0
Friday 30 Nov 2012 01:37
مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق ایٹم بم سے زیادہ طاقتور ہے

غزہ حملوں پر او آئی سی اور عرب لیگ کی خاموشی افسوسناک، امریکہ کا اصل چہرہ سامنے آگیا، مشتاق احمد خان

غزہ حملوں پر او آئی سی اور عرب لیگ کی خاموشی افسوسناک، امریکہ کا اصل چہرہ سامنے آگیا، مشتاق احمد خان
مشتاق احمد خان کا بنیادی تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے، آپ جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، اس کے علاوہ آپ جماعت کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ اور انتخابات سیل کے صوبائی انچارج بھی ہیں، مشتاق احمد خان پرجوش مقرر ہیں اور افغان امور کے ماہر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں، ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں، آپ مختلف فورمز پر خطہ سے امریکی مداخلت کے خاتمہ کے حوالے سے لیکچرز بھی دیتے ہوئے اکثر نظر آتے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مشتاق احمد خان کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مشتاق صاحب سب سے پہلے یہ بتائیں کہ آئندہ الیکشن میں صوبائی سطح پر جہاں جے یو آئی اور اے این پی کے اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں، وہاں جماعت اسلامی کہاں کھڑی نظر آئے گی، مذہبی جماعتوں کیساتھ ملکر الیکشن لڑا جائیگا یا پھر دوسری سیاسی قوتوں سے رجوع کیا جائے گا۔؟
مشتاق احمد خان: دیکھیں، ابھی الائنس کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی، اس وقت تمام سیاسی جماعتیں جو حکومتی چھتری تلے ہیں وہ بھی اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ بھی ایک دوسرے کو سمجھنے، ایک دوسرے کیساتھ گفتگو اور ایک دوسرے کیساتھ رابطے میں ہیں، البتہ جماعت اسلامی کے حوالے سے میں آپ کو اتنا ضرور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے آئندہ اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں کچھ اصول ہیں، جس میں پہلا اصول یہ ہے کہ جماعت اسلامی ان سیاسی جماعتوں کیساتھ کسی صورت بھی انتخابی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی جو حکومت میں شامل ہوں، جس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور ق لیگ شامل ہیں، ان کیساتھ کسی صورت اتحاد نہیں ہوسکتا، البتہ جو اپوزیشن جماعتیں ہیں، ان کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ اپوزیشن میں وہ جماعتیں جو ہمارے منشور کے قریب ہیں، ہمارے سیاسی موقف کے قریب ہیں، اور جو دینی طبقہ ہے اس کے ساتھ ہمارے اتحاد کے امکانات زیادہ ہیں، ان سب کیلئے ہم نے اپنے دروازے بھی کھلے رکھے ہیں اور ان کیساتھ ہماری بات چیت بھی ہوئی ہے، اور آئندہ بھی ہونے کا امکان ہے، لیکن ابھی کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: متحدہ مجلس عمل کی باقاعدہ بحالی کا معاملہ رکا ہوا ہے، کیا اس حوالے سے آپ کی جماعت کے دیگر دینی قوتوں کیساتھ کوئی پس پردہ مذاکرات چل رہے ہیں۔؟

مشتاق احمد خان: مجلس عمل کی بحالی کی گیند اس وقت مولانا فضل الرحمان کے کورٹ میں ہے، جماعت اسلامی نے اس حوالے سے دوٹوک موقف سامنے رکھا ہے اور کئی ملاقاتیں بھی کی ہیں، اور جماعت نے اپنا موقف بتایا ہے، اب ان کی طرف سے ہم اب کسی مثبت جواب کے انتظار میں ہیں، اور ہم نے اپنے موقف میں یہ بات رکھی ہے کہ ایک تو آپ موجودہ حکومت سے مکمل علیحدگی اختیار کر لیں، آپ بلوچستان حکومت سے علیحدہ ہو جائیں، دوسری بات یہ ہے کہ مجلس عمل جو منجمد ہوئی اس کی وجوہات کا تعین کریں، اس پر بات کریں، اور آئندہ انتخابات کیلئے جو صورتحال ہے، اس کے حوالے سے آپ ہمارے ساتھ کوئی معاہدہ کر لیں، یہ کچھ باتیں ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ نامناسب اور ناقابل عمل نہیں ہیں، تو ہم انتظار کر رہے ہیں کہ مولانا صاحب اس کا کیا رسپانس دیتے ہیں، ابھی تک تو ان کا رسپانس بہتر نہیں ہے، بہرحال ہوسکتا ہے کہ ان کی اپنی جماعت کے لوگ ان کو اس طرف توجہ دلوائیں، اور وہ اس طرف آسکیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے گزشتہ الیکشن میں بائیکاٹ کی وجہ سے لبرل اور سیکولر سیاسی قوتوں کو کھلا میدان مل گیا۔؟
مشتاق احمد خان: سیکولر قوتوں کو جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کی صورت میں پنپنے کا موقع نہیں ملا بلکہ ان کو اس ڈیل کی صورت میں موقع ملا جب پرویز مشرف بیٹھا ہوا تھا، جہوریت نہیں تھی اور آئین معطل تھا، وہ تو انہوں نے وقت کے آمر کیساتھ ڈیل کی اور اس ڈیل کے نتیجے میں ان کو موقع مل گیا، البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے نتیجے میں وہ اقتدار میں آ تو گئے لیکن وہ ایکسپوز ہوگئے، انہیں مکمل اختیارات، حکومت مل گئی، لیکن وہ ڈیلیور نہیں کرسکے، تو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے انہیں ایکسپوز کر دیا۔

اسلام ٹائمز: ملک میں جاری دہشتگردی کا ذمہ دار کون ہے، بیرونی قوتیں، اندرونی عناصر یا پھر حکومت۔؟
مشتاق احمد خان: دہشتگردی کی ذمہ دار ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں ہیں، ان کی پالیسیاں ہیں، جب تک یہ امریکی جنگ سے نہیں نکلیں گے، جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے، جب تک ملٹری آپریشن بند نہیں ہوں گے، جب تک لاپتہ افراد کا معاملہ حل نہیں ہوگا، امن نہیں آسکتا، ان سب چیزوں کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومت پر ہے، اس لئے اگر صوبائی اور وفاقی حکومتیں امن لانے میں مخلص ہیں تو ملٹری آپریشنز بند کر دیں، لاپتہ افراد کے مسئلہ کو عدالت کے فیصلہ کے مطابق حل کریں، ڈرون حملے بند کر دیں، دہشتگردی کیخلاف جای جنگ سے علیحدگی اختیار کر لیں، اور قبائلی علاقوں میں مذاکرات کا راستہ اختیار کریں تو اس کے نتیجے میں انشاءاللہ امن آئے گا، جس راستے پر یہ جا رہے ہیں تو اس میں صوبائی اور وفاقی حکومت خود دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے کس حد تک پرامید ہیں، اور یہ پلیٹ فارم  ابھی تک خیبر پختونخوا میں صوبائی اور نچلی سطح پر قائم نہیں ہوسکا، اس کی کیا وجوہات ہیں۔؟
مشتاق احمد خان: ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ وقت میں یہ پاکستان کی ضرورت ہے، امت کی ضرورت ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہوا ہے، اس میں شامل تمام جماعتیں اور شخصیات مبارکباد کی مستحق ہیں، انہوں نے ہم آہنگی، اتحاد و اتفاق کیلئے اور دہشتگردی کی روک تھام و دشمن کو روکنے کیلئے بہت ہی اچھا قدم اٹھایا ہے، اس میں سب کی کاوشیں قابل تحسین ہیں اور خصوصاً قاضی صاحب کا کردار بہت ہی لائق تحسین ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ان کا مرکزی سطح پر تو سیٹ اپ بن گیا ہے اور وہ ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں، جس میں وہ صوبائی سطح پر اپنی شاخوں کو قائم کریں گے اور پھر ضلعی سطح پر آئیں گے، اوپر کی سطح پر جو باڈی تھی وہ اہم تھی، جو بنیادی قدم تھا وہ اٹھایا جا چکا ہے اور انشاءاللہ نچلی سطح پر بھی آجائیں گے اور ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں، اور جماعت اسلامی اس سلسلے میں بھرپور تعاون کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں امریکی مداخلت کیخلاف جماعت اسلامی کی مہم جاری ہے، آپ کے خیال میں اس حوالے سے کس حد تک کامیابی حاصل کی جا چکی ہے اور مستقل قریب میں کیا یہ مداخلت ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔؟
مشتاق احمد خان: اگر حکومت تبدیل ہو جائے تو یہ مداخلت ختم ہوسکتی ہے، لیکن موجودہ حکومت سے یہ توقع ہرگز نہیں رکھی جا سکتی کہ یہ مداخلت ختم کریں گے، کیونکہ یہ لوگ امریکہ سے ڈالر لے رہے ہیں اور اس کی بنیاد پر انہوں نے اپنی پالیسیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، لہذا اس حکومت سے تو ہمیں کوئی توقع نہیں۔

اسلام ٹائمز: افغانستان کی صورتحال پاکستان پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے، کیا امریکہ اور اس کے اتحادی وہاں سے جلد انخلاء کرلیں گے یا پھر 2014ء کے بعد بھی ان کی افغان سرزمین پر موجودگی کی اطلاعات درست ثابت ہوں گی۔؟
مشتاق احمد خان: دیکھیں، امریکہ جو 10 سال میں نہیں کر سکا، وہ آئندہ 100 سال میں بھی نہیں کرسکتا، امریکہ اپنے جن عسکری مقاصد کیلئے یہاں آیا تھا وہ مقاصد اسے حاصل نہیں ہوسکے، لہذا اسے عسکری لحاظ سے تو شکست ہوچکی ہے، اب وہ اپنی شکست کے داغ سے بچنے کیلئے مختلف قسم کے حربے اختیار کر رہا ہے، جس میں ایک تو یہ ہے کہ اسے تین چار بیسز دی جائیں اور وہ وہاں اپنی فوجوں کو رکھے، لیکن جو کام آپ 42 ممالک کی نیٹو افواج کیساتھ نہیں کرسکے، وہ تین چار بیسز کیساتھ کیسے کر لیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ امریکیوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے اور یہاں پر مزید نہیں ٹھہر سکتے، ہر آنے والا دن ان کی کمزوری کا پیغام لاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور دیگر قوتیں تاریخ کے سبق کے مطابق یہاں سے نکلیں گی اور حل اس کا یہ ہے کہ افغان معاشرے کو سپورٹ کیا جائے، کہ وہ پرامن طریقے سے مل بیٹھ کر اپنے لئے کوئی انتظام طے کر سکیں، اس میں بیرونی مداخلت نہ اور افغان عوام کو موقع دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں میں مقبوضہ فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے پس پردہ کیا سازش ہوسکتی ہے اور اس حوالے سے مسلم ممالک کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مشتاق احمد خان: فلسطین کا جو مسئلہ ہے اس کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کے دو مقاصد ہیں، حماس کی حکومت کو عوام کی ترقی و فلاح و بہبود سے روکنا، انہیں عوام سے دور کرنا، اور دوسرا مصر کی اسلامی حکومت کو متاثر کرنا، فلسطین میں معصوم بچے، بوڑھے، خواتین اور بے گناہ لوگ قتل ہوئے اور اس پر اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ اور مسلم ممالک کی خاموشی بہت افسوسناک ہے، اس حوالے سے امریکہ کا چہرہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے کہ وہ جابر اور ظالم قوتوں کیساتھ ہے، اس کا مسلمانوں کیلئے ایک معیار ہے اور اسرائیل و ہندوستان کیساتھ اپنے مفادات کیلئے دوسرا معیار ہے۔
 
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے مقاصد میں یہ ہے کہ حماس کی حکومت کو ناکام بنانا، ان کو اپنے اثرات بڑھانے، عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو روکنا ہے، اسرائیل کا دوسرا مقصد مصر کی حکومت کے گرد گھیرا ڈالنا اور اس کو کسی طریقہ سے گرانا ہے، اس وجہ سے اس نے یہ حملے شروع کئے، میں سمجھتا ہوں کہ تمام عالمی اداے اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ ان کی ذمہ داری بنتی تھی لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال، محرم الحرام کے دوران ہونے والے دہشتگردی کے افسوسناک واقعات پر کیا کہیں گے اور اس صورتحال میں علماء کرام اور دینی قوتوں کو کیسا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔؟
مشتاق احمد خان: یہ تو بہت زیادہ افسوسناک ہے، جس طرح آپ نے ملی یکجہتی کونسل کے بارے میں سوال کیا، اس طرح علماء کو دیگر فورمز بھی بنانے چاہیئں، مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق ایٹم بم سے زیادہ طاقتور ہے، اور جو مسلمانوں کی نااتفاقی ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس دشمن سے بچنے کیلئے اور اس ایٹمی طاقت کو حاصل کرنے کیلئے اتحاد و اتفاق اور باہمی رابطوں کو فروغ دینا ہوگا، اس حوالے سے علماء کرام اور دینی فورمز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 216296
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش