0
Sunday 28 Oct 2012 23:26

سپاہ صحابہ کے علاوہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ڈی آئی خان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی چاہتی ہیں، سید مرید کاظم

سپاہ صحابہ کے علاوہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ڈی آئی خان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی چاہتی ہیں، سید مرید کاظم
مخدوم سید مرید کاظم شاہ کا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، آپ 2008ء کے انتخابات میں حلقہ پی کے 68 ڈی آئی خان 5 سے آزاد حیثیت میں رکن خیبر پختونخوا اسمبلی منتخب ہوئے، اور پھر حکومتی اتحادی بن گئے، آپ صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ورکس اینڈ سروسز کے رکن بھی ہیں، مرید کاظم صاحب کا تعلق مکتب تشیع سے ہے تاہم انتخابی حوالے سے آپ کا ووٹ بنک کسی ایک مکتب فکر تک محدود نہیں، اپنے حلقہ نیابت کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ڈیرہ اسماعیل خان کی موجود سیاسی اور امن و امان کی صورتحال، عوام کو درپیش مشکلات، حکومتی کارکردگی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کردار کے تناظر میں سید مرید کاظم شاہ کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ) 

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو ہمارے قارئین کیلئے یہ بتایئے گا کہ انتخابی حوالے سے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی کیا پوزیشن ہے اور صوبائی اور قومی اسمبلی کی یہاں کتنی نشستیں ہیں۔؟
سید مرید کاظم: قومی اسمبلی کی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کی دو مشترکہ نشستیں ہیں، ایک ڈی آئی خان کی نشست ہے اور دوسری ڈی آئی خان کم ٹانک نشست ہے، اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی پانچ ایم پی ایز کی سیٹیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ایوانوں میں معقول نمائندگی ہے تو کیا اس ضلع کے مسائل قومی اور صوبائی اسمبلی میں ویسے زیر بحث آئے جیسا کہ عوام کو توقعات وابستہ تھیں۔؟
سید مرید کاظم: جی بالکل زیر بحث آئے ہیں، ڈی آئی خان کا بڑا مسئلہ مرکز کیساتھ منسلک ہے، جو چشمہ لیفٹ کینال ہے، اس کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں، جے یو آئی بھی دعویٰ کر رہی تھی کہ ہم کروا رہے ہیں، پی پی والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم کروا رہے ہیں، میرے کہنے پر اس روز وزیراعلٰی نے مرکزی حکومت کو آفر دی ہے کہ اگر آپ لیفٹ بنانا چاہتے ہیں تو آدھا خرچہ صوبائی حکومت دینے کیلئے تیار ہے، اگر مرکز ہمیں آدھا خرچہ دینا چاہے تو۔ گو کہ یہ معاملہ مرکز سے منسلک ہے، لیکن وزیراعلٰی امیر حیدر خان ہوتی نے ڈی آئی خان پر یہ ایک مہربانی کی ہے کہ اس پراجیکٹ کیلئے 50 فیصد اخراجات ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے، دوسرا یہ کہ جو سڑکیں وغیرہ ہیں، ان کیلئے صوبائی حکومت نے ڈی آئی خان پر بہت زیادہ توجہ دی ہے، اور اسلام آباد سے کراچی جانے والی ایک چھوٹی روڈ پر ایک ارب روپے کی لاگت سے کام شروع ہے، اسی طرح پانی کا مسئلہ تقریباً حل کرلیا گیا ہے، ڈی آئی خان کے اکثریتی مسائل پر اللہ کی مہربانی سے اے این پی کی صوبائی حکومت نے بہت اچھے طریقہ سے توجہ دی ہے اور اکثریتی مسائل تقریباً حل ہوگئے ہیں، لیکن پھر بھی آبادی جس طرح بڑھ رہی ہے، مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈیرہ اسماعیل خان ماضی میں دہشتگردی کا شدید شکار رہا ہے اور فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں سینکڑوں اہل تشیع مارے گئے، ڈی آئی خان میں امن و امان کی موجودہ پوزیشن کیا ہے۔؟
سید مرید کاظم: اللہ کی مہربانی ہے کہ ڈی آئی خان اس پوزیشن سے اپنی اصل والی پوزیشن پر آرہا ہے، اب بہت امن ہے، ویسے تو ہمارا پورا صوبہ دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا لیکن موجودہ صوبائی حکومت کی اچھی گورننس کی وجہ سے حالات پر قابو پا لیا گیا ہے، اب ڈی آئی خان میں وہ پوزیشن نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مقامی سطح پر مذہبی و سیاسی جماعتوں کا کیا کردار رہا ہے۔؟
سید مرید کاظم: ڈی آئی خان میں جتنی جماعتیں ہیں مولانا فضل الرحمان کی جماعت ہو یا علامہ ساجد نقوی کی جماعت ہو، میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا یہاں اچھا کردار رہا ہے، یہ دونوں جماعتیں اور ان کے علاوہ بھی جو دیگر جماعتیں ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ڈی آئی خان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہو، صرف سپاہ صحابہ ایک گروپ ہے جو یہ نہیں چاہتا، لیکن وہ ایک کمزور گروپ ہے، وہ ان تمام عناصر کیخلاف ہے، باقی جتنی بھی جماعتیں ہیں وہ اتحاد بین المسلمین پر زور دے رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے سپاہ صحابہ کا ذکر کیا، یہ ایک کالعدم جماعت ہے، اس کی ڈیرہ اسماعیل خان میں فعالیت کس حد تک ہے۔؟
سید مرید کاظم: بدقسمتی سے اس مرتبہ کئی امیدوار آگئے تھے، اس وجہ سے ان (سپاہ صحابہ) کا امیدوار جیت گیا تھا، اس وجہ سے ان کا تھوڑا سا اثر بن گیا ہے، تاہم ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ سپاہ صحابہ ڈی آئی خان میں موجود ہے، اتنی بڑی تعداد میں تو نہیں، لیکن پھر بھی وہ ایک منظم تنظیم ہے، اور ڈیرہ میں اس کا کردار ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے علاقہ سے کیا آئندہ الیکشن میں کسی اہل تشیع امیدوار کے قومی اسمبلی میں بھی پہنچنے کے امکانات ہیں۔؟
سید مرید کاظم: جی نہیں کوئی امکان نہیں ہے، میری نشست کے علاوہ اگر ڈیرہ اسماعیل خان سٹی میں اہل تشیع نے اس بار اتفاق کرلیا تو یہ دوسری نشست حلقہ پی کے 64 ڈی آئی خان 1 حاصل کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہاں سے امیدار زیادہ آرہے ہیں اور شیعہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ وہ صوبائی اسمبلی کی یہ نشست جیت سکتے ہیں، میں اہل تشیع سے ہوں، میرے علاقہ میں پانچ، سات ہزار شیعہ ووٹ ہوگا، لیکن میں 28، 29 ہزار ووٹ لیتا ہوں، اگر کوئی میری طرح کا امیدوار آگیا تو ممکن ہے کہ دوسری نشست بھی جیت لی جائے۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت کی مدت اقتدار کے اختتامی مراحل ہیں، یہ حکومت عوامی توقعات پر کس قدر پورا اترنے میں کامیاب ہوئی۔؟
سید مرید کاظم: میرے خیال میں جتنا کام اس حکومت نے اور موجودہ وزیراعلٰی نے کیا ہے، میں تین چار مرتبہ اسمبلی میں آچکا ہوں لیکن ہمیں ایسا وزیراعلٰی بھی پہلے کبھی نہیں ملا اور نہ ہی ترقیاتی حوالے سے ایسی کوئی حکومت ملی، میں صرف اپنے حلقے کی بات کرتا ہوں کہ جب سے پاکستان بنا ہے اتنا فنڈ نہیں آیا ہوگا جتنا اس مرتبہ اس حلقے کیلئے آیا ہے، اور اس طرح ہر حلقے کی یہی پوزیشن ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ایم ایم اے کی بحالی سے ڈیرہ اسماعیل خان کی انتخابی سیاست پر کوئی اثرات مرتب ہوں گے۔؟
سید مرید کاظم: میرے خیال میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، ایم ایم اے میں مین جماعت جماعت اسلامی ہے، اور جماعت اسلامی اگر ان کیساتھ نہیں ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس کی وہ پوزیشن ہوگی، ایم ایم اے نے گزشتہ حکومت میں کچھ اچھے کام کئے ہیں، ہو سکتا ہے اس کا کچھ اچھا کریڈٹ ایم ایم اے کو مل جائے، لیکن میں یہ نہیں سمجھتا کہ ایم ایم اے پہلے والی پوزیشن میں آئے گی، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ چار پانچ سیٹیں زیادہ لے لے، اور اس اتحاد کی بحالی کا ڈیرہ اسماعیل خان کی سیاست پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ گزشتہ انتخابات میں آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے، آئندہ الیکشن کے حوالے سے کیا حکمت عملی طے کی ہے۔؟
سید مرید کاظم: میں اس حکومت سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ آئندہ میں اے این پی کے ٹکٹ پر آوں، اور کوشش کروں گا کہ اے این پی کے اور بھی امیدوار لاوں۔

اسلام ٹائمز: جس مسلک سے آپ کا تعلق ہے ملک میں اس کے پیروکاروں کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، آپ کے خیال میں اس قتل و غارت گری میں کونسی قوتیں ملوث ہیں اور اس کے تدارک کیلئے کیا اقدامات تجویز کریں گے۔؟
سید مرید کاظم: میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو فرقہ واریت ہے کوئی مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ ایسا ہو، اس میں دہشتگرد تنظیمیں اور پاکستان دشمن غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں، اگر ہمارے ملک میں سیاستدانوں نے اچھا کردار ادا کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس پر قابو نہ پا سکیں، ڈی آئی خان کو دیکھ لیں کتنا فرق پڑ گیا ہے، آج کے ڈی آئی خان اور دو تین سال پہلے کے ڈی آئی خان کی کیا پوزیشن تھی۔

اسلام ٹائمز: آپ اسمبلی میں صوبائی حکومت کے اتحادی ہے، آپ نے کالعدم اور دہشتگرد تنظیموں کو کنٹرول کرنے اور ان کی فعالیت کو روکنے کیلئے حکومت سے کسی قسم کے مطالبات یا بات چیت کی۔؟
سید مرید کاظم: قدرتی طور پر جتنی بھی دہشتگرد تنظیمیں ہیں وہ اے این پی کی دشمن ہیں، لہذٰا حکومت نے کوئی ایسی بات یا قدم نہیں اٹھایا کہ جس سے ظاہر ہو کہ انہوں نے کوئی لچک دکھائی ہے، اس حکومت نے دہشتگردوں کے خلاف براہ راست کام کئے ہیں، اور کبھی بھی کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کی کوشش نہیں کی، اور جب ان لوگوں کو کوئی ڈھارس نہیں ملے گی تو یقیناً یہ کمزور ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی سے متاثرہ افراد اور ان کے لواحقین کو کیا کسی قسم کے معاوضہ کی ادائیگی کی گئی ہے۔؟
اسلام ٹائمز: جی بالکل ہوئی ہے، صوبہ کی طرف سے بھی ہوئی ہے اور مرکز کی جانب سے بھی ہوئی ہے، اصل بات یہ ہے کہ جب ڈی آئی خان میں فسادات تھے اس وقت معاوضہ کم تھا، جب حکومت نے پیسے بڑھائے تو ڈیرہ میں امن ہوگیا، بہرحال جو لوگ بھی شہید ہوئے ہیں، ان کے تمام لواحقین کو معاوضہ ملا ہے، بے شک کم ہی کیوں نہ ہو۔ 

اسلام ٹائمز: ہماری معلومات کے مطابق ڈی آئی خان میں کئی اہل تشیع بے گناہ اسیر ہیں، ان کے کیسز یا انصاف دلانے کے حوالے سے آپ نے رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے کیا معاونت کی ہے۔؟
سید مرید کاظم: آپ نے یہ بہت اچھا سوال کیا ہے، کچھ لوگ کہ جن کی رپورٹس ایجنسیوں کے پاس خراب آتی ہیں وہ انہیں پکڑتی ہیں، اہل تشیع نہ دہشتگرد ہیں اور نہ ہی اس پر یقین رکھتے ہیں، تو اہل تشیع نے حکومت کو کھلی اجازت دی تھی کہ آپ انویسٹی گیٹ کریں، اگر ہمارا کوئی فرد دہشتگرد ہوا تو ہم کبھی اس کی سفارش نہیں کریں گے، اس سے بہت اچھا اثر پڑا ہے، دوسری طرف سے لوگ چیختے ہیں لیکن صورتحال بہتر ہے، اب بہت کم لوگ اسیر ہیں، جو لوگ کلیئر ہوتے جا رہے ہیں انہیں وہ فارغ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی کے حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی یہاں سے کامیاب ہوئے، کیا مرکزی حکومت کی جانب سے اس علاقہ کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر کسی قسم کی توجہ دی گئی۔؟
سید مرید کاظم: فیصل کریم کنڈی نے ایک ایم این اے کا جو کردار ہوتا ہے وہ ادا کیا ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کوئی بڑا کام کیا ہو، ڈی آئی خان کی سب سے بڑی خواہش لیفٹ کینال تھی، اس کو صرف اخباری بیانات تک رکھا گیا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ہم 50 فیصد اخراجات اٹھانے کیلئے تیار ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے اس کیلئے کچھ نہیں کیا، میں یہ نہیں سمجھتا کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے ڈی آئی خان میں کوئی خاطر خواہ اچھا کام کیا گیا ہو، ہاں فیصل کریم اپنی طاقت کے مطابق ایک ایم این اے کی حیثیت سے کوششیں کر رہا ہے، گیس کے معاملہ میں بھی اس نے بہت کوششیں کیں، لیکن پیپلزپارٹی نے ڈی آئی خان کیلئے خاطر خواہ کوئی کام نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: آخر میں ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کے کچھ ایسے مسائل جو آپ ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے توسط سے حکمرانوں تک پہنچانا چاہیں تو بیان کرسکتے ہیں۔
سید مرید کاظم: ڈی آئی خان ایسا بدقسمت شہر ہے جہاں سیوریج کا نظام نہیں ہے، یہاں زمین ہے پانی نہیں ہے، لوگ ہیں اور پینے کا پانی نہیں ہے، ڈی آئی خان میں لیفٹ کینال یا اس قسم کے دیگر پراجیکٹس آجائیں تو یہ ضلع پورے پاکستان تو میں نہیں کہہ سکتا، تاہم کم از کم صوبہ خیبر پختونخوا کو خوراک کے معاملہ میں خودکفیل کر دے گا، اور دیگر صوبوں کو بھی خوارک بھیجی جا سکے گی، زرداری کام کرنا چاہتا ہے لیکن پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت جو ہے وہ بالکل نااہل ہے، اس کی نااہلی کی وجہ سے ہم بدقسمتی سے پیچھے آرہے ہیں، اگر پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت صحیح طریقہ سے کام کرتی تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ پی پی کا ایک بنیادی شہر تھا، اس کو منی لاڑکانہ کہا جاتا تھا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن لڑا، لیکن آج یہ پوزیشن ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ فیصل کریم کنڈی اپنی ذات کی بنیاد پر ہی ووٹ لے رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 207216
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش