0
Tuesday 18 Sep 2012 22:40

ہم محکوم قوم نہیں، امریکہ کیساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہیئں، امیر مقام

ہم محکوم قوم نہیں، امریکہ کیساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہیئں، امیر مقام
پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی سینئر نائب صدر اور سابق وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقہ بشام سے ہے، آپ کا شمار میدان سیاست کے ماہر کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، آپ پر دھماکوں کی صورت میں کئی قاتلانہ حملے بھی ہوچکے ہیں، تاہم خوس قسمتی سے محفوظ رہے، امیر مقام صاحب پہلے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، تاہم پھر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ان کی کشتی میں سوار ہوگئے، اور ق لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد وفاقی وزیر کا عہدہ سنبھال لیا، جنرل (ر) مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا، تاہم اس دوران بھی امیر مقام صاحب نے ق لیگ کا ساتھ نہ چھوڑا، پیپلزپارٹی کے موجودہ دور حکومت میں ق لیگ کو حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی تو آپ نے وفاقی وزیر کا عہدہ ایک مرتبہ پھر سنبھال لیا، تاہم چوہدری برادران کیساتھ بعض اختلافات کی بناء پر ق لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی، اس دوران آپ کی عمران خان کی سونامی میں شمولیت کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں، تاہم آپ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جماعت میں شامل ہونے کو ترجیح دی اور آج آپ مسلم لیگ نواز کے سینئر نائب صدر ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ملکی حالات پر امیر مقام صاحب کے ساتھ خصوصی انٹرویو کیا۔ جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ بعض اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہانہ بناکر عام انتخابات ملتوی کرنا چاہتی ہے، کیا ایسا ممکن ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس صورتحال میں ن لیگ کا کیا اسٹینڈ ہوگا۔؟
امیر مقام: اگر ایسا ہوا تو یہ صرف مسلم لیگ کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے نقصان دہ ہوگا، اگر الیکشن ملتوی ہوئے اور فروری، مارچ یا اپریل تک نہ ہوئے اور نگران حکومت دسمبر تک نہ آئی تو میرے خیال میں صورتحال خونی انقلاب کی طرف جاسکتی ہے، ملک کو نقصان پہنچے گا اور لوگ ایسی صورتحال کو برداشت نہیں کریں گے، لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، پہلے جو کچھ ہوا اور جس طرح پانچ سال گزرے وہ سب کے سامنے ہے۔ لوگ آئینی طور پر اس کیلئے تیار ہیں کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے، اور اگر ان پانچ سال سے ایک دن بھی آگے جاتا ہے تو یہ صرف ایک پارٹی نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے تباہی ہوگی، جب ملک ہی نہیں رہے گا تو پیپلزپارٹی کی خیر کیسے ہوسکتی ہے، تو میرے خیال میں پیپلزپارٹی کو ایسا سوچنا بھی نہیں چاہئے، اور نئے شوشے بھی نہیں چھوڑنے چاہئیں، پیپلزپارٹی کو سٹیٹ فاروڈ دسمبر میں نگران حکومت بنا کر مارچ میں الیکشن ہر صورت میں کرا لینے چاہئے۔

اسلام ٹائمز: نگران سیٹ اپ کیلئے جیسا کہ چوہدری نثار نے چند نام حکومت کو پیش کئے ہیں، اس حوالے سے کیا پیپلزپارٹی سے کوئی بیک ڈور مذاکرات کے ذریعے معاملات طے پائے ہیں۔؟
امیر مقام: نگران حکومتی سیٹ اپ ایک آئینی تقاضا ہے، بات تو آخر میں اتفاق رائے سے ہی بنے گی، عملی بات تو یہ ہے کہ جو نگران وزیراعظم بنے گا وہ اپوزیشن اور حکومت کے مابین اتفاق رائے سے ہی بنے گا، جس طرح چیف الیکشن کمشنر بنا، اور دونوں مل بیٹھ کر کوئی اور درمیانی راستہ نکال کر وہی شخص لائیں گے جو سب کو قابل قبول ہو، اگر کسی کے ذہن میں یہ ہو (ہمارے یا ان کے) کہ اپنا بندہ لایا جائے تو میرے خیال میں یہ بھی ناکام کوشش ہوگی، حکومت کو بھی یہ باور کرایا جائے کہ نگران حکومتی سیٹ اپ شفاف انتخابات کرانے کیلئے ہونا چاہئے، اس کے علاوہ ہم کچھ سوچیں تو اس سے بھی وہی نقصان ہو سکتا ہے، جو بات پہلے میں نے کہی ہے۔ میرے خیال میں ملک اور قوم کے مفاد میں یہی ہے کہ ملک میں شفاف طریقہ سے معاملات چلیں۔

اسلام ٹائمز: بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ہم نے دیکھا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کچھ معاملات طے پائے ہیں، جس پر کئی جماعتوں نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے، اس حوالے سے مسلم لیگ ن کا کیا موقف ہے۔؟
امیر مقام: اس حوالے سے ہمارا موقف بالکل دوٹوک ہے کہ ایسا ہونا ہی نہیں چاہئے تھا، زرداری صاحب یا الطاف حسین صاحب یا پھر ان دونوں کے نمائندے آپس میں بیٹھ کر ایک صوبے یا کسی ایک علاقہ کیلئے کوئی قانون نہیں بنا سکتے، جو بھی طریقہ کار ہو، وہ سارے ملک کیلئے یکساں ہونا چاہئے، اس پر ہمارے بھی کھل کر سو فیصد تحفظات ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک ریجن میں ایک قانون ہو دوسرے میں دوسرا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ معاملات اگلی حکومت پر چھوڑ دینے چاہیئں، اب تو اس حکومت کے پانچ سال مکمل ہو رہے ہیں اور یہ تو اس حکومت کے مینڈیٹ میں آتا ہی نہیں، اگر انہوں نے ایسا کرنا تھا تو پہلے دن سے ہی کر دیتے، پہلے سے نہیں کیا تو اب اگلی حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے کہ جو بھی حکومت آئے وہ ان معاملات کو دیکھے۔

اسلام ٹائمز: امیر مقام صاحب مسلم لیگ ن نے پونے پانچ سال اپوزیشن میں گزار لئے ہیں، لیکن اس پر فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات مسلسل لگتے رہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی جماعت حزب اختلاف کا وہ کردار ادا کر پائی جس کی توقع قوم اس سے کر رہی تھی۔؟
امیر مقام: اپوزیشن کا کردار اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ ایشوز پر اسمبلی میں بات کرانا، مسائل کی نشاندہی کرانا، اسمبلی میں احتجاج کرنا۔ یہ ہر اپوزیشن کا کام ہوتا ہے، ہماری جماعت نے اسمبلی میں ایشوز پر بات کی، احتجاج کیا، ہمارے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار کا اس حوالے سے بھرپور کردار رہا ہے، انہوں نے کسی معاملات پر حکومت سے کمپرومائز نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: اگر آئندہ حکومت مسلم لیگ ن کی آتی ہے تو کیا ملکی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی لائی جائے گی یا پھر ان انہی پالیسیوں کو برقرار رکھا جائے گا جو جنرل مشرف کے دور میں اپنائی گئیں اور جن کو پھر پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی جاری رکھا۔؟
امیر مقام: ملکی پالیسیاں کسی فرد واحد کی نہیں ہوتیں، صورتحال کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں، اگر مسلم لیگ ن کو اللہ تعالٰی نے موقع دیا تو قومی اور ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائے گی۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت امریکہ کیساتھ کس نوعیت کے تعلقات رکھنے کی خواہاں ہے۔؟
امیر مقام: اگر آپ پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ہمارے امریکہ سے تعلقات ہر وقت رہے ہیں، میں کہتا ہوں کہ امریکہ کیساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہیئں، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ہمیں کوئی محکوم قوم سمجھے، ٹھیک ہے کہ امریکہ کے مفادات ہم سے وابستہ ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ہمیں سپورٹ کرتا ہے، اور اگر ضیاءالحق صاحب کے دور کو دیکھیں تو امریکہ نے ہمیں افغانستان میں سپورٹ کیا اور حقیقت میں اس جنگ کا آغاز بھی وہاں سے ہی ہوا، جو آج ہم بھگت رہے ہیں، اس وقت امریکہ کے اپنے مفادات تھے۔
 
آج کل جس طرح دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہمیں امریکہ سپورٹ کر رہا ہے، ٹھیک ہے ہماری مجبوریاں ہیں اور ہم ان سے امداد لے رہے ہیں، لیکن ہماری جو خودمختاری ہے اس پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے، جس طرح وہ مسلسل ڈرون حملے کر رہے ہیں، جس طرح سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ پیش آیا، اور کئی واقعات روزانہ کی بنیاد پر رونماء ہو رہے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان معاملات پر سمجھوتہ نہیں کرلینا چاہئے اور قوم کے جذبات دیکھ کر ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر تعلقات ہونے چاہیئں، یعنی اگر امریکہ اپنے مفادات کو دیکھتا ہے تو ہمیں بھی اپنے مفادات کو دیکھنا چاہئے، اور اسی بنیاد پر امریکہ سے بات چیت کرنی چاہئے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں امریکہ میں جو توہین آمیز فلم ریلیز کی گئی ہے، آپ کے خیال میں اس بے ہودہ اقدام میں کیا امریکی حکومت بھی ملوث ہے، اور دوسری بات یہ کہ اس کیخلاف مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی موثر احتجاج کیوں نہیں کیا گیا۔؟
امیر مقام: کونسا ایسا مسلمان ہوگا جس کی اس اقدام پر دل آزاری نہ ہوئی ہو، ہم سب کو اس پر بہت دکھ اور افسوس ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے ہمیں کوئی مشترکہ فیصلہ کرنا چاہئے اور او آئی سی کا اجلاس طلب کرکے تمام مسلم ممالک کو دبائو بڑھانا چاہئے، اسی طرح اقوام متحدہ میں جاکر وہاں قرارداد منظور کرانی چایئے، دو، اڑھائی ارب لوگوں کی دل آزاری کرنا سب کیلئے قابل مذمت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی جانب سے اس معاملہ پر ’’سوری‘‘ کرنا کافی نہیں ہوگا، اگر امریکہ اس حوالے سے مخلص ہے تو اس کو متعلقہ لوگوں کو گرفتار کرنا چاہئے اور ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے، اور ایسے اقدامات کیخلاف قانون سازی میں مدد کرنی چاہئے، تب ہم مسلمانوں کی تسلی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آپ کے علم میں ہوگا کہ توہین رسالت (ص) پر مبنی اس امریکی فلم کیخلاف گزشتہ دنوں کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے سامنے ہونے والے ایک احتجاج میں پولیس کی فائرنگ سے ایک نوجوان شہید اور کئی زخمی بھی ہوئے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کسی مسلم ملک میں ایک مقدس مقصد کی خاطر احتجاج کرنے والوں پر اس طرح گولیاں چلانا کسی بھی طور پر درست ہو سکتا ہے۔؟
امیر مقام: میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے، ایک مذہبی وابستگی جو ہے اس کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آئے اور حکومت کو بھی لوگوں کے جذبات کا خیال ضرور رکھنا چاہئے، اور ہمارے لوگوں کے احتجاج بھی پرامن ہونے چاہیئں، اپنی املاک کو نقصان پہنچانا بھی مناسب نہیں، احتجاج ہونا چاہئے، سڑکوں پر آنا چاہئے اور دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ ہم اس اقدام پر مشتعل ہیں، تاکہ انہیں احساس ہو۔

اسلام ٹائمز: ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، جیسا کہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ بنیاد پر ہزارہ قبائل کو نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں اہل تشیع کی قتل و غارت گری ہو رہی ہے، اس قتل عام کیخلاف مسلم لیگ ن کی جانب سے ایوانوں میں موثر آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔؟
امیر مقام: ہم نے ہر موقع پر اس حوالے سے آواز اٹھائی ہے، جس طرح کہ بلوچستان میں واقعات ہوئے یا شمالی علاقات جات میں میں جو واقعات ہوئے۔ اس روز جیسے بس سے لوگوں کو اتار کر گولیاں ماری گئیں اور اس کے علاوہ بھی جو واقعات ہوئے ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ اس قسم کے واقعات نہ ہوں اور ہم سب پاکستانی بن کر اس ملک کیلئے کام کریں، ایسا نہیں کہ ہم نے آواز نہیں اٹھائی، لیکن اصل کام حکومت کا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے پاس ہی تمام ریاستی مشینری ہوتی ہے، ہر جگہ اس کی رسائی ہوتی ہے، اگر حکومت کوئی کام خلوص دل سے کرنا چاہے تو وہ ممکن ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری دہشتگردی کی وجہ سے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہید ہوچکے ہیں اور آپ پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے، یہ بتایئے گا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی پالیسی اس وقت کیا ہے اور آئندہ الیکشن کے بعد کیا ہوگی۔؟
امیر مقام: میرے اوپر 5 مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں، جس میں تین خودکش حملے اور 2 بم دھماکہ شامل ہیں، یعنی 5 مرتبہ اللہ تعالٰی نے مجھے نئی زندگی دی اور کئی بھائی اور دوست وغیرہ شہید بھی ہوئے اور ہم نے اس حوالے سے کافی نقصان بھی اٹھایا ہے، ہمارا اس حوالے سے ایک موقف اور اسٹینڈ ہے اور رہے گا کہ جو ہو رہا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے، اور ہم میاں نواز شریف کی قیادت میں یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالٰی نے انہیں موقع دیا تو حالات میں بہت بہتری آسکتی ہے، کیونکہ میاں صاحب کی بھی مذہبی سوچ ہے اور مذہبی لوگوں کیساتھ ماضی میں ان کے اچھے روابط رہے ہیں، میرے خیال میں وہ اس کی بنیای جڑوں میں جا کر اس کا کوئی حل نکال سکتے ہیں، اور معاملات مذاکرات سے حل ہوسکتے ہیں، اگر ہمیں موقع ملا تو ہم بنیادی وجوہات کی طرف توجہ دیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات مذہبی جماعتوں کیساتھ اتحاد کی صورت میں لڑے گی، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
امیر مقام: بالکل، میں تائید کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں سے الائنس ہونا چاہئے، اور ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم پیپلزپارٹی اور اے این پی کیساتھ اتحاد نہیں کرینگے، باقی جماعتوں سے الائنس ہو سکتا ہے، اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ دیرپا اتحاد ہوتا ہے، اس وجہ سے مقامی سطح پر دیکھ کر اقدامات کئے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 196532
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش