0
Tuesday 18 Dec 2012 12:59

پرویز مشرف حضرت علی اور حضرت عمر فاروق والا نظام لائیں گے، سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی

پرویز مشرف حضرت علی اور حضرت عمر فاروق والا نظام لائیں گے، سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی آل پاکستان مسلم لیگ سندھ کے صدر ہونے کا ساتھ ساتھ مرکزی سینئر نائب صدر بھی ہیں، آپ کے آباﺅ اجداد کا تعلق تحریک پاکستان سے ہے، جنہوں نے پاکستان کے قیام کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، آپ کے آباﺅ اجداد علم کی روشنی پھیلانے میں ماضی میں بھی سرگرم تھے اور اب بھی آپ کے دادا حاجی عبداللہ کے نام سے منسوب 60 سے زائد اسکولز قائم ہیں جو اندرون سندھ نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے شعور و آگاہی عطا کر رہے ہیں۔ آپ دراصل مسلم لیگی ہیں مگر کچھ عرصے پیپلز پارٹی سے بھی منسلک رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اپنے دورہ سندھ کے دوران کئی بار آپ کے گھر قیام کر چکے ہیں، ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے بعد پیپلز پارٹی چھوڑ کر دوبارہ مسلم لیگ سے منسلک ہوگئے۔ آپ اپنے شہر سمارو کے چیئرمین میونسپلٹی بھی رہ چکے ہیں۔ آپ ٹاﺅن ناظم بھی رہ چکے ہیں، اسی دوران آپ نے ٹاﺅن ناظم الائنس کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی، اس 104 ناظمین پر مشتمل تنظیم کے آپ صدر بھی تھے، آپ نے پاکستان ناظم فورم بھی بنایا اور اس کے بھی چئیرمین رہے، آپ 79 قبائل کے لاکھوں افراد پر مشتمل خاصخیلی راجونی اتحاد کے سربراہ بھی ہیں، آپ نے آل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل کراچی کے ککری گراﺅنڈ اور تبت سینٹر پر بڑے عوامی اجتماعات منعقد کئے، جنوری 2012ء میں پاک بھارت بارڈر پر واقع اندرون سندھ کے علاقے سے کراچی تک ہزاروں بسوں اور گاڑیوں پر مشتمل ریلی نکالی، جس میں لاکھوں افراد شریک تھے، اس ریلی کے انعقاد سے متاثر ہوکر جنرل پرویز مشرف نے آپ کو اے پی ایم ایل میں شمولیت کی دعوت دی، چونکہ آپ پہلے ہی پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے اور سب سے پہلے پاکستان کے نعرے سے متاثر تھے، اے پی ایم ایل میں شمولیت کی دعوت قبول کرلی۔ سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی کے ساتھ اسلام ٹائمز نے ایک خصوصی نشست کی، اس حوالے سے ان کے ساتھ کیا گیا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آل پاکستان مسلم لیگ سے وابستگی کی وجوہات کیا ہیں اور پارٹی کے مستقبل کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ پاکستان تا قیامت قائم و دائم رہے کیونکہ کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں، اسی لئے ہماری جماعت کا نعرہ بھی یہی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان اور ہم اسی نعرے کے ساتھ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کیلئے سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بے نطیر بھٹو پر جب بھی مشکل وقت آتا تھا وہ کہتی تھیں میں لاڑکانہ کی ہوں، نواز شریف پر بھی جب مشکل وقت آیا تو انہوں نے لاہور پنجاب کا نعرہ لگایا اسی طرح دوسری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی لسانیت پرستی صوبائیت پرستی پاکستانی عوام پر واضح ہے مگر پرویز مشرف پر کئی تکالیف آئیں، نواز شریف نے انہیں جہاز میں ہائی جیک کیا تب بھی انہوں نے پاکستان کی بات کی، جب نواز شریف سیاچن کے مسئلہ پر گھٹنے ٹیک رہا تھا تو اس وقت بھی پرویز مشرف نے سیاچن پر پاکستان کا پاک پرچم لہرایا ایسی کئی مثالیں موجود ہیں پرویز مشرف کی پاکستان پرستی کی۔ تو مجھے پرویز مشرف کی قیادت میں آل پاکستان مسلم لیگ کا مستقبل بہت زیادہ اچھا اور محفوظ نظر آ رہا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کیلئے، اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام کیلئے، ملکی اداروں، جمہوریت کیلئے کام کیا، دو بلدیاتی ادوار کامیابی سے اختتام پزیر ہوئے، اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کیں، لہٰذا پاکستانی عوام کو موجودہ لیڈران میں سے اگر کسی میں روشنی کی کرن نظر آ رہی ہے تو وہ مشرف صاحب ہیں۔ پرویز مشرف نے بلا امتیاز پاکستانی کے پر علاقے کیلئے کام کیا۔ کراچی کی مثال آپ کے سامنے ہے یہاں میگا پروجیکٹس بنائے گئے، فلائی اوورز، انڈر پاسز بنائے گئے سب عوام کے سامنے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر پر جو گڈ گورنس کی انہوں نے وہ آپ کے سامنے ہے، مہنگائی کو کس طرح انہوں نے کنٹرول کئے رکھا آپ کے سامنے ہے، سب سے بڑی بات جو ہے وہ ہے ملکی اکانومی، انہوں نے ڈالر کو اٹھاون ساٹھ سے بڑھنے نہیں دیا، آج آپ ڈالر کو ہی لے لیں، افغانستان جس کی ہم مدد کر رہے ہیں، جو یہاں بھیک مانگنے آیا، آج وہاں ڈالر سینتالیس روپے کا ہے اور ہمارے یہاں سو روپے سے تجاوز کرنے والا ہے۔ تو آج لوگوں کو اے پی ایم ایل میں امید کی کرن نظر آ رہی تو میں اس کا مستقبل روشن دیکھتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کو اے پی ایم ایل میں ٹوٹ پھوٹ دیکھنے میں نظر آتی ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اے پی ایم ایل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ویسے بھی ابھی اس کو بنے ہوئے دو سال کا عرصہ ہوا ہے، نئی جماعت بنی، نئے لوگ آئے اور عہدوں پر فائض ہوئے، ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ جہاں درخت نہیں وہاں ایک چھوٹا پودا بھی درخت کہلاتا ہے، تو نئی جماعت تھی، کئی لوگوں کو عہدے بڑے مل گئے تھے، جس پر جانچ پڑتال ہو رہی ہے، کارکردگی چیک کی جا رہی ہے، کئی بڑی قد آور سیاسی شخصیات رابطے میں ہیں، جلد شمولیت بھی اختیار کریں گی۔ اب جن بچاروں کے قد چھوٹے تھے اور عہدے بڑے مل گئے تھے اور کارکردگی خراب تھی اور وہ منتخب بھی نہیں تھے تو انہیں سمجھایا گیا کہ وہ اپنے قد کے حساب سے عہدوں پر واپس آجائیں تو کچھ ایسے لوگوں کو تکلیف ہوئی ہے، ان میں سے کچھ نااہل لوگوں کو پارٹی سے باہر بھی نکالا گیا ہے ان میں چوہدری فواد اور ڈاکٹر حسن مجتبیٰ جیسے نااہل افراد شامل ہیں۔ مجھ سے پہلے رئیس غلام رسول جو چیف آرگنائزر تھے وہ اب بھی میرے ساتھ ہیں، اگر ٹوٹ پھوٹ ہوتی تو سب سے پہلے وہ مجھے چھوڑ کر جاتے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: آل پاکستان مسلم لیگ کا منشور کیا ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: ہمارا منشور ہے کہ غریب کو دہلیز پر انصاف پہنچاﺅ، غریب کو مہنگائی سے نجات دلاﺅ اور وہی منشور ہے کہ جس کے حوالے سے آپ نے پرویز مشرف کے دور میں دیکھا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش کی، میڈیا کو آزاد بنایا گیا تا کہ حقائق کو عوام تک پہنچایا جا سکے۔ غربت و بے روزگاری کا خاتمہ ہمارے منشور کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے اس منشور پر پرویز مشرف کے دور میں عمل ہوتا رہا مگر ان کے بعد تمام چیزوں پر عمل درآمد رک چکا ہے لہٰذا ہم دوبارہ بر سر اقتدار آکر ان چیزوں کو دوبارہ بحال کریں گے اور لوگوں کو ریلیف دیں گے تاکہ وہ پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کر سکیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پرویز مشرف انتخابات سے قبل پاکستان آئیں گے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: یقینا آئیں گے اور میں یہ بات دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جیسے ہی نگراں حکومت بنتی ہے اس کے ایک ہفتے کے اندر ہم پرویز مشرف کو پاکستان لے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کو پاکستان آمد پر گرفتار کیے جانے کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: پہلی بات تو کسی میں ہمت ہی نہیں ہے کہ انہیں گرفتار کرے وہ کوئی مجرم نہیں ہیں، ایک دو جھوٹے الزامات کے علاوہ ان پر کوئی چارجز نہیں ہیں اور ان جھوٹے الزامات کا بھی ہم مقابلہ کریں گے اور وہ جلد قوم کے درمیان ہونگے اور رہنمائی و سربراہی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا اے پی ایم ایل کی انتخابات میں کامیابی ممکن ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: انشاء اللہ تعالیٰ، آج ہر ایک کی زبان پر یہ بات عام ہے کہ موجودہ حکومت سے پہلے والی حکومت اچھی تھی، موجودہ حکومت نواز شریف کی ہے، آصف زرداری کی ہے اور پہلے والی حکومت پرویز مشرف کی تو آپ عوامی رائے کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں، عوام چاہتی ہے کہ مشرف حکومت دوبارہ آئے اور انہیں امن و سکون میسر آ سکے۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کے پرانے ساتھی یعنی ق لیگ والے بھی اب ان سے منہ پھیر چکے ہیں، اس صورتحال میں اے پی ایم ایل کا انتخابات میں حصہ لینا وقت کا ضیاع تو نہیں ہوگا؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: سب سے پہلے تو یہ بات واضح کر دوں کہ ق لیگ کو پرویز مشرف نے نہیں بنایا تھا جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ میں ق لیگ اور ان جیسے سیاست دانوں کیلئے ایک مثال دیتا ہوں جیسے مکھی ہوتی ہے، مکھی کا کام ہے دو جگہ میں ایک جگہ بیٹھنا، سب سے پہلے مکھی کو اگر مٹھاس ملی تو وہاں بیٹھے گی اور اگر مٹھاس نہیں ملی تو وہ گند پر بھی بیٹھ جائے گا، تو یہ سیاستدان جو ہیں وہ اس مکھی کی قسم کے ہیں۔ یہ ہر اس شخص کے گرد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس کے اچھے دن آتے ہیں۔ ہمار ے یہاں سندھ میں ایک کہاوت ہے کہ سکھئیے کے سالے سو ہو جاتے ہیں اور بھوکے کا کوئی بہنوئی بھی نہیں بنتا۔ تو یہ ہمارے مفت کے سالے بنے ہوئے تھے۔ دیکھئے وہ نہ کسی کے سالے تھے، نہ سالے ہیں اور نہ کسی کے سالے رہ سکتے ہیں، تو یہ مکھی کی مانند ہیں کہ اس وقت ہمارے پاس مٹھاس تھی تو وہ آ گئے تھے اور ابھی پھر مٹھاس آ جائے گی تو یہ واپس آ جائیں گے لیکن اب اے پی ایم ایل میں ایسے لوگوں کیلئے دروازے بند ہیں۔ اس لئے ان جیسے لوگوں کے جانے سے ہماری انتخابات میں متوقع کامیابی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: متحدہ قومی موومنٹ کو پرویز مشرف کے دور میں بہت زیادہ مراعات اور سپورٹ حاصل تھی، تو وہ بجائے کراچی کے چترال سے کیوں انتخابات لڑ رہے ہیں؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: میں بحیثیت صدر صوبہ سندھ آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ میڈیا میں یہ خبریں آئیں ہیں کہ وہ چترال سے انتخابات لڑ رہے ہیں، انہیں چترال کے لوگ اپنے یہاں سے الیکشن لڑنے کی دعوت دے رہے ہیں، مگر پرویز مشرف کسی ایک حلقے سے الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ وہ بارہ 12 حلقوں سے الیکشن لڑیں گے جس میں ہر صوبے سے دو دو جگہوں سے، اس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی دو دو جگہوں سے وہ الیکشن لڑیں گے تو کل ملا کر بارہ جگہوں سے وہ الیکشن لڑیں گے۔ جیتنے کے بعد ان کی صوابدید پر ہوگا کہ کہاں کی نشست وہ اپنے پاس رکھیں گے۔ آپ نے متحدہ قومی موومنٹ کی بات کی تو مجھے خوشی ہے کہ ایم کیو ایم وہ واحد جماعت ہے کہ جس نے اب تک کھل کر ہماری مخالفت نہیں کی ہے اور اندرون خانہ مخالفت کی بھی ہمارے پاس کوئی ایسی اطلاعات نہیں ہیں کہ وہ ہماری مخالفت میں ہو۔ کیونکہ اگر کہیں بھی کوئی مخالفت پائی جاتی تو اس کا پردہ کہیں نہ کہیں چاک ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم ایسا نہیں کرے گی اور اس کے علاوہ باقی ہمارے جو اتحادی تھے یا ہمارے پالے ہوئے سیاسی جانور تھے میں انہیں سیاسی جانور کہتا ہوں، وہ کھل کر کبھی کبھی ہماری مخالفت بھی کرتے ہیں مگر ایم کیو ایم نے آج تک ہماری کوئی مخالفت نہیں کی ہے۔

اسلام ٹائمز: گیارہ سال برسر اقتدار رہنے کہ بعد اگر دوبارہ موقع ملا تو کیا تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں گے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: انشاء اللہ ہم ایسے اقدامات کا احیاء کریں گے کہ جو ماضی میں بھی پرویز مشرف کے دور میں ہوئے کہ جن سے عوام کو ریلیف حاصل ہوا، اگر اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ موقع دیتے ہیں اور پاکستانی عوام ہم پر دوبارہ اعتماد کرتی ہے تو انشاء اللہ ہم تین مہینوں کے اندر جو قیمتیں آج آسمان سے باتیں کر رہی ہیں انہیں 2007ء کی قیمتوں پر واپس لے جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ آپ اگلا سوال یہ کریں کہ کس طرح یہ ممکن ہو گا تو میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہم پاکستانی عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو بدعنوانوں سے واپس لیں گے، ایسی ٹیبلٹ دیں گے کہ یہ الٹی کریں گے اور ساری دولت واپس کریں گے۔ موجودہ حکومت کے پانچ سالوں میں جو کرپشن ہوئی ہے ہر ادارے میں، یہ پیسے کھانا ہم بند کروائیں گے، کرپشن کا خاتمہ کریں گے، وصولیوں سے ہم عوام کو سبسڈی دیں گے، اور قیمتوں کو واپس اسی جگہ لے جائیں گے جہاں 2007ء میں تھیں۔

اسلام ٹائمز: اتنا بڑا دعویٰ کر رہے ہیں آپ، اس حوالے سے ہونے والی مزاحمت کا سامنا کیسے کریں گے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: پرویز مشرف وہ شخص ہے جو حضرت علی شیر خدا اور حضرت عمر فاروق والا نظام لائے گا، چاہے اپنے بیٹے کو بھی کوڑے مارنے پڑے یہ مارے گا، کرپشن کی زد میں اگر پرویز مشرف کا بیٹا بھی آ گیا تو اسے بھی معاف نہیں کیا جائے گا اور احتساب کیا جائے گا، ہم کسی کو بھی معاف نہیں کریں گے، ہر ایک کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، میرا بیٹا بھی اس کرپشن کی زد میں آیا تو اسے بھی نہیں بخشا جائے گا۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں ایسا ہی کیا تھا، کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں تھا، ان میں ایم کیو ایم کے لوگ بھی پکڑے گئے تھے، ق لیگ کے لوگ بھی پکڑے گئے تھے، تو جہاں جس پر بھی کرپشن کا الزام آیا پرویز مشرف نے ایکشن لیا، اسٹیل مل کی مثال آپ کے سامنے ہے، اس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن بھی لیا، چیئرمین پر آج بھی مقدمات بنے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی کو کرپشن کے الزامات لگا کر بلا وجہ تنگ بھی نہیں کیا جائے گا چاہے وہ ہمارا سیاسی مخالف ہی کیوں نہ ہو۔

اسلام ٹائمز: آپ کو صوبائی ذمہ داریاں ملی ہیں، آپ کس حد تک ان کو نبھانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: الحمد اللہ، مجھ سے پہلے بھی چار چیف آرگنائزرز یہاں رہ چکے ہیں اور انہوں نے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جتنی ان سے ہو سکتی تھی انہوں نے محنت کی اور جب سے میں نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے تو میں نے سندھ میں یونین کونسل کی سطح تک اس کی تنظیم سازی کی ہے، 23 اضلاع، ایک سو چھبیس تحصیلوں میں تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہو چکا ہے، تقریباََ سارے ونگز ہم بنا چکے ہیں مثلاََ لیبر ونگ، یوتھ ونگ، لیڈیز ونگ، منارٹی ونگ، لائرز ونگ، بزنس کمیونٹی ونگ وغیرہ وغیرہ۔ تقریباََ 16 کے قریب دفاتر سندھ میں قائم کئے ہیں۔ تو میں نے تنظیم سازی کی پوری کوشش کی ہے اور اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔

اسلام ٹائمز: لال مسجد کا واقعہ، اکبر بگٹی قتل سمیت بہت سے کیسز پرویز مشرف کے کھاتے میں ہیں، کیا ان کی پاکستان واپسی ایک دانشمندانہ فیصلہ ہوگا؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: ارے بھائی میرے یہ سب کہانیاں ہیں، میں آپ کے اسلام ٹائمز کے توسط سے تمام پڑھنے والوں خصوصاََ پاکستانی قوم سے سوال کرتا ہوں، عدلیہ سے وکلاء سے سوال کرتا ہوں، نواز شریف اور زرداری سے سوال کرتا ہوں، ان لواحقین سے سوال کرتا ہوں کہ اگر لال مسجد میں پاکستان کی کوئی بیٹی یا بیٹا مرا ہے، آج تو پرویز مشرف اقتدار میں نہیں ہے، سپریم کورٹ کیوں سوموٹو ایکشن نہیں لیتی ہے؟ 22A میں جا کر وہ لواحقین ہمارے خلاف کیوں نہیں لڑتے ہیں، کوئی بے جرم و خطا نہیں مرا، سب جھوٹ ہے، آج تو گڑھے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں، پرویز مشرف کے تو یہ سب دشمن بیٹھے ہوئے ہیں، کیوں نہیں ہمارے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کراتے؟ لال مسجد میں 93 آدمی وہ مرے ہیں جو سب اشتہاری تھے، دہشت گرد تھے، جرائم و دہشت گردی میں مطلوب تھے، پاکستانی سرزمین کو ناپاک مقاصد کیلئے استعمال کر رہے تھے وہ مرے ہیں، انہیں وہاں مارا گیا ہے، ایسے تو مرنے ہی چاہئیں، ایسے اور بھی آئے تو ہم ماریں گے مگر ہم اپنی قوم کے معصوم لوگوں کو نہیں مارنے دیں گے ان دہشت گردوں کو، نہ امریکا کو نہ کسی اور کو۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را، اسرائیلی موساد یا دوسرے غیر ملکی دشمن یہاں آئیں اور پاکستانیوں کو ماریں، تو پرویز مشرف اور ہماری پارٹی ان کو ان کے ایجنٹوں کو پھر مارے گی۔ تو یہ لال مسجد کا الزام ہے۔ جہاں تک بات ہے اکبر بگٹی کی، تو بگٹی کا قتل ایسے ہے جیسے سلمان تاثیر کا قتل ہوا ہے زرداری کے زمانے میں۔ اگر پرویز مشرف کے زمانے میں کوئی مرتا ہے تو اس کی ایف آئی آر پرویز مشرف کے خلاف کاٹی جاتی ہے تو اس اصول کے مطابق سلمان تاثیر کے قتل کی ایف آئی آر زرداری کےخلاف بھی کاٹ دو۔ ایسا نہیں ہے، بگٹی صاحب کو پرویز مشرف نے جو سہولتیں دیں وہ ریکارڈ پر موجود ہیں، بلوچستان کو جو ترقی دی وہ ریکارڈ پر ہیں، جو ترقی بلوچستان میں پرویز مشرف کے دور میں ہوئی ہے وہ پاکستانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی ہے، پرویز مشرف بگٹی کا قاتل نہیں بلکہ بگٹی خود غاروں چھپ گیا، اس نے ایف سی پر حملہ کیا تو ایف سی نے اس کو مارا ہے، تو یہ لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے والی فورسز کا کام تھا، پرویز مشرف کوئی وہاں کے تھانیدار یا ایس پی تو نہیں لگے ہوئے تھے، وہ صدر پاکستان تھے، صدر کو تو ایسی کارروائیوں کا پتہ بھی نہیں ہوتا جب وہ ہوتی ہیں۔ دیکھیں جس کسی جرائم میں مطلوب شخص کو پکڑنے جایا جاتا ہے تو وہاں انکاونٹر تو ہو جا تے ہیں، اس وقت حالات کے پیش نظر فوری فیصلے کر دیے جاتے ہیں، اس سے ملک کے سربراہ کا کیا تعلق ہے، وہاں تو فوری فیصلے لینے ہوتے ہیں، اب کیا وہاں صدر پاکستان سے رابطہ کر کے مجرمین کو مہلت دی جائے کہ وہ فورسز پر مزید حملہ کر کے انہیں شہید کرے اور فرار ہو جائے۔ تو یہ جھوٹا الزام ہے کہ بگٹی کو پرویز مشرف نے قتل کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کئی بار پاکستان آنے کا کہہ کر نہیں آئے، کیا اس بار بھی ایسا ہی ہوگا؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: کئی بار نہیں بلکہ صرف ایک بار 8 جنوری 2012ء کو کہا تھا کہ 28 فروری کو پاکستان آﺅں گا، کیونکہ اس وقت منعقد ہونے والے کئی جلسہ عام میں ہزاروں لاکھوں افراد کی شرکت دیکھ کر پرویز مشرف صاحب نے فیصلہ کیا تھا پاکستان آنے کا، ہم حیران ہوگئے ہم نے انہیں منع کیا کہ ابھی ہماری پارٹی کا ہوم ورک مکمل نہیں ہوا ہے اس لئے آپ نہیں آئیں، ہم آپ کو ابھی آنے کی اجازت نہیں دے سکتے، اگر نااہل حکومت نے آپ کی بلاجواز گرفتاری کی کوشش کی تو تحریک چلانی ہوگی، اس کے لئے کام باقی ہیں ابھی۔ تو اس کی وجہ کوئی خوف نہیں بلکہ ہمارے ہوم ورک کا مکمل نہیں ہونا ہے۔ تنظیمی کام ابھی باقی ہیں، سرحد اور پنجاب کے دوست کام کر رہے ہیں، تنظیم سازی کے حوالے سے کچھ کام باقی ہیں، اس لئے ہم نے انہیں منع کیا۔ ویسے بھی وہ لندن چھوڑ چکے ہیں اور دبئی میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے جہاں سے پاکستان آنا گھنٹے کی بات ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو آگاہ کیا ہے کہ جیسے ہی نگراں حکومت آتی ہے ہم انہیں اگلے ہفتے ہی پاکستان لے آئیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں پاکستان واپسی سے نہیں روک سکتی۔

اسلام ٹائمز: جس طرح ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو انکی پارٹی پاکستان آنے سے روکتی ہے کیا اسی طرح پرویز مشرف کو بھی پارٹی نے آنے سے منع کیا ہوا ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: بالکل ہم نے انہیں منع کیا ہے، مگر الطاف حسین اور پرویز مشرف کا کیس مختلف ہے، الطاف حسین کو مختلف مسائل اور دھمکیوں کا سامنا ہے مگر پرویز مشرف کو کسی دھمکی کا سامنا نہیں بلکہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام ان کے ساتھ ہے، پرویز مشرف کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان میں پزیرائی حاصل ہے جبکہ الطاف حسین کے ساتھ صرف کراچی حیدرآباد کے لوگ ہیں، تو الطاف حسین اور پرویز مشرف کا موازنہ کرنا نا انصافی ہے۔

اسلام ٹائمز: آنے والے انتخابات میں کس جماعت سے انتخابی اتحاد ممکن ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: ہم ہر اس جماعت، ہر اس شخص سے اتحاد کریں گے جس کا نعرہ ہمارے نعرے سے ملتا ہوگا یعنی پاکستان۔ ہماری منشوری سوچ سے ملتا ہوگا یعنی غربت، مہنگائی، بیروزگاری جیسے مسائل کا خاتمہ، کرپشن و اقربا پروری کا خاتمہ، ملکی اقتصادیات و معیشت کی بہتری، ان سے جو ہم آہنگ ہو گا ہمارا ان سے اتحاد ہو سکتا ہے۔ چاہے وہ نواز شریف ہو یا آصف زرداری، جو بھی اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ مخلص ہوگا ہم اس کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ق کے حوالے سے آپکی پارٹی کا مؤقف کیا ہے؟ آیا ان سے اتحاد ہو سکتا ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: ق لیگ سے اتحاد کے بارے میں تو سوچنا پڑے گا کیونکہ یہ بے وفا لوگ ہیں اور ایم کیو ایم سے اتحاد کو رد نہیں کیا جا سکتا بالکل ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء کے حوالے سے آپ کی جماعت کا کیا مؤقف ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: یہ نظام تو ہمارا بنایا ہوا ہے، اس نظام کو تو ہم سپورٹ کر رہے ہیں، لیکن اس کے طریقے کار پر ہم بھی سندھ کے عوام کے ساتھ ہیں۔ ہم جب اس نظام کو لائے تھے تو یکساں طور پر پورے پاکستان کیلئے لائے تھے۔ اسی لئے پیپلز پارٹی کو چاہئیے کے اس نظام کو پورے سندھ کیلئے یکساں لے کر آئے۔ اس حوالے سے ہماری سوچ پی پی کی سوچ سے مختلف ہے۔ لیکن ہمیں خوشی ہے کہ کل پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس نظام کی مخالفت کرتے تھے، ایم کیو ایم نے 2002ء میں مخالفت کی تھی، پیپلز پارٹی نے 2002ء سے 2008ء تک اس کی مخالفت کی تھی، ہمیں خوشی اور فخر ہے کہ ایم کیو ایم بھی آج ہمارے نظام کیلئے آواز اٹھا رہی ہے اور پیپلز پارٹی کے دوست بھی ہمارے نظام کیلئے کاوشیں کر رہے ہیں۔ خوش آیند بات ہے کہ سب لوگوں نے ہمارے نظام کو سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آل پاکستان مسلم لیگ پورے ملک سے امیدوار کھڑے کرے گی یا کچھ مخصوص جگہوں سے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: انشاء اللہ ہم پورے پاکستان سے اپنے امیدوار کھڑے کریں گے اور بھاری اکثریت سے جیتیں گے، اگر کہیں کسی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ جگہوں پر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں ورنہ پورے پاکستان سے امیدوار کھڑے کئے جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آج بہت سی شخصیات کہتی نظر آتی ہیں کہ پاک فوج دہشت گرد پکڑتی ہے اور عدلیہ سے وہ چھوٹ جاتے ہیں کسی بھی وجہ سے، کیا پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: دیکیئے ہم تو ناممکن ہیں کہ دہشت گردوں کو رہا کریں، ہاں البتہ پیپلز پارٹی کے دور میں ایسا ہو رہا ہے، پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو بھی بھگایا گیا ہے، پرویز مشرف کے دور میں پیرول پر رہائی دی گئی کچھ لوگوں کو مگر قانون کے مطابق، مگر دہشت گردوں کو نہ تو پہلے رہا کیا گیا نہ اب کریں گے، بلکہ تمام دہشت گردوں کو سزائیں دی جائیں گی اور کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اب آج کے دور میں جو دہشت گرد رہا کئے جا رہے ہیں یہ پیپلز پارٹی اور موجودہ عدلیہ کا مسئلہ ہے کہ کیوں دہشت گرد چھوڑے جا رہے ہیں، پراسیکیوشن کیوں اچھی نہیں ہو رہی ہے، یہ پراسیکیوشن کا کام ہے کہ عدلیہ کو ثبوت کے ساتھ دے اور پھر عدلیہ کا کام ہے کہ ان کو سزائیں دے اور ان پر عملدرآمد کروائے۔ پرویز مشرف کے دور میں ہر دہشت گرد کے خلاف قانونی ضابطے کو سامنے رکھتے ہوئے کارروائی کی گئی، لال مسجد کے واقعہ کی مثال آپ کے سامنے ہے وہاں بھی جو بے قصور لوگ تھے انہیں باہر آنے کو کہا، لوگ باہر آئے، ان میں غازی کا بھائی بھی باہر آ گیا تھا اور جو دہشت گرد تھے وہ باہر نہیں آئے، خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا تو ان کے خلاف کارروائی کی گئی اور آئندہ بھی کی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف دور میں شیعہ اکثریتی علاقے پاراچنار کا محاصرہ کیا گیا دہشت گردوں کی جانب سے مگر انہوں نے اس کے خاتمہ کیلئے کچھ نہیں کیا، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: دیکھیں یہ پارا چنار، وزیرستان وغیرہ کے مسائل ضیاء الحق اور بھٹو کے دور سے چل رہے ہیں، پہلے قبائلی مسائل تھے اور فرقہ وارانہ ہوگئے ہیں۔ بلوچستان میں پہلا آپریشن کس نے کیا، بھٹو نے کیا، پارا چنار، وزیرستان میں آپریشن اور دہشت گردوں کی سرگرمیاں ضیاء الحق کے دور میں ہوئیں، نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار میں ہوئے، یہ ان سب کے ادوار سے ہو رہا ہے۔ جو دہشت گرد راہ راست پر آئے جیسے صوفی محمد انہیں قانون کے مطابق اصلاح کا موقع دیا گیا، انہیں چھوڑ دیا گیا مگر جو دہشت گردی میں ملوث رہے انہیں نہیں چھوڑا گیا، چاہے امریکا کہے یا عدلیہ کہے یا کوئی اور کہے۔ تو یہ کہنے کی بات ہے کہ مشرف دور میں پارا چنار اور وزیرستان جیسے مسائل شروع ہوئے۔ تاریخ اٹھائیں بلوچستان کا مسئلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تھا ان کے دور میں بلوچ پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔ مشرف پر اس قسم کے بے بنیاد الزامات سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری شدید ترین توانائی بحران کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کو امریکی ایماء پر مکمل نہیں کیا جا رہا ہے، کیا پرویز مشرف آکر اس منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچائیں گے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: جی بالکل، ہم حکومت میں آ کر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ سمیت ہر اس منصوبہ کو کسی بھی قسم کے پریشر میں آئے بغیر مکمل کریں گے جس میں پاکستان کی بہتری ہو گی، پاکستانی عوام کا فائدہ ہو گا۔ پاکستان کیلئے سستی چیز کہیں سے بھی ملے گی ہم لیں گے، سوائے اسرائیل کے۔ اسرائیل سے ہمیں مفت میں بھی کچھ ملے تو ہم نہیں لیں گے۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی کونے سے پاکستان اور پاکستانی عوام کی بہتری کیلئے کوئی بھی چیز ہم لینے کو تیار ہیں چاہے کہیں سے بھی ملے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر امریکی دباﺅ کو پرویز مشرف مسترد کر دیں گے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: دیکھیں امریکا نے پرویز مشرف کو بھی پتھروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی مگر کیا ہوا، آج امریکا خود پتھروں کر دور میں پہنچنے والا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں اٹھ رہیں ہیں، زور پکڑتی جا رہی ہیں، ریاستوں نے علیحدگی کی درخواستیں دے دیں ہیں۔ تو پرویز مشرف کو، ہماری جماعت کو کسی کی دھمکی کی پرواہ نہیں۔ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے، ہم آزاد ریاست میں رہ رہے ہیں اور اس کے مفادات کیلئے سرگرم عمل رہیں گے۔ پاکستان کے مفاد میں، اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام کے مفاد میں جو بہتر ہوگا ہم کریں گے اور امریکا یا کسی کے دباﺅ کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آخری سوال ہے کہ مشرف دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی گئی، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
سردار غلام مصطفیٰ خاصخیلی: یہ جھوٹ ہے کہ پرویز مشرف نے کبھی اسرائیل کو تسلیم کیا یا کرنے کی کوشش کی گئی مشرف دور میں اور نہ مستقبل میں ایسا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 220883
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش