ہے، آج سے کوئی 80 سال پہلے لکھنو میں یہ سلسلہ چلا تھا۔ علماء کرام نے باقاعدہ کتابیں بھی لکھیں۔ عقائد حقہ کا دفاع کیا۔ دو چار پانچ سال بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا، تو اس کے بعد یہاں تقریباً 1960ء میں یہ مسئلہ ہوا۔ اس کے بعد یہ ختم ہوگیا تھا۔ اب پھر یہ دو چار سال سے گڑ بڑ شروع ہوگئی ہے۔ جس میں کافی خرافات بکی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ جو (شہادت ثالثہ) نہیں پڑھتے تھے، ان کے بارے میں گالی گلوچ ہوتا تھا۔ لیکن اب اس کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ اب پہلے کی نسبت کم ہے۔ تو وہ تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں کہ جہاں یہ پڑھا جاتا ہے، ورنہ نہیں پڑھا جاتا۔ زیادہ تر شور وہی کرتے ہیں۔ جو نماز وغیرہ پڑھتے ہی نہیں۔

یہ شرارتیں اس وقت ہوتی ہیں جس وقت ہماری کوئی ملک گیر تنظیم صحیح طور پر کام نہ کر رہی ہو۔ جس زمانے میں وفاق علماء شیعہ پاکستان اور تحریک جعفریہ پاکستان ملک گیر کام کر رہی تھیں۔ یہ خرافات دب گئے تھے۔ لوگ اپنے قومی اجتماعی معاملات کی طرف آگئے تھے، چونکہ قومی جماعت تحریک جعفریہ پر پابندی لگ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ کام نہیں کیا گیا، جس کی ضرورت تھی۔ وفاق علماء شیعہ پاکستان نے بھی کام نہیں کیا تو یہ خرافات بکی جاتی ہیں۔ اب پھر چونکہ اجتماعی کام جو شروع ہو گیا ہے۔ اب پھر کچھ عرصے تک یہ سب چیزیں مٹ جائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 191482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش