1
0
Friday 7 Dec 2012 01:42
گلے کاٹنا اور فلاں کافر، فلاں کافر کہنا جہالت ہے

مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے، امریکہ کا سارا رعب و دبدبہ کھوکھلا ہے، حمید گل

مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے، امریکہ کا سارا رعب و دبدبہ کھوکھلا ہے، حمید گل
جنرل (ر) حمید گل آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ہیں، آج کل دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی رہنما ہیں اور ملک میں بیداری کی تحریک کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، ممتاز تجزیہ نگار ہیں اور پاکستان میں اسلامی انقلاب کے حامی اور خواہاں ہیں، نوجوانوں سے امید لگائے میدان سیاست میں مصروف عمل ہیں، امریکہ کی سازشوں پر خصوصی نگاہ رکھتے ہیں اور انہیں بے نقاب بھی کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز منصورہ میں دفاع پاکستان کونسل کے ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لائے تو ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے گفتگو کی، سوالات بہت زیادہ تھے لیکن دامن وقت میں گنجائش کی کمی آڑے آ گئی، جس پر بہت سی باتیں رہ گئیں، لیکن جو باتیں ہم ان سے کرسکے وہ اپنے قارئین کے لئے من وعن پیش کی جا رہی ہیں۔ (ادارہ)
                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: ملک میں عجیب قسم کی صورتحال ہے، ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی، پاکستان کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔؟
حمید گل:
ہمارے ملک کا مستقبل بہت اچھا ہے، یہ سب کچھ چلا جائے گا، یہ سب کچھ بدل جائے گا، بس یہاں سے امریکہ دفعہ ہو جانے دیں، یہاں بہار کا موسم آجائے گا۔ یہاں اس کے اوپر ایک درست اور اٹل فیصلہ کرنا ہوگا، اگر اس وقت آپ اپنے آئین کے مطابق یہاں شریعت کا نظام نہیں لاتے، پھر آپ کے لئے مشکلات پیدا ہوجائیں گی، ہم نے اپنی قوم کو ایک دینی فلاحی ریاستی نظام دینا ہے، کیوں کہ اللہ تعالٰی نے ہم پر ذمہ داری ڈال دی ہے۔ پاکستان ریاست مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے جو صرف اور صرف اسلام کے لئے بنی ہے، درمیان میں بہت بڑا گیپ ہے، دشمن قوتیں اس گیپ کو ختم نہیں ہونے دے رہیں، اگر وہ گیپ ختم ہوگیا تو ہمارے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ پاکستان میں تو غیر مسلم بھی چاہتے ہیں اسلامی نظام نافذ ہو، اس سے انہیں بھی وہ حقوق ملیں گے جو اب نہیں دیئے جا رہے۔

اسلام ٹائمز: پہلی بار کسی حکومت نے مدت پوری کی ہے، آیا الیکشن ہوں گے یا نہیں، نگران حکومت آگے بڑھنے کیلئے درست طریقہ ہے۔؟
حمید گل:
یہ ایک انتہائی دلچسپ پوائنٹ ہے کہ تعمیر کے لئے تخریب ضروری ہے، یعنی ایک مکان جو خستہ حالت میں ہے وہ نہ آپ کو دھوپ سے بچاتا ہے اور نہ ہی بارش سے، تو پھر اس کا گرا دینا ہی بہتر ہوتا ہے اور نئے مکان کی تعمیر شروع کی جاتی ہے۔ ہمارا نظام سارے کا سارا فرسودہ ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ بتانا میں ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عیسائی جمہوریت جو تھی جس کو مغربی یا سیکولر جمہوریت کہتے ہیں یہ کرسچن ورلڈ میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی اور وہ بائبل کے مطابق نہیں چلی، پادریوں کے جو رویے تھے ان کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں آئی، کیونکہ بائبل جو ہے وہ قانون کی کتاب نہیں، قانون کی کتاب صرف ایک ہے، جس میں سیاست سے لے کر معیشت تک اور معاشرت سے لے کر میاں بیوی کے تعلقات تک، ہر چیز انفرادی طور پر بتا دی۔ اس لئے کہتے ہیں سب سے مقدس پیکیج جو ہمیں دیا گیا ہے، وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے قرآن مجید ہے۔

اسلام ٹائمز: لیکن معاملہ شیعہ سنی کا ہے، ان میں کیسے اتفاق ہوسکتا ہے۔؟
حمید گل:
قرآن میں ہر بات موجود ہے، اس میں تبدیلی نہیں آسکتی، ہمارے ملک میں واقعی شیعہ سنی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے میرے دل کی بات کہی۔ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ نبی کریم (ص) شیعہ تھے کہ سنی۔؟ جس دن خطبہ حجۃ الوداع ہوا اور حضور سرور کونین (ص) نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا ’’آج کے دن تم پر تمھارا دین مکمل کر دیا گیا اور اے لوگوں گواہ رہنا‘‘ اس دن کون شیعہ سنی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی فقہی مسائل ہیں یہ عربوں کی تاریخ ہے، یہ تو اسلام کی تاریخ بھی نہیں، کیونکہ ہمارا شمار تو عرب ممالک میں نہیں ہوتا۔ یہ عربوں کی تاریخ ہے جسے ہم نے مختلف انداز میں لیا۔ واقعہ کربلا پوری انسانیت کے لئے درس ہے، امام حسین (ع) نے کتنی بڑی قربانی دی، جو انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
بس اک حقیقت ابدی ہے رسم شبیری
بدلتے  رہتے ہیں  انداز  کوفی  و  شامی


امام حسین (ع) وہ قطبی ستارہ ہیں جن کی رہنمائی میں ہم چل سکتے ہیں۔ ہمارے تمام مسائل کا حل قرآن میں ہے، جو جمہوریت قرآن دیتا ہے کوئی دوسرا دے ہی نہیں سکتا۔ قرآن کہتا ہے کہ خلیفہ کون ہے؟ پھر جواب دیتا ہے، انسان۔ میں کہتا ہوں کہ اگر قرآن کے اصولوں کو اپنائیں گے تو ہمارے یہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ جو کہتے ہیں مرتدین کے گلے کاٹ دو، کافر کو مارو، شیعہ کافر، سنی کافر، فلاں کافر ۔۔۔ یہ سب جہالت ہے، اگر آپ قرآن کو پکڑیں تو یہ سوچ نیست و نابود ہو کر رہ جائے گی۔ قرآن کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، تو ایسی باتیں عام کرنے سے مسائل ختم ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو بھی تو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اب کہتے ہیں یہ سیکولر ریاست ہے، قائداعظم کو بھی سیکولر کہا جا رہا ہے، جبکہ واضح ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ؟
حمید گل:
قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی جو تقریر ہے وہ مکمل کی مکمل میثاق مدینہ کا ترجمہ ہے۔ قائداعظم نے کبھی سیکولرازم کا نام نہیں لیا۔ میثاق مدینہ کے 58 نقاط ہیں اور اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ تم آزاد ہو، انسان ہو، اللہ کا کنبہ ہو، آخر میں صرف اتنا کہا گیا کہ جب تمھارے معاملات بگڑ جائیں تو اللہ اور اس کے رسول (ص) کی طرف رجوع کرو اور یہی بات ہماری قرارداد مقاصد میں لکھی ہوئی ہے اور ہمارے معاملات تو بہت بگڑے ہوئے ہیں، مغربی جمہوریت تو چل ہی نہیں رہی، خود اپنے گھر میں بیٹھ گئی ہے، وہاں ان کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے جو 16 ٹریلین قرض لے چکا ہے، جو اس کے جی ڈی پی سے زیاہ ہے۔ آج ڈالر ایکسچینج ایبل کرنسی نہ ہو تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا۔

اسلام ٹائمز: تو ہم ڈالر کا بائیکاٹ کرکے امریکہ کو نیچا دکھا سکتے ہیں۔؟
حمید گل:
جی بالکل، میں تو پہلے دن سے ہی کہتا چلا آ رہا ہوں کہ مسلم ممالک اپنی مشترکہ کرنسی بنا لیں، اسی میں لین دین کریں، امریکہ کا سارا دارومدار مسلمانوں کے وسائل پر ہے، وہ ڈالر پہ ڈالر چھاپ کر ہمارے وسائل پر قبضہ کئے جا رہا ہے، اس نے جان بوجھ کو سازش کے تحت عالمی مارکیٹ میں ڈالر پھینکا ہے اور اس کی قدر بنائی، اگر مسلم ممالک مل کر ایک مشترکہ کرنسی بنا لیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں امریکہ ہمارے پاؤں بھی پکڑے گا اور اس کی عقل بھی ٹھکانے آجائے گی۔

اسلام ٹائمز: جب امریکہ کی حقیقت یہ ہے تو پھر ہم کیوں اس کو رول ماڈل کے طور پر لے رہے ہیں۔؟
حمید گل:
آپ نے درست کہا، ہم کیوں ان کا ماڈل رول لے رہے ہیں، جبکہ ہمارا اپنا ماڈل ہے، اور یہ نوجوان نسل کو سمجھانا ہے کہ تم مایوس کیوں ہو، گماں کی پستی میں کیوں گم ہوگئے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

جب میں پاکستان کی قسمت دیکھتا ہوں بلکہ پوری انسانیت کی، کیونکہ پاکستان کی تقدیر پوری انسانیت کی تقدیر ہے، اگر پاکستان ناکام ہوتا ہے تو پوری انسانیت ناکام ہوتی ہے۔ انسانیت کے پاس کوئی متبادل نظام نہیں بچتا، کیپیٹل ازم بھی ناکام ہوگیا، اسٹیٹ کیمونزم بھی فارغ ہوگیا، وہ کچھ بھی نہیں دے سکا، مان لیا بہت سی چیزیں ہیں، ناروے کو ہی دیکھ لیں، انسان کے اندر تین چیزیں ہوتی ہیں، اس کا دماغ، روح اور جسم، ناروے دنیا کا امیر ترین ملک ہے، لیکن وہاں خودکشی کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ خودکشیاں ناروے میں ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ روحانیت پر یقین نہیں رکھتے، ان کا پورا فوکس ظاہری بدن پر ہے، پاکستان بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ اس میں لوگوں کو بتایا جائے کہ اپنی جسمانی، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں، تو آئندہ پاکستان کا مستقبل روشن ہی ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی مسلمان تو زیادہ مذہبی نہیں، یہ ضیاءالحق کا فنڈامینٹل اسلام قبول کرتے ہیں، نہ مشرف کا روش خیال اسلام مانتے ہیں بلکہ یہ تو میانہ رو مسلمان ہیں۔؟
حمید گل:
قائداعظم نے پاکستان مسلمانوں کے لئے نہیں بنایا تھا بلکہ ایک اسلامک ماڈل بنا رہے تھے، جس میں تمام مذاہب کو وہی آزادی حاصل ہونا تھی جو نبی اکرم (ص) نے مدینہ میں دی۔ 11 اگست کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اکبر کا جو برداشت کا ماڈل تھا وہ بہت اچھا تھا۔ یعنی سیکولر ماڈل، اس نے تلک بھی لگا لیا تھا اور ہندو لڑکی جودھا بائی سے شادی بھی کر لی تھی اور دین اکبری متعارف کروا دیا تھا تو قائداعظم نے 14 اگست کے اپنے خطاب میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ می لارڈ یہ غلط ہے، ہمارے لئے وہ ماڈل نہیں، ہماری برداشت کا ماڈل عقیدہ مساوات انسانی اور تیرہ سو سال پرانا مدینہ منورہ ہے۔یہ قائداعظم کے الفاط کوٹ نہیں کئے جاتے، تو یہ ایک ہمیشہ سے ہمارے ساتھ واردات چلی آ رہی ہے۔ 

میں ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں، جو آپ کے سوال کے حوالے سے انتہائی اہم ہے، پاکستان کی سوسائٹی زیادہ اسلام پسند ہے، آپ بے شک اتفاق نہ کریں، لیکن یہ حقیقت ہے لوگ اسلام کی جانب زیادہ مائل ہیں، جس طریقے سے اسلام کی بنیاد رکھی گئی اس طرف جائیں، ہمارے دین کی بنیاد کیا ہے؟ وہ قرآن پاک ہے۔ تمام احادیث قرآن پاک سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اگر آج ہم اس کو ماڈل بنالیں تو یہ فرقہ واریت پھیلانے والے مولویوں کو کہیں منہ چھپانے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔ قرآن مجید تو اس بات کا درس دیتا ہے کہ فرقہ بندی مت پھیلاؤ، یہ سیاسی جماعتیں اپنی حرکت سے باز نہیں آتیں، یہ فرقہ واریت پھیلاتی ہیں۔ امن کے لئے ایسا اصول ہو جو قرآن نے بتایا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں کوئی ایسا لیڈر دکھائی دے رہا ہے، جو قرآنی اسلامی نظام نافذ کرے۔؟
حمید گل:
پاکستان بننا ایک معجزہ تھا۔ یہ لوگوں کی قربانیوں سے اور طاقت سے معرض وجود میں آیا۔ مغرب کے عقیدے کے مطابق دو طاقتیں ہیں، ہمارے نزدیک سب سے بڑی طاقت تو اللہ سبحانہ تعالٰی کی ہے۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہے اور اس کے بعد عوام کی طاقت ہے۔ عوام کی طاقت نے جب بھی خود کو مضبوط کیا، تب تب اسے اسٹیبلشمنٹ نے ہائی جیک کر لیا۔ کس وجہ کے لئے کیا ہوگا؟ اور دو طرح کی وجوہات سامنے آئیں۔ سب سے بڑی موومنٹ پی ایم اے کی چلی، اسٹیبلشمنٹ نے اسے ہائی جیک کر لیا۔

عوامی طاقت خود کو درست انداز میں استعمال نہ کرسکی، کیونکہ ایک تو اس میں علماء شامل ہوگئے۔ اب مجھے یقین ہے ہمارے ملک میں اسلام عوامی طاقت سے ہی نافذ ہوگا۔ یہ نظام انتخاب سے نہیں انقلاب سے آئے گا اور میں یہ بات بار بار کہتا ہوں۔ اسی لئے میں نے کبھی کوئی سیاسی پارٹی جوائن نہیں کی۔ مجھے یہ آفرز پہلے دن سے آئیں اور بڑی بڑی آفرز آئیں، لیکن میں نے نظرانداز کیا، کیونکہ میرا ایک مشن ہے، میرا ایک خواب ہے، جو میرا جنون ہے۔ آج آپ میری ریٹائرمنٹ کے 21 سال بعد مجھے سے بات کر رہے ہیں، تو کوئی بات ہے جو مجھ سے جڑی ہوئی ہے تو یہ اللہ کی مہربانی ہے، لیکن اب عوام کی طاقت کو سامنے آنا ہوگا۔

پاکستان کس نے بنایا، عوام کی طاقت نے، آپ کہیں گے وڈیروں نے بنایا، یہ تو انگریز کے ساتھ بھی تھے، وہ تو ڈی سی او نے بلا کر کہا کہ بابا نہیں مانتا، پاکستان بنانا ہی پڑے گا۔ اب پھر نفاذ اسلام کے لئے عوام کو اٹھنا پڑے گا، کیونکہ جب عوام کی طاقت اپنے آپ کو کھل کر ظاہر کرتی ہے تو ہر چیز کو توڑ دیتی ہے۔ حتیٰ کہ آئین کو بھی توڑ دیتی ہے۔ ابھی حال ہی میں چھوٹا سا انقلاب مصر میں آیا، اور اسی پر جھگڑے چل رہے ہیں کہ آئین کیسے بنایا جائے۔ لیکن جو آئین کے اندر ابہام ہے، یعنی اللہ کی حاکمیت بھی ہے اور پھر زرداری صاحب کو آرٹیکل 245 کے تحت استثنٰی بھی حاصل ہے۔ اللہ کا حکم موجود ہے کہ تفرقہ مت ڈالو اور سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں۔ اللہ کا یہ حکم ہے کہ دین کے اندر انسانیت کا احترام کرو، لیکن آپ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں، جو کہ اللہ کی مرضی سے ہونا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز آپ کر رہے ہیں، خود اپنے آئین کو جو بنیادی پتھر ہے جو کہ ایک اہم ترین وعدہ ہے، اس کو آپ نظرانداز کرکے سب کچھ کر رہے ہیں۔ تو اس کو میں نے نرم انقلاب کا نام دیا ہے۔ نرم انقلاب سے مراد یہ ہے کہ انقلابی سیاست سے آپ کہیں بھی ہوں مجبوری سے ایک نظام چل رہا ہے تو آپ بے شک ووٹ دیں لیکن اب نئے نظام کو بدلنے کے لئے نکلو، نوجوانوں یہ تمہارا کام ہے، اور میں اپنے نوجوانوں میں ایسی قیادت دیکھ رہا ہوں، جو ملک میں اسلامی نظام نافذ کرسکے گی، ہمارے نوجوان بہت باشعور ہوچکے ہیں، ان کا ویژن بھی بہت وسیع ہے۔ یہ شیعہ سنی کے حصار سے بھی بالا ہیں، یہ سب کو انسان سمجھتے ہیں اور سب کا احترام کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: موجودہ قیادت سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں۔؟
حمید گل:
ان میں کوئی لیڈر ہے ہی نہیں، کون ہے؟ دیکھیں انقلابی حالات میں انقلاب اپنا لیڈر خود پیدا کرتا ہے۔ میں نے ایران کے اسلامی انقلاب کو بہت غور سے دیکھا ہے، تب میں ڈی ایم آئی تھا، جب یہ سارا سلسلہ چل رہا تھا تو مجھے بہت شوق تھا کہ اسے پڑھوں، اور لوگوں کا یہاں خیال تھا کہ انقلاب ٹوٹ جائے گا، ختم ہو جائے گا، لیکن تب میں نے لکھا تھا کہ یہ انقلاب کامیاب ہوگا۔ سب سے پہلے انقلاب قوم اور ملک کے مفاد میں ہونا چاہئے، اور اسے قومی انقلاب بنایا جائے، اور اگر اس میں لیڈر شپ نہیں، سٹیٹس کو کے لوگ اس میں شامل ہیں اور ان کا اس میں فائدہ ہے۔ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ سٹیٹس کو ہو، ان کا سارا سسٹم ہی اس نظام کے تحت چلتا ہے۔

اب جب کہ وہ طاقت میں آگئے ہیں تو ان کی اتھارٹی چیلنج نہیں ہونی چاہئے۔ تو پھر ہم سٹیٹس کو والوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا سسٹم ایک فرسودہ نظام ہے، اور اسلام میں سیاسی جماعتوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ جہاں آپ طاقت کے حصول کے لئے جائیں، اب سارے کے سارے سورہ آل عمران کی آیت 103 اور 104 کا سہارا لیتے ہیں کہ تمہارے میں سے ایک گروہ ۔ ۔ ۔ وہاں جماعت تو لکھا ہی نہیں ہوا، ملت لکھا ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے ساتھی (فوج) جب اقتدار میں آتے ہیں تو وہ چیزوں کو درست کیوں نہیں کرتے۔؟
حمید گل:
میں انتہائی معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ہماری فوج حالات کو بہتر نہیں بناسکتی، میرا گلہ فوج سے تب سے ہے جب میں فوج میں تھا، اور اب بھی ہے۔ فوج کا ایک محکمہ ہے ملٹری انجینئرنگ سروس (MES) جو سویلین محکمہ ہے۔ فوج اس کو تو ٹھیک نہیں کرسکی، کیونکہ وہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کام نہیں کرتے۔ یہ ایک چھوٹا سا ادارہ ہے، یہ اس قدر کرپٹ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں، فوج اس کو تو ٹھیک نہیں کرسکی، ملک کو کیسے ٹھیک کرے گی۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب مجھے یہ بتائیں کہ ایک تو اس قوم کی تعمیر اور دوسرا ان لیڈروں کا کردار کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔؟
حمید گل:
ان کا کردار ٹھیک نہیں ہوسکتا، کیونکہ ان کی عادات پختہ ہوچکی ہیں۔ یہ غلط راستے سے بھی بہت اوپر جاچکے ہیں۔ کہا تو یہ بھی جاسکتا ہے کہ کل کو زرداری صاحب اپنے دل کو بدل کر آجائیں گے تو یہ ایک خوش آئند بات ہوگی، لیکن میرا گمان کہتا ہے کہ بے نظر بھٹو صاحبہ کچھ بدل رہی تھیں، اس لئے انہیں شہید کر دیا گیا، جیسے ضیاء الحق کو اڑا دیا گیا، وہ بھی تو شریعت کی ہی بات کر رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ کردار جو ہے وہ ماحول بدل سکتا ہے، خزاں کے اندر پھول نہیں کھلا کرتے، جب بہار آتی ہے تو ہر جانب ہر کونے میں پھول کھل جاتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ماحول کو تبدیل کرنا ہے، ایک تو اس کے اندر بیرونی عوامل ہیں، اس سے ہمیں بڑی کامیابی ملی ہے اور ہمارے ہاں یہ جو ڈپریشن چل رہا ہے کہ امریکہ ہمارے لئے خطرہ ہے تو ایسی کوئی بات نہیں۔ امریکہ کا سارا رعب و دبدبہ کھوکھلا ہے۔ فلسطین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کی قیادت نے کس بنیاد پر مقابلہ کیا، اپنی خود اعتمادی کے سہارے اسرائیل جیسی طاقت سے ٹکرا گئے اور یہاں اسرائیل کی جرات نہیں ہوئی، کیونکہ اب فضا اور ماحول بدل گیا ہے۔ اسی لئے مصر میں تبدیلی آگئی ہے، ایران اور زیادہ مضبوط ہوگیا ہے، ترکی میں بھی تبدیلی آگئی ہے، عراق کے اندر بھی تبدیلی آئی ہے، شام کے اندر ایک مختلف قسم کا ماحول ہے، لیبیا کے اندر بھی القاعدہ والے پہنچ گئے ہوئے ہیں، اور سب سے بڑے عرب ممالک اب مارجل لائز ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں۔؟
حمید گل:
میں یہی کہہ رہا ہوں کہ یہاں پر فضا نہیں بدلی، آپ کو فضا کو بدلنا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہاں پر ساری فضا کس نے بدلی، یہ عوام نے بدلی ہے، التحریر اسکوائر نے بدلی ہے۔ کیا ہمارے نصیب میں بہار نہیں لکھی ہوئی، جب خمینی صاحب آئے تو کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا، صرف چند ایک اموات ہوئی تھیں اور بڑے آرام سے انقلاب آگیا تھا، یہ ہر قوم کی زندگی میں ایک موڑ آتا ہے، پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں۔ پاکستان تو کئی نعمتوں سے مالا مال ہے اور پاکستانی قوم بہت زبردست قوم ہے۔ اگر اس کے اندر وہ اٹھان یا ابال سا آجائے جسے سپریم کورٹ کنٹرول کرے اور اگر ہماری خواہش کے مطابق نہیں کرتے، آپ آرٹیکل 2A کو معطل کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم نیا نظام چاہتے ہیں، مجھ سے لکھوا لیں یہ علماء حضرات جن کو میں بہت قریب سے جانتا ہوں۔ یہ اپنے طالبان کے سامنے جواب نہیں دے سکیں گے۔ ان کو ٹی وی پر دکھائیں، ان سے پوچھیں کہ ٹھوس ریفرنس لاؤ۔

اسلام ٹائمز: اگر میرا اور آپ کا جھگڑا ہوتا ہے کہ کس کا اسلام۔؟
حمید گل:
یہ بڑا اہم سوال ہے، شیعہ کا اسلام یا سنی کا اسلام۔؟ بھئی کسی کا اسلام نہیں، قرآن کا اسلام۔ اگر میرا اور آپ کا پلاٹ پر جھگڑا ہو جاتا ہے، آپ کہتے ہیں میرا ہے، میں کہتا ہوں میرا ہے، عبداللہ کہتا ہے میرا ہے، پھر کیا ہوتا ہے، ہم عدالت سے رجوع کرتے ہیں، وہ پوائنٹ آف لا سے جج کرتے ہیں اور فیصلہ دے دیتے ہیں۔ ہم وہ فیصلہ سن کر چپ کرکے چلے جاتے ہیں، تو بھئی اسلام کا مقدمہ دائر کیوں نہیں ہوتا؟ جس دن اسلام کے چہرے پر منحوس پردہ اوڑھنے کی جو ناپاک جسارت ہو رہی ہے، جس دن یہ پردہ اترگیا اس دن ایک خوبصورت، چمکتا دمکتا ہوا روشن چہرہ سامنے آجائے گا، دنیا آپ کی طرف لپک پڑے گی اور یہی غم امریکہ کو کھائے جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہم کہتے ہیں اسلامی نظام آئے، الیکشن میں مذہبی جماعتوں کو بہت ہی کم ووٹ ملتے ہیں، کیا ایسا تو نہیں کہ عوام اس کے لئے تیار ہی نہیں۔؟
حمید گل:
جو تازہ ترین کیو سروے ہوا ہے، اس کے مطابق اس حالت میں بھی شریعت کو اتنا بدنام کر دیا گیا ہے، اور ہر جگہ شریعت کا بیڑہ غرق کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن ان حالات میں بھی 87 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ ہمیں اسلامی نظام چاہئے، ہم اسلام سے بےحد محبت کرتے ہیں، لیکن مولویوں سے ہم خوف زدہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: پھر یہ مولوی کہاں جائیں گے۔؟
حمید گل:
یہ قرآن اب مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا اور اس کا حل سپریم کورٹ ہی نکالے گا۔ جس نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کیا آئین کے اندر یہ چیز موجود نہیں، پھر اس شق کو کیوں نہیں نکالتے، باقی تو ہر چیز کو دیکھتے ہیں۔ چار سال سے جھگڑ ا چل رہا ہے کہ خط لکھنا ہے کہ نہیں لکھنا، پھر آئین کو لے کر آ جاتے ہیں۔ ذرا سپریم کورٹ دین کی طرف بھی آئے اور علماء کرام کو آنے دیں، اسلام کے اندر کیا ہے۔ چند ایک چیزیں ہیں، عورت کا پردہ، زکوۃ عشر کے کچھ معاملات ہیں اور اس کے بعد سزاؤں کی نوعیت کیسی ہوگی، تھوڑے سے قوانین ہیں، جن میں انتہائی کم اختلاف ہے، شیعہ سنی میں چھوٹے موٹے اختلافات ہیں، یہ تو تاریخ کی پیداوار ہیں، یا تو اللہ کا حکم ہو کہ تم تقسیم ہو جاؤ، اللہ تو کہیں یہ حکم نہیں دیتا، جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا، وہاں سب اپنا موقف دیں گے تو معاملات درست ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی سپریم کورٹ اس نظام کو لانے کے لئے تیار ہے۔؟
حمید گل:
میں نہیں جانتا مگر ایک دفعہ یہ مقدمہ گیا تھا اکتوبر 1992ء کی بات ہے، اور شامی صاحب اور صلاح الدین صاحب جو شہید ہوچکے ہیں، یہ لوگ مقدمہ لے کر گئے تھے۔ تو جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب جو بعد میں چیف جسٹس بھی بن گئے تھے، انہوں نے پانچ ججوں کے بینچ پر اس مقدمے کی سماعت کے بعد ججمنٹ دی کہ اینگلو سیکشن پٹیشن کے مطابق آئین کے تمام اعتراضات مساوی ہیں، اس کو ہم نے ری موو کرنا ہے، معمولی سی بات ہے قوم فیصلہ کرے اگر 82 فیصد پاکستانی اسلام چاہتے ہیں تو یہ جو چھ چھ فیصد سے آگے ٹو تھرڈ میجارٹی لے جاتے ہیں، ان کے بارے میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، امریکی دباؤ اپنی جگہ، ہمارا توانائی بحران اپنی جگہ، پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
حمید گل:
ہماری قوم ایک لمبے عرصے سے توانائی بحران کا شکار ہے، ہماری انڈسٹری تباہ ہوچکی ہے، سرمایہ دار دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں، پوری دنیا میں ہمارا بزنس بری طرح متاثر ہوا ہے اور امریکہ یہی چاہتا ہے کہ ہم معاشی طور پر کمزور ہو جائیں، امریکہ ہمارا توانائی کا بحران حل نہیں ہونے دیتا، وہ کہتا ہے کہ اگر پاکستان معاشی لحاظ سے مضبوط ہوگیا تو اس کے لئے مسئلہ بن جائے گا، وہ اس لئے ہمارے حکمرانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرکے ہمیں اس اندھیر نگری میں پھینک رہا ہے۔ ہماری قوم کو بھی اور ہمارے حکمرانوں کو بھی اس سازش کا ادراک کرنا چاہئے ورنہ آپ دیکھیں نہ کہ ہمارے پاس پورے وسائل ہیں، کوئلہ ہے، پن بجلی ہم بنا سکتے ہیں، ہوا سے بجلی پیدا ہوسکتی ہے لیکن کیوں نہیں ہو رہی۔؟

اس لئے کہ امریکہ نہیں چاہتا، کالا باغ ڈیم کا ایشو دیکھ لیں، امریکہ نے ایسا پھڈا ڈالا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کو زندگی موت کا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے، تو میرے بھائی اس بات کو دیکھیں کہ کون ہمیں اندھیروں میں دھکیل رہا ہے، تاجروں نے کہا کہ ہم سے بل زیادہ لے لیں ہمیں بجلی دیں، کیوں نہیں دی جا رہی؟ صرف اس لئے کہ امریکہ نے روک رکھا ہے کہ قوم کو بجلی نہ دینا، اس کے لئے قوم کو حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا، انہیں اتنا مجبور کرنا ہوگا کہ وہ امریکہ کو انکار کر دیں کہ ہم نے اس ملک میں رہنا ہے عوام تو ہمیں نہیں چھوڑتے، جہاں تک ایران کے ساتھ منصوبے کی بات ہے تو میں تو کہتا ہوں کہ ہمیں سب سے زیادہ تجارت ایران کے ساتھ کرنی چاہئے، ہر شعبہ میں ایران کے ساتھ تعلق ہونا چاہئے، ایک تو وہ ہمارا فطری دوست ہے، اس کے ساتھ اچھے تعلقات ہمارے مفاد میں ہیں، اس کے علاوہ وہ ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔

بھارت سے تجارت کی باتیں ہو رہی ہیں، بھارت سے دھوکا مل سکتا ہے، اس پر اعتبار بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن ایران دھوکا نہیں دے سکتا، وہ تعاون کرے گا، لہذا گیس پائپ لائن کے علاوہ بھی ایران کے ساتھ تجارت بڑھائی جائے اور فوری طور پر اس پر عمل کیا جائے، امریکی دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا جائے، اس کو کہا جائے کہ بھئی ایران سے دشمنی ہے تو آپ کی ہے، ہمیں کیوں درمیان میں گھسیٹتے ہو، اسی میں ہماری بقا ہے کہ ہم امریکہ کے سامنے ڈٹ جائیں۔ اپنے قومی مفاد سے قیمتی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی۔
صحافی : نادر عباس بلوچ
خبر کا کوڈ : 218686
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت اچھے سوالات ہیں اور ساتھ جوابات بھی نہایت موثر ہیں۔
ہماری پیشکش