0
Sunday 23 Sep 2012 16:44

شام میں امریکہ اور اس کے حواریوں کو منہ کی کھانی پڑے گی، علامہ شفقت شیرازی

شام میں امریکہ اور اس کے حواریوں کو منہ کی کھانی پڑے گی، علامہ شفقت شیرازی
علامہ سید شفقت حسین شیرازی کا تعلق سرگودہا سے ہے، آپ بائیس سال کی عمر میں بی کام کرنے کے بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک روانہ ہوگئے۔ زمانہ طالبعلمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں فعال رہے اور سرگودھا ڈویژن کے ڈویژنل صدر کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے شانہ بشانہ میدان عمل میں مصروف رہے۔ آج کل دمشق میں ایک حوزہ علمیہ کے سرپرست کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سرگرم رہنماء اور سیکرٹری خارجہ امور ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے ملکی و بین الاقوامی حالات پر علامہ صاحب نے جو گفتگو کی، قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مقاومت کے اہم بلاک شام کی موجودہ صورتحال کیا ہے، ترکی سمیت دیگر عالمی ممالک کیوں شام میں مداخلت کر رہے ہیں اور باغیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: شام کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ماضی کی طرف جانا پڑے گا۔ جب امریکہ عراق میں داخل ہوا تو اس وقت سے وہ یہی چاہتا ہے کہ اس سارے خطے میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں لائے۔ امریکہ نے شروع دن سے ہی عرب خطے میں اپنی مرضی کی حکومتیں لانے پر کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شام پر اب سے نہیں بلکہ کافی عرصہ سے کام کر رہا تھا۔ یعنی وہاں کے عوام میں اثر و نفوذ پیدا کرکے باغیوں کو سپورٹ کر رہا تھا۔ اس کی ایک مثال لبنان کے صدر رفیق حریری کا قتل ہے، اسے قتل کیا گیا اور اس کا سارا ملبہ شام پر ڈال دیا گیا اور یوں عالمی دباؤ کے ذریعے شام کو لبنان سے فوجیں نکالنا پڑیں، جو وہاں امن کے قیام کی خاطر گئی ہوئی تھیں حالانکہ شام کی افواج نے اس معاملے میں بڑی قربانیاں دیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس اعلان پر لبنانی عوام نے شام کے حق میں مظاہرے بھی کیے اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ 

اب آتے ہیں موجودہ صورتحال کی طرف، دیکھیں اس وقت شام میں جتنے بھی گروہ سرگرم عمل ہیں، حکومت جن باغیوں کیخلاف جنگ لڑی رہی ہے۔ انہیں امریکی کی جانب سے مکمل فنڈنگ ہو رہی ہے۔ امریکہ حکومت مخالف سب باغیوں کو اپنی طرف سے مکمل سپورٹ کر رہا ہے۔ شام کے مسئلہ نے باقی ممالک کے چہرے سے بھی نقاب الٹ دیا ہے اور ان کے مکروہ چہرے نمایاں ہوگئے ہیں۔ واضح ہوگیا ہے کہ کون خطے میں امریکی اہداف کی خاطر کام کر رہا ہے اور کون یہاں کے امن کو قائم رکھنے کیلئے قربانیاں دے رہا ہے۔
 
شام میں جتنے بھی مظاہرے ہو رہے ہیں اور حکومت کے خلاف اٹھے ہوئے ہیں، وہ سب امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ شام کے معاملے میں عرب ممالک نے منافقانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس ساری صورتحال میں ترکی مالی تعاون، قطر سے میڈیا، سعودی عرب سے وسائل اور دیگر عرب ممالک سے تمام دہشت گردوں کو اکٹھا کرکے شام کے اندر داخل کر دیا گیا ہے، تاکہ شام میں موجودہ رجیم کو بدلہ جاسکے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو کہتے ہیں عوام یہ چاہتے ہیں، عوام وہ چاہتے ہیں، جبکہ ان ممالک میں خود بادشاہتیں ہیں، جو عوام کی رائے کے برخلاف اقدام اٹھاتے ہیں۔ ان ممالک نے شام کے حالات خراب کر دیئے ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ شام میں لوگ ابھی گھروں میں ہی تھے کہ سڑکوں اور شام کے باڈرز پر مختلف کیمپ بنا دئیے گئے، جبکہ سعودی عرب نے تو شامی مہاجرین کیلئے فنڈز قائم کر دیا، ان کیمپوں میں آنے والوں کو تربیت دی گئی اور اسلحہ دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ شام اور اس سے ملحقہ ممالک میں جتنی بھی تحریکیں چلیں جن میں لبنان، شام، فلسطین و دیگر ممالک شامل ہیں، وہ سب شام حکومت کی حمایت کرتی تھیں، جس وجہ سے شام کی فتح برقرار ہے۔

ٓاسلام ٹائمز: کیا شام ان حالات پر کنٹرول حاصل کرلے گا، جبکہ عرب ممالک سمیت امریکہ اور برطانیہ بھی مخالف ہیں اور وہ حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: اب الحمداللہ حالات پہلے سے کافی بہتر ہوگئے ہیں، کیونکہ شام کے اندر بہت سی ایسی قوتیں موجود ہیں جو بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کرتیں۔ شام کی حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر اس معاملے کو سلجھا رہی ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے معاملہ نہ سلجھایا تو ہمارا حال بھی افغانستان، عراق اور پاکستان اور لیبیا سے مختلف نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ حکومتوں کو توڑ تو دیتا ہے، لیکن وہاں کے شورش زدہ حالات کا مداوا نہیں کرتا۔ جس کی مثال یہ ہے کہ ابھی تک لیبیا کے اندر قبائل کی جنگ جاری ہے اور امن قائم نہیں ہو سکا۔ امریکہ کسی بھی جگہ امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ 

پس ان سارے معاملات کو دیکھ کر شام یہ کہتا ہے کہ بیرونی مداخلت سے برپا بدامنی میں ہم قربانی کا بکرا بن رہے ہیں اور شام میں امریکہ اور اس کے حواریوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ آپ دیکھیں کہ اس جنگ سے شام میں مدارس، ہسپتال، گھر، تجارتی مراکز سمیت انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ان تمام گھمبیر مسائل سے نکلنے کے لیے شام کی حکومت اور شام کے عوام دونوں میں فکر و تدبر سے اپنے داخلی مسائل کو سلجھانے کا احساس اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ میرے خیال میں شام کے مسئلے کا حل اسی میں مضمر ہے کہ شام کی حکومت اور شام کے عوام مل کر اس بات پر اتفاق رائے کریں جو شام کے عوام اور حکومت دونوں کے مفاد میں ہو۔

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ پہلے تہران میں ہونے والی غیر وابستہ تحریک کے اجلاس میں شام کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی اور اس حوالے سے موقف بھی پیش کیا گیا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس اجلاس میں کیے جانے والے فیصلے شام کی اندرونی صورتحال کو بہتر بنانے میں کارگر ثابت ہونگے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: آپ نے دیکھا کہ غیر وابستہ ممالک کے اجلاس میں بہت سے ممالک کے لوگوں نے شرکت کی، جس میں شام کی حکومت کا نمائندہ وفد اور شام مخالف حکومتیں موجود تھیں، لیکن اس کے باوجود ایک ایسا ماحول تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ کسی کا کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ عراق نے کہا کہ ہم شام کے لیے دل و جان سے حاضر ہیں، مصر کا بھی تقریباً یہی بیان تھا۔ اگر اسلامی برادری اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرے تو مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ اس کا انجام بخیر ہوگا۔

اسلام ٹائمز: غیر وابستہ تحریک کی سربراہی ایران کو مل گئی، کیا سمجھتے ہیں کہ اس سے عالم اسلام میں اہم تبدیلی رونماء ہوگی یا رکن ممالک میں فعالیت پیدا ہوگی، جس سے عالمی سطح پر اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: انقلاب اسلامی کے شروع سے لیکر ابتک ایران نے اپنی خارجہ پالیسی بہت ہی اچھی بنائی ہے اور اس پر کاربند ہے۔ اس کا ثبوت غیر وابستہ ممالک کے اجلاس میں سو سے زائد ممالک کی شرکت ہے۔ استکباری قوتیں خلیج تعاون کونسل اور اقوام متحدہ کے اداروں کو خاص مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب کسی ایسے شخص کے پاس قوت آئے اور دنیا کی رہنمائی کرے جو سب کی فلاح چاہنے والا ہو تو یقیناً دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ 

پوری دنیا گھمبیر مسائل کا شکار ہے، جس میں اقتصادی مسئلہ، دہشت گردی کا مسئلہ اور بہت سارے بحرانوں نے جنم لے لیا ہے اور استکباری قوتوں کی جانب سے پوری دنیا میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ ہر وقت جنگ کی سی کیفیت رہتی ہے تو ایران کے پاس اس کی قیادت آنا اچھا شگون ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب ایران جیسی قیادت دنیا کو لیڈ کرے گی تو یقیناً دنیا ایک اچھے راستے پر گامزن ہوسکے گی اور تمام اقوام عالم ترقی کرنے کے لیے آسانی محسوس کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ ایم ڈبلیو ایم کے خارجہ امور کے مسئول ہیں، یہ بتائیے گا کہ مجلس وحدت مسلمین کی ابتک آپ نے خارجہ سطح پر کیا پالیسیاں تیار کی ہیں، جن کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہوں اور کیا پالیسیاں اختیار کی جاسکتی ہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: پاکستان شیعہ سنی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اس کو اہل تشیع اور اہل سنت برادران نے مشترکہ جدوجہد سے حاصل کیا۔ ہم داخلی اور خارجہ دونوں پالیسیز پر اپنا ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ایک تو پاکستان کے اندر اہل تشیع کو 80ء کی دہائی سے لے کر موجودہ دور تک ایک تعصب کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اہل تشیع کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ مخلص ہونے کے جرم میں اور اس کے ساتھ وفادار ہونے کے جرم میں پاکستان کے اندر دوسرے طبقے کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
 
اہل تشیع کا ہر پندرہ گھنٹے کے اندر ایک فرد شہید ہو رہا ہے۔ آئے دن اہل تشیع کیخلاف دھماکے ہو رہے ہیں اور اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے وکلاء، ججز، انجینئرز، ڈاکٹرز کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم اس حوالے سے کوشش کر رہی ہے کہ پوری دنیا میں پاکستان کا تشخص اور وقار بلند ہو اور یہاں کے لوگوں کو ان کے جان و مال کا تحفظ دیا جائے۔ حکومت اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرے اور ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود مختلف بحرانوں کا شکار ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ آج پاکستان میں دہشت گردی اپنے عروج پر ہے اور اسے دہشت گردوں کا مرکز بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان سے دہشت گردوں کو دنیا کے امن کو خراب کرنے کے لیے مختلف ممالک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس سے دنیا میں پاکستان کا تشخص اور وقار کم ہوتا جا رہا ہے۔
 
حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانیوں اور پاکستان کا وقار دنیا بھر میں مجروح ہو رہا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس انداز سے تشکیل دی جائے، جس سے پاکستانی قوم کو فائدہ ہو اور جس سے ملک کا وقار بلند ہو۔ جس کے تحت پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم ہوں۔ چاہے کتنی ہی بڑی طاقت ہو، ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کسی کے اشارے پر کام نہ کرے، بلکہ پاکستانی قوم کی مصلحت اور اس کے مفاد کے لیے کام کرے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کے امور خارجہ کے حوالے سے دفتر خارجہ نے کس حد تک کام کیا ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: مجلس وحدت مسلمین پاکستان امور خارجہ کی اپنے لحاظ سے یہ پالیسی ہے کہ بیرونی ممالک میں جتنے بھی پاکستانی قیام پذیر ہیں، ان لوگوں سے پہلے مرحلے میں روابط قائم کرنا، انہیں پاکستان کے مسائل سے آگاہ کرنا، ان کے تجربات جو پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے فائدہ مند ہوں، ان سے استفادہ کرنا اور گھمبیر مسائل سے پاکستان کو نکالنے کے لیے ان کا جو بھی کردار ہو سکتا ہے، اس سے استفادہ کرنا ہے۔ 

الحمداللہ اطمینان بخش امر یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کے دفتر خارجہ نے تھوڑے عرصے میں اپنے روابط کا دائرے کافی وسیع کر لیا ہے۔ بہت سے لوگ مجلس وحدت مسلمین کے مقاصد اور حکمت عملی سے آگاہ ہوچکے ہیں اور مربوط بھی ہوئے ہیں۔ بیرون ممالک سے لوگوں نے مجلس وحدت مسلمین پر اظہار اعتماد کیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جب سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان رونماء ہوا تو لوگوں نے مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ مل کر جو صدائے احتجاج بلند کی وہ اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔
 
ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ کم از کم لوگوں میں شعور اور تحرک پیدا ہوئی ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ برطانیہ، واشنگٹن، آسٹریلیا و دیگر ممالک کے اندر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ہم نے علمائے کرام و طلاب کے ساتھ روابط کرنے کے لیے قم میں بھی ایم ڈبلیو ایم کا دفتر قائم کیا جو بہت فعال بھی ہے اور تعلیمی، تحقیقی کام کر رہا ہے، اسی طرح مشہد مقدس میں بھی ایم ڈبلیو ایم کا دفتر بنایا ہے۔ نجف اشرف میں بھی دفتر قائم ہوچکا ہے۔ 

دمشق اور بیروت میں بھی ایم ڈبلیو ایم کی نمائندگی موجود ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ پاکستان کے اندر ایسی جماعت ابھری ہے جو اہل تشیع اور تمام مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے تو لوگ خود بخود اس کی طرف چلے آئے ہیں۔ اور انشاءاللہ ہم بحثیت جماعت قوم کو کبھی مایوس نہیں کریں گے اور اس ملک کا امن بحال کرنے اور اس حقیقی آزادی دلانے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 197745
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش