3
0
Friday 23 Nov 2012 00:48

پاکستان میں فرقہ واریت نہیں، امریکی جارحیت ہے، ناصر عباس شیرازی

پاکستان میں فرقہ واریت نہیں، امریکی جارحیت ہے، ناصر عباس شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی ممتاز قانون دان اور معروف دانشور ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں، سرگودھا سے اپنے تنظیمی سفر کا آغاز کیا، یونٹ سے ہوتے ہوئے ڈویژن اور پھر ڈویژن سے مرکز تک پہنچے۔ آج کل مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری سیاسیات کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے لئے ان کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ طلبہ حقوق کیلئے بھی نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ خوبصورت شخصیت اور دلنشین لب و لہجے کے مالک ہیں، گفتگو کرتے ہوئے باتوں کی شیرینی سے اپنے سحر میں مبتلا کر لیتے ہیں۔ عالمی امور میں مشرق وسطٰی کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے موجودہ صورت حال کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے، جو ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: حالیہ بم دھماکوں اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے کون ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ لوکل ایشو نہیں، اس کے پیچھے عالمی معاملات ہیں، مقامی لوگ صرف استعمال ہو رہے ہیں، اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہاتھ ہے اس پر امریکی اور عرب ممالک کا دباؤ ہے۔ ان کا یہ ہدف رہا ہے کہ پاکستان میں کوئی شیعہ وائس مضبوط نہیں ہونی چاہئے، دوسرا وہ علاقے یا شہر جن میں شیعہ آبادی ہے، انہیں بھی نشانے پر رکھ کر ان پر بھی دباؤ رکھا جائے اور تیسرا مقصد پاکستان میں تشیع کو ڈی مورالائز رکھنا ہے، اسی لئے منطقوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ شیعہ شخصیات اور شیعہ اجتماعات کو نشانہ بناتے ہیں۔ استعمار دراصل تشیع سے خائف ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ تشیع ہی واحد مکتب فکر ہے جو اس کے لئے مستقبل میں خطرہ بن سکتا ہے، پاکستان کو مضبوط ملک بنا سکتا ہے، اس کی حفاظت کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ملت تشیع نشانہ بن رہی ہے، صرف اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استعمار اسے نشانہ بنا رہا ہے اور اس میں ایک تکفیری گروہ استعمار کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب حکومت کے دہشتگردوں سے رابطوں کے حوالے سے کیا کہیں گے، جبکہ وزیراعلٰی واضح انکار کرچکے ہیں۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: ہماری وزیراعلٰی سے ملاقات ہوئی ہے، میں نے دو ٹوک اور واضح انداز میں وزیراعلٰی کو کہا کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کالعدم جماعتوں سے آپ کے رابطے ہیں۔ یہ تاثر درست ہے یا غلط، یہ موجود ضرور ہے، اگر یہ تاثر غلط ہے تو اِسے دُور ہونا چاہیے اور اگر درست ہے تو آپ کو اپنی پالیسی پر غور کرنا چاہئے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ وزیر قانون واضح کہتے ہیں کہ ہم تو ان (دہشت گردوں) سے اتحاد کرچکے ہیں، وہ تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کرتے ہیں۔

لوگ تو منطقی طور پر یہ بھی سوچتے ہیں کہ مسلم لیگ پاکستان کے عوام کی نمائندہ جماعت ہے تو پاراچنار میں ساڑھے چار برس سے جاری محاصرہ، گلگت، کوئٹہ اور کراچی میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر آواز کیوں بلند کرتی نظر نہیں آتی۔ کیا یہ پاکستان کی سلامتی کے ساتھ نہیں کھیلا جا رہا؟ اس کا کوئی سدباب کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہم نے وزیراعلٰی پنجاب پر واضح کیا کہ ہم ایسی کسی جماعت کو پارلیمنٹ میں نہیں جانے دیں گے، جس کے تکفیری گروہوں کے ساتھ روابط ہوں گے۔

آپ کا دہشت گردوں سے رابطوں پر انکار کافی نہیں، اقدامات کی ضرورت ہے اور اقدامات سے ہمیں پتہ چلنا چاہئے آپ کے دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدام کیا ہے۔ کالعدم جماعتوں کے افراد پنجاب میں ہی فعال ہیں، انہیں پروٹیکشن دی جاتی ہے، یہ سب پنجاب حکومت کے کردار پر سوالیہ نشان ہے، لاہور میں لبیک یاحسین (ع) کے بینزز پھاڑ کر ان کی بے حرمتی کی گئی، اس سے بھی ملت تشیع کے جذبات مجروح ہوئے، ہم نے احتجاج کیا تو انتظامیہ نے اپنے رویہ پر نظرثانی کی۔

اسلام ٹائمز: وزیراعلٰی پنجاب سے ہونیوالی ملاقات اور ان کی یقین دہانیوں سے مطمئن ہیں۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: وزیراعلٰی نے تو کہا ہے کہ ان کا کسی بھی گروہ سے کوئی تعلق نہیں، ان کی نظر میں تمام مکاتب فکر محترم ہیں اور وہ سب کا ہی برابر احترام کرتے ہیں۔ یہ انہوں نے زبانی کہا ہے، ہمیں اطمینان تب ہوگا جب وہ عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ عزاداری کے اجتماعات میں کوئی رکاؤٹ نہیں آئے گی تو ہم سمجھیں گے کہ شہباز شریف اپنے قول اور فعل کے پکے ہیں۔ ویسے تو تمام سیاست دان تسلیاں تو بہت دیتے ہیں، کوئی بھی آپ کے موقف کی مخالفت نہیں کرتا لیکن بات عمل سے بنتی ہے۔ جب قول وفعل میں ہی تضاد ہو تو پھر کسی سے کیا توقع کیا جاسکتی ہے، لیکن ہمیں شہباز شریف سے کافی امید ہے کہ وہ اپنے کہے پر عمل بھی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں حکومت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہے۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: اصل میں یہ تکفیری گروہ آئسولیٹیڈ ہے، اس کا کسی مکتب فکر سے کوئی تعلق نہیں، نہ یہ دیوبندی ہیں، نہ بریلوی، یہ اہلحدیث ہیں نہ کسی اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ جاہل، بے روزگار، فارغ، شرپسند، تشدد پسند اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل یہ ایک گروہ ہے، جو کسی بھی مکتب فکر کی نمائندگی نہیں کرتا، نہ کوئی مکتب فکر ان کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ ایسا تکفیر ی گروہ ہے جو اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے۔ یہ خارجی ذہنیت کے حامل افراد ہیں، جو مختلف جگہوں سے نکل کر ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں اور انہوں نے وارداتیں شروع کر دی ہیں۔

یہی خودکش حملوں کے فیکٹریاں چلا رہے ہیں، معصوم اور سادہ لوح انسانوں کو غلط بیانی کرکے استعمال کرتے ہیں، مولانا حسن جان نے خودکش حملوں کے خلاف بات کی تو شہید کر دیئے گئے، قاضی حسین احمد نے خودکش حملوں کو ناجائز قرار دیا تو ان پر بھی حملہ کر دیا گیا۔ ایک بچی نے سچی بات کی تو ان نامرادوں نے اس کو بھی گولی مار دی۔ یہ مزارات پر حملے کرتے ہیں، جنازوں کو نشانہ بناتے ہیں، بازاروں میں دھماکے کرتے ہیں، خواتین پر حملے کرتے ہیں، دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو خواتین پر، جنازوں پر، بازاروں میں، بیگناہ اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کا درس دتیا ہو، لیکن یہ واحد گروہ ہے جو اس قسم کی گھناؤنی حرکتوں کا ارتکاب کر رہا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے قبروں سے میتوں کو نکال کر ان کو پھانسیاں دی ہیں۔

بدقسمتی سے یہ سب انہوں نے اسلام کے نام پر کیا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے مقدس چہرے کو بگاڑ رہے ہیں۔ ان کے پاس منطق کی قوت نہیں بلکہ قوت کی منطق ہے۔ ان کا علاج سوسائٹی کے اندر ان کو تنہا کرنا ہے، کیوں کہ بدقسمتی سے یہ اسٹبلشمنٹ کی پیداوار ہیں وہ ان کے شر سے بچنے کیلئے ان سے سمجھوتہ کر لیتی ہے۔ اس طرح یہ زہر وطن عزیز کے رگ وپے میں اترتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں قانون کی صحیح عملداری اور عدالتوں کی طرف سے تیز تر سزا دینے کے عمل سے اس شر سے نجات ممکن ہے،کیونکہ عوامی معاشرے میں ان کی مقبولیت صفر کے برابر ہے۔

بعض سیاسی جماعتیں ان کی بلیک میلنگ میں آکر ان کو تحفظ دینے پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور یوں پاکستان کی سالمیت سے کھیلا جا رہا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس کو امریکہ نے بنایا تھا اور پاکستانی اداروں نے پرموٹ کیا اور افغانستان و کشمیر میں ان کو استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں انہوں نے ہی امریکی ایما پر قتل و غارت کی۔ اسی گروہ کے حوالے سے کونڈولیزا رائس نے کانگریس میں کہا کہ اسلام کی یہ شکل ہمارے لئے سب سے زیادہ موزوں ہے اور ہم نے ان کے ذریعے دنیا بھر میں اہداف کو حاصل کیا۔ اب بھی پاکستان میں امریکہ ان کی سرپرستی کر رہا ہے اور انہیں استعمال کر رہا ہے، اسی وجہ سے ان کے خلاف ہماری حکومت کارروائی سے گریزاں ہے، امریکہ کے دباؤ میں آ کر حکومت ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔

اسلام ٹائمز: فرقہ واریت کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: پاکستان میں فرقہ واریت نہیں، امریکی جارحیت ہو رہی ہے۔ اگر یہ فرقہ واریت ہوتی تو گلی کوچوں بازاروں میں لڑائی ہوتی، ہمارے ہاں تمام مکاتب فکر اکھٹے رہتے ہیں، باہم شادیاں ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان کمزور کرنے کے لئے عالمی استعماری ایجنڈے کا مرکزی ہدف فرقہ واریت پیدا کرنا ہے۔ پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو نشانہ بنا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ فرقہ واریت ہے۔ یوم عشق رسول (ص) پر لبیک یارسول اللہ کی صدا بلند کرتے ہوئے لاکھوں فرزندان توحید جب ملک کے گوش و کنار سے نکلے تو نہ کوئی شیعہ تھا، نہ کوئی سنی، بلکہ سب مسلمان تھے۔ جو حرمت رسول (ص) کے لئے کٹ مرنے کو تیار تھے۔ پاکستان میں اس یک جہتی کا پیدا ہونا عالمی استعمار کے لئے ناقابل قبول تھا اور مسلمان مکاتب فکر میں فرقہ واریت کے 50 سالہ تاثر پر پانی پڑتا نظر آ رہا تھا یہی وجہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی تازہ لہر اٹھائی گئی اور اسے فرقہ واریت کا رنگ دیا گیا۔ الحمداللہ پاکستان کی سالمیت کے اس مرحلے پر شیعہ اور سنی مکاتب فکر میں پوری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کے دوان مجلس وحدت مسلمین نے قیام امن کیلئے کیا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین نے سب سے زیادہ کام وحدت مسلمین کی حقیقی روح کو بیدار کرنے کیلئے کیا ہے۔ جس کی وجہ سے معترضین کی تعداد بہت کم ہوئی ہے اور انتہا پسند گروہ عوامی سطح پر تنہا ہوگیا ہے، آج سنی تحریک، سنی اتحاد کونسل، جماعت اسلامی اور دیگر سنی نمائندہ جماعتیں عزاداری کے اجتماعات کے لئے ہم آہنگ ہیں۔ مجلس وحدت نے دوسرا کام یہ کیا کہ عزاداری سیل قائم کیا اور اس پلیٹ فارم سے عزاداروں کی مشکلات کا ازالہ کیا گیا۔ اس سیل میں ہم نے وفاقی و صوبائی انتظامیہ کو بھی شامل کیا، جس کی وجہ سے معاملات حل کرنے میں بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ وحدت اسکاؤٹس اور مجلس وحدت کے شعبہ جوانان نے بھی داخلی انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں، لیکن ابھی طویل سفر باقی ہے اور ہمارا ہدف یہ ہے کہ پاکستان میں عزاداری کا انعقاد شیعہ اور سنی مشترکہ طور پر کریں۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین آئندہ الیکشن میں کس پارٹی سے اتحاد کرنے جا رہی ہے، یا آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا پروگرام ہے۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین بھرپور سیاسی کردار ادا کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اس کے ذریعے معتدل لوگوں کو اسمبلی میں بھیجنے اور فرقہ واریت کی حامل ذہنیت والے افراد سے پارلیمنٹ کو یرغمال ہونے سے بچانے کیلئے عوامی بیداری کے ذریعے اور ووٹ کی طاقت سے کردار ادا کرے گی، لیکن تاحال مجلس وحدت نے کسی سیاسی جماعت سے الحاق یا اتحاد نہیں کیا۔ اور شوریٰ عالی کے فیصلے کی روشنی میں مجلس وحدت اپنے الگ انتخابی نشان پر لوگوں کو کھڑا بھی نہیں کرے گی۔ مجلس وحدت پاکستان میں تشیع کو سیاسی طور پر قدرت مند اور مضبوط کرنا چاہتی ہے اور اسے پاکستان کی حفاظت اور بقا کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ مروجہ سیاست میں مجلس وحدت کے ورود کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مجلس وحدت موجودہ سیاسی نظام کو قبول کرتی ہے، لیکن اضطراری صورت میں موجودہ حالات میں مجلس وحدت تشیع کی ہمہ جہت مضبوطی کے ذریعے ظہور امام (ع) کے لئے زمینہ سازی کرنے کیلئے کوشاں ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس منصوبے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: پاک ایران گیس منصوبہ پاکستان کے موجودہ توانائی بحران کے حل کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ یہ منصوبہ وطن عزیز کی حالیہ مشکلات کو حل کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے امریکی ایما پر تعطل کا شکار ہے۔ حکومت وقت کو چاہئے کہ پاکستان کی اقتصاد کی ریڑھ کی ہڈی اس منصوبے کو عالمی دباؤ سے آزاد ہوکر فوری طور پر مکمل کرے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں بدامنی کے پیچھے کون ہے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے اہم خطہ ہے۔ وہ تمام طاقتیں جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، بلوچستان میں مصروف عمل ہیں۔ بالخصوص امریکی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ نقشے جس میں بلوچستان آزاد کرانے کا منصوبہ شامل ہے، پر عمل کے لئے استعماری طاقتیں امریکہ، بھارت اور اسرائیل خطے میں فعال ہیں۔ اگر بلوچستان میں بیرونی مداخلت کا راستہ روک دیا جائے اور حقیقی سیاسی عمل کا آغاز کر دیا جائے اور قانون شکنوں کو سزائیں دی جائیں تو بلوچستان کا مسئلہ دنوں میں حل ہوسکتا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کی ایک وجہ عرب ملکوں کے لئے ناقابل قبول گوادر بندرگاہ بھی ہے، جو بھارت اور متحدہ عرب امارات والوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ اس کے علاوہ معدنیات اور چین کی گرم پانیوں تک رسائی ایسے معاملات ہیں جو امریکہ کے لئے ناقابل قبول ہیں، اس لئے وہ اس خطے میں بدامنی کو ہوا دے رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں عدلیہ کے کردار سے مطمئن ہیں۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: ملک میں عدلیہ کا کردار قطعاً اطمینان بخش نہیں۔ ہمارے لئے اس کا پیمانہ دہشت گردوں کا کھلے عام پھرنا، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مسلسل ناکامی، عدالتوں سے دہشت گردوں کا رہا ہو جانا اور شیعہ نسل کشی پر ازخود نوٹس نہ لینا، ان باتوں نے اس عدلیہ کی آزادی اور فعالیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 214367
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاء اللہ، تعارف میں تو انہیں مشرق وسطیٰ کے امور پر عبور اور خاص نگاہ رکھنے والا کہا گیا لیکن اس پر کوئی ایک سوال بھی نہیں پوچھا گیا، غزہ کی صورتحال اور اسرائیلی جارحیت پر پوچھا جاسکتا تھا۔
سید ناصر عباس شیرازی ممتاز قانون دان اور معروف دانشور ہیں۔
I think Nasir Abbas Sherazi will agree that these two titles do not match his stature.....
سولات کرنے اور جوابات دینے والے دونوں نے صحیح حق ادا کیا ہے
ہماری پیشکش