0
Thursday 29 Nov 2012 01:29

اپنے حقوق حاصل کرنا ہیں تو ہمیں سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی، علامہ ناظر عباس تقوی

اپنے حقوق حاصل کرنا ہیں تو ہمیں سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی، علامہ ناظر عباس تقوی
علامہ ناظر عباس تقوی کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں آپ کا تعلق امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے رہا تھا، شروع سے ملی معاملات میں کافی فعال کردار ادا کرتے تھے۔ آپ نے جب سے روحانی لباس زیب تن کیا، تب سے ہی اپنے کندھوں پر ذیادہ ذمہ داری محسوس کرنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ شیعہ علما کونسل میں شمولیت کے بعد کچھ ہی عرصے میں بزرگ علمائے کرام کے ہوتے ہوئے پہلے کراچی کے صدر منتخب ہوئے پھر صوبہ سندھ کے جنرل سیکریٹری بن گئے اور تاحال اس عہدے پر قائم ہیں۔ ریلی ہو یا دھرنا یا ملت کو درپیش کوئی اور مشکل، منفرد اور با اثر لب و لہجہ رکھنے والے مولانا ناظر عباس تقوی جتنی دیر بولتے ہیں، ان کے جملوں میں خلوص ہی خلوص ہی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو للکارنا ہو یا شیعہ و مسلمان دشمن جماعتوں کو، اس معاملے میں مولانا صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناظر عباس تقوی سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام میں کراچی سمیت کئی شہروں میں موٹر سائیکل چلانے اور موبائل فون سروس پر پابندی لگانے کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہئیں گے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی عوامی سہولیات پر پابندی لگانے کا مقصد عوام کو مکتب تشیع و عزاداری سے متنفر کرنا ہے؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں عزاداری کی جو موجودہ صورتحال ہے یہ کئی سال پرانا منصوبہ ہے۔ اس حوالے سے میری کئی بار علامہ ساجد نقوی صاحب سے بات ہوئی ہے اور مجھے یاد ہے کہ 15-20 سال پہلے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ اس ملک میں یہ طے ہو چکا ہے کہ عزاداری کو کس طرح محدود کیا جائے۔ عزاداری سید الشہداء شروع سے اس ملک میں ہوتی چلی آرہی ہے، اسے ختم کرنا، محدود کرنا آسان کام نہیں ہے۔ لہٰذا آہستہ آہستہ اس حوالے سے اقدام کئے جائیں گے، پہلے لوگوں کو ہراساں کیا جائے گا، ہراسمنٹ پھیلائی جائے گی، دھماکے کئے جائیں گے، مارا جائے گا، قتل و غارت گری کا ماحول ہوگا، تاکہ لوگ خود ہی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہوجائیں۔ رہی بات دھماکوں وغیرہ کی تو عزاداری ان سب کے باوجود اور بڑھی۔ لوگوں میں جذبہ شہادت مزید بیدار ہوا اور عزاداری میں لوگ بڑھنا شروع ہو گئے۔

حکومتوں کی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح عزاداری کو محدود کیا جائے، سانحہ عاشور کے اندر مارکیٹیں جلائی گئی، یہ اسی کا تسلسل ہے کہ لوگوں کے اندر عزاداری ک خلاف جذبات پیدا ہوں، ان کے اندر عزاداری کے مخالف سوچ پیدا ہو۔ لوگ عزاداری سے متنفر ہوں، ان سے نفرت کریں، انہیں عزاداری سے خوف زدہ کریں۔ اس میں حکومتی مشنری اور بڑے بڑے ادارے ملوث ہیں۔ موٹر سائیکل و موبائل سرور بند کرنے سے اگر دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا ہے تو اسے پورا سال ہونا چاہئیے یہ محرم الحرام کے آتے ہی اس قسم کے مطالبات سامنے کیوں آتے ہیں تاکہ لوگوں کے زہنوں میں یہ تاثر جائے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس عزاداری کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ میں شدید الفاظ میں ان حکومتی اقدامات کی مذمت کرتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان خصوصاََ کراچی میں جاری شیعہ نسل کشی کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: کراچی کی صورتحال کے حوالے سے سب سے پہلے میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت شہر کو بہت سارے مسائل درپیش ہیں، کوئی ایک عنصر نہیں بلکہ بہت سارے عناصر دہشت گردی میں ملوث ہیں، بہت سارے محرکات شامل ہوگئے ہیں کراچی میں جاری دہشت گردی میں۔ اس سے کوئی ایک خاص طبقہ نہیں بلکہ تمام لوگ اس سے متاثر ہیں۔ آفس جانے والا ہو یا کوئی خرید و فروخت کرنے والا، بازار جانے والا عام شہری بھی اس سے متاثر ہے۔ لیکن ان سب میں سب سے زیادہ متاثر شیعہ مسلمان ہیں، شیعہ کمیونٹی سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے۔ اہل تشیع کے خلاف جاری شیعہ دہشت گردی چاہئے وہ ٹارگٹ کلنگ ہو، پلانٹڈ بم دھماکے ہوں یا خودکش حملے اس میں ملوث دہشت گرد گروہوں، کالعدم جماعتوں کو کراچی میں سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے، سیاسی جماعتیں ہی ہیں جو ان کی سرپرستی کر رہی ہیں۔

ہمارے پاس اطلاعات ہیں، معلومات ہیں، جو شواہد اور قرینے ہمیں ملتے ہیں کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عناصر جو کئی دہائیوں سے ملت تشیع کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہے، انہیں اپنی دہشت گرد کاروائیوں میں نشانہ بنا رہا ہے، لگتا ایسا ہے کہ اس وقت انہوں نے کراچی کے اندر جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ سیاسی جماعتوں کی چھتری تلے جمع ہونا ہے۔ سیاسی جماعتیں ان کی محفوظ پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں، اس لئے وہ کراچی کے ہر علاقے میں جب چاہتے ہیں، جیسے چاہتے ہیں، جسے چاہتے ہیں وہ ہدف بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ میں اس موقع پر سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اپنی جماعتوں میں موجود تمام دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کریں، ان کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں، ان سے برائت کا اعلان کریں، ان سے علیحدگی کا اعلان کریں جو کہ ان کی اپنی جماعتوں کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جائے گا بلکہ بن رہا ہے۔

اب جہاں تک بات ہے ملت تشیع کی نسل کشی کی وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ اپنے ناپاک اہداف حاصل کرلیں گے، تو ان دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو طول تاریخ پر نظر ڈالنی چاہئیے جہاں ان کو باآسانی نظر آجائے گا کہ تشیع کو نہ کبھی قتل و غارت گری سے نہ دبایا جا سکا ہے اور نہ کبھی تشیع ختم ہوئی ہے۔ بلکہ طول تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد دنیا اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ تشیع کو جس زمانے میں جتنا دبایا گیا اس زمانے میں تشیع کا اتنا ہی عروج ہوا ہے۔ لہٰذا دہشت گردی تشیع کا راستہ اور اس کا پیغام نہیں روک سکتی۔ میں واضح کردوں کہ کراچی میں یہ سارا کھیل دہشت گردی ہے، یہ سنی شیعہ مسئلہ نہیں ہے، جو اس کو اخبارات و ٹی وی چینلز اچھالتے ہیں، سیاسی جماعتیں و حکومت چیخ رہی ہے کہ یہ فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش ہے، میں سختی سے اس کی تردید کرتا ہوں کہ یہ کوئی فرقہ واریت نہیں ہے، نہ فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔ اگر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تو گلی کوچوں میں لڑائی ہو رہی ہوتی، مملکت خداداد پاکستان کی سلامتی کب کی خطرے میں پڑ چکی ہوتی، لہٰذا یہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان کے تمام سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان مثالی اتحاد موجود ہے، اسی یکجہتی کے حوالے سے ملی یکجہتی کونسل کا عظیم الشان اجتماع اسلام آباد میں منعقد کیا گیا جس میں پوری دنیا سے نمائندوں نے شرکت کی، پوری دنیا نے یی باور کیا کہ یہ سنی شیعہ مسئلہ نہی بلکہ خالصاََ دہشت گردی ہے اور حکومت کو چاہئیے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے اس مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جڑ سے اکھاڑ پھینکے کہ جو اس کی ذمہ داری ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کراچی سمیت پورے ملک میں جاری دہشت گردی عالمی سازش کا حصہ ہے؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: بالکل ایسا ہی ہے، اس میں کسی قسم کا شک نہیں کرنا چاہئیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے معاملات کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہئیے۔ ایک حصہ عالمی سازش کے تناظر میں دیکھن چاہئیے۔ یہ معاملہ عالمی سازش سے پنہاں ہوا ہے، بالخصوص پاکستان خطے میں ہر حوالے سے اہم ترین جگہ ہے۔ اگر آپ عالمی سطح پر دیکھیں تو صرف پاکستان میں اہل تشیع کا قتل عام نہیں ہو رہا ہے بلکہ دنیا میں جہاں جہاں شیعہ فیکٹر موجود ہیں اسے وہاں شدت سے دبایا جا رہا ہے، بحرین میں آپ دیکھ لیں کہ کس طرح ان کو قتل کیا گیا، ان کے حقوق کو پامال کیا گیا، شام کو صورتحال دیکھ لیں جہاں اگرچہ شیعہ اکثریت نہیں ہے مگر چونکہ وہ شیعہ مسلمانوں کی صیہونیت مخالف تنظیم حزب اللہ لبنان کیلئے انتہائی اہم سپلائی لائن ہے۔

شام کے تعلقات اسلامی ایران سے انتہائی مثالی ہیں، وہاں اس کو غیر مستحکم کرنے کی سازش گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے اور صیہونی اسرائیلی مخالف بشارالاسد حکومت کو گرانے کی ناپاک کوششیں کی جا رہی ہیں، عراق کی مثال آپ کے سامنے ہے، یمن میں آپ دیکھ لیں، خود اسلامی ایران میں بم دھماکے کئے جاتے رہے، سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، غرض دنیا بھر میں تشیع کے خلاف بر سرپیکار اور سازشوں کے پیچھے عالمی استعمار شیطان بزرگ امریکا اور عالمی صیہونیت اسرائیل ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ کسی طرح اسلامی ایران کو ٹارگٹ کرے۔ وہ ایران کو ٹارگٹ کرنے سے پہلے چاہتا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں شیعہ فیکٹر موجود ہے، جہاں جہاں سے تشیع کی جانب سے مزاحمت ہو سکتی ہے، جہاں سے ان کی ناپاک سازش کی تکمیل میں روڑے اٹکائے جاسکتے ہیں، ان تمام جگہوں، ملکوں، شہروں میں شیعہ فیکٹر کو ختم کیا جائے، دبایا جائے، بے بس و ناکارہ کردیا جائے، لہٰذا کراچی سمیت پورے پاکستان میں تشیع کے خلاف ہونے والے دہشت گردی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو اسی عالمی امریکی و صیہونی اسرائیلی سازش کا تسلسل ہے۔

یہ عالمی سطح پر تشیع کے خلاف ہونے والا کریک ڈاﺅن اسی ایجنڈے کی کڑی ہے، اس میں یہاں کے آلہ کار استعمال ہو رہے ہیں، جیسا کہ شام میں دیکھ لیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک بنائے جاتے ہیں، ان کا یہاں پالا جاتا ہے، ٹریننگ دی جاتی ہے، دہشت گروں کی یہاں نرسریاں بنائی گئی ہیں اور پھر یہاں سے ان کو بیرون ممالک ایکسپورٹ کیا جاتا ہے، ان کو بحرین بھیجا جاتا ہے، ان کو شام کے اندر اتارا جاتا ہے، ان جگہوں پر یہاں کے لوگ پرتشدد کاروائیوں میں ملوث ہیں، دہشت گردانہ کاروئیاں کر رہے ہیں مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کر سکی۔ آپ دیکھ لیجئے بحرین کا مسئلہ ہوتا ہے یہاں کی فوج جاتی ہے، یہاں پالے ہوئے دہشت گرد بھیجے جاتے ہیں، شام میں مسئلہ ہوتا ہے تو پاکستان سے مدد مانگی جاتی ہے۔ فلسطین کے اندر بے گناہ معصوم بچے شہید کر دیئے جاتے ہیں، سینکڑوں لوگ مار دیئے گئے، اسپتال مسجدیں تباہ کردی گئیں، آج مسلمان ممالک سوائے ایک آدھ کے کوئی آواز بلند کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ اسرائیلی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے، ستاون اسلامی ممالک میں سوائے اسلامی ایران کے کون ہے جو عملی آواز بلند کر رہا ہے، شروع سے اب تک سوائے ایران کے کون ہے جو ان کی عملی مدد کر رہا ہے سامان حرب و مالی حوالے سے۔

آپ نے دیکھا کہ جب فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اسلامی جہاد و حماس نے ایسے راکٹوں سے اسرائیلی افواج کو نشانہ بنایا کہ جنہوں نے اس کی انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی حامل دفاعی میزائل شیلڈ کو توڑ دیا اور اسرائیلی شہروں کے اندر اس کی افواج کو نشانہ بنایا، اس پر تحقیقات ہوئیں کہ یہ راکٹ کہاں سے آئے، کس نے دئیے، تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایران کی جانب سے فراہم کئے گئے راکٹ ہیں کہ جس کے بعد اسرائیلیوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ فوراََ جنگ بندی کرنے پر مجبور ہوگئے، تو صرف ایران ہے کہ جو عملاََ ہر حوالے سے فلسطینیوں کا ساتھ دے رہا ہے، مدد کر رہا ہے، یہ عالم تشیع ہی ہے جو سب سے زیادہ چیخ رہی ہے صیہونی اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تشیع کے خلاف جو کچھ بھی ہو رہا ہے کہ وہ تشیع کو کمزور کرنے کی سازش ہے تاکہ جب اسلامی ایران پر جارحیت ہو تو یہاں سے ردعمل ظاہر نہ ہو سکے، لہٰذا پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور ایران کو ہدف بنانا ہے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ نسل کشی پر حکومت، عسکری قیادت، عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔ آپ کیا حل پیش کرتے ہیں؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاستی ادارے جن کا کام عوام اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے وہ پاکستان میں تشیع کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی نظر آئی ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیسے ہوسکتا کہ ریاستی ادارے موجود ہوں، اپنی اپنی جگہ فعال بھی ہوں پھر بھی اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کی نقل و حمل جاری ہے، کیسے ہزاروں ٹن بارود کی نقل و حمل ہو جاتی ہے، کیسے اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ آتا ہے، ان کی روک تھام تو ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے، انہیں معلوم ہے کہ کہاں کہاں دہشت گردوں کے اڈے ہیں، پناہ گاہیں ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ لا علم ہوں۔ نہیں پتہ کہ کن مصلحتوں کا شکار ہیں، کس کا دباﺅ ہے ان پر کہ یہ کاروائی کرنے سے قاصر ہیں۔ اب دیکھئیے کہ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں یہ دہشت گرد اور اتنے بے بس ہو چکے ہیں یہ سیکیورٹی ادارے کہ اب یہ خود بھی محفوظ نہیں رہے۔ جی ایچ کیو کی مثال آپ کے سامنے ہے، مہران بیس حملہ آپ کے سامنے ہے، کامرہ پر حملہ آپ کے سامنے ہے، کچھ دن پہلے کوئٹہ میں سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ ہوا، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بے بس ہیں دہشت گردوں کے سامنے اور کوئی کامیاب حکمت عملی نہیں رکھتے، کوئی پالیسی نہیں رکھتے ان سے نمٹنے کیلئے۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے سعودی عرب اور کالعدم گروہوں لشکر جھنگوی و سپاہ صحابہ وغیرہ کا ہاتھ ہے، آپ کا کیا موقف ہے؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: میں یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ دہشت گردی کے حوالے سے کسی ایک گروہ کا نام لیا جائے یا کسی خاص طبقے کو ملوث کیا جائے۔ تشیع کے خلاف دہشت گردی میں کوئی ایک خاص گروہ یا طبقہ نہیں ہے کہ آپ کالعدم سپاہ صحابہ یا لشکر جھنگوی کا نام لیں یا طالبان کا نام لیں، یہ تو چند نام ہیں، اس جیسے تو پتہ نہیں کتنے گروہ کام کر رہے ہیں تشیع کے خلاف۔ یہ تو حکومت اور ریاستی ادارے جانتے ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کتنی ہے، کون کون ملوث ہے شیعہ نسل کشی میں پورے ملک میں، کیسے ان کا خاتمہ کیا جائے۔ حکومت کو چاہئیے کہ ان سب کو منظر عام پر لائے، عوام کو صحیح حقائق بتائے کہ کیا وجہ ہے شیعہ نسل کشی کی پاکستان میں اور کون کون سے گروہ، کون کون سے عناصر تشیع کے خلاف دہشت گردی کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: الیکشن قریب ہیں، سیاسی جماعتوں نے ملت تشیع سے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے، وضاحت فرمائیں کہ ہمیں کس قسم کی جماعتوں کو ووٹ دینا چاہیے؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: پاکستان کے اندر تشیع ایک بہت بڑی قوت اور طاقت ہے اور میں تو کافی عرصے سے یہ کہتا آرہا ہوں کہ اگر تشیع کے حقوق کا دفاع کرنا ہے، عزاداری سید الشہداءؑ کا دفاع کرنا ہے اور اپنے حقوق کو حاصل کرنا ہے تو ہمیں سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی۔ سیاسی جدوجہد ہی میری نظر میں واحد حل ہے۔ لہٰذا پاکستان میں تشیع کو چاہئیے کہ وہ اپنے سیاسی پلیٹ فارم سے میدان عمل میں آئے، اپنے افراد کو امیدوار بنائے، ان کی پشت پناہی کرے، تاکہ مسائل کو حل کیا جا سکے اور حقوق کی بازیابی ہوسکے۔ چھوٹی چھوٹی جماعتیں الیکشن لڑ کر جب اسمبلیوں میں آتی ہیں تو ان کی آواز سنی جاتی ہے، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، ان کے مطالبات تسلیم کئے جاتے ہیں، جب کہ تشیع اس ملک میں بہت بڑی قوت و طاقت ہے مگر ہم نے اپنے آپ کو سیاسی دھارے سے الگ کیا ہوا ہے، نکال لیا ہے، ہم نے خود کو اپنے آپ میں محدود کیا ہوا ہے۔

میں سمجھتا ہوں یہ بہترین وقت ہے تشیع کو سیاسی کردار ادا کرنے کا۔ تشیع کو چاہئیے کہ متحد ہو کر سیاسی عمل میں اترے۔ ممکن ہوکہ یہ پریکٹس ہو، کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئیں، مگر اس عمل کو شروع ہونا چاہئیے۔ ماضی آپ کے سامنے ہے، گلگت میں حکومت آپ کے پاس تھی، آپ کے دو سینیٹرز موجود تھے، ایک سیاسی عمل تھا آپ کا اور وہ چل رہا تھا، اب اس عمل کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا تاکہ ملک میں تشیع کے حقوق کا دفاع کیا جا سکے، ان کو حاصل کیا جا سکتے۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: ملت جعفریہ کو متحدہ مجلس عمل کے قیام اور اب اس کی بحالی سے کیا سیاسی فائدہ ہوا؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ مجلس عمل کا قیام سن 2000ء میں اس وقت عمل میں آیا جب پاکستان میں دہشت گردی و بربریت انتہا پر تھی۔ اصل میں یہ سیاسی اتحاد نہیں تھا، اگرچہ ایم ایم اے سیاسی عمل میں بھی آئی، الیکشن لڑا گیا۔ بہت سارے فوائد ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے، میں سمجھتا ہوں کہ مصلحت نہیں ہے کہ ان کو بیان کرنے کی، کیوں کہ پھر دوسرے لوگ ان باتوں کو لے کر پروپیگنڈہ کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں۔ ایم ایم اے کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان میں جو بیرونی خصوصاََ امریکی مداخلت ہے، اس کو ختم کرنا ہے، اس کو روکنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سنی شیعہ مسلمانوں کو درپیش مشترکہ مسائل کا خاتمہ اس کا مقصد تھا۔ آپ نے دیکھا کہ جب عملی میدان میں اس پلیٹ فارم سے اترے، سیاست میں بھی آئے، حکومت میں بھی آئے اور بہت سارے معاملات اس زمانے میں رکے جب آمر پرویز مشرف بڑے بڑے اقدامات امریکی اشارے پر ملک میں کر رہا تھا تو اس وقت ایم ایم اے سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آئی، ایل ایف او کا مسئلہ ہوا، بہت سے دیگر مسائل آئے، بہت سی رکاوٹیں ایم ایم اے نے ان کے سامنے کھڑی کیں۔

اس کا عوامی فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے درمیان جو فاصلہ تھا، جدائی تھی، ایک دوسرے کے خلاف کھینچا تانی تھی، نفرت کا اظہار تھا، میں سمجھتا ہوں کہ ایم ایم اے کے قیام کے بعد اس میں بہت ٹہراﺅ آیا اور وہ دہشت گردوں کا ٹولہ جو اہل سنت کے لبادے میں موجود تھا اور اپنے آپ کو سنی مسلمان کہتا تھا لہٰذا اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ کس طرح اس کو اہل سنت برادران کے درمیان سے نکال کر کیسے الگ کریں۔ ایم ایم اے وہ ذریعہ بنی کہ جس کی وجہ سے اس دہشت گرد ٹولے کو نکال کر الگ کرکے دیوار سے لگا دیا اور لوگوں کو بتا دیا کہ یہ کسی مسلک کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ یہ دہشت گردوں کا ٹولہ ہے جو سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان فساد پھیلانا چاہتا ہے اور ہم اس کوشش میں الحمد اللہ کامیاب رہے۔

اسلام ٹائمز: کیونکہ شیعہ علماء کونسل متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے سیاسی فعالیت رکھتی ہے، اگر مجلس وحدت مسلمین نے سیاست میں وارد ہوکر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو شیعہ علماء کونسل ان سے انتخابی اتحاد کر سکتی ہے یا وہ اس سلسلے میں ایم ایم اے کا پلیٹ فارم ہی استعمال کرے گی؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: جہاں تک سیاسی اتحاد کی بات ہے پاکستان کی بڑی سیاسی مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے اندر موجود ہیں، سیاسی حوالے سے فیصلہ جات مرکز کرے گا۔ کیونکہ اب تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی سیاسی حوالے سے پالیسی واضح نہیں ہے، میری جہاں تک معلومات ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ جہاں ہمارا شیعہ امیدوار کھڑا ہوگا ہم اس کی مدد کرینگے، اس کی حمایت کرینگے وہ خود الیکشن لڑنے کے عمل میں نہیں آرہے ہیں۔ ہماری پالیسی بھی شروع سے یہی رہی ہے کہ جہاں ہمارا شیعہ امیدوار موجود ہے اور اس سے سیاسی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں تو ہم اس کے ہاتھوں کو بھی مضبوط کریں گے، یہ ہمارا شروع سے لائحہ عمل رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کے خیال میں یہ مناسب نہ ہوگا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور شیعہ علماءکونسل دونوں کو مل بیٹھنا چاہیے اور کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے اس ٹارگٹ کلنگ کا سدباب ہوسکے؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: جہاں تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور شیعہ علماء کونسل یا تحریک جعفریہ کی بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر بیٹھنے سے یہ مسائل حل ہونے ہوتے تو میرا خیال ہے کہ ہم ہر پلیٹ فارم پر بیٹھے بھی ہیں، ساتھ مزاکرات میں بھی ہیں، ساتھ دھرنے میں بھی ہیں بہت ساری جگہوں پر، ان چیزوں سے دہشت گردی رکنے والی نہیں ہے یہ عالمی سازش کا حصہ ہے اور اس کیلئے ہمیں مل کر ایک جامع حکمت عملی بنانی پڑے گی، جب تک ہم جامع حکمت عملی مرتب نہیں کریں گے اس وقت تک یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔ جہاں تک حکمت عملی طے کرنی کی بات ہے تو یہ قیادت کا مسئلہ ہے وہ طے کرے گی کہ حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تشیع کے اندر قیادت بکھری ہوئی ہیں، جگہ جگہ قیادتوں کی بھرمار ہے تو کیا ان حالات میں تشیع اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکے گی؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تشیع کے اندر قیادت کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر کوئی ادارہ یا جماعت یا تنظیم وجود میں آئی تو اس نے کبھی بھی قیادت کا خصوصاََ قائد ملت جعفریہ ہونے کا اعلان نہیں کیا، سب نے سربراہ بنائے۔ قیادت کے حوالے سے پاکستان میں قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد علی نقوی موجود ہیں اور وہ نمائندہ ولی فقیہ بھی ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ماننا نہ ماننا اس میں گفتگو کی جاسکتی ہے کہ ٹھیک ہے اختلاف ہے، کام کی انجام دہی کے طریقہ کار میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب تک انہوں نے جو اقدامات کئے ہیں، جتنی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں خود مجلس وحدت مسلمین کو بھی میں دیکھ رہا ہوں بہت عرصے سے، اسے دیکھ رہا ہوں، جن پالیسیوں پر علامہ ساجد نقوی صاحب کار فرما تھے وہی پالیسیاں ایم ڈبلیو ایم کی بھی ہیں۔

اگر علامہ ساجد نقوی صاحب نے اتحاد بین المسلمین کا علم بلند کیا تھا ایم ایم اے اور اس سے پہلے ملی یکجہتی کونسل کے اندر تو آج ایم ڈبلیو ایم کی قیادت بھی ملی یکجہتی کونسل کے اندر موجود ہے اور اس کا حصہ ہے۔ اگر وہ بھی الیکشن کے حوالے سے بات کرتے ہیں ہم الیکشن کے اندر حصہ لیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جعفریہ و علامہ ساجد نقوی صاحب پہلے سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، سینیٹرز موجود رہے، پہلے حکومت رہی گلگت و بلتستان میں۔ سلسلہ وہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ کام کے طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن قیادت کے اوپر نہیں کیونکہ یہ تسلسل ہے سید محمد دہلوی ؒ، مفتی جعفر صاحب شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کا۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں ملت تشیع پاکستان کو کراچی میں دو بہت بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا علامہ آفتاب حیدر جعفری اور ادارہ دارالثقلین کے بانی اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے رکن ذیلی نظارت سید سعید حیدر زیدی کی شہادتوں کی صورت میں، ان دو شخصیات کے حوالے سے کیا کہنا چاہئیں گے؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: میں دونوں شہداء کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ انتہائی قابل احترام اور واقعاََ جس نے بہت خاموشی سے ملت تشیع کی خدمت کی جس کا انتظار نہیں کیا جا سکتا اور میں آغا آفتاب جعفری صاحب کو بھی قریب سے جانتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں حج پر جا رہا تھا تو چند روز پہلے میری ان سے شہید ساجد کے حوالے سے شاہ خراسان میں منعقد اجتماع میں ان سے ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے وہاں مجھے بتایا تھے کہ انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، میرے ساتھ سیکیورٹی مسائل ہیں۔ افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نہیں کر سکتا، بہت سارے معاملات میں ان کے جانتا تھا اور انہوں نے مجھے نشاندہی کی تھی، وہ اب شہید ہوگیا، وہ معاملات اب نتیجہ خیز نہیں ہیں کہ اگر چھیڑ بھی دیا جائے قوم کے درمیان، لیکن وہ بعض شخصیات سے مایوس اور نالاں کنا تھا، شکوہ کرتا تھا وہ شخص اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا شکوہ بجا تھا اور آج مجھے رہ رہ کر اس کی بات یاد آتی ہے کہ واقعاََ ہم نے اس کیلئے کوئی اقدامات کر دئیے ہوتے تو شاید ہم کو اتنا بڑا نقصان اٹھانا نہیں پڑتا۔ وہ ایک متعدین اور ایک با عمل انسان تھا۔

شہید سعید حیدر زیدی کی بات میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں کہ ان کی شخصیت ہر دل پسند تھی، ان کی خدمات تھیں، ان کی تعلیمی و تدریسی گراں قدر خدمات تھیں، تصنیفات تھیں، خصوصاََ ان کی جو خدمات شہید مطہری و شہید صدر کے حوالے سے تھیں وہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ یہ دو نقصان بہت ہی اہم نقصان ہیں۔ ایک منبر و خطابت کے حوالے سے نقصان ہے اور دوسرا تعلیم و تربیت و قلم کے حوالے سے نقصان ہے اور یہ دونوں نقصان تشیع کیلئے ناقابل تلافی ہیں۔ ہمیں چاہئیے کہ ایسے افراد جو قوم کے درمیان اپنا کردار بااحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں، ان کی حفاظت کریں، ان کے تحفظ کا بندوبست کریں۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب تک شخصیات ہمارے درمیان موجود ہوتی ہیں، ان کی نہ کوئی اہمیت ہوتی ہے، نہ کوئی حیثیت ہوتی ہے، میں نے پوری تاریخ تشیع دیکھی ہے، پاکستان میں بھی 15-20 سال کے اندر میں دیکھ رہا ہوں جب تک شخصیات زندہ رہتی ہیں ان کے خلاف بہتان تراشیاں، الزام تراشیاں ہوتی ہیں، بلاجواز تنقید و پروپگنڈہ سمیت ساری چیزیں ہوتی رہتی ہیں اور جب وہ شخص ہمارے درمیان نہیں رہتا تو وہی شخص ابوزر بن جاتا ہے، مطہری بن جاتا ہے وہی بہشتی بن جاتا ہے۔ ہمیں اپنی روش سے باز آنا ہو گا، ہم نے اپنی کتنی ہی شخصیتیں اس روش کے تحت کھو دی ہیں۔ کاش ہم شخصیت شناس بنیں اور زندگی میں ہی اپنے ان قیمتی لوگوں کی قدر کرنا سیکھیں تاکہ ہم بڑے نقصانات سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔

اسلام ٹائمز: حال ہی کراچی میں فعال شیعہ تنظیمی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ایک لسٹ کا انکشاف ہوا تھا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شہید آغا آفتاب جعفری اور شہید سعید حیدر زیدی کی شہادتیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: میں نے شروع میں آپ کو بتایا تھا کہ یہ دہشت گردی کا ایک تسلسل ہے، یہ کڑی ہے جو کراچی میں جاری ہے، یہ لسٹ کسی سیاسی جماعت نے تیار کی ہو یا کسی دوسرے دہشت گرد گروہ نے۔ دہشت گرد تو میں کہہ چکا ہوں کی سیاسی جماعتوں کی چھتری کے نیچے جمع ہیں، محفوظ ہیں۔ بہت سارے دہشت گرد عناصر سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ اسی کا تسلسل ہو۔

اسلام ٹائمز: آیا آپ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیز خصوصاََ امریکی ایف بی آئی اور اسرائیلی موساد سرگرم ہیں؟ اگر ہاں تو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کا کیا کردار ہے اس سلسلے میں؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: کراچی پاکستان کی شہ رگ حیات ہے، یہ صرف ایف بی آئی اور موساد ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، یہ بین الاقوامی خفیہ ایجنسیاں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سرگرم ہیں، اسلام و پاکستان کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کراچی کی خراب صورتحال کی۔ رہی بات ہماری خفیہ ایجنسیوں کی تو وہ سب جانتے ہیں، لیکن بے بس ہیں، ان کو اختیار نہیں ہے کہ کسی کے خلاف کوئی اقدامات کرسکیں۔ آپ نے دیکھ لیا کہ پاکستان کے اندر بدنام زمانہ امریکی خفیہ ایجنسی بلیک واٹر کا ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا، لیکن کتنی آسانی سے ایک نام نہاد اسلامی عرب ملک کی مداخلت پر اس کو یہاں سے فرار کرا دیا گیا، سب بے بس ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ غزہ پر حالیہ صیہونی اسرائیلی جارحیت کے خلاف شیعہ سنی مذہبی تنظیموں کی جانب سے کوئی خاص احتجاج نہیں ہو سکا البتہ ایم کیو ایم جیسی سیکولر جماعت نے اس حوالے سے بڑا اجتماع اسلام آباد میں منعقد کیا؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: سب سے پہلے تو میں غزہ میں صیہونی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، مجھے افسوس ہے کہ غزہ میں جو انسانیت سوز مظالم ہو رہے ہیں، مگر عالم اسلام خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے اور سب سے زیادہ مذمت کرتا ہوں اس کی کہ جو مسلمانوں کا پیشوا بنا بیٹھا ہے سعودی عرب، وہ اس وقت خاموش بنا بیٹھا ہے، اب اس کی زبان بند ہے اور کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کر سکتا اور او آئی سی کا تو سب کو پتہ ہے کہ وہ امریکا کی پٹھو ہے، جو امریکا کہے گا تو وہ ہوگا، کوئی کردار نہیں اسلامی ممالک کا۔ کاش اسلامی ممالک سر جوڑ کر بیٹھ جاتے تو اسرائیل کی اتنی جرات نہیں ہو تی کہ وہ معصوم بچوں خواتین سمیت بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہاتا۔یہ مسلمان ممالک کے سربراہان کی بے حسی کا نتیجہ ہے۔

جہاں تک بات ہے کہ اس مسئلہ پر کوئی موثر آواز بلند نہیں ہوئی تو جیسا کہ ایام عزا ہیں، میری معلومات کے مطابق کوئی بڑا عالم، ذاکر یا منبر ایسا نہیں ہے کہ جو غزہ کے مسئلہ پر بات نہیں کر رہا ہو۔ آپ دیکھیں گے کہ تشیع ہم آواز ہو کر سڑکوں پر نکلے گی۔ ہم امیر المومنین مولا علی علیہ سلام کے چاہنے والے ہیں ، مولا کی وصیت ہے کہ ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کبھی ترک نہیں کرنا۔ مظلوم کوئی بھی ہو ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اس کے ساتھ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 214745
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش