0
Sunday 23 Sep 2012 21:47

ملک میں جاری شیعہ نسل کشی کو باہمی اتحاد سے ہی روکا جاسکتا ہے، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی

ملک میں جاری شیعہ نسل کشی کو باہمی اتحاد سے ہی روکا جاسکتا ہے، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی بلوچستان میں وزیر ہیں، گورنمنٹ کالج برائے خواتین کراچی سے گریجویشن کرنے کے بعد آرمی کو جوائن کیا۔ تقریباً 8 سال سی ایم ایچ کوئٹہ میں بحیثیت کیپٹن ڈاکٹر اپنی خدمات سر انجام دیتی رہی ہیں۔ ان کے خاوند انجینئر احمد سعید ہاشمی سیاست میں تھے۔ 85ء میں الیکشن ہار گئے۔ پھر 88ء سے 97ء تک چار مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی سے کوئٹہ کے حالات اور ملک کی مجموعی صورتحال پر ایک انٹرویو کیا ہے، جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: محترمہ رقیہ سعید ہاشمی صاحبہ سب سے پہلے تو یہ بتائیے گا کہ بلوچستان کا سب بڑا مسئلہ کیا سمجھتی ہیں کہ اگر وہ حل ہو جائے تو وہاں کا امن لوٹ آئے گا۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: اس وقت کوئٹہ کی صورتحال باقی ملک کے مقابلے میں بہت ہی ابتر ہے۔ بلوچستان کے مخصوص حالات یہ ہیں کہ بلوچ اکثریت احساس محرومیت کی وجہ سے ناراض ہیں۔ ڈیرہ بگٹی سے گیس نکلتی ہے، لیکن وہاں کے باسیوں کو نہیں ملتی۔ ان سارے مسائل کو اب بلوچستان کے لوگ بخوبی سمجھتے ہیں اور اب وہ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ وفاق نے بلوچستان کو کبھی صوبہ نہیں سمجھا، وہاں کے عوام کے جب تک مسائل کو نہیں سمجھا جائے گا اس وقت یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ محض مذمتی بیانات سے کچھ نہیں ہونے والا۔ حکمران اگر واقعاً وہاں کے حالات سدھارنا چاہتے ہیں تو بلوچوں کی باتوں پر آپ کو کان دھرنے پڑیں گے۔ صرف معافی مانگے سے کچھ نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ہزارہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں کسے ملوث سمجھتی ہیں اور اس کی اصل وجہ کیا ہے، دوسرا یہ کہ وہاں حکومت نام  کی کوئی چیز بھی ہے یا نہیں۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: اگر اہل تشیع کی نسل کشی ہو رہی ہے تو آپ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی و دیگر کالعدم جماعتوں کو الزام دے سکتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ بہت ہی آسان ہے۔ اس کی بڑی وجہ اہل تشیع کا آپس میں اتحاد نہ ہونا ہے۔ جب تک ہم سب اہل تشیع اکٹھے نہیں ہوں گے تب تک یہ قتل و غارت گری کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، ہم ایران میں زیارات کے لیے جاتے ہیں، لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زائرین کی بسوں پر بارہا حملے ہوچکے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو بسوں سے اتار کر انہیں گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ دوسری جانب ہماری حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ان واقعات کے مجرموں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ میرے خیال میں ہم اس کا الزام حکومت بلوچستان پر نہیں لگا سکتے، کیونکہ اس کے پیچھے مافیاز ہیں، جو کام کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: محترمہ! جس حکومت کی آپ بات کر رہی ہیں اس کی آپ خود وزیر ہیں۔ اب آپ کے صوبے کے وزیراعلٰی کا یہ کہنا کہ ’’رونے والوں کے لیے ٹشو کا ٹرک بھیج دوں گا‘‘ اس کا کیا مطلب ہے۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: یہ غلط بات ہے، اس طرح سے وزیراعلٰی کو نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اب میں بھی حکومت میں ہوں، اس لیے میرا حق نہیں بنتا کہ ان کیخلاف کوئی بات کروں، البتہ اگر ان سے میری ملاقات ہوئی تو میں ان سے ضرور اس حوالے سے بات کروں گی۔ وزیراعلٰی کا اپنا بھتیجا قتل ہوچکا ہے اور خود وزیراعلٰی پر دو دفعہ حملہ ہوچکا ہے۔ اگر حملوں کی زد سے ہمارے وزیراعلٰی جن کی سکیورٹی نہایت ہی سخت ہوتی ہے، وہ نہیں بچ سکے تو عام آدمی کی حفاظت کا کیا تصور ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں پولیس، رینجرز و دیگر سیکورٹی ادارے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود قاتل کیسے فرار ہو جاتے ہیں اور انہیں گرفتار تک نہیں کیا جاتا۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں ایجنسیوں کا نظام بالکل ہی ناکام ہے۔ اس میں چاہیے آئی ایس آئی ہو یا دیگر ادارے، وہاں سب ناکام ہوچکے ہیں۔ اگر ہمارے تمام اداروں مثلاً آرمی، آئی ایس آئی، پولیس و دیگر اہم اداروں میں رپورٹنگ کا جال ہو تو شاید اتنی گھمبیر صورتحال کبھی پیدا نہ ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کے اندر آپس میں رابطوں کا فقدان ہے۔ آپس میں بروقت معاملات کا تبادلہ نہیں ہو پاتا۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: اس میں کوئی شک نہیں۔ اس وقت امریکا کی چائنہ کے ساتھ جنگ ہے، امریکہ کی ایران کیساتھ جنگ ہے، عرب کی جنگ ایران کے ساتھ ہے۔ بلوچستان اصل میں سینڈوچ بنا ہوا ہے، ہر ملک کے یہاں اپنے مفادات ہیں۔ بہرحال ہمیں آپس میں لازمی متحد ہونا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں میرا بہنوئی بھی شہید کیا گیا ہے۔

اسلام تائمز: آپ کیا سمجھتی ہیں کہ کس چیز پر فوکس کیا جائے کہ جس سے بلوچستان کا امن لوٹ سکے۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: دیکھیں میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر آرمی، پولیس و دیگر ادارے آپس میں اچھے روابط رکھیں اور پاکستان کے لیے مل کر کام کریں تو پاکستان مخالف قوتوں کے کارندے پکڑے جا سکتے ہیں اور اصل سازش بھی ناکام ہو سکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ان تمام اداروں کو بلوچستان کے عوام پر شفقت کا ہاتھ رکھنا چاہیے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بلوچستان کے سبھی لوگ محب وطن ہیں۔

اسلام ٹائمز: اچھا یہ بتائیے کہ کیا وجہ سمجھتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں شیعہ نسل کشی پر بولنے سے کتراتی ہیں۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: میں پہلے مسلم لیگ ن کی جنرل سیکرٹری رہی، پھر حالات بدل گئے ق لیگ ایک الگ جماعت کے طور پر سامنے آئی تو اسے جوائن کیا، بدقسمتی سے مسلم لیگ ق نے بھی اس قتل عام کی کھل کر مذمت نہیں کی۔ اسی طرح دیگر جماعتیں ہیں جنہیں اس پر کھل کر اپنا موقف بیان کرنا ہوگا۔ یہ لوگ اپنے ووٹوں کی خاطر شائد خاموشی کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے مجموعی حالات آپ کو کیا نظر آتے ہیں، کیا الیکشن وقت پر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: اگر یہی حالات رہے تو پھر بہت مشکل ہو جائے گا۔ الیکشن کیلئے ضروری ہے کہ امن کو بحال کیا جائے، بدامنی میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ پاکستان میں کیوں کہ بہت سے ساری قوتیں ملوث ہیں، جو نہیں چاہیں گی کہ پاکستان میں امن آئے اور الیکشن ہوں۔

اسلام ٹائمز:اعلٰی عدلیہ شیعہ نسل کشی پر کیوں خاموش ہے، عوام کہتے ہیں کہ چیف جسٹس چھوٹے چھوٹے معالات پر نوٹس لے لیتے ہیں مگر اس پر کیوں خاموشی ہیں۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: یہ ایک بات سوچنے والی ہے کہ چودھری افتخار کو بلوچستان کے مسائل نظر نہیں آ رہے ہیں۔ چودھری افتخار اور میں ہم دونوں آپس میں ایک دوسرے کو بہت ہی قریب سے جانتے ہیں۔ چودھری افتخار صاحب کو مسنگ پرسنز تو نظر آجاتے ہیں، لیکن جو قتل ہو رہے ہیں وہ ان کو نظر نہیں آتے۔ انہوں نے کبھی ٹارگٹ کلنگ پر آواز نہیں اٹھائی۔ اس پر اعلٰی عدلیہ کو کان دھرنے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: آپ حکومت کا حصہ ہیں، اس کے باوجود آپ امن قائم کرانے میں کیوں کر ناکام ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کیا کبھی آپ نے خود اس معاملہ پر حکومت کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ میں بلوچستان ہزارہ کی پہلی خاتون ہوں جو ڈاکٹر بنی ہوں، آرمی کو جوائن کیا، ایم پی اے بنی اور پھر وزیر بنی ہوں۔ میں دو سال سے وزیراعظم سے وقت مانگتی رہی ہوں۔ ہر ہفتے میں ایک فیکس کرتی تھی۔ اس کے باوجود انہوں میں مجھے وقت نہیں دیا۔ اب بتائیں کہ اس سے زیادہ میں کیا کرسکتی ہوں۔

اسلام ٹائمز: آل شیعہ پارٹیز کانفرنس میں آپ شریک تھیں، اس صورتحال پر کیا تجاویز دیں۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: اس طرح کی آل پارٹیز کانفرنس ہونی چاہیے، جس میں تمام دینی و سیاسی جماعتیں شرکت کریں۔ منعقد کی گئی آل شیعہ پارٹیز کانفرنس میں تمام شیعہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو بھی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرکت کرنی چاہیے تھی۔ میں نے اس کانفرنس میں تجاویز دیں کہ ہمیں چیف آف آرمی سٹاف اور وزیراعظم و صدر سے بھی اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے ملاقاتیں کرنی چاہیے۔ ان تمام کے حل کے لیے ہمیں عملی قدم اٹھانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: توہین آمیز فلم کیخلاف حکومت کے اقدامات کافی ہیں۔؟

ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی: نہیں، صرف احتجاج کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات اٹھانے چاہیں۔ بلوچستان والے کافی عرصے سے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ عملی اقدامات سے مراد یہ ہے کہ سازش کا جائزہ لیں، کہاں سے ہو رہی ہے اور جو لوگ سازشیں کر رہے ہیں، ان کے اس کے پیچھے کیا اہداف و مقاصد ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے عملی قدم اٹھانا۔ ہمارے اندر اخلاقی جرات ہونی چاہیے اور ہمیں پاکستان کے موجودہ حالات کو درست کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان عربوں کھربوں ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے، ہمیں اس کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 197997
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش